وطن کا سپاہی

Post Reply
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »



عمران نے ایک پیار بھری کس ٹینا کے لبوں پر کی اور دوبارہ سے اسکو اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر عمران بولا وہ سب تو ٹھیک ہے مگر رات کچھ کام ادھورا رہ گیا تھا۔ ٹینا عمران کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی تم جب چاہو اسکو پورا کیا جا سکتا ہے۔ عمران بولا وہ تو میں نے پورا کر لیا رات ہی۔۔۔۔ ٹینا ایک دم اٹھی اور عمران کو دیکھتی ہوئی بولی کیا مطلب؟ عمران نے کہا رات خواب میں تم اور میں گوا کے ساحل پر تھے اور وہیں ہم دونوں نے خوب مزے کیے۔ گوا کا نام سن کر ٹینا بولی وہ تو بہت رومینٹک جگہ ہے۔۔ مجھے بہت پسند ہے، میں نے اجے کو کہا کہ ہمیں وہاں جانا چاہیے مگر وہ مانا ہی نہیں۔ اس پر عمران نے کہا دیکھو میرے پاس پیسے تو نہیں ہیں ، مگر تم چاہو تو ہم دونوں وہاں چل سکتے ہیں ۔ ٹینا نے خوش ہوتے ہوئے عمران کی طرف دیکھا اور کہا ہاں ہم ضرور جائیں گے۔ عمران نے کہا آج ہی چلیں؟ جب تک تمہارے پاپا نہیں آجاتے ہم گوا ہو آتے ہیں۔ ویسے بھی تمہارے پاپا نے تمہیں یونیورسٹی جانے سے منع کر دیا ہے تو جب تک وہ جامنگر میں ہیں ہم یہاں کیا کریں گے۔ گوا چلتے ہیں آوٹنگ بھی ہوجائے گی اور ہو سکتا ہے وہ غنڈے دوبارہ سے تمہیں اغوا کرنے کی کوشش کریں تو اس سے بھی تم محفوظ رہو گی، کسی کو علم بھی نہیں ہوگا کہ ہم گوا میں ہیں ۔

عمران کی بات سن کر ٹینا بولی، آئیڈیا تو اچھا ہے مگر پاپا نہیں مانیں گے۔ عمران نے کہا انکو منانا تمہارا کام۔ لیکن یقین مانو اگر ہم دونوں وہاں جائیں گے تو تمہاری زندگی کا یادگار وزٹ ہوگا یہ گوا کا۔ ٹینا کی آنکھوں سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ گوا جانے کے لیے بے چین ہے۔ اس نے عمران کو کہا کہ وہ ابھی پاپا سے بات کرتی ہے اور ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کہ کر ٹینا نے کرنل وشال کے نمبر پر فون کیا جو ساری رات میجر دانش کو ڈھونڈنے کے لیے جامنگر میں مارا مارا پھرتا رہا تھا اور اب کچھ دیر پہلے ہی اسکی آنکھ لگی تھی مگر میجر دانش جامنگر میں ہوتا تو ملتا وہ تو عمران بن کر کرنل کی بیٹی کے سینے سے لگ کر خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ کرنل نے فون اٹینڈ کیا تو ٹینا نے پہلے تو اپنے پاپا کی خیریت دریافت کی اور پاکیشا کے ایجنٹ کے بارے میں پوچھا جس پر کرنل نے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے اور جلد ہی اس ایجنٹ کو پکڑ لے گا۔ پھر ٹینا نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ گھر میں قید نہیں رہ سکتی، جب تک آپ واپس نہیں آجاتے تب تک میں گوا جانا چاہتی ہوں۔ کچھ دن وہاں آوٹنگ کروں گی تو رات والا واقعہ بھی ذہن سے نکل جائے گا اور اگر وہ غنڈے دوبارہ مجھے اغوا کرنے کا پلان بناتے ہیں تو میں تو ممبئی میں ہونگی نہیں تو اسطرح ان سے بھی حفاظت رہے گی۔ کرنل وشال نے فوری طور پر ٹِنا کو منع کر دیا اور سختی سے کہا کہ وہ ہرگز ہرگز کہیں نہیں جا رہی گھر پر ہی رہے گی۔ اس پر ٹِنا نے ضدی بچے کی طرح کہا کہ ٹھیک ہے اگر میں کہیں نہیں جاوں گی تو پھر آپ فورا گھر آجائیں میں آپکے بغیر بو رہی ہوں۔ کرنل وشال نے کہا بیٹا اجے کو بلا لو وہ تمہارے ساتھ رہے گا ، اجے کا نام سن کر ٹینا نے غصے سے کہا پاپا آپ آئندہ اجے کا نام مت لیجیے گا میرے سامنے۔ اب وہ میری زندگی میں نہیں آئے گا دوبارہ۔

اسکی بات سن کر کرنل نے کہا اچھا تو بیٹا اپنی یونیورسٹی کی دوستوں کو بلا لو، مگر ٹینا نے کہا میں اپنے مطلب کے لیے انکی پڑھائی کا کیوں حرج کروں۔ یا تو آپ واپس آجائیں یا پھر مجھے گوا جانے کی اجازت دیں۔ کرنل وشال نے کہا بیٹا میں ایسے کیسے واپس آسکتا ہوں؟ جب تک پاکیشا کا وہ ایجنٹ نہیں مل جاتا میں واپس نہیں آجاتا اور اس نے مختلف کاروائیاں بھی شروع کر رکھی ہیں ۔ مگر ٹینا نے پھر بچوں کی طرح ضد کی اور کہا میں کچھ نہیں جانتی، یا آپ واپس آرہے ہیں یا میں گوا جا رہی ہوں۔ ٹینا کرنل کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اپنی بات منوانا جانتی تھی۔ کرنل نے اس بار ہار مانتے ہوئے کہا مگر بیٹا مجھے تمہاری فکر رہے گی گھر میں تم محفوظ ہو۔ ٹِنا نے کہا پاپا میں وہاں بھی محفوظ رہوں گی اور ویسے بھی رات جس شخص نے مجھے بچایا ہے وہ میرے ساتھ ہی ہوگا۔ آپ فکر نہ کریں۔ اور کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ میں گوا میں ہوں۔ آپ اپنی آرمی کو ہمارے گھر پر ہی لگائے رکھیں وہ غنڈے سمجھیں گے کہ میں گھر پر ہی ہوں، اور میں چپکے سے گوا نکل جاوں گی۔

باالآخر کرنل کو بیٹی کے سامنے ہار ماننی پڑی اور اس نے ٹینا کو گوا جانے کی اجازت دے دی مگر اس شرط پر کہ کیپٹن مکیش بھی تم لوگوں کے ساتھ جائے گا۔ ٹینا بولی پاپا میں نے انجوائے کرنے جانا ہے گوا اس کھڑوس کے ساتھ بور ہونے نہیں جانا۔ آپ نے اسکو بھیجنا ہے تو بھیجیں مگر وہ مجھ سے دور ہی رہے۔ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ۔ اس پر کرنل نے کہا اچھا بیٹا ٹھیک ہے وہ تمہیں تنگ نہیں کرے گا مگر تم سے کچھ فاصلے پر وہ تمہارے ساتھ ساتھ جائے گا۔ ٹینا نے اوکے کہا اور فون بند کر دیا۔ فون بند کرتے ہی اس نے عمران کو یہ خوشخبری سنائی کہ پاپا نے اجازت دے دی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی عمران نے ٹینا سے کہا چلو پھر چلنے کی تیاری کریں۔ ٹینا نے کہا تیاری کیا کرنی، میں بس کپڑے چینج کر کے آتی ہوں، کچھ کپڑے ہینڈ بیگ میں رکھ کر چلتے ہیں۔

عمران نے کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر میں اس کٹی ہوئی پینٹ کے ساتھ تو گوا نہیں جا سکتا، مجھے بھی آخر کچھ کپڑے چاہیے۔ یہ بات سن کر ٹینا نے کہا ہاں ٹھیک ہے ہم دونوں ملکر مارکیٹ چلتے ہیں وہاں سے تم اپنے لیے شاپنگ کر لینا۔ عمران نے کہا نہیں ہم دونوں نہیں صرف میں جاوں گا۔ تم ابھی گھر پر ہی رہو۔ ہمارے گرد چاہے جتنی بھی سیکورٹی ہو ہم اس طرح مارکیٹ میں میں نہیں گھوم سکتے وہ غنڈے ہو سکتا ہے تمہاری کھوج میں ہوں۔ مجھے بس ایک گاڑی دے دو میں اس پر جاوں گا اور اپنی شاپنگ کر کے واپس آجاوں گا۔ ٹینا نے فوری اپنی گاڑی کی چابی دی مگر عمران نے انکار کر دیا اور کہا کیوں مروانا چاہتی ہو مجھے۔ کوئی اور گاڑی دو جو تمہاری نہ ہو۔ اس گاڑی کو دیکھ کر تو غنڈے میرے پر پھر سے حملہ کر دیں گے۔ پھر ٹینا نے کہا چلو گیراج میں ایک اور پرانی سی گاڑی کھڑی ہے تم وہ لے جاو لیکن پلیز جلدی آنا میں تمہارا انتظار کروں گی۔ عمران نے جلدی آنے کا وعدہ کیا اور پرانی گاڑی لیکر ٹینا کے گھر سے نکل گیا۔

آدھی رات کو سونے کے بعد دوپہر کے 4 بجے ہی امجد کی آنکھ کھلی جو ابھی جامنگر کے ڈانس کلب میں موجود ایک کمرے میں سکون سے سو رہا تھا۔ اسکا حلیہ اب کل کی نسبت تبدیل تھا اور وہ سردار کی بجائے اپنے اصل حلیے میں موجود تھا۔ بستر سے اٹھ کر امجد نے پہلے اپنے ساتھ موجود کاشف کو بھی نیند سے اٹھایا اور فریش ہونے کے بعد امجد نے کلب کے ایک ملازم کو کھانا لانے کا کہا تو کچھ ہی دیر میں وہ امجد اور کاشف کے لیے گرما گرم کھانا لے آیا۔ یہ ملازم بھی امجد کو جانتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد امجد نے سوچا کہ اب اسے یہاں سے نکلنا چاہیے اور کوئی اور کاروائی کرنی چاہیے جس سے کرنل وشال کو مزید پریشانی کا سامنا کرنا پرے اور ممبئی میں میجر دانش با آسانی اپنا کام کرسکے۔ یہی سوچ کر امجد باہر نکلا اور ریسیپشن پر موجود شخص سے ملا۔ رات کی ڈیوٹی والا شخص جا چکا تھا اور اب دوسرا شخص ریسیپشن پر موجود تھا جسکو کیپٹن مکیش جاتے ہوئے کہ کر گیا تھا کہ جیسے ہی وہ ڈانسر کلب میں واپس آئے تو وہ فوری اطلاع دے۔

ریشیپشن پر موجود اس شخص نے امجد کو فوری پہچان لیا کیونکہ امجد پہلے بھی تانیہ کے ساتھ اس ڈانس کلب میں کافی بار آچکا تھا اور یہاں کے تقریبا سبھی لوگ امجد کو اور تانیا کو جانتے تھے۔ امجد پر نظر پڑتے ہی وہ شخص چوکنا ہوگیا اور جب امجد نے اس شخص سے پوچھا کہ رات کی رہائش اور کھانے کے کتنے پیسے بن گئے تو اس شخص نے بڑی خوش اخلاقی سے امجد کو ڈیل کیا اور اسکو تفصیلات بتا کر کچھ دیر رکنے کو کہا تاکہ وہ اس سے کچھ گپیں لگا سکے۔ یوں تو امجد فوری نکلنا چاہتا تھا مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر اتنی خوش اخلاقی سے کوئی روک رہا ہے کچھ دیر کے لیے تو اسکو انکار کرنا بھی ٹھیک نہیں۔ امجد واپس اپنے کمرے میں چلا گیا جبکہ اس شخص نے کہا کہ میں 2 منٹ میں آتا ہوں پھر تھوڑی گپ شپ لگاتے ہیں۔

امجد کے کمرے میں جاتے ہی اس شخص نے کیپٹن مکیش کا نمبر نکالا اور اسے فون ملانے لگا۔ 2 بار بیل بجنے کے بعد کیپٹن مکیش نے فون اٹینڈ کر لیا۔ اس شخص نے کیپٹن کو فوری اپنا تعارف کروایا اور ڈانس کلب کا نام بتایا۔ ڈانس کلب کا نام سنتے ہی کیپٹن کی کان کھڑے ہوگئے اس نے فوری پوچھا کیا ہوا مجھے کیوں کال کی؟ کیپٹن کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے خیال آیا کہ شاید وہ ڈانسر تانیہ دوبارہ اس ڈانس کلب میں آئی ہوگی، مگر پھر فوری یہ خیال بھی آیا کہ وہ تو میجر دانش کے ساتھ ممبئی آچکی ہے تو وہ وہاں کیسے ہو سکتی ہے؟ اس چیز نے کیپٹن کو کنفیوژ کر دیا تھا، اور اس نے جھنجلا کر پوچھا کہ مجھے کیوں کال کی ہے؟ اس شخص نے بتایا کہ صاحب اس وقت میرے ڈانس کلب میں ایک شخص موجود ہے ۔ آپ نے جس لڑکی کے بارے میں مجھ سے پوچھا تھا یہ اسکا ساتھی ہے۔ یہ کبھی کبھار اس لڑکی کے ساتھ ہی ڈانس کلب میں آتا ہے۔ یہ سن کر کیپٹن کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ اس نے فوری پوچھا اسکے ساتھ کوئی لڑکی بھی ہے یا وہ اکیلا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا صاحب اسکے ساتھ لڑکی تو کوئی نہیں مگر ایک اور شخص بھی اسکے ساتھ ہے۔ اسکو میں نے نہیں دیکھا، مگر جس کے بارے میں آپکو بتا رہا ہوں اسکا نام امجد ہے اور وہ اکثر یہاں آتا رہتا ہے۔ یہ سن کر کیپٹن مکیش نے اس شخص کو کچھ ضروری ہدایات دیں اور فون بند کر دیا۔

فون بند کر کے ریسیپشن پر موجود شخص امجد کے کمرے میں چلا گیا اور اسکے ساتھ گپیں لگانے لگا، جبکہ کیپٹن مکیش نے فوری کرنل وشال کو کال کی اور اسے بتایا کہ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ میجر دانش کے کچھ ساتھی جامنگر کے ایک مشہور ڈانس کلب میں موجود ہیں۔ کرنل وشال نے ڈانس کلب کا ایڈریس پوچھا اور ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تو کیپٹن مکیش نے بیچ میں تانیہ کا ذکر نہیں کیا بس اتنا ہی بتایا کہ اسکی معلومات کے مطابق ان لوگوں نے میجر دانش کو قید خانے سے نکلنے میں مدد دی ہے کرنل وشال جو میجر دانش کو تلاش کر کرکے اب امید ہار بیٹھا تھا کہ اب کہ وہ نہیں ملتا اسکو دوبارہ سے ایک امید نظر آئی اور اسنے فوری اپنی فورس کے ساتھ آرمی ہیڈ کوارٹر چھوڑا اور کیپٹن مکیش کے بتائے ہوئے ڈانس کلب کی طرف روانہ ہوگیا۔

ڈانس کلب میں امجد اور کاشف اس شخص کے ساتھ گپیں لگانے میں مصروف تھے، بیچ میں تانیہ کا ذکر آیا تو اس شخص نے تانیہ کی تعریفیں کیں کہ وہ بہت اچھی ڈانسر ہے جس دن وہ ہمارے ڈانس کلب میں ڈانس کرنے آتی ہے تو ہماری تو چاندی ہوجاتی ہے۔ امجد جلد سے جلد اس شخص سے جان چھڑوا کر وہاں سے نکلنا چاہتا تھا مگر یہ شخص تو امجد کو چپک ہی گیا تھا اور جان چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ گو کہ دونوں ایکدوسرے کو سرسری طور پر جانتے تھے، مگر وہ شخص تو امجد سے اس طرح فری ہو رہا تھا جیسے دونوں لنگوٹیا دوست ہوں۔ آخر کا امجد نے اس شخص سے زبردستی جان چھڑوانے کا فیصلہ کیا اور کاشف کو اپنا بیگ اٹھانے کو کہا جس میں چند کپڑے تھے اور جیب سے پیسے نکال کر اس شخص کو بل ادا کرتے ہوئے بولا کہ ہمیں کافی دیر ہوگئی ہے پہلے ہی پھر دوبارہ آئیں گے تو آپ سے گپ شپ ہوگی مگر اس وقت ہم ذرا جلدی میں ہیں۔ یہ کہ کر امجد نے اس شخص سے ہاتھ ملایا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا۔


دروازہ کھولتے ہی امجد کو راہداری میں بوٹوں کی آواز سنائی دی جیسے کوئی تیزی کے ساتھ راہداری کی طرف آرہا ہو، 5، 6 قدموں کے بعد آواز رک گئی اور پھر سے بوٹوں کی آوزیں آنے لگیں۔ امجد نے کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اس نے فوری دروازہ بند کیا اور کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے گن نکالنے کا اشارہ کیا۔ کاشف نے بھی محض اشارے سے بتایا کہ اسکے پاس گن نہیں ، یہاں امجد کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، کل پولیس تھانے پر حملہ کرنے کے بعد امجد نے گاڑی تبدیل کرتے ہوئے وہاں سے کوئی گن اپنے ساتھ نہیں رکھی تھی۔ اور اب امجد نے جب بوٹوں کی آواز سنی تو وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ آرمی کے ٹرینڈ جوان ہیں جنہوں نے ڈانس کلب پر چھاپہ مارا ہے ، کاشف کی آنکھوں میں بھی خوف تھا وہ بھی خطرے کو بھانپ گیا تھا۔

ابھی امجد اور کاشف سوچ ہی رہے تھے کہ دونوں کیا کریں، ایک دم کمرے کے دروازے پر باہر سے کسی نے زور دار لات ماری اور دروازہ ایک دھماکے سے کھلتا چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ امجد سنبھلتا یا اپنے بچاو کی کوئی تدبیر کرتا باہر سے آنے والے آرمی کے کمانڈوز نے امجد کو گردن سے پکڑ کر اسکے گھٹنے پر ایک زور دار بٹ مارا جس سے وہ گھٹنوں کے بل نیچے جھکنے پر مجبور ہوگیا جبکہ کاشف جو سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرح مزاحمت کی جائے، سامنے کھڑے 5 کمانڈوز کے ہاتھ میں جدید قسم کی رائفلز جن کا رخ کاشف اور امجد کی طرف ہی تھا دیکھ کر اسکے اوسان بھی خطا ہوگئے اور وہ بھی کچھ نہیں کر پایا۔ آن کی آن میں امجد اور کاشف گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے تھے اور انکے چہرے کالے کپڑے سے ڈھانپ دیے گئے تھے جبکہ انکے ہاتھ پیچھے کمر پر باندھے ہوئے تھے۔ ریسیپشن پر موجود شخص جو کمرے میں ہی موجود تھا اسکو بھی ایک کمانڈو نے گھٹنوں کے بل نیچے بٹھا لیا تھا مگر اس سے پہلے کہ اسکے چہرے پو کپڑا ڈالا جاتا کمرے میں ایک گرجدار آواز سنائی دی جو پوچھ رہا تھا ہوٹل کا مینیجر کون ہے؟ یہ آواز کرنل وشال کی تھی جس سے امجد اچھی طرح واقف تھا۔ کاشمیریا میں ہونے والے مظالم میں کرنل وشال کا ہاتھ تھا اور وہاں ایک بار امجد اور کرنل وشال کا آمنا سامنا ہو چکا تھا، جب امجد کے سامنے کرنل وشال نے بے گناہ مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا تھا۔ امجد اب تک اس آواز کو بھولا نہیں تھا۔ اور آج بہت عرصے کے بعد یہ آواز دوبارہ سن کر اسکا خون کھولنے لگا تھا مگر اس وقت وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

کرنل کے سوال پر وہ شخص فوری بول اٹھا سر مینیجر صاحب ابھی یہاں نہیں میں تو ریسیپشن پر ہوتا ہوں میرا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ کرنل وشال کو کیپٹن مکیش نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ مخبری ہوٹل کے ہی ایک شخص نے کی ہے اور وہ بھی اس وقت ان لوگوں کے کمرے میں ہی ہوگا تاکہ انکو باتوں میں لگا کر روک سکے۔ کرنل وشال نے فوری طور پر اس شخص کو رہا کرنے کا حکم دیا اور وہ اپنی جان بچاتا ہوا کرنل وشال کو مشکور نظروں سے دیکھتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ امجد اور کاشف کو اب کمانڈوز اپنے حصار میں لیکر ڈانس کلب سے باہر جا رہے تھے۔ اس وقت ڈانس کلب عام طور پر سنسان ہی ہوتے ہیں کیونکہ محفل رات کے اندھیروں میں سجتی ہے اسی لیے یہاں لوگوں کا کوئی ہجوم اکٹھا نہیں ہوا محض چند لوگ تھے جو آرمی کے کمانڈوز کو دیکھ کر اپنے اپنے کمروں میں جا کر چھپ گئے تھے ۔ کچھ ہی دیر میں امجد اور کاشف کو گاڑی میں بٹھا دیا گیا اور وہ بھی چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئے کیونکہ اسکے علاوہ انکے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ آرمی کا یہ قافلہ اب ایک نا معلوم مقام کی طرف رواں دواں تھا جسکی قیادت کرنل وشال بذاتِ خود کر رہا تھا۔ اسکو پورا یقین تھا کہ اب میجر دانش زیادہ دیر تک اس سے بچ نہیں پائے گا۔



کیپٹن مکیش نے اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ کچھ دیر جاری رکھا۔ اسکی چھوٹی پسٹل جس میں 10 سے 12 گولیاں تھیں آن کی آن میں اس نے ختم کر دیں۔ اور پھر قلابازی کھا کر سامنے موجود صوفے کی اورڑ میں چھپ گیا۔ اس سارے عمل کے دوران اسکو اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ کمرے میں کوئی بھی اسکی گولی کا نشانہ نہیں بنا تھا کیونکہ اس وقت کمرہ بالکل خالی تھا۔ چند سیکنڈ کے انتظار کے بعد کیپٹن مکیش نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو کمرہ واقعی خالی تھا، کیپٹن نے کمرے سے باہر دیکھا تو 2 فوجی جوان بھاگتے ہوئے کمرے کے اندر آرہے تھے، وہ بھی کمرے کے اندر آکر اپنی پوزیشن لیکر کھڑے ہوگئے، اور کیپٹن مکیش کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ ایک طرف ایک لیڈیز لباس موجود تھا جو صوفے پر ہی پڑا تھا جبکہ اسکے ساتھ ہی ہائی ہیل سینڈل رکھے تھے، اور دوسری طرف ایک لیپ ٹاپ موجود تھا جو کہ بند تھا۔

کیپٹن مکیش نے اب کمرے کا مکمل جائزہ لیا اور ایک دروازے کی طرف بڑھنے لگا جو اسی کمرے میں موجود تھا یہ کچن کا دروازہ تھا جہاں سے کھانے کی خوشبو آرہی تھی اور ٹِپ ٹِپ پانی گرنے کی آواز بھی آرہی تھی، کیپٹن نے اب کی بار انہتائی محتاط انداز میں کچن کی طرف بڑھنا شروع کیا اور پھراپنے ایک ماتحت کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھے اور دیکھے کچن میں کوئی موجود ہے یا نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھے کہ گولی نا چلائی جائے تاکہ اگر اندر کوئی موجود ہو تو اسکو زندہ گرفتار کیا جائے۔ یہ جوان بھی احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور کچن کی دیوار کے ساتھ کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کی مگر ٹِپ ٹیپ کی آواز کے علاوہ اندر سے اور کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ کچن کا دروازہ کھلا تھا اس فوجی نے ایک دم سے کچن کے اندر قلابازی لگائی اور زمین پر لیٹتا ہواپورے کچن کا جائزہ لیا جہاں کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا۔ چھوٹا سا کچن دیکھنے میں اس اہلکار کو زیادہ ٹائم نہیں لگا اور کچھ ہی سیکنڈز کے بعد اس نے باہر کھڑے کیپٹن مکیش کو کہا سر آل کلئیر۔ یہ سن کر کیپٹن مکیش بھی اندر گیا تو اس نے دیکھا کہ کچن میں موجود چولہے پر ایک پتیلا پڑا تھا جس میں چاول پکائے گئے تھے، کیپٹن نے پتیلے کو ہاتھ لگایا تو وہ ابھی بھی گرم تھا جسکا مطلب تھا کہ کچھ دیر پہلے کوئی نہ کوئی یہاں موجود تھا، اور کھانے کی خوشبو بھی بتا رہی تھی کہ یہ کھانا کچھ دیر پہلے تک اس پتیلے میں موجود رہا ہوگا

کچن میں کسی کو نا پا کر کیپٹن کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اب اس نے باہر والے کمرے کے ساتھ ایک اور کمرے کا بھی جائزہ لیا مگر وہاں بھی کسی کی موجودگی کے آثار موجود نہیں تھے البتہ اتنا ضرور تھا کچھ دیر پہلے تک یہاں کوئی نہ کوئی موجود تھا، واش روم میں جا کر کیپٹن نے دیکھا تو وہاں بھی فرش گیلا تھا جسکا مطلب تھا کہ کوئی آدھا گھنٹہ پہلے یہاں کوئی نہایا ہوگا، ایک طرف صابن کی جھاگ موجود تھی اور واش روم سے شیمپو کی ہلکی ہلکی خوشبو بھی آرہی تھی۔ پورے گھر کا جائزہ لینے کے بعد بھی جب کیپٹن کو وہاں کوئی شخص نہ ملا تو اسکا چہرہ مرجھا گیا۔ اسے امید تھی کہ میجر دانش اور اسکی ساتھی تانیہ اب ضرور پکڑے جائیں گے مگر اسکی اس امید پر پانی پھر گیا تھا۔ کیپٹن نے وہاں موجود لیپ ٹاپ اپنے قبضے میں لیا اور گھر سے باہر نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلنے لگا۔

اتنے میں وہاں موجود ایک شخص گاڑی کے سامنے آیا اور کیپٹن کو رکنے کا اشارہ کیا۔ اسکے ساتھ موجود فوجیوں نے فوری اپنی رائفلز کے رخ اس شخص کی طرف کر لیے اور اس شخص نے بھی ڈر کے مارے اپنے ہاتھ ہوا میں بلند کر دیے، مگر ساتھ ہی کیپٹن کو اشارہ کیا کہ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایک فوجی نے آگے بڑھ کر اس شخص کی تلاشی لی ، اسکے پاس کوئی خطرناک ہتھیار موجود نہیں تھا، پھر دو فوجیوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور کیپٹن مکیش گاڑی سے باہر نکلا اور اس شخص سے پوچھنے لگا کہ ہاں بولو کیا بات ہے۔ کیپٹن کو سامنے دیکھ کر اس شخص نے بتانا شروع کیا کہ صاحب کل صبح ہی یہاں ایک لڑکی اور ایک لڑکا آکر رکے تھے، انکے پاس ایک کالے رنگ کی نئی گاڑی تھی جسکا نمبر وائی ایچ ڈبل یو 384 تھا۔ وہ گھر ٹیکسی پر آئے تھے مگر کچھ دیر بعد ہی کوئی شخص گھر کے باہر یہ کالے رنگ کی گاری چھوڑ گیا تھا اور اس گھر میں آئے شخص نے باہر آکر گاڑی میں سے ہی اسکی چابی نکالی اور کچھ مزید سامان نکال کر گھر میں چلا گیا تھا۔ گھر میں کچھ ہی دیر رکنے کے بعد دونوں گھر سے نکل گئے اور رات گئے لڑکی تو گھر آگئی مگر لڑکا نہیں آیا۔ مجھے یہ دونوں شروع سے ہی مشکوک لگ رہے تھے، آج بھی کچھ ہی دیر پہلے وہ لڑکی بہت جلدی میں یہاں سے کچھ سامان لیکر اپنی گاڑی میں نکلی ہے۔ نہ تو اس نے گھر کو تالا لگایا اور نہ ہی اسنے کسی کو بتایا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ بس وہ گھر سے ایسے نکلی جیسے بہت جلدی میں ہو۔ میں پولیس کو اطلاع دینے ہی والا تھا کہ ہمارے محلے میں کچھ مشکوک لوگ موجود ہیں کہ مجھے آپ لوگوں کے آنے کا پتہ لگا کہ آپ نے اس گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ تو میں نے سوچا آپکو آکر اطلاع دوں کے گھر میں اس وقت کوئی موجود نہیں ، ایک لڑکی تھی جو کچھ ہی دیر پہلے یہاں سے نکل گئی ہے۔ کیپٹن نے جیب سے تانیہ اور دانش کی تصویریں نکال کر اس شخص کو دکھائیں تو اسنے فورا ہی پہچان لیا اور بولا جی صاحب یہی لڑکی تھی جو یہاں کل آئی اور ابھی کچھ دیر پہلے یہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی


کیپٹن مکیش نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ لڑکی کہاں گئی ہے ؟؟؟ اس شخص نے کہا نہیں صاحب وہ بہت ماڈرن لڑکی تھی ہماری تو ہمت ہی نہی ہوئی اس سے کوئی بات کرنے کی اور ویسے بھی یہ خطرناک لوگ لگ رہے تھے اس لیے میں نے دور رہنے میں ہی بہتری سمجھی۔ کیپٹن مکیش کو اس شخص کی باتیں سن کر اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹینا کے اغوا کے پیچھے یقینی طور پر میجر دانش تھا تبھی وہ ساری رات گھر نہیں آیا، اور ابھی اتنی جلدی میں یہاں سے تانیہ کا نکل جانا اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اسے مخبری ہوگئی تھی کہ آرمی اس گھر پر چھاپہ مارنے والی ہے تبھی وہ اتنی جلدی میں یہاں سے نکل گئی۔ مگر سوال یہ تھا کہ آخر اسے بتایا کس نے ؟؟ ؟ کیپٹن مکیش کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے میجر دانش کے ٹھکانے کے بارے میں پتہ چل گیا ہے پھر مخبری کون کر سکتا ہے؟؟؟

کیپٹن مکیش اسی سوچ میں تھا کہ اسکے فون کی گھنٹی بجی، آگے سے اسے جامنگر کے ریسیپشن پر موجود شخص نے بتایا کہ وہ ڈانسر تانیہ تو نہیں آئی مگر اسکا ایک ساتھی اس وقت ڈانس کلب میں موجود ہے جو پہلے بھی کئی مرتبہ تانیہ کے ساتھ اس ڈانس کلب میں آچکا ہے۔ کیپٹن مکیش نے اسے کہا کہ کسی بھی طرح وہ اس شخص کو ڈانس کلب میں ہی روکے رکھے کچھ ہی دیر میں آرمی کی ایک ٹیم ہوٹل پر چھاپہ مارے گی اور انہیں گرفتار کر لے گی۔ اسکے بعد کیپٹن مکیش نے فون بند کیا اور فوری کرنل وشال کو کال کی اور اسے صورتحال سے آگاہ کر دیا، اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ مخبری کرنے والا شخص بھی ان کے ساتھ موجود ہوگا، اسکا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں لہذا اسکا خیال کیا جائے ۔ اسکے بعد کیپٹن مکیش فون بند کر کے واپس اپنی گاڑی میں بیٹھا اور آرمی ہیڈ کوارٹر جانے لگا۔ آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچتے ہی کیپٹن نے اس شخص کا بتایا ہوا گاڑی کا نمبر اپنے ایک ماتحت کو دیا اور کہا فوری طور پر پتا لگاو یہ گاڑی کس کی ہے؟ اور اسکے بعد کیپٹن نے پولیس کو اطلاع دی کہ اگر یہ گاڑی کہیں نظر آئے تو اسکو فوری طور پر روک لیا جائے اور گاڑی میں جو بھی ہو اسکو گرفتار کر لے۔

کچھ ہی دیر کے بعد کیپٹن مکیش کو بتایا گیا کہ سر یہ گاڑی ممبئی کے ایک بڑے بزنس مین کی ہے جو کل ہی اندھیری ایسٹ سے چورائی گئی ہے اور وہیں کے تھانے میں اسکی ایف آئی آر بھی موجود ہے۔ یہ جان کر کیپٹں مکیش کی امیدوں پر مزید پانی پھر گیا کیونکہ میجر دانش تک لیجانے والی ہر امید راستے میں ہی ختم ہوجاتی تھی، اب جبکہ ایک گاڑی کا نمبر ملا جو میجر دانش کے استعمال میں تھی تو وہ بھی چوری کی نقلی اور مالک نے قانون کے مطابق اسکی ایف آئی آر بھی درج کروائی ہوئی تھی۔ اب قانونی طور پر گاڑی کے مالک سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی گاڑی تو چوری ہوگئی تھی اور اسنے رپورٹ بھی درج کروا دی ہوئی تھی۔
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


کچھ ہی دیر بعد کیپٹن مکیش کے موبائل پر کرنل وشال کی کال آئی۔ کیپٹن نے کال اٹینڈ کرتے ہی اپنی انفارمیشن کے بارے میں پوچھا کہ اسکے مطابق میجر دانش کے ساتھی ملے یا نہیں؟؟ کرنل وشال کی پر سکون آواز سنائی دی کہ ہاں اسکے 2 ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انکو ہم اپنے خفیہ ہیڈ کوارٹر لے جارہے ہیں تفتیش کے لیے۔ اس پر کیپٹن مکیش نے کرنل کو مبارک دی کہ چلیں سر کوئی سراغ تو ملا اب جلد ہی وہ میجر بھی ہماری گرفت میں ہوگا۔ اس پر کرنل وشال نے کیپٹن کو شاباش دی کہ اس نے ممبئی میں رہتے ہوئے بھی اچھا کام کر دکھایا اور جامنگر میں موجود اسکے ساتھیوں کو پکڑوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی تعریف سن کر کیپٹن دل ہی دل میں خوش ہونے لگا۔ پھر کرنل وشال اصل بات کی طرف آیا جس کے لیے اس نے فون کیا تھا۔ کرنل وشال نے کیپٹن سے کہا کہ اسکی بیٹی ٹینا آوٹنگ کے لیے گوا جا رہی ہے اور تم بھی اسکے ساتھ گوا جاو گے۔ یہ سن کر کیپٹن مکیش کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے ، ٹینا کو تو وہ پہلے ہی پسند کرتا تھا اوپر سے اسکے ساتھ گوا جانے کا موقع تو ایسے ہی تھا جیسے اندھے کو آنکھیں مل گئی ہوں۔ مگر ساتھ ہی اسکی خوشیوں پر اوس پڑ گئی جب کرنل وشال نے بتایا کہ ٹینا اسی لڑکے عمران کے ساتھ جا رہی ہے جس نے رات اسکی جان بچائی ہے، تم ان سے کچھ فاصلہ رکھ کر انکے پیچھے پیچھے جاو گے، تمہارا کام صرف اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں کوئی ٹینا کا پیچھا تو نہیں کر رہا، اغوا کرنے والے دوبارہ سے حرکت میں آئیں گے تو وہ یقینی طور پر ٹینا کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتے ہیں لہذا تم انکے پیچھے پیچھے فاصلہ رکھ کر محض اسی بات کا خیال رکھو گے کہ اغوا کرنے والا گروپ ٹینا کے پیچھے نہیں۔ یہ کہ کر کرنل وشال نے فون بند کر دیا اور کیپٹن مکیش مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ ٹینا کو کال کرنے لگا تاکہ وہ اسکی روانگی کے بارے میں معلومات لے سکے


عمران کو گاڑی کی چابی دیتے ہوئے ٹینا نے اپنا کریڈیٹ کارڈ بھی ساتھ میں دے دیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ عمران کے پاس پیسے نہیں ہیں، عمران نے بھی بلا جھجک کریڈٹ کارڈ لے لیا تھا۔ یوں تو عمران ایک غیرت مند انسان تھا جو کسی بھی صورت اپنی شاپنگ کسی لڑکی کے پیسوں سے کرنا گوارا نہیں کرتا خاص طور پر ایک انجان لڑکی مگر اس وقت غیرت دکھانے کا موقع نہیں تھا، اس وقت کسی بھی طرح ٹینا کو شیشے میں اتار کر اپنا کام نکلوانے کا وقت تھا۔ یوں تو عمران کے پاس چند سو روپے تھے مگر وہ مکمل شاپنگ کے لیے ناکافی تھے اسی لیے عمران نے کریڈٹ کارڈ لیکر گاڑی نکالی اور کچھ ہی دور مارکیٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔ راستے میں عمران نے محسوس کیا کہ ٹینا کے گھر سے ہی ایک گاڑی اسکے پیچھے پیچھے ایک محتاط فاصلہ رکھتے ہوئے آرہی تھی، عمران سمجھ گیا کہ اسکا پیچھا ہورہا ہے لہذا اس نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے کسی کو کوئی شک ہو۔

عمران دھیمی رفتار سے مارکیٹ کی طرف جانے لگا، راستے میں سڑک کنارے اسے ایک ٹھیلے والا نظر آیا جو ٹراوزر وغیرہ بیچ رہا تھا، عمران نے وہاں گاڑی روکی اور اس سے اپنے سائز کے مطابق ایک ٹراوزر خرید لیا۔ عمران نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اپنی پھٹی ہوئی پینٹ اتاری اور وہ ٹرازور پہن کر دوبارہ سے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور گاڑی چلادی۔ اس دوران عمران نے دیکھا کے کافی فاصلے پر وہی گاڑی رکی ہوئی تھی جو ٹینا کے گھر سے اسکا پیچھا کر رہی تھی، مگر عمران نے اسکی کوئی پرواہ نہیں کی۔ کچھ ہی دیر بعد عمران مارکیٹ پہنچ گیا تو ایک بڑا شاپنگ پلازہ دیکھ کر عمران نے اسکی پارکنگ میں گاڑی لگائی اور پلازہ میں داخل ہوگیا،پلازہ میں داخل ہوتے ہی عمران نے ایک آنٹی جی کے پرس میں سے انکا موبائل نکال لیا جو عمران کو تب نظر آیا جب آنٹی جی پرس میں سے اپنے ساتھ موجود چھوٹے سے بچے کے لیے فیڈر نکال رہی تھیں، اور اسکو فیڈر پلانے کی جلدی میں وہ اپنے پرس کی زپ بند کرنا بھول گئیں۔

موبائل نکالتے ہی عمران نے فوری طور پر اپنے سائز کی ایک پینٹ لی اور ساتھ ہی موجود چینجنگ روم میں گھس گیا۔ عمران نے یہ سارا کام پیچھے آنے والی گاڑی کے پلازہ میں پہنچنے سے پہلے پہلے کر لیا تھا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پیچھا کرنے والوں کی نظروں میں آ کر وہ کسی کو کال کرے۔ چینجنگ روم میں جاتے ہی عمران نے تانیہ کا نمبر ملایا جو پچھلی رات ہی عمران نے تانیہ کو دیا تھا۔ کچھ دیر بیل ہونے کے بعد تانیہ نے فون اٹینڈ کیا تو آگے سے عمران نے اسکی خیریت دریافت کی اور جلدی جلدی اسکو اپنے پلان کے بارے میں چیدہ چیدہ معلومات فراہم کیں اور اس نے تانیہ کو فوری طور پر گوا کے لیے نکلنے کو کہا۔ تانیہ جو کچھ دیر پہلے ہی سو کر اٹھی تھی اس اچانک پروگرام پر حیران ہوگئی مگر عمران نے اسے کہا کہ یہ سب باتیں وہ بعد میں تفصیل سے بتا دے گا فی الحال وہ اپنی گاڑی نکالے ضرور سامان ساتھ لے اور ایک گھنٹے تک گوا کے لیے روانہ ہوجائے۔



فون بند کرنے کے بعد عمران پینٹ ٹرائی کیے بغیر ہی باہر نکل آیا اور دوبارہ سے اسی آنٹی کی تلاش کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں عمران کو وہ آنٹی دوبارہ نظر آگئیں جو ابھی تک اس بات سے بے خبر تھیں کہ انکا موبائل چوری ہو چکا ہے، ان پر نظر پڑتے ہی عمران انکے ساتھ جا کر کھڑا ہوگیا اور چپکے سے نظریں بچاتے ہوئے انکا موبائل دوبارہ انکے پرس میں ڈال دیا۔ اور پھر سے اپنے لیے کچھ کپڑے دیکھنے لگا۔ اب عمران اپنی پسند کے مطابق کپڑے پسند کر رہا تھا، اس نے 1 پینٹ ، 2 ٹراوزر اور 2 شارٹس خریدیں اور ساتھ انڈر وئیر اور کچھ اور ضرور سامان خرید کر پلازے سے نکل گیا۔ اس دوران بھی عمران نے غور کیا کہ ایک شخص مسلسل عمران سے کچھ فاصلے پر اسکے ساتھ ساتھ تھا۔ جہاں عمران جاتا وہیں وہ شخص کچھ فاصلے پر پر کھڑا ہوکر ونڈو شاپنگ کرنے لگ جاتا اور جیسے ہی عمران ٹینا کے کریڈیٹ کارڈ سے بل ادا کر کے باہر نکل کر اپنی گاڑی کی طرف گیا وہ شخص بھی پلازے سے باہر نکل آیا اور اسی گاڑی کی طرف جانے لگا جو عمران کا پیچھا کر رہی تھی۔

عمران زیرِ لب مسکرایا اور گاڑی میں بیٹھ کر دوبارہ سے ٹینا کے گھر پہنچ گیا۔ مین گیٹ پر گارڈ نے ایک بار پھر سے عمران کو روک لیا مگر رات والا واقعہ اور ٹینا کی ڈانٹ یاد آئی تو تلاشی لینے کی بجائے اس نے انٹر کام پر ٹینا کو عمران کے آںے کی اطلاع دی ٹینا نے گارڈ سے کہا انہیں فوری میرے روم تک پہنچا دو تو گارڈ عمران کے ساتھ ٹینا کے روم کی طرف جانے لگا، ٹینا کے روم تک پہنچا کر وہ گارڈ واپس چلا گیا اور عمران بلا جھجک دروازہ کھول کر ٹینا کے روم میں داخل ہوگیا۔ ٹینا اس وقت سپورٹس برا اور ٹراوزر پہنے ہوئے تھی شاید جاگنگ کر کے ہٹی تھی۔ اور اسکے ہاتھ میں ایک لوز شرٹ اور ایک شارٹ تھی ٹینا نے عمران کو مسکرا کر دیکھا اور بولی تم دوسرے کمرے میں جا کر واش روم استعمال کرو، میں اپنے کمرے میں ہی ہوں بس کچھ دیر میں نہا کر نکلتی ہوں۔ ساتھ ہی ٹینا نے عمران کو مسکراتے ہوئے کہا کہ اپنی شیو بھی بنا لو۔ بال کافی بڑھے ہوئے ہیں۔ عمران نے بھی چہرے پر ہاتھ پھیرا تو آج کافی دنوں کے بعد اسے واقعی میں احساس ہوا کہ اسکی شیو بڑھی ہوئی ہے۔

جب سے سہاگ رات کے بعد اس نے کرنل وشال کا پیچھا کرنا شروع کیا تھا اسکو اپنی صفائی کا کوئی خیال ہی نہیں تھا بس 1 دن پہلے ہی مونا جی نے دانش کے چہرے کو میک اپ کرنے کے لیے دھویا تھا مگر مکمل شیو اس نے بھی نہیں بنائی تھی تاکہ کیپٹں مکیش اور عمران کی مشابہت میں مزید بہتری آسکے۔ ٹینا کی بات سن کر عمران نے ٹینا کو آنکھ ماری اور بولا صرف شیو ہی کروں یا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ عمران کی اس لمبی سی "یا" کا مطلب ٹینا فوری سمجھ گئی تھی وہ بھی مسکراتے ہوئے اور تھوڑا شرماتے ہوئے بولی ہاں وہ بھی کیونہ ہم گوا جا رہے ہیں تو اچھی طرح صفائی کرنا ضروری ہے۔ ٹینا کی بات سن کر عمران نے ایک قہقہ لگایا اور ساتھ والے کمرے میں موجود واش روم میں گھس گیا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کے نیچے کھڑے ہوکر عمران کو سکون ملنے لگا تھا۔ اتنے دنوں کی بھاگ دوڑ اور اعصابی تناو اب پانی کے ساتھ ساتھ بہنے لگا۔ اپنے اوپر اچھی طرح ٹھنڈا پانی ڈالنے کے بعد عمران نے پہلے واش روم میں پڑے ایریزر سے اپنی شیو بنائی اور پھر اسی ایریزر سے اپنے زیرِ ناف بال بھی صاف کیے۔ زیرِ ناف بال صاف کرتے ہوئے عمران کو احساس ہوا کہ وہ کافی دنوں سے انڈیا میں ہی ہے۔ کیونکہ اسکے بال خاصے بڑھے ہوئے تھے، سہاگ رات پر اس نے خصوصی طور پر اپنے زیرِ ناف بالوں کی صفائی کی تھی، مگر جہاں تک عمران کو یاد تھا وہ محض 4 یا 5 دن سے ہی انڈیا میں تھا اور کرنل وشال کی قید سے لیکر آج تک 5 دن ہی گزرے تھے۔ لیکن اپنے بڑھے ہوئے بال دیکھ کرعمران نے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی 10 سے 15 دن سے انڈیا میں ہے۔ شاید یہ باقی کے دن اسکے بے ہوشی کی حالت مِں گزرے ہونگے جب وہ کرنل وشال کی قید میں تھا


بالوں کی صفائی کے دوران عمران کو اپنی بیوی عفت کی بھی یاد آئی جو سہاگ رات پر اس سے جدا ہوئی تھی اور اب تک دونوں کا دوبارہ ملن نہیں ہوسکا تھا۔ عمران سوچنے لگا کہ عفت اسکے بارے میں کیا سوچتی ہوگی کہ سہاگ رات پر ہی اسکا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا اور اتنے دن گزرنے کے بعد بھی ابھی تک واپسی نہیں ہوسکی۔ عفت کی یاد آئی تو عمران کا بے اختیار دل کیا کہ وہ فورا پاکیشا چلا جائے اور جا کر اپنی نو بیاہتا بیوی کو اپنے گلے سے لگا کر بہت سا پیار کرے۔ مگر افسوس کہ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایک سپاہی کے لیے وطن کی محبت پہلے اور باقی رشتے ناطے بعد میں آتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد عمران نے عفت کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا، اس لیے نہیں کہ اسے عفت سے پیار نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ کہیں عفت کی یاد اسکو اپنے فرض سے غفلت برتنے پر مجبور نہ کر دے۔ عمران نے اپنی خوب اچھی طرح صفائی کی اور ایک گھنٹے تک ٹھنڈے پانی کا شاور لینے کے بعد وہ ایک شرٹ اور ساتھ شارٹ پہن کر واپس آگیا۔ باہر نکلا تو ٹینا اپنے کمرے میں کھڑی میک اپ کر رہی تھی ٹینا نے ایک لوز شرٹ اور ساتھ ایک چھوٹی سی نیکر پہن رکھی تھی جو بمشکل اسکی تھائیز کو ڈھانپ رہی تھیں ۔ پاوں سے لیکر گھٹنوں تک اور پھر آدھی سے زیادہ تھائیز ننگی تھیں ٹینا کی، یہ دیکھ کر عمران کی شارٹ میں موجود شارٹ سے لن کو ایک شاٹ لگا اور وہ آہستہ آہستہ لانگ ہونے لگا۔ مگر جلد ہی اسنے اپنے جزبات پر قابو پالیا کیونکہ وہ جلدی میں انڈر وئیر واش روم لیجانا بھول گیا تھا۔ اور بغیر انڈر وئیر کے کھڑا لن کچھ زیادہ ہی واضح ہوکر نظر آتا ہے اس لیے عمران نے فوری اپنے جذبات پر قابو پایا اور اپنی کچھ ضروری چیزیں ایک چھوٹے شولڈر بیگ میں ڈالنے لگا۔

کچھ ہی دیر میں ٹینا کا میک اپ بھی مکمل ہوگیا، بہت لائٹ سے میک اپ میں ٹینا بہت خوبصورت لگ رہی تھی، اس نے بھی جلدی جلدی اپنے کچھ کپڑے ایک چھوٹے بیگ میں ڈالے اور چلنے کے لیے تیار ہوگئی۔ مگر اب کی بار ٹینا نے پرانی گاڑی میں جانے کی بجائے اپنی بی ایم ڈبلیو میں ہی جانے کی ضد کی تو عمران بھی فوری مان گیا کیونکہ اتنا لمبا سفر ایک تو ویسے ہی اذیت ناک ہوتا ہے اوپر سے پرانی گاڑی میں سفر کرنا اور بھی عذاب ۔۔۔ اور پھر عمران تو جانتا ہی تھا کہ کوئی اب ٹینا کو اغوا کرنے نہیں آنے والا اور خطرے والی کوئی بات نہیں اس لیے عمران نے ٹینا کی ضد فوری مان لی اور کچھ ہی دیر میں ٹینا اور عمران بی ایم ڈبلیو میں آرمی ریذیڈینشیل ایریا سے نکل کر انڈیا کے مشہور بریج سائن پانویل بریج سے گزر رہے تھے جو ممبئی مہاراشٹرا اور ناوی ممبئی کو آپس میں ملاتا ہے اور اس بریج کی وجہ سے بہت لمبا سفر محض ایک کلومیٹر کا رہ جاتا ہے۔

ناوی ممبئی سے گزر کر اب ٹینا کی بی ایم ڈبلیو 160 کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں سے ہوتی ہوئی پونے کی طرف جا رہی تھی۔ گاڑی عمران خود ڈرائیو کر رہا تھا جبکہ ٹینا عمران کو اپنی زندگی کے متعلق اور اپنے رہن سہن کے متعلق بتا رہی تھی، عمران بڑے غور سے ٹینا کی باتیں سن رہا تھا اسکو اندازہ ہوگیا تھا کہ ٹینا ایک باتونی لڑکی ہے جو چاہتی ہے کہ وہ ہر وقت بولتی رہے اور دوسرا اسکی باتیں سنتا رہے، مگر عمران کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا ٹینا کی باتوں کو سننا کیونکہ ٹینا ایک کرنل کی بیٹی تھی اور عمران انتظار کر رہا تھا کہ شاید کوئی اور کام کی بات ٹِنا کے منہ سے نکلے جو عمران کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


دوسری طرف جب تانیہ کو دانش کی کال موصول ہوئی تو اسنے بھی فوری تیاری شروع کر دی۔ تانیہ کے لیے جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی وہ اتنا لمبا سفر تھا جو تانیہ نے اکیلے ہی طے کرنا تھا۔ گاڑی میں 11 سے 12 گھنٹے کا سفر اکیلے طے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تانیہ نے فوری کچن میں جا کر کھانا بنایا، گھر میں چاول اور تھوڑا چکن موجود تھا تو تانیہ نے چکن پلاو بنا لیا اور چولہے پر ہلکی آنچ پر چاول رکھ کر تانیہ خود نہانے چلی گئی، نہا کر تانیہ باہر نکلی تو اسنے کمرے میں ہی اپنے پہلے والے کپڑے اتارے اور شاپر میں سے نیا سوٹ نکال کر پہن لیا، نیا سوٹ پہن کر تانیہ فوری کچن میں گئی اور چاولوں میں چمچ ہلایا ، پھر واپس باہر آکر تانیہ نے کچھ ضروری چیزیں سمیٹیں، گاڑی کی چابی اٹھائی، سلیپر پہنے اور دوبارہ سے کچن میں گئی تو چاول قریبا پک چکے تھے، تانیہ نے کچھ چاول پلیٹ میں ڈال کر کچن میں کھڑے ہوکر کھائے اور اسکے بعد پلیٹ دھو کر ایک سائیڈ پر رکھ کر ٹونٹی بند کردی۔ پھر تانیہ نے ایک برتن میں باقی کے چاول ڈالے جو مشکل سے ایک یا 2 پلیٹس کے برابر ہونگے، وہ برتن شاپر میں ڈالا اور اپنے کپڑوں والا شاپر اٹھا کر گاڑی کی چابی اٹھائی اور بھاگتی ہوئی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی، گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے موبائل پر جی پی ایس آن کر کے گوا کا راستہ سیو کر لیا اور گوا کی طرف نکل گئی، تانیہ کو اصل میں جلدی اس بات کی تھی کہ ایک تو اسے دانش نے کہا تھا کہ تم نے جلدی نکلنا ہے تاکہ ہم سے پہلے گوا پہنچ سکو اور دوسرا تم نے اکیلے سفر کرنا ہے اس لیے جلدی نکلو تاکہ آدھی رات سے پہلے پہلے گوا پہنچ سکو۔ تانیہ قریب 3 بجے گھر سے نکلی تھی ، اس حساب سے اگر وہ بہت جلدی بھی پہنچ جاتی تو رات کے 1 تو بج ہی جانے تھے اسی لیے تانیہ بہت جلدی میں گھر سے نکل گئی۔

ادھر ٹینا اور دانش بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے کہ راستے میں ٹینا کے موبائل پر کیپٹن مکیش کی کال آئی۔ کیپٹن کا نام دیکھ کر ٹینا نے برا سا منہ بنایا مگر اسے کال اٹینڈ کرنی ہی تھی۔ ٹینا نے ہیلو کہا تو آگے سے مکیش نے نمستے ٹینا میم کہا اور ٹینا سے پوچھنے لگا کہ میم آپ کب تک گوا کے لیے روانہ ہونگی؟؟ ٹینا نے بتایا کہ وہ گوا کے لیے روانہ ہو چکی ہے اور اب ممبئی سے کافی دور نکل چکی ہے۔ اس پر کیپٹن مکیش کو ایک شاک لگا کیونکہ اسکا خیال تھا کہ ٹینا ابھی گھر پر ہی ہوگی، مگر ٹینا تو کیپٹن کے فون آنے سے کوئی 30 سے 35 منٹ قبل ممبئی سے نکل چکی تھی۔ کیپٹن نے ٹینا کو بتایا کہ کرنل صاحب نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپکے ساتھ ساتھ گوا تک جاوں لہذا آپ اگر کسی جگہ رک کر میرا انتظار کر لیں تو میں جلد ہی آپ تک پہنچ جاوں گا، مگر ٹینا نے کہا کہ میں نے پاپا کو کہ دیا تھا کہ جس کو بھی بھیجیں وہ مجھ سے فاصلے پر ہی رہے، سیکورٹی کے نام پر میں اپنا یہ ٹور بور نہیں ہونے دے سکتی، آپ جی پی ایس پر میری لوکیشن ایڈ کر لو اور فاصلہ رکھ کر گوا تک آجاو۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون بند کر دیا۔ اور دوبارہ سے عمران کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی جبکہ کیپٹں مکیش نے فورا اپنا موبائل اور ضروری چیزیں اٹھائیں اور اپنی آرمی جیپ میں بیٹھ کر وہ بھی گوا کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس نے اپنے موبائل پر ٹینا کا ای میل پہلے ہی ایڈ کر رکھا تھا اور جی پی ایس کے مطابق ٹینا اور کیپٹن مکیش کی گاڑی کے درمیان کوئی 35 کلومیٹر کا فاصلہ تھا جو مسلسل بڑھتا جا رہا تھا کیونکہ ٹینا شہر سے نکل چکی تھی اور کافی رفتار کے ساتھ گوا کی طرف جا رہی تھی جبکہ کیپٹن مکیش ابھی شہر کی ٹریفک میں پھنسا آہستہ آہستہ ممبئی شہر سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسکے ذہن میں میجر دانش کا بھی خیال تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ ٹینا کے اس فضول پروگرام کی وجہ سے اب وہ میجر دانش کو نہیں پکڑ سکے گا، حالانکہ وہ بہت قریب پہنچ گیا تھا انکے ٹھکانے کے بس کچھ دیر پہلے پہنچ جاتا تو اس وقت تانیہ اور میجر دانش دونوں اسکی قید میں ہوتے۔ مگر افسوس کے ایسا نہ ہوسکا۔

ٹینا نے کیپٹن سے بات کرنے کے بعد فون بند کر کے گاڑی کے ڈیش بورڈ میں ڈال دیا اور گاڑی کی روف ہٹا دی، شام کا وقت تھا اور موسم بھی کافی خوشگوار تھا، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے ٹینا کے بال اڑ رہے تھے اور وہ گاڑی میں کھڑی ہوگئی اور ٹھنڈی ہوا کا مزہ لینے لگی، ٹینا نے اپنے ہاتھ پھیلا لیے اور بچوں کی طرح سفر کا مزہ لینے لگی، عمرن اسکی یہ حرکتیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اسکو ٹینا پر پیار آنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد ٹینا واپس بیٹھ گئی اور دانش کے کندھے پر سر رکھ لیا۔ دانش نے بھی ایک پیار بھری کس ٹینا کے سر پر کی اور گاڑی ڈرائیو کرنے میں لگا رہا۔ ٹینا کا ہاتھ اب عمران کی تھائی پر تھا اور وہ آہستہ آہستہ عمران کی تھائی کو سہلا رہی تھی۔ عمران کی تھائی کو سہلاتے سہلاتے ٹینا نے اسکی شارٹس کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دیا تھا جس سے اب عمران کی تھائی ننگی ہوگئی تھی اور اپنی ننگی تھائی پر ٹینا کا نرم مگر گرم ہاتھ کا لمس پا کر عمران کی شارٹس میں ہلچل شروع ہوگئی تھی۔ عمران کا لن آہستہ آہستہ اپنا سر اٹھا رہا تھا جسکو ٹینا نے محسوس کر لیا تھا۔ وہ تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی، کل رات بھی اس نے عمران کے لن پر سواری کرنا چاہی تھی مگر عمران کی عدم دلچسپی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا تھا۔ لیکن اب ٹینا کا من ایک بار پھر کر رہا تھا کہ وہ اپنے نئے بوائے فرینڈ کا لن دیکھے کہ آخر اس میں کتنی جان ہے اور آیا کہ وہ اسکی جم کر چودائی کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔



کچھ دیر تھائی سہلانے کے بعد ٹینا اب پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی اور اس نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا لی اور اپنے دونوں ہاتھ بھی گاڑی کے دروازے پر ٹکا لیا، اسکے بعد ٹینا نے اپنی ٹانگیں پھیلا کر عمران کی گود میں رکھ لیں جس کی تمام تر توجہ اس وقت ڈرائیونگ پر تھی۔ وہ جلد از جلد سفر طے کرنا چاہتا تھا تاکہ جتنی جلدی ممکن ہوسکے وہ تانیہ تک پہنچ سکے جو ان سے پہلے گوا کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ اور یہ تانیہ اور عمران کا پلان تھا کہ وہ راستے میں کسی بھی جگہ ملیں گے اور آگے کا سفر اکٹھے طے کریں گے۔ مگر ٹینا کا موڈ کچھ اور ہی تھا۔ اس نے عمران کی گود میں اپنی ٹانگیں رکھنے کے بعد اپنے پاوں کی ایڑی سے عمران کی ٹانگوں کے درمیان موجود لوہے کے راڈ پر دباو بڑھانا شروع کر دیا۔ ٹینا کو اپنے پاوں پر عمران کے لن کی سختی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب عمران کا لن فل جوبن پر ہے۔ اب کی بار ٹینا نے اپنے پاوں سے عمران کے لن کو سہلانا شروع کر دیا، عمران نے ایک بار مسکرا کر ٹینا کی طرف دیکھا جو اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبائے کاٹ رہی تھی اور اسکی نظریں عمران کی شارٹس کے اندر موجود لن پر ہی تھیں۔ عمران نے اب اپنا ایک ہاتھ ٹینا کے گوری گوری ٹانگ پر رکھ دیا اور اس پر اپنے ہاتھ کو نیچے سے اوپر تک پھیرنے لگا۔

ٹینا کی ٹانگ اس سرد موسم میں بھی گرم ہورہی تھی یہ اسکے اندر کی گرمی تھی جو عمران کی منی سے ہی ختم ہو سکتی تھی۔ عمران کا لن اب مکمل طور پر کھڑا ہو چکا تھا اور عمران کے شارٹس میں ایک چھوٹا سا خیمہ نما ٹینٹ بن گیا تھا۔ ٹینا اب اپنے پیروں کے تلوں سے عمران کے لن کو پکڑ کر مسل رہی تھی جس سے عمران کو بھی مزہ آنے لگا تھا اور اب اس نے اپنی گاڑی کی رفتار قدرے دھیمی کر دی تھی۔ کچھ دیر مزید اپنے پاوں سے عمران کے لن کو مسلنے کے بعد ٹینا نے اپنے پیر کا پنجا استعمال کرتے ہوئے عمران کی شارٹ سائیڈ پر ہٹا دی اور اپنا پیر اندر داخل کر کے عمران کے گرما گرم لن کو چھوا تو ٹیتا کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگا، عمران کے لن کی گرمی نے ٹینا کے پیر کو جلا کر رکھ دیا تھا، ا س سے پہلے اجے کے لن میں اسکو کبھی اتنی گرمی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی گرمی اس وقت عمران کے لن سے نکل رہی تھی۔ ٹینا نے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے رکھی اور اپنے پیر سے عمران کے لن کو شارٹس سے باہر نکال دیا۔ آٹو میٹک گاڑی ہونے کی وجہ سے عمران کا صرف ایک پیر استعمال ہو رہا تھا ڈرائیونگ کے لیے جبہ اسکا دوسرا پیر فری تھا اور اس نے اپنی ٹانگ اسطرح موڑ لی تھی کی ٹینا اپنے پیروں کو اچھی طرح استعمال کرتے ہوئے اسکے لن سے کھیل سکے۔ جیسے ہی عمران کا لن اسکی شارٹس سے باہر نکلا وہ کسی سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا سیدھا کھڑا ہوگیا، اسکی لمبائی اور موٹائی دیکھ کر ٹینا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اور اسکا ایک ہاتھ اپنے منہ پر چلا گیا اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں اپنے ہونٹوں پر رکھ لیں، عمران بھی ٹینا کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا اور اشارے ہی اشارے میں ٹینا سے پوچھا کہ اسے یہ ہتھیار کیسا لگا؟؟ ٹینا نے بھی پہلے اپنی آنکھوں کے اشارے سے اسکی تعریف کی اور پھر اپنی زبان کو اپنے ہونٹوں پر پھیر کر اپنی بےتابی کے بارے میں عمران کو بتانے لگی۔

اب ٹینا نے عمران کے کھڑے ہوئے لن کو ایک بار پھر سے اپنے پیروں کے تلووں کے درمیاں لیکر اپنے پیروں سے لن کا مساج شروع کردیا تھا۔ عمران کو بھی اپنے لن کا اسطرح مساج کروانا بہت اچھا لگ رہا تھا ، آج تک کسی نے اسکے لن کا اپنے پیروں سے یوں مساج نہیں کیا تھا۔ ٹینا کے پیر اسکے ہاتھوں کی نسبت سخت تھے اور انکی سختی عمران کے لن کو بھرپور مزہ دے رہی تھی۔ لن کو تلووں کے درمیان پھنسا کر ٹینا اپنے پیروں کو یوں آگے پیچھے گھما رہی تھی جیسے دہی کی لسی بنانے کے لیے اپنے ہاتھوں کے درمیان مدھانی لیکر گھمائی جاتی ہے۔ عمران کے لن کا شافٹ ٹینا کے پیروں کے بیچ میں بہت مزے میں تھا اور اپنے اس مزے کا اظہار اس نے عمران کے لن کے ٹوپے پر چند قطرے نکال کر کر دیا تھا۔ ٹینا کے نظر جب عمران کے ٹوپے پر موجود قطروں پر پڑی تو اس نے اپنے دائیں پیر کے انگوٹھے کو عمران کے لن کے ٹوپے پر مسلنا شروع کر دیا اور مذی کے وہ قطرے عمران کے ٹوپے پر ہی مسل دیے، اسکے بعد دوبارہ سے لن کا شافٹ اپنے پیروں میں دبا کر اسکی لسی بنانا شروع کر دی



عمران جو پہلے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے ڈرائیو کر رہا تھا اب اسکی رفتا بمشکل 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی۔ کیونکہ اب اسکا دھیان سڑک کے ساتھ ساتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان موجود لن پر بھی تھا جسکو ٹینا اپنے خوبصورت پیروں سے کسی مدھانی کی طرح گھما گھما کر عمران کو مزہ دے رہی تھی۔ اب عمران نے مزید مزہ لینے کے لیے ٹینا کے مموں کی طرف اشارہ کیا جو اس نے اپنی چھوٹی شرٹ میں چھپائے تھے۔ عمران کے اشارہ پر ٹینا نے ایک نظر اپنے مموں پر ڈالی اور پھر اپنی شرٹ تھوڑی سے اوپر اٹھا کر اپنا ایک ہاتھ اپنی شرٹ کے اندر ڈال کر اپنے دائیں ہاتھ سے بایاں مما دبانے لگی۔ ٹینا یہ ساری حرکتیں کرتے ہوئے اپنے ہونٹ کو برابر دانتوں میں لیکر کاٹ رہی تھی جس سے اسکے اندر ہونے والی ہلچل اور لن کی طلب کا عمران کو بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ اب ٹینا نے اپنی شرٹ مزید اوپر اٹھا کر اپنے مموں سے اوپر کر لی۔ نیچے سے اب ٹینا کا گہرے نیلے رنگ کا خوبصورت برا نظر آرہا تھا۔ دونوں مموں کے درمیاں برا کے جوڑ پر ایک خوبصورت سا نگینہ لگا ہوا تھا جسکی چمک ٹینا کے مموں کو اور زیادہ خوبصورت بنا رہی تھی۔ عمران کے ایک اور اشارے پر ٹینا نے بغیر برا کی ہُک کھولے اپنا بایاں مما اپنے برا سے باہر نکال لیا۔ جیسے ہی ٹینا کا مما اسکے برا سے باہر نکلا عمران کے لن نے ایک زور دار انگڑائی لی اور اسکا اب دل کر رہا تھا کہ وہ یہیں گاڑی روک کر ٹینا کی چدائی کرے اور اسکی پھدی کی پیاس کو بجھا دے، مگر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسکو جلد سے جلد تانیہ کے ساتھ ملنا تھا جو اس وقت کم سے کم ان لوگوں سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر آگے جا رہی تھی۔

ٹینا اب اپنے ممے کو مسلسل اپنے ہاتھ سے دبا رہی تھی اور اسکے ممے پر چھوٹا سا گلابی رنگ کا نپل دیکھ کر عمران کی زبان از خود باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اپنی زبان کی نوک سے وہ ٹینا کے نپل کر رگڑ رگڑ کر ٹِنا کی گرمی میں مزید اضافہ کر سکے۔ مگر اس وقت وہ نپل عمران کی زبان کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ ٹینا کے پیر اب عمران کے لن کے گرد مضبوط گرفت بنائے اوپر نیچے حرکت کر رہے تھے ، اس حرکت میں تیزی نہیں تھی مگر پیروں کی مظبوط گرفت اور انکی سختی عمران کے لن کو خوب مزہ دے رہی تھی اور وقفے وقفے سے عمران کے لن کی ٹوپی پر منی کے چند قطرے نمودار ہوتے جو دھیرے دھیرے اسکے شافٹ کی طرف بڑھتے اور ٹینا کے پیروں کی رگڑ سے عمران کے لن پر ہی مسلے جاتے۔ کچھ دیر مزید عمران کے لن کر اس طرح مزہ دینے کے بعد ٹینا نے غور کیا کہ ایک اور گاڑی تیزی سے انکے قریب آرہی ہے تو ٹینا نے فوری اپنا مما دوبارہ سے اپنے برا میں چھپا لیا اور اپنی شرٹ بھی نیچے کر لی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ گاڑی تیزی سے ان لوگوں کی گاڑی کو کراس کرتی ہوئی آگے نکل گئی تو ٹینا نے پھر سے اپنے پیروں کو عمران کے لن کے گرد حرکت دینا شروع کر دی۔



اب ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور اپنے گھٹنے اپنی سیٹ پر رکھ کر عمران کی طرف جھکتی چلی گئی، ٹینا کا منہ سیدھا عمران کی گود میں جا کر رکا جہاں 8 انچ کا لمبا اور موٹا تازہ لن ٹینا کا انتظار کر رہا تھا، ٹینا نے اب پہلی بار عمران کا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور اسکی موٹائی اور لمبائی کو چیک کرنے لگی، پھر اس نے تعریفی نظروں سے عمران کی طرف دیکھا اور اپنی زبان نکال کر عمران کے لن کی ٹوپی پو موجود مذی کے قطروں کا نمکین ذائقہ محسوس کرنے لگی ۔ لن پر موجود مذی کو اچھی طرح چاٹنے کے بعد اب ٹینا نے اپنی زبان عمران کی ٹوپی پر موجود چھوٹے سے سوراخ پر گھمانی شروع کر دی جس سے عمران کے لن کو زبردست جھٹکے لگے، یہ عمران کا پہلا تجربہ تھا کہ کسی لڑکی نے اپنی زبان کی نوک ٹوپی پر موجود سوراخ پر گھمائی ہو۔ عمران کے پورے بدن میں ایک بار گد گدی ہوئی اور وہ اپنے مزے کی انتہا پر پہنچ گیا۔ ٹینا کی حرکت عمران کو بہت پسند آئی اور اب وہ اسے انجوائے کر رہا تھا۔ کچھ دیر ایسے ہی کرنے کے بعد اب ٹینا کی زبان عمران کی ٹوپی کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔ عمران کا لن ٹینا کوبہت پسند آیا تھا اور ٹوپی کی بناوٹ تو خاص طور پر اسے بہت اچھی لگی۔

ٹینا نے سر اوپر اٹھایا اور عمران سے پوچھا کہ یہ تمہارے لن کی ٹوپی کافی خوبصورت ہے اور علیحدہ ہی نظر آرہی ہے اجے کی تو ایسی نہیں تھی۔ تو عمران نے اسے بتایا کہ مسلمان خطنے کرواتے ہیں تو اس میں لن کی ٹوپی کی شیپ اسطرح کی بن جاتی ہے۔ یہ سیکس کے لیے بھی اچھی رہتی ہے اور خوبصورت بھی لگتی ہے۔ یہ سن کر ٹینا نے ایک بار پھر اپنی زبان باہر نکال لی اور اب کی بار وہ عمران کی ٹوپی سے زبان پھیرنا شروع کرتی اور اسکے لن کے شافٹ سے ہوتی ہوئی لن کی جڑ تک زبان لے جاتی۔ پھر ٹینا نے اپنے ہونٹوں کو عمران کی ٹوپی پر رکھا اور ہونٹوں میں دبا کر اپنے ہونٹ گول گول گھمانے لگی۔ ٹینا چوپے لگانے میں ماہر تھی اور عمران اسکے چوپوں کو بہت انجوائے کر رہا تھا۔ اسکی ہر ادا عمران کو ایک نیا مزہ دے رہی تھی۔ عمران سمجھ گیا تھا کہ اس 21 سالہ جوان لڑکی میں بہت آگ بھری ہوئی ہے اور اسکی چوت عمران کے لن کو بہت مزہ دینے والی ہے۔

کچھ دیر اپنے ہونٹوں سے عمران کی ٹوپی کو چوسنے کے بعد اب عمران کی ٹوپی ٹینا کے منہ کے اندر تھی جس کی گرمی عمران کو ساتویں آسمان تک پہنچا رہی تھی۔ ٹینا نے ایک ہاتھ عمران کے ٹٹوں کے نیچے رکھ لیا اور اپنی انگلیوں سے اسکے ٹٹوں کو ہولے ہولے دبانے لگی اور دوسرا ہاتھ عمران کے شافٹ پر رکھ کر اسکے شافٹ کو اپنے منہ کے اندر لینے لگی۔ ٹینا بہت مزے سے عمران کا لن چوس رہی تھی عمران کے لن کی لمبائی اور موٹائی دیکھ دیکھ کر ہی ٹینا کو اپنی چوت سے پانی نکلتا محسوس ہو رہا تھا جو اسکی چوت سے ہوکر تھائیز تک آرہا تھا اور اسکی چھوٹی سی نیکر سے باہر نکل کر اسکی گوری گوری تھائیز پر چمک رہا تھا۔

ٹینا نے اب تیز تیز چوپے لگانے شروع کیے تو عمران کی ہلکی ہلکی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں، ٹینا کوشش کر رہی تھی کہ وہ عمران کا پورا 8 انچ کا لن اپنے منہ میں لے جائے مگر بمشکل 5 سے 6 انچ لن ہی ٹینا کے منہ میں جا رہا تھا اور ٹینا جم کر اسکے چوپے لگا رہی تھی۔ گاڑی کی رفتار اب کم ہوتی ہوتی 20 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ چکی تھی اور ہلکا ہلکا اندھیرا بھی ہو رہا تھا۔ عمران سے اب مزید ڈرائیونگ نہیں ہو پا رہی تھی اس نے قریب ہی درختوں کا ایک جھنڈ دیکھ کر گاڑی روک لی اور ٹینا کو گاڑی سے نیچے اترنے کا کہا۔ ٹینا نے عمران کا لن اپنے منہ سے نکالا اور اپنی سائیڈ والا دروازہ کھول کر گاڑی سے نیچے اتر گئی، عمران بھی گاڑی سے نیچے اترا اور اپنا لن ہاتھ میں پکڑے دوسری سائیڈ پر گاڑی کی اوٹ میں کھڑا ہوگیا، روڈ سنسان تھا دور دور کسی گاڑی کی آمدورفت نہیں تھی۔ عمران گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا جبکہ ٹینا اب پیروں کے بل نیچے زمین پر بیٹھ گئی اور عمران کا لوڑا ایک بار پھر سے اپنے منہ میں داخل کر کے اسکے چوپے لگانے لگی۔ عمران نے ٹینا کو اشارہ کر دیا تھا کہ جلدی جلدی چوپے لگا کر عمران کو فارغ کروائے تاکہ وہ دوبارہ سے اپنا سفر شروع کر سکیں



ٹینا نے اب اپنی نیکر کی زپ کھول کر اسے تھوڑا نیچے کر لیا اور اپنی پینٹی سائیڈ پر ہٹا کر اپنی ایک انگلی اپنی چوت میں داخل کر کے اسکو خود ہی چودنے لگی اور دوسرے ہاتھ سے عمران کا لن پکڑے اسکے چوپے لگاتی رہی ۔ ٹینا کی چوت کے اندر ایسی گرمی تھی جیسے کسی تندور میں آگ جل رہی ہو، انگلی ڈالتے ہی اسکی پوری انگلی ٹینا کی چوت کے چکنے پانی سے چپ چپ کرنے لگ گئی تھی مگر وہ مسلسل اپنی انگلی سے اپنی چوت کی چدائی کرنے میں مصروف تھی۔ جبکہ دوسری طرف عمران کا لن اب اپنے مزے کی آخری حدوں کو چھونے لگا تھا۔ ٹینا کے منہ سے بھی اب سسکیاں نکلنا چاہ رہی تھیں مگر منہ میں لن ہونے کی وجہ سے وہ سسکیاں نہیں لے پا رہی تھی، کچھ ہی دیر مزید اپنی چوت میں انگلی گھمانے کے بعد ٹینا کی چوت نے گرم گرم پانی چھوڑ دیا ، پانی چھوڑنے کے دوران ٹینا نے عمران کا لوڑا اپنے منہ سے باہر نکال لیا اور دل کھول کر سسکیاں لینے لگی۔ جب سارا پانی نکل چکا تو ایک بار پھر ٹینا نے عمران کا لوڑا منہ مِں ڈالا اور اس پے چوپے پر چوپا لگانے لگی۔
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


2 منٹ مزید چوپے لگانے کے بعد عمران کو اپنے لن کے اندر منی کا پریشر بڑھتا ہوا محسوس ہونے لگا تو اس نے ٹینا کو بتا دیا کہ وہ چھوٹنے والا ہے، یہ سن کر ٹینا نے لن منہ سے باہر نکالا اور عمران کے ساتھ ہوکر بیٹھ گئی مگر اس نے عمران کے لن کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور اسکی مٹھ مارنے لگی۔ ٹینا دیکھنا چاہتی تھی کہ عمران کے لن سے منی کتنے پریشر کے ساتھ نکلتی ہے۔ کچھ دیر مزید مٹھ مارنے کے بعد عمران کے لن کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور ساتھ ہی اسکے منہ سے آہ ، آہ کی آوازیں بھی نکلنے لگیں اور منی کی ایک گاڑھی اور تیز دھار عمران کے لن کی ٹوپی سے نکلی اور 4، 5 فٹ دور جا کر گری۔ وقفے وقفے سے عمران کے لن نے منی کی دھاریں نکالیں۔ ہر دھار پہلے والی دھار سے قدرے کم ہوتی اور اسکا پریشر بھی پہلے کی نسبت کم ہوتا۔ جب عمران کے لن نے خوب ڈھیر ساری منی چھوڑ دی تو ٹینا نے عمران کے لن کو ایک بار پھر اپنے منہ میں لیا اور اسکی ٹوپی پر لگی ہوئی منی کی چکناہٹ کو چاٹنے لگی۔ ٹینا نے اپنی زبان سے عمران کے لن کو اچھی طرح صاف کر دیا اور پھر عمران کی شارٹس دوبارہ سے اوپر کر کے لن شارٹس کے اندر کر دیا، اور کھڑی ہوکر پہلے اپنی پینٹی کو سیٹ کیا اور پھر اپنی نیکر کی زپ بند کر کے گاڑی میں بیٹھ گئی جبکہ عمران بھی دوسری سائیڈ سے آکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ٹینا کو اپنے قریب کر کے اسکے ہونٹوں پر ایک زور دار کس کی اور دوبارہ سے گاڑی چلانے لگا۔

اب عمران کی گاڑی کی سپیڈ خطرناک حد تک زیادہ تھی وہ 180 کلومیٹر کی رفتار سے ڈرائیو کر رہا تھا، اور گاڑی کی روف اب بند کر دی گئی تھی کیونکہ اتنی رفتار میں ہوا کا پریشر عمران اور ٹینا کے چہروں کا بیڑہ غرق کر سکتا تھا۔ ٹینا نے ایک بار عمران کو تھوڑا آہستہ چلنے کو کہا مگر عمران نے کہا پریشان نہ ہو میں بالکل ریلیکس ہوں اور اس رفتار میں گاڑی چلانا میرے لیے معمول کی بات ہے۔ ٹینا نے پوچھا مگر تم تو کہ رہے تھے کہ تم اپنی گزر بسر کے لیے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے ہو تو پھر گاڑی تمہارے پاس کہاں سے آئی جو تم چلاتے ہو؟؟ عمران نے ٹینا کومسکرا کر دیکھا اور دل ہی دل میں اسکی زہانت کی داد دینے لگا، مگر وہ بھی آخر آئی ڈی آئی کا ایجنٹ تھا، اسکے پاس جواب پہلے سے تیار تھا۔ عمران نے مسکراتے ہوئے ٹینا کو دیکھا اور بولا تمہیں بتایا تھا نہ کہ ایک ویلے میرا دوست ہے۔ تو بس تم جیسی امیر زادیاں جب ڈانس کلب اور نائٹ کلب میں آتی ہیں اور وہاں 2، 3 گھنٹے رکتی ہیں تو میں اپنے دوست سے اپنی پسند کی گاڑی کی چابی لیکر اسکے خوب مزے کرتا ہوں، رات کے وقت تمام روڈز سنسان ہوتے ہیں تو میں دل کھول کر اوور سپیڈنگ کرتا ہوں اور اپنا شوق پورا کر لیتا ہوں۔ اسکے جواب پر ٹینا نے عمران کو مسکرا کر ںاٹی بوائے کہا اور گاڑی میں موجود ٹیپ پر ایک انگلش سونگ لگا دیا اور خاموشی سے وہ سانگ سننے لگی۔


کیپٹن مکیش جو ٹینا سے کافی فاصے پر اسکے پیچھے پیچھے آرہا تھا اس نے اپنے موبائل پر دیکھا کہ میپ میں ان دونوں کے درمیان فاصلہ کم ہورہا ہے، بلکہ اس محسوس ہوا جیسے ٹینا کی گاڑی کسی جگہ رکی ہوئی ہے اور وہ اپنی جگہ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ یہ دیکھ کر مکیش نے اپنی رفتار اور بھی زیادہ بڑھا دی، اسکو ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ مبادہ ٹینا کو انہی غنڈوں نے پکڑ لیا ہو دوبارہ سے، مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس وقت ٹینا عمران کا 8 انچ لمبا لن منہ میں ڈالے اپنی چوت کو سہلا رہی ہے۔ جب یہ فاصلہ بہت تھوڑا رہ گیا اور دونوں کے درمیان محض 5 سے 6 کلومیٹ کا فاصلہ رہ گیا تھا تو ایک بار پھر کیپٹں مکیش نے جی پی ایس پر دیکھا کہ ٹینا کی گاڑی چل پڑی ہے اور اب کی بار دونوں کے درمیان فاصلہ بہت تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ کیپٹن مکیش نے اپنی رفتار مزید بڑھائی تاکہ وہ دیکھ سکے کہ ٹینا خیریت سے ہے یا نہیں مگر فاصلہ مسلسل بڑھ رہا تھا اور کیپٹں مکیش ایک خاص رفتار سے آگے اپنی جیپ کو نا چلا پایا جبکہ ٹینا کی بی ایم ڈبلیو 180 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مکیش سے خاصی دور نکل چکی تھی۔

عمران پچھلے ایک گھنٹے سے کافی تیز رفتاری کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا اسکے ذہن میں مسلسل تانیہ کا خیال تھا اس نے فون پر تانیہ کو تیز رفتاری کے ساتھ جانے کا کہا تھا مگر عمران کو اس چیز کا اندازہ نہیں تھا کہ تانیہ کس رفتار کے ساتھ گاڑی چلا سکتی ہے۔ اس لیے وہ جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا چلا رہا تھا۔ 4 لین والی چوڑی سڑک بالکل خالی تھی ، دور دور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کوئی گاڑی آتی تو عمران کی گاڑی بجلی کی سی رفتار سے اسکو کراس کرتی ہوئی نکل جاتی۔ پھر عمران کو دور ایک گاڑی کے انڈیکیٹر نظر آئے ۔ ایک گاڑی سڑک سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھی اور اسکے دونوں اشارے مسلسل جلتے اور بجھتے دکھائی دے رہے تھے، عمران سمجھ گیا کہ یہ تانیہ کی گاڑی ہوگی، کیونکہ فون پر عمران نے تانیہ کو قریب قریب یہی جگہ بتائی تھی جہاں پہنچتے پہنچتے وہ با آسانی تانیہ کے قریب ہوگا اور تانیہ نے یہاں پہنچ کر گاڑی کے ایک ٹائر سے ہوا نکالنی تھی۔

گاڑی کے اشارے دیکھ کر عمران نے گاڑی آہستہ کرلی تھی، اور پھر کچھ ہی فاصلہ رہ جانے کے بعد عمران سمجھ گیا تھا ہ یہ تانیہ کی ہی گاڑی ہے۔ تانیہ روڈ پر کھڑی ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرنے لگی، عمران نے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تانیہ کی گاڑی کو کراس کیا تو ٹینا ایک دم بولی گاڑی روکو، گاڑی روکو۔۔۔ یہ تو وہی لڑکی ہے۔۔ گاڑی روکو۔ عمران نے گاڑی اسی لیے آہستہ کی تھی تاکہ ٹینا اچھے سے تانیہ کو دیکھ سکے اور پہچان کر خود گاڑی روکنے کا کہے، اگر وہ نہ کہتی تو عمران نے خود ہی کہ دینا تھا کہ بیچاری اکیلی لڑکی لگ رہی ہے اسکی مدد کرنی چاہیے، مگر اسکی نوبت نہیں آئی اور ٹِنا نے ہی عمران کو گاڑی روکنے کا کہ دیا۔ عمران نے گاڑی فوری روکی اور بیک گئیر لگا کر دوبارہ سے گاڑی تانیہ کی گاڑی کے قریب لے آیا۔

گاڑی کو اپنے قریب آتا دیکھ کر تانیہ جو اس وقت ایک لوز شرٹ اور ٹراوزر پہنے ہوئے تھی تھوڑا اگے بڑھی اور گاڑی رکنے پر ٹینا کی دروازے کی طرف آکر تھوڑی سی جھکی ٹینا نے گاڑی کا شیشہ کھولا تو تانیہ نے مسکین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا وہ در اصل میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور میری گاڑی میں اس وقت سٹپنی بھی موجود نہیں کیا آپ میری ہیلپ کر سکتی ہیں؟؟ ٹینا نے مسکراتے ہوئے تانیہ کو دیکھا اور کہا لگتا ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ تانیہ نے اب ٹینا کو غور سے دیکھا اور ایسے ایکٹنگ کی جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو، پھر کچھ دیر کے وقفے سے بولی نہیں میں نے واقعی آپکو نہیں پہچانا۔ تو ٹینا بولی ارے کل رات نائٹ کلب میں آپ نے کیا خوب ڈانس کیا تھا میں بھی وہیں پر تھی، آپ انجلی ہو نا؟ تانیہ کو فوری یاد آیا کہ اس نے سبھاش کو نائٹ کلب میں اپنا نام انجلی ہی بتایا تھا، اس نے شکر کیا کہ کہیں اسے نے فوری اپنا اصل نام تانیہ نہیں بتا دیا۔ ٹینا کی بات سن کر تانیہ بولی کہ ہاں میں انجلی ہی ہوں مگرمجھے یاد نہیں کہ میں آپ سے ملی ہوں۔ یہ سن کر ٹینا نے دروازہ کھولا اور گاڑی سے نیچے اتر آئی ، عمران بھی اپنی سائیڈ والا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا۔ اب کی بار عمران نے آگے بڑھ کر تانیہ سے ہاتھ ملایا اور بولا جی انجلی جی ہم آپکی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ انجلی نے اب کی بار عمران سے کہا کہ اسکی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور گاڑی میں سٹپنی بھی نہیں ہے، میں نہیں جانتی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ رات کا ٹائم ہونے والا ہے اور میں نے سفر بھی بہت لمبا کرنا ہے۔

انجلی کی بات سن کر عمران بولا کہ کہاں جانا ہے آپ نے؟ تو انجلی نے کہا میں گوا جا رہی ہوں۔ اور آپکو پتا یہاں سے قریب 7 گھنٹے کا سفر ہے۔ انجلی کی بات سن کر عمران بولا ارے ہم بھی گوا جا رہے ہیں، آپ ہمارے ساتھ ہی چلیں کیونکہ اب اس گاڑی پر تو آپ نہیں جا سکتیں۔ یہ سن کر ٹینا نے بھی انجلی کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دے دی، اور انجلی تھوڑی سی ڈرامہ بازی کرنے کے بعد راضی ہوگئی کونکہ پلان یہی تھا کہ تانیہ آگے گوا تک ٹینا اور عمران کے ساتھ جائے گی۔ مزید عمران نے انجلی کو کہ دیا کہ گاڑی کی آپ فکر نہ کریں میرا ایک دوست پاس ہی ایک گاوں میں رہتا ہے میں اسکو فون کر دوں گا وہ آپکی گاڑی لے جائے گا اور گاڑی کا کام کروا کر جہاں آپ کہیں گی وہاں گاڑی پہنچا دے گا۔ اسکے بعد انکار کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ انجلی نے جلدی جلدی اپنا کچھ ضرور سامان جس میں ایک کپڑوں کا بیگ تھا اور ایک ٹفن باکس جس میں انجلی نے گھر سے نکلتے ہوئے اپنے لیے کھانا ڈال لیا تھا اٹھا کر ٹینا کی گاڑی میں رکھا۔ اور پیچھے والی سیٹ پر دروازہ کھول کر بیٹھ گئی

عمران نے ٹینا کو کہا کہ اب وہ ڈرائیو کرے تو ٹینا فوری ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی اور عمران ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ٹینا دھیمی رفتار کے ساتھ گوا کی طرف روانہ ہوگئی۔ گاڑی روانہ ہونے کے بعد عمران نے انجلی سے موبائل مانگا تو ٹینا نے کہا میرا موبائل استعمال کر لو، مگر عمران نے انجلی کا ہی موبائل لیا کیونکہ وہ ٹینا کا موبائل لیکر کسی مصیبت میں نہیں پھنسنا چاہتا تھا، کیا معلوم ٹینا کے موبائل سے کی جانے والی کالز ریکارڈ ہورہی ہوں۔ عمران نے انجلی سے موبائل لیکر امجد کو کال کی مگر اسکا نمبر آف جا رہا تھا، پھر عمران نے ایک اور نمبر پر رابطہ کیا اور ایک نامعلوم شخص کو جسکا عمران نے نام نہیں لیا گاڑی کی لوکیشن اور اسکے نمبر کے بارے میں بتا کر کہا کہ اسکو فی الحال کسی محفوظ مقام پر پہنچا دے، پھر وہ بعد میں فون کر کے بتا دے گا کہ گاڑی کہاں پر چاہیے۔ یہ کہ کر عمران نے فون واپس انجلی کو دے دیا۔

عمران اب گاڑی میں بیٹھا انجلی سے باتیں کرنے لگا اور اسکے بارے میں پوچھنے لگا، انجلی بھی اسکو اپنے بارے میں ایسے بتا رہی تھی جیسے دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو بالکل بھی نہ جانتے ہوں۔ کچھ دیر بعد ٹینا نے انجلی سے پوچھا کہ وہ گوا کس سلسلے میں جا رہی ہے تو انجلی نے کہا کوئی خاص کام نہیں، ماما پاپا ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں وہ بوریت ختم کرنے کے لیے گوا جا رہی ہے۔ ٹینا نے پوچھا کہ ساتھ کوئی بوائے فرینڈ وغیرہ یا کوئی دوست، انجلی کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی کہ بس بوائے فرینڈ کو اپنے بزنس سے فرصت نہیں میرے لیے اسکے پاس ٹائم ہی نہیں اس لیے میں اکیلی ہی جا رہی ہوں۔ کافی دیر تینوں مختلف ٹاپکس پر باتیں کرتے رہے ، 3 گھنٹے بعد ٹینا نے عمران کو ڈرائیو کرنے کو کہا اور انجلی کو اگلی سیٹ پر بلا کر خود پچھلی سیٹ پر جا کر لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر میں اسکی آنکھ لگ گئی۔ عمران نے آنکھوں ہی آنکھوں میں انجلی کو اشارہ کر دیا تھا کہ ٹینا سے ہوشیار رہے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے اسے پتہ لگے کہ ہم پہلے سے ایکدوسرے کو جانتے ہیں۔

دوسری طرف کیپٹن مکیش اپنی طرف سے جتنا تیز ٹینا کا پچیھا کر سکتا تھا کر رہا تھا۔ مگر پھر بھی اسکی رفتار عمران کے گاڑی چلانے کی رفتار سے بہت کم تھی۔ کچھ دور جا کر ایک دم بریکوں کی زبردست آواز آئی۔ کیپٹن مکیش نے روڈ کے کنارے پر ایک گاڑی کھڑی دیکھی تھی جو اسکو جانی پہچانی لگی۔ اسکو دیکھ کر کیپٹن نے فل بریک لگائی تھی۔ اصل میں کیپٹن نے گاڑی تو پہلی بار دیکھی تھی مگر اسکی نمبر پلیٹ دیکھ کر کیپٹن کی چھٹی حس نے اسے فورا نہرو نگر میں ملنے والے شخص کی یاد دلائی، جو نمبر اس نے بتایا تھا شاید وہی نمبر اس گاڑی کا تھا۔ کیپٹن کی گاڑی اس گاڑی سے کافی آگے جا کر رکی، کیپٹن نے فورا اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنی گن ہاتھ میں پکڑے اپنی گاڑی کی اوٹ لیکر کھڑا ہوگیا اور پچھے کھڑی تانیہ کی گاڑی کو دیکھنے لگا، تھوڑی ہی دیر میں کیپٹن مکیش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ گاڑی کے آس پاس یا اندر کوئی نہیں ہے، وہ پھر بھی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے تھوڑا جھک کر چلتا ہوا گاڑی تک گیا اور چاروں اطراف کا جائزہ لینے کے بعد گاڑی کا دراوزہ کھول کر اندر دیکھا جہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا، گاڑی کا نمبر اب کیپٹن مکیش پڑھ چکا تھا اور اسکو یقین تھا کہ یہ وہی گاڑی ہے جسکے بارے میں تانیہ کے گھر کے باہر شخص نے بتایا تھا کہ ایک لڑکی بڑی جلدی میں اس گاڑی میں بیٹھ کر نکلی تھی۔ مگر اس وقت گاڑی میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسکو دیکھ کر کیپٹن مکیش یہ اندازہ لگا سکے کہ آخر گاڑی میں کون کون تھا اور اب وہ لوگ کہاں ہیں۔ کیپٹن مکیش نے فوری قریبی تھانے کا نمبر لیکر وہاں فون کیا اور پولیس کو بلا لیا جو 10 منٹ میں ہی پہنچ گئی۔ پولیس نے گاڑی قبضے میں لے لی اور تھانے لے گئے جبکہ کیپٹن مکیش دوبارہ سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گوا کی طرف چل دیا۔ اب اسکو ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ ٹینا کے انتظار میں تو نہیں کھڑے تھے؟؟؟


کیپٹن نے فورا اپنا فون نکالا اور ٹینا کو کال ملائی ٹینا نے تھوڑی ہی دیر کے بعد فون اٹینڈ کیا تو کیپٹن مکیش نے پوچھا ٹینا میم آپ ٹھیک ہیں؟ تو ٹینا نے کہا ہاں میں ٹھیک ہوں ، مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ کیپٹن مکیش نے کہا میڈیم آپکے اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی مجھے راستے میں ملی ہے، وہ خالی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ راستے میں آپکو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ٹینا نے پوچھا کہ کونسی جگہ پر ملی ہے تمہیں وہ گاڑی، کیپٹں مکیش نے اپنی لوکیشن بتائی تو ٹینا نے آگے بیٹھی انجلی کو گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ کیپٹن مکیش نے مزید کچھ تفصیل بتائی تو ٹینا نے کہا پریشانی کی کوئی بات نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے راستے میں ایسا کچھ محسوس نہیں ہوا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہو۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون بند کر دیا مگر وہ آگے بیٹھی انجلی کو گھور رہی تھی۔

عمران کے کان ٹینا کے فون کی طرف ہی تھی، کال بند ہوتے ہی عمران نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ ٹینا نے بتایا کہ وہی کیپٹن کا فون تھا جس کو پاپا نے بھیجا ہے میری حفاظت کے لیے۔ ۔ عمران نے پوچھا کیا کہ رہا تھا وہ ؟ تو ٹینا نے بتایا کہ وہ بتا رہا تھا مجھے اغوا کرنے والے غنڈوں نے جس گاڑی کا استعمال کیا تھا وہ اسکو راستے میں ملی ہے۔ اور وہ وہی جگہ بتا رہا ہے جہاں سے ہم نے انجلی کو پِک کیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ٹینا کی نظروں میں کچھ خوف اور شک کے ملے جلے تاثرات تھے۔ عمران بھی ایک دم ٹھٹک گیا تھا کیونکہ اسکے اندازے کے مطابق اسکے لوگ ابھی تانیہ کی گاڑی تک نہیں پہنچے ہونگے اس سے پہلے ہی کیپٹں مکیش جو ان سے کچھ ہی فاصلے پر آرہا تھا وہ اس گاڑی تک پہنچ گیا، اسکو کیسے پتا لگا کہ یہ گاڑی تانیہ یا میجر دانش کے استعمال میں تھی۔ مگر اس نے اپنی اس سوچ کو کچھ دیر کے لیے پسِ پشت ڈال دیا اور ٹینا سے بولا کم آن ڈارلنگ، تمہارے اس کیپٹن کا بھی دماغ خراب ہے۔ جس گاڑی میں تمہیں وہ غنڈے ڈال رہے تھے وہ تو سوزوکی ماروتی تھی، جبکہ انجلی کے پاس ہنڈا سِٹی ہے۔ اور تم نے خود بھی دیکھی ہی تھی وہ گاڑی جس میں غنڈے تمہیں ڈالنا چاہ رہے تھے۔ وہ یہ انجلی والی گاڑی ہرگز نہیں تھی۔ کیپٹن بس کرنل صاحب کو خوش کرنا چاہتا ہے یہ بتا کر کے اس نے ان غنڈوں کی گاڑی پکڑ لی ہے لہذا اب جلد ہی وہ غنڈے بھی پکڑے جائیں گے۔

عمران خود بھی جانتا تھا کہ اسکی دی گئی یہ تسلی کچھ خاص کارگر نہیں ہوگی۔ اور ہوا بھی یونہی تھا۔ ٹینا عمران کی بات سے مطمئن نہیں ہوئی تھی ، انجلی کو بھی احساس ہوگیا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے، اب وہ ٹینا کی طرف دیکھتی ہوئی بولی، یہ کیا مذاق ہے، کیا اس نے میری گاڑی پکڑ لی ہے؟؟؟ اور یہ غںڈوں کا کیا چکر ہے؟؟؟ میں ابھی پاپا کو فون کرتی ہوں کہ وہ پتا کریں یہ کیا چکر ہے۔ یہ کہ کر انجلی نے ایک نمبر ملایا اور پھر آگے سے فون اٹینڈ کرنے والے کو پاپا کہ کر بلایا اور اسے اپنی گاڑی کے بارے میں بتانے لگی کہ اس طرح کسی کیپٹن نے اسکی گاڑی پکڑ لی ہے پتہ کریں وہ میری ہی گاڑی ہے یا کسی اور کی گاڑی ہے، اور اگر میری ہے تو اپنے کسی دوست کو بھیج کر وہ گاڑی واپس کروائیں بھلا ہمارا غنڈوں سے کیا تعلق۔ یہ کہ کر انجلی نے فون بند کر دیا۔ اس سے ٹینا قدرے مطمئن ہوئی کہ ہو سکتا ہے اسی جگہ پر کوئی اور گاڑی مل گئی ہو کیپٹن مکیش کو اور یہ وہ گاڑی نہ ہو جو انجلی کی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے ٹینا سیٹ پر لیٹ گئی اور سوگئی


امجد کی جب آنکھ کھلی تو اسکے چاروں طرف اندھیرا تھا، اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہے۔ اس نے زور زور سے اپنی آنکھوں کو جھپکا اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا تو آہستہ آہستہ اسکی آںکھیں جو نجانے کب سے بند تھیں کمرے میں موجود روشنی سے مانوس ہونے لگیں اور کچھ ہی دیر میں اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ ایک بند کمرے میں موجود ہے جہاں اسکو ایک کرسی کے ساتھ باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ امجد نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بری طرح ناکام ہوگیا، اسکے دونوں پاوں کو لوہے کے راڈز کے ساتھ باندھا ہوا تھا جب کے اسکے دونوں بازوں کو کرسی کے پیچھے لیجا کر نائلون کی رسیوں سے مضبوطی کے ساتھ باندھا ہوا تھا۔ امجد نے ادھر ادھر گردن گھما کر پورے کمرے کا جائزہ لیا مگر کمرے میں اسکے علاوہ اور کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ امجد کے ذہن میں کاشف کا خیال آیا جو اسکے ساتھ ہی تھا جب آرمی کے جوانوں نے امجد کو گرفتار کیا اور انکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں بٹھایا اس وقت بھی امجد کو کاشف کے ساتھ ہونے کا احساس تھا مگر کب اسکے سر میں کوئی وزنی چیز لگی اور وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا، اسکے بعد اب آنکھ کھلی تو کاشف کو نا پاکر امجد پریشان ہوگیا تھا۔

وہ سمجھ گیا تھا کہ اب وہ بڑی مشکل میں پھنس چکا ہے کاشف سے علیحدہ پوچھ گچھ ہوگی اور امجد سے علیحدہ، اس صورتحال میں ننانوے فی صد امکان موجود تھا کہ دونوں کہ بیانات میں تضاد ہوگا جسکی وجہ سے آرمی کا ان پر شک یقین میں بدل جائے گا۔ امجد اپنے ذہن پر زور دے رہا تھا کہ آخر اس سے کہاں پر غلطی ہوگئی کہ آرمی نے اسے اس طرح سے ڈھونڈ نکالا مگر اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اس سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ ایک بار اسکا دھیان ڈانس کلب کی ریسیپشن پر موجود شخص کی طرف بھی گیا مگر پھر اس نے سوچا بھلا وہ کیوں ہماری مخبری کرے گا اور اسے کیا معلوم ہمارے بارے میں وہ تو بس مجھے اور تانیہ کو ہی جانتا ہے اور تانیہ بھی اسکے نزدیک ایک پروفیشنل ڈانسر کے علاوہ کچھ نہیں جو محض چند پیسے کمانے کے لیے اپنے جسم کے جلوے دکھانے ڈانس کلب کا رخ کرتی ہے۔ مگر امجد کو معلوم نہیں تھا کہ اصل میں تانیہ کے ڈانسر ہونے کی وجہ سے ہی وہ اس مصیبت میں پھنسا ہے۔ تانیہ نے جو اپنے حسن کے جلوے کیپٹن مکیش کو دکھائے تھے اور اسکے بعد میجر دانش کا کیپٹن کے روپ میں سفر کرنا ہی اصل فساد کی جڑ بنا۔

کافی دیر تک امجد کمرے میں ادھر ادھر تکتا رہا ، کمرے میں اسکے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا اور نہ ہی اسکی کرسی کے علاوہ کوئی اور سامان موجود تھا۔ ابھی امجد سوچ ہی رہا تھا کہ آگے چل کر اسکے ساتھ کیا ہوگا کہ اچانک اسکو ایک دلخراش چیخ سنائی دی۔ چیخ کی آواز سنتے ہی امجد کے کان کھڑے ہوگئے کہ اتنے میں ایک اور بلند چیخ اسکو کانوں میں پڑی۔ امجد کے ماتھے پر اب پسینے کے قطرے نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے کیونکہ یہ چیخ کسی اور کی نہیں بلکہ اسکے ساتھی کاشف کی تھی۔ امجد سمجھ گیا کہ کاشف کے ساتھ تحقیقات شروع ہوچکی ہیں اور اس وقت تشد د کے ذریعے اس سے سچ اگلوانے کی کوشش کی جارہی ہوگی۔ امجد جانتا تھا کہ کاشف ایک سخت جان انسان ہے مگر وہ کرنل وشال کا تشدد کب تک برداشت کر سکے گا اس بارے میں امجد فکر مند تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کرنل وشال کے سامنے بڑے بڑے سورما سچ اگل دیتے ہیں تو کاشف کیا چیز ہے۔

گو کہ امجد جانتا تھا کہ اب اسکی باری بھی آنے ہی والی ہے مگر اسکو پھر بھی اپنے سے زیادہ کاشف کی فکر تھی ۔ مزید 15 منٹ تک کاشف کی کوئی آواز سنائی نہ دی۔ اس دوران امجد کاشف کے بارے میں فکر مند تو تھا ہی مگر ساتھ ساتھ وہ اپنے ذہن میں بھی ایک کہانی بنانے میں مصروف تھا کہ اس سے کس طرح کے سوالات کیے جائیں گے اور اس نے ان کے کس طرح سے جواب دینے ہیں۔ امجد ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسے اپنے کمرے کے باہر تیز تیز قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ امجد تیار ہوگیا کہ اب کی بار تشدد سہنے کی باری امجد کی ہے۔ اتنے میں کمرے میں موجود واحد دروازہ کھلا اور جو چہرہ امجد کو سب سے پہلے نظر آیا وہ کسی اور کانہیں بلکہ کرنل وشال کا چہرہ تھا۔ امجد کے خیال کے برعکس کرنل وشال کے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی اور وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ اسکے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر امجد کے ذہن میں پہلا ہی خیال یہ آیا کہ شاید کاشف کرنل کے تشدد کو برداشت نہیں کر پایا اور سب کچھ اگل دیا ہے۔ کرنل کے پیچھے ایک لڑکی اور ایک 40 سالہ شخص بھی تھے، لڑکی کے ایک ہاتھ میں چمڑے کا ہنٹر تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں ایک ڈبہ نما باکس تھا جس میں نجانے کیا چیزیں موجود تھیں جبکہ دوسرے شخص کے ہاتھ میں ایک کرسی تھی جو اس نے پھرتی کے ساتھ کرنل کے اندر پہنچنے سے پہلے ہی آگے بڑھ کر امجد کے سامنے رکھ دی اور کرنل بڑے فاتحانہ انداز میں اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ کرنل نے اپنی ٹانگیں اوپر اٹھا کر پھیلا لیں اور امجد کی ٹانگوں پر تضحیک آمیز انداز میں رکھ دیں۔ کرنل نے اپنا دایاں پاوں بائیں پاوں کے اوپر رکھا تھا جس سے کرنل کے بوٹ امجد کے چہرے سے کچھ ہی فاصلے پر موجود تھے اور جوتوں کی بدبو امجد کے ناک کے نتھنوں تک با آسانی پہنچ رہی تھی۔


کرنل وشال نے مسکراتے ہوئے امجد کو دیکھا اور بولا سردار جی اب بتاو اب کونسا بہانہ بناو گے؟ کل کیسے دوبارہ اسی گیس سٹیشن پر پہنچ گئے، پہلے تو اس دہشت گرد دانش نے تمہیں بندی بنایا ہوا تھا مگر کل پھر سے تم اسی گیس سٹیشن پر موجود تھے۔ یہ سن کر امجد کو کچھ حوصلہ ہوا کہ کاشف نے کچھ نہیں بتایا کیونکہ کرنل نے اب بھی امجد کو اسی نام سے مخاطب کیا تھا جو اس نے پہلی بار پکڑے جانے پر بتایا تھا۔ امجد نے مسکین سا چہرہ بناتے ہوئے کہا سر جی اس دن جب آپکے آدمی نے مجھے پٹرول پمپ سے واپس گھر جانے کو بولا تھا تو میں تو سمجھا مصیبت ٹل گئی ہے وہ دہشت گرد پکڑا گیا ہوگا، مگر اگلے دن پھر سے مجھے اس کی کال آگئی کہ اپنے کسی دوست کو لو اور اسکو میری طرح کا حلیہ دے کر دوبارہ سے اسی گیس سٹیشن پر جا کر اس سردار کو تنگ کرو ورنہ تمہارے گھر والوں کی خیر نہیں۔ میں تو جی اسی کے کہنے پر اپنے اس بیچارے دوست کو لیکر اس گیس سٹیشن پر چلا گیا تھا تاکہ میرے گھر والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


امجد کی بات ختم ہوئی تو کرنل اب بھی مسکرا کر امجد کو دیکھ رہا تھا جبکہ پیچھے کھڑی لڑکی اور دوسرا شخص بھی ظنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے امجد کو دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک دم سے کرنل وشال کے چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے غصے نے لے لی اور اس نے لڑکی کو ایک اشارہ کیا جس پر اس نے آگے بڑھ کر اپنی پوری طاقت سے چمڑے کا ہنٹر امجد کی پیٹھ پر دے مارا اور پھر فورا ہی اس لڑکی نے دوسرا وار کیا اور اب کی بار ہنٹر امجد کی گردن کے پچھلے حصے پر نشان چھوڑ گیا۔ پھر اس لڑکی نے ایک اور وار امجد کی گردن پر کیا مگر اس بار اس وار میں پہلے والی طاقت نہیں تھی، جسکی وجہ سے ہنٹر گردن پر زیادہ زور سے تو نہ لگا مگر لمبے ہنٹر نے امجد کی گردن کے گرد پھندا بنا لیا۔ ہنٹر امجد کی گردن کے گرد لپٹ گیا تھا اور تب اس لڑکی نے زور سے ہنٹر واپس اپنی طرف کھینچا تو امجد کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا اور اسکی آنکھیں باہر آہنے لگیں۔ اب کی بار کرنل وشال نے ایک قہقہ لگایا اور بولا امجد صاحب آپکے دوست کاشف نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ آپکی گیم ختم ہوگئی ہے۔ بس اب اتنا بتا دو کہ اس وقت تمہارا ساتھی میجر دانش اور وہ لڑکی تانیہ کہاں پر ہیں؟؟؟ اور تمہارا ایک تیسرا ساتھی سرمد بھی ہے جو اب تک کاشف کے بتائے ہوئے ایڈریس کی مدد سے پکڑا جا چکا ہوگا۔

کرنل کی بات ختم ہوئی تو لڑکی نے اپنا ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا اور آگے بڑھ کر امجد کی گردن کے گرد سے اپنا ہنٹر علیحدہ کر لیا اور پھر سے پیچھے ہوکر کھڑی ہوگئی۔ امجد کی آںکھوں میں اب بے یقینی کے اثرات تھے۔ اسکا شک درست ثابت ہوا تھا کہ کاشف سب کچھ اگل چکا ہے۔ کیونکہ اب کی بار کرنل نے امجد کو اسکے اصل نام سے بلایا تھا ساتھ میں اسنے کاشف کا نام بھی لیا اور سرمد کا نام بھی جو اس وقت جونا گڑھ میں موجود تھا اور تو اور کرنل نے تانیہ کا نام بھی لیا جو اس وقت میجر دانش کے ساتھ کہیں موجود تھی۔ امجد سمجھ چکا تھا کہ اب واقعی انکی گیم ختم ہوگئی ہے اور اب کچھ بھی جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ امجد نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے کیونکہ جھوٹ بولنے پر تشدد ہونا تھا اور آخر میں کرنل نے امجد اور کاشف دونوں کو مار دینا تھا سچ بتانے کی صورت میں بھی کرنل نے ان دونوں کو مارنا ہی تھا مگر اس طرح اسکے تشدد سے نجات مل سکتی تھی۔

امجد نے سپاٹ چہرے کے ساتھ کرنل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا بس مجھے ایک گلاس پانی پلا دو۔ امجد کی بات سن کر کرنل نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ فوری کمرے سے باہر گئی اور کچھ ہی دیر کے بعد واپس کمرے میں آئی تو اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس موجود تھا۔ اس نے آتے ہی وہ گلاس امجد کے ہونٹوں سے لگا دیا اور اسکے اوپر انڈیل دیا ، پانی امجد کے چہرے پر گر گیا ، کچھ تو اسکے منہ میں گیا مگر زیادہ پانی اسکے چہرے اور گردن پر گر گیا۔ مگر اس تھوڑے سے پانی نے بھی امجد کو کچھ حوصلہ دیا تھا اور اسکا خشک گلا اب کچھ بولنے کے قابل ہوا تھا۔ اب کی بار امجد بولا کہ میں یہ تو نہیں جانتا کہ میجر دانش اس وقت کہاں ہے مگر۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ لڑکی کا ہاتھ ایک بار پھر گھوما اور اسکا ہنٹر امجد کے جسم پر موجود قمیص کو پھاڑتے ہوئے اسکے سینے پر اپنے نشان چھوڑ گیا۔ گو کہ امجد ایک سخت جان انسان تھا اور بہت بار وہ انڈین آرمی کے ظلم و ستم برداشت کرتا رہا تھا مگر یہ ہنٹر والا تشدد اس پر پہلی بار ہورہا تھا اور نجانے اس ہنٹر میں ایسا کیا تھا کہ جسم پر چھوٹے چھوٹے نشان بنتے جا رہے تھے۔ شاید کچھ باریک نوکیلی شے ہنٹر میں موجود تھی جو جسم میں کسی ڈنک کی طرح پیوست ہورہی تھیں۔ امجد کی برداشت جواب دے گئی تھی اور اس ہنٹر پر ایک زور دار چیخ سے کمرہ گونج اٹھا۔ اب امجد کو احساس ہوگیا تھا کہ آخر کاشف کیوں نہ برداشت کر پایا تھا یہ تشدد۔


امجد نے کچھ دیر توقف کے بعد پھر سے اپنے لب کھولے اور بولا یہ تھیک ہے کہ میجر دانش میرے ساتھ تھا اور میں خود ہی اسے اپنے گھر لے کر گیا تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت وہ کہاں پر ہے میں نہیں جانتا۔ لڑکی کا ہاتھ ایک بار پھر ہوا میں لہرایا مگر اس بار کرنل وشال نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو روک دیا۔ کرنل کو شاید امجد کی بات میں سچائی نظر آرہی تھی۔ اب کی بار کرنل نے امجد سے پوچھا یہ بتاو کہ تم نے میجر دانش کو میری قید سے کیسے آزاد کروایا؟؟؟ کرنل کی بات سن کر امجد نے کہا مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال ریسیو ہوئی تھی اور بھاٹیا سوسائٹی میں موجود ایک بلڈنگ کا ایڈریس دیا تھا جہاں سے ایک قیدی کو چھڑوانا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔ مجھے اسکے عوض 10 لاکھ روپے ملے تھے ۔ کرنل نے امجد کی بات کاٹی اور بولا فون پر تمہیں کس نے کہا تھا قیدی کو چھڑوانے کا؟؟ تو امجد نے کہا میں اسے نہیں جانتا، مجھے تو بس پیسوں کی آفر ہوئی اور سارے پیسے ایڈوانس مل گئے تھے اس لیے مِں فوری راضی ہوگیا۔

اب کی بار کرنل نے اپنا ہاتھ لڑکی طرف بڑھایا تو لڑکی نے اپنا ہنٹر کرنل کو پکڑا دیا، کرنل نے دو بار ہنٹر کو ہوا میں لہرایا تو شاں شاں کی آوازیں دل کو دہلانے لگیں۔ کرنل نے اب کی بار ہنٹر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں کیسے مان لوں کہ آئی ڈی آئی والے اتنے نا تجربہ کار ہیں کہ وہ کسی بھی انجان شخص کو اپنے میجر کو چھڑوانے کا ٹاسک دے سکتے ہیں؟؟؟ یہ کہتے ہوئے کرنل کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔ جیسے وہ یہ کہ رہا ہو کہ امجد اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن امجد نے پورے اعتماد کے ساتھ دوبارہ کہا کہ آئی ڈی آئی میں میری شہرت ہے، میرے یہاں انڈیا میں ہر بڑے شہر میں انڈر ورلڈ گینگ کے ساتھ تعلقات ہیں اور میں ماضی میں بھی آئی ڈی آئی کے لیے کام کرتا رہا ہوں، میں انکے لیے انجان نہیں ہوں، وہ مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں میرے ہر ہر ٹھکانے سے واقف ہیں مگر وہ لوگ میری لیے انجان ہی ہیں۔ نہ تو وہ کبھی کھل کر سامنے آئے ہیں میرے اور نہ ہی کبھی کسی نے میرے سے ملاقات کی ہے۔ اب کی بار کرنل کو امجد کی بات میں سچائی نظر آئی تھی۔ کرنل نے مزید پوچھا کہ پھر تم نے کیسے چھڑوایا میجر دانش کو؟؟


اب کی بار امجد نے پوری سچائی سے کرنل کو بتادیا کہ اس نے میجر دانش کو نہیں چھڑوایا بلکہ میجر دانش خود ہی اسکی قید سے نکل بھاگا تھا، ہم نے اپنی ایک ساتھی لڑکی تانیہ کو اس بلڈنگ کا معائنہ کرنے کے لیے بھیجا تھا تو اس نے وہاں کچھ گہما گہمی دیکھی تھی اور اسے محسوس ہوا تھا کہ شاید یہاں کوئی حادثہ پیش آیا ہے، اور اس سے پہلے کہ ہماری ساتھی ہمارے پاس واپس آتی ہمیں اس بلڈنگ کی طرف سے ایک نوجوان شخص ہانپتا اور بھاگتا ہوا اپنی طرف آتا دکھائی دیا اور پھر پیچھے سے آنے والی تانیہ کی گاڑی کی وجہ سے وہ جھاڑیوں میں چھپ گیا، ہمیں شک ہوا اس پر تو ہم نے اسے وہیں گھیر لیا اور وہیں ہمیں پتہ لگا کہ یہ مجر دانش ہے جو خود ہی اس بلڈنگ سے نکل بھاگا تھا۔ ہم تو ابھی پلاننگ ہی کر رہے تھے کہ آخر اس بلڈنگ میں کیسے داخل ہوں اور کیسے میجر دانش کو صحیح سلامت وہاں سے نکالیں۔ مگر ہمارے کچھ کرنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے نکل بھاگا تھا۔

اب کرنل کو یقین ہوگیا تھا کہ امجد سچ بول رہا ہے کیونکہ اتنا تو وہ بھی جان گیا تھا کہ کیسے سنیہا کے ساتھ سیکس کرنے کے بعد میجر دانش نے اسکو وہیں مار دیا تھا اور پھر باقی 2 لوگوں کو مار کر سیکورٹی کیمروں کے ناکارہ بنا کر وہ بلڈنگ سے اکیلا ہی نکل بھاگا تھا۔ یہ سب اس نے خود سیکیورٹی کیمروں کی ویڈیو میں بھی دیکھ لیا تھا۔ اب کرنل نے پھر سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاو کہ وہاں سے نکلنے کے بعد تم اسے کہاں لیکر گئے تھے۔ اور کیسے ہمارے ہاتھوں سے بچتے رہے؟؟؟ اس سوال کے جواب میں امجد نے تھوڑا سا جھوٹ بولا کہ جیسے ہی وہ ہمارے ساتھ گاڑی میں گیا اس نے ہم سے ایک پسٹل مانگا اور ہم نے اسے پسٹل دیا تو اس نے ہماری ہی ساتھی تانیہ کی گردن پر پستول رکھ کر ہمیں اپنی مرضی سے مختلف علاقوں میں گھماتا رہا۔ آگے کی ساری پلاننگ وہ خود ہی کرتا رہا ہمیں صرف حکم دیتا تھا کہ اب یہاں جاو اور اب وہاں جاو۔ ہماری ساتھی تانیہ ابھی بھی اسکے قبضے میں ہے اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہے۔

اب کی بار کرنل کا ہاتھ گھوما اور امجد کے بازو اور کمر سے قمیص کو پھاڑتا ہوا ہنٹر شائیں کی آواز کے ساتھ امجد کے جسم میں کسی چھری کی طرح لگا۔ کرنل نے اپنی پوری طاقت سے ہنٹر گھمایا تھا اور اب امجد کے جسم سے خون رسنے لگا تھا۔ امجد کچھ دیر کراہتا رہا اور پھر بولا میں صحیح کہ رہا ہوں آپکو، سردار کا حلیہ اپنانے کا مشورہ بھی اسی کا تھا، اسکے بعد میں نے جامنگر سے جونا گڑھ جانے والا راستے پر جو آپکو جگہ دکھائی تھی جہاں میں نے ان دونوں کو چھوڑا تھا وہ بھی سچ تھا۔ میں نے میجر دانش کو بالکل اسی جگہ پر چھوڑا تھا اور اسکے بعد وہ کہاں گئے میں نہیں جانتا۔ مگر میرا خیال تھا کہ جس گاوں کی طرف آپ گئے وہاں وہ مل جائیں گے۔ مگر ایسا بھی نہ ہوا۔ جونا گڑھ پہنچ کر جب آپکے بھیجے ہوئے شخص نے مجھے واپس جانے کو بولا تو اسکے بعد ایک بار پھر میجر دانش نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا اورمجھے چپ چاپ جونا گڑھ میں رکنے کو کہا، مگر پھر اسی دن شام کو اس نے مجھے واپس جامنگر آنے کو بولا۔ اور ساتھ میں ایک ساتھی کو لینے کو کہا جسکا حلیہ اس نے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے ایسا بنا دیا کہ جلدی میں دیکھنے پر میجر دانش کا ہی گمان گزرے۔ کرنل وشال نے کہا اسکے لوگ جنہوں نے کاشف کا میک اپ کیا وہ کون تھے؟؟؟


امجد نے کہا وہ انہیں بھی نہیں جانتا، اسی گیس سٹیشن سے کچھ پہلے انہیں ایک گاڑی ملی جسکے بارے میں دانش نے پہلے ہی بتا دیا تھا اسی گاڑی میں وہ لوگ موجود تھے انہوں نے کاشف کا میک اپ کیا اور فوری وہاں سے چلے گئے۔ اسکے بعد ہم دونوں اس گیس سٹیشن پر گئے اور جیسے ہی وہاں کے مالک نے ہمیں پہچانا ہم بھاگ نکلے اور اس ڈانس کلب میں جا کر آرام کرنے لگے جہاں سے آپ نے ہمیں پکڑا ہے۔ اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ کرنل کو اب امجد کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین آنے لگا تھا کیونکہ اس میں زیادہ تر امجد نے ہر بات سچ بتائی تھی البتہ وہ یہ جانتا تھا کہ دانش اور تانیہ اس وقت ممبئی میں ہیں مگر کرنل سے اس نے اس بات کو چھپا لیا تھا۔ ۔ ۔ کرنل نے اب وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اور جاتے جاتے امجد کو بولا کہ اگر کل تک تم نے نہ بتایا کہ میجر دانش اور تمہاری ساتھی تانیہ کہاں ہیں تو مرنے کے لیے تیار رہنا۔ یہ کہ کر کرنل وہاں سے نکل گیا اور امجد اب اپنی موت کا انتظار کرنے لگا۔ کیونکہ اگر وہ بتا دیتا کہ میجر دانش کہاں ہے تب بھی کرنل نے اس کو مارنا ہی تھا، جب دونوں صورتوں میں مرنا ہی ہے تو امجد نے بہتر سمجھا کہ میجر دانش اور تانیہ کی زندگی کو بچانے کی آخری کوشش کرنا بہتر ہے چاہے اسکے نتیجے میں خود موت کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے



ٹینا کے سوجانے کے بعد بھی انجلی اور عمران نے ایکدوسرے سے زیادہ فری ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ دونوں نے سرسری طور پر ادھر ادھر کی باتیں کی جیسے 2 انجان لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ عمران کو اس بات کا پورا خیال تھا کہ کہیں ٹینا سونے کا ڈرامہ نہ کر رہی ہو اور اگر اس کو اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ انجلی اور عمران یعنی تانیہ اور میجر دانش ایکدوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں تو ان دونوں کے لیے بہت مشکلات کھڑی ہوجائیں گی اور پھر انکا کرنل وشال سے بچنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ راستے میں انجلی نے اپنا لنچ باکس کھول کر اس میں سے خود بھی پلاو کھلایا اور عمران کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھلایا کیونکہ وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور کہیں رکنے کا چانس وہ لینا نہیں چاہتا تھا رات بہت ہو رہی تھی اور کیپٹن مکیش بھی ان سے محض ایک گھنٹے کی دوری پر انکے پیچھے آرہا تھا ایسے میں گاڑی روکنے کا رسک لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا عمران کا۔

رات کے کوئی ایک بجے کے قریب وہ گوا کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ اب ٹینا کی بھی آنکھ کھل چکی تھی اور وہ فون پر کسی سے بات کر کے اپنے اور عمران کے لیے گوا کے ساحل پر ہی ایک ہٹ بک کروا چکی تھی اس بکنگ کے لیے اس نے خاص طور پر اپنے پاپا کرنل وشال کا ریفرنس استعمال کیا تھا۔ ساحل کے قریب وی آئی پی قسم کے یہ ہٹس بہت ہی رومانٹک انداز میں بنائے گئے تھے جو عام لوگوں کو نہیں ملتے تھے یا پھر بہت ہی زیادہ ریٹس پر ملتے تھے۔ اپنے لیے بکنگ کروا کر ٹینا نے انجلی سے پوچھا کہ وہ کہاں رکے گی تو انجلی نے اسے بتایا کہ وہ کسی خاص ہوٹل کے بارے میں نہیں جانتی، جو بھی گوا کا بہترین ہوٹل ہے وہاں اسے ڈراپ کر دے تو بہت مہربانی ہوگی۔ یہ سن کر ٹینا نے گوا کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں فون کی اور وہاں بھی ایک کمرہ انجلی کے لیے بک کروا لیا۔

کچھ ہی دیر کے بعد عمران نے اپنی گاڑی ایک فائیو سٹار ہوٹل کی پارکنگ میں روکی اور انجلی کے گاڑی سے اترنے پر گاڑی واپس لیجانے لگا تو ٹینا بولی ارے صبر تو کرو اتنی جلدی بھی کیا ہے انجلی کو اسکے روم تک تو چھوڑ آئیں۔ یہ کہ کر ٹینا گاڑی سے نیچے اتر آئی اور عمران بھی گاڑی سے نیچے اتر کر انجلی اور ٹینا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ ریسیپشن پر پہنچ کر ٹینا نے اپنا تعارف کروایا اور بک کروائے گئے روم کے بارے میں معلوم کیا اور انجلی نے اپنے ہینڈ بیگ سے پیسے نکال کر ریسیپشن پر ادا کیے۔ انجلی کے پاس کوئی خاص سامان تو نہیں تھا مگر پھر بھی ایک ویٹر نے فوری آگے بڑھ کر انجلی اسے اسکے ہاتھ میں موجود ہینڈ بیگ اور کچھ دوسرا چھوٹا سامان اور ایک چھوٹا بیگ پکڑ لیا اور انجلی کے کمرے کی طرف چلنے لگا، باقی تینوں بھی ویٹر کے پیچھے پیچھے جانے لگے۔ پانچویں منزل پر جا کر ویٹر لفٹ سے نکلا اور انجلی کے روم نمبر 507 کی طرف جانے لگا۔ ٹینا بھی اسکے پیچھے پیچھے جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص آتا دکھائی دیا جسے دیکھتے ہی ٹینا نے ہیلو انکل کی آواز لگائی، عمران نے اس شخص کو غور سے دیکھا تو ایک بار اسکے چہرے پر ناگواری کے واضح آثار دکھائی دیے مگر فورا ہی اس نے اپنی ناگواری کو خوش اخلاقی میں بدل لیا اور چہرے پر ایک مسکراہٹ سجا لی



اس شخص نے ٹینا کو دیکھا تو پہلے حیرت اور پھر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹینا سے ملا اور بولا کیسی ہے ہماری بیٹی؟؟ ٹینا نے بھی بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ اس شخص سے ہاتھ ملایا اور بولی کہ میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کہاں کی سیریں کر رہے ہیں؟؟؟ وہ شخص بولا بس سوچا ذرا گوا کی خوبصورتی ہی دیکھ لیں یہ کہتے ہوئے اسکی نظریں انجلی کی طرف تھیں۔ ٹینا نے فوری انجلی کا تعارف کروایا انکل یہ میری دوست ہے انجلی، بہت اچھی ڈانسر ہے اور ان سے ملیے یہ میرے دوست ہیں عمران۔ انجلی اور عمران نے آگے بڑھ کر اس شخص سے ہاتھ ملایا پھر ٹینا نے اس شخص کا تعارف بھی انجلی اور عمران سے کروایا۔ عمران تو پہلے ہی پچان گیا تھا مگر انجلی نہیں جانتی تھی کہ وہ کون ہے۔ یہ پاکیشا کے صوبے ہولستان کے مکھیہ منتری تھے۔ یعنی وہاں کے وزیرِ اعلی۔

ان دونوں سے ملنے کے بعد اس شخص نے جسکا نام اکبر لوکاٹی تھا ٹینا سے پوچھا کہ وہ کہاں ٹھہری ہے تو ٹینا نے عمران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں تو انکے ساتھ بیچ پر ایک ہٹ بک کروا چکی ہوں البتہ میری دوست انجلی یہیں رہے گی روم نمبر 507 میں ۔ لوکاٹی نے یہ بات سن کر انجلی کی طرف دیکھا اور بولا پھر تو آپ سے تفصیلی ملاقات ہوگی، انجلی نے بھی خوش اخلاقی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا جی کیوں نہیں آپ جیسے بڑے لوگوں سے ملنا تو ویسے ہی میری خواہش تھی، بہت اچھا ہوا جو آج آپ سے ملاقات ہوگئی۔ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہوگی اگر آپ جیسی شخصیت اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت مجھ ناچیز کے لیے بھی نکالے۔ یہ سن کر اس شخص نے ایک قہقہ لگایا اور بولا اجی آپ جیسی خوبصورت لڑکی کے لیے تو کوئی بھی بڑے سے بڑا شخص وقت نکال سکتا ہے ہم کیا چیز ہیں۔ چلیں پھر آپ سے کچھ دیر میں ملاقات ہوتی ہے میں کچھ ضروری کام سے نیچے ریسیپشن تک جا رہا ہوں۔ یہ کہ کر اکبر لوکاٹی اپنے 2 سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ لفٹ کے ذریعے نیچے چلا گیا جبکہ ٹینا نے انجلی کو اسکے روم 507 تک پہنچا دیا اور پھر عمران کے ساتھ واپس نیچے آئی جہاں اکبر لوکاٹی کسی سے فون پر بات کر رہا تھا، ٹینا نے دور سے ہی بائے بائے کا اشارہ کیا اور عمران کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اپنی گاڑی کی طرف چل دی


تانیہ کو میجر دانش نے ممبئی میں جب فون کیا تھا تو اسنے وہیں بتا دیا تھا کہ انکا اصل مقصد وہاں ہولستان کے وزیرِ اعلی سے ملاقات کرنا ہے اور تانیہ کو میجر دانش نے یہ ذمہ داری دی تھی کہ وہ کسی بھی طرح اکبر لوکاٹی سے قریب ہوکر اسکے اگلے پلان کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ ہوا کے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی اکبر لوکاٹی سے ملاقات ہوگئی اور وہ 70 سالا بوڑھا ٹھرکی بھی فورا ہی تانیہ پر فدا ہوگیا تھا۔ تانیہ جانتی تھی کہ اب آگے اسے کیا کرنا ہے۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے سب سے پہلے اپنا سامان ایک الماری میں رکھوایا، اس میں ایک ہینڈ بیگ اور ایک چھوٹا سا بیگ تھا جسمیں تانیہ کے کچھ کپڑے تھے۔ اپنا سامان الماری میں رکھوانے کے بعد تانیہ فورا فریش ہونے کے لیے واش روم میں چلی گئی۔ واش روم میں جا کر تانیہ نے اپنے کپڑے اتارے اور شاور کھول کر اسکے نیچے کھڑی ہوگئی۔ گوا کے حبس والے موسم میں شاور سے نکلتا ٹھنڈا پانی جب تانیہ کے بدن پر گرا تو اس سکون مل گیا۔ لمبے سفر کی تھکاوٹ اور گوا کی گرمی سے تانیہ کافی تھک چکی تھی مگر شاور لیتے ہی اسکے جسم میں دوبارہ سے جان آگئی۔ 15 مننٹ تک تانیہ مسلسل شاور کے نیچے کھڑی رہی اور ٹھنڈَ ٹھنڈے پانی سے اپنے جسم کی گرمی کو نکالتی رہی اس دوران تانیہ نے واش روم میں پڑے عرقِ گلاب کو بھی اپنے جسم پر اچھی طرح ملا جس سے نہ صرف اسکے جسم سے پسینے کی وجہ سے آنے والی بدبو ختم ہوگئی بلکہ اب تانیہ کا جسم گلاب کی طرح مہکنے لگا تھا۔

اچھی طرح شاور لینے کے بعد تانیہ نے شاور بند کیا اور گیلے بدن کے ساتھ ہی واش روم سے نکل آئی۔ باہر نکل کر تانیہ نے اپنے کپڑوں والا بیگ نکالا اور اس میں سے سرخ رنگ کا انڈر وائیرڈ برا نکال لیا جس کے کپ کا اوپر والا حصہ جالی کا اور نیچے والے حصے میں رنگ ڈلا ہوا تھا جو بریسٹس کی شیپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ رنگ کی وجہ سے بوبوس کو سپورٹ ملتی ہے اور برا دونوں مموں کو آپس میں ملا کر رکھتا ہے جس کی وجہ سے کلیویج لائن بہت خوبصورت بنتی ہے۔ یہ برا نکال کر تانیہ نے پہن لیا اور دونوں ہاتھ پیچھے لیجا کر اسکی ہُک بھی بند کر لی اسکے بعد اپنے برا میں ہاتھ ڈال کر اپنے مموں کو تھوڑا اوپر اٹھایا اور برا کو سیٹ کیا تاکہ سینے کے ابھار واضح ہو سکیں اور کلیویج لائن بھی سیکسی بن جائے۔ اسکے بعد تانیہ نے اسی رنگ کی ایک پینٹی نکال لی۔ جی سٹرنگ پینٹی کا پچھلا حصہ تانیہ کے چوتڑوں کی لائن میں گم ہوگیا اور اسکے چوتڑوں کا گوشت دعوتِ نظارہ دینے دینے لگا جبکہ پینٹی کا اگلا حصہ جو پھدی کو چھپانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس پر ایک چھوٹا سا خوبصورت سا پھول بنا ہوا تھا۔

اپنے آپ کو شیشے میں دیکھنے کے بعد تانیہ نے دل ہی دل میں اپنے خوبصورت بدن کی تعریف کی اور پھر اپنے بیگ میں سے ایک نائٹی نکال کر زیب تن کر لی۔ ہلکے سبز رنگ کی یہ نائٹی بہت ہی خوبصورت تھی اور تانیہ کے خوبصورت جسم پر اور بھی قیامت ڈھا رہی تھی۔ نائٹی میں تانیہ کے سینے کے ابھار بہت واضح نظر آرہے تھے جبکہ جسم کا اوپری حصہ یعنی کندھے اور سینہ بالکل ننگا تھا محض نائیٹی کی 2 سٹرپس تھیں جن کی وجہ سے ریشمی نائٹی تانیہ کے ریشمی بند پر رکی ہوئی تھی۔ نیچے سے سائیڈ کٹ نائیٹی تانیہ کی خوبصورتی میں اور اضافہ کر رہی تھی۔ سائیڈ کٹ نائیٹی تانیہ کی دائیں ٹانگ پر گھٹنے تک جبکہ بائیں ٹانگ پر اسکی ہاف تھائیز تک تھی۔ تانیہ کی ٹانگیں بالوں سے باکل پاک تھیں نرم اور ملائم ریشمی ٹانگیں کسی بھی مرد کی نیت خراب کرنے کے لیے کافی تھیں۔ ان سب پر قیامت ، یہ نائٹی نیٹ کی تھی، نیٹ بہت زیادہ باریک نہیں تھی مگر پھر بھی غور سے دیکھنے پر نائٹی کے اندر چھپا تانیہ کا حسین مخملی بدن دیکھا جا سکتا تھا۔ سرخ پینٹی کا بھی ہلکا سا شیڈ نائیٹی سے نظر آرہا تھا جس سے نائیٹی کے اوپر سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اس خوبصورت حسینہ نے سرخ رنگ کی نائیٹی پہن رکھی ہے


تانیہ کے بال ابھی تک گیلے تھے، اس سے پہلے کہ وہ اپنے بالوں کو سکھا کر ان میں کنگھا کرتی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ تانیہ جانتی تھی کہ اس وقت کون ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس نے شیشے کے سامنے کھڑے کھڑے ہی اونچی آواز میں کہا کم اِن۔ تانیہ کی پیٹھ پیچھے دروازہ آہستہ آہستہ کھلا اور پھر اسی طرح آہستگی کے ساتھ بند ہوگیا۔ پھر تانیہ کو ہلکے ہلکے قدموں کی آواز سنائی دی ، وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اکبر لوکاٹی ہی ہے۔ پھر جیسے ہی آنے والا شخص مزید آگے بڑھا تانیہ کو شیشے میں اسکا چہرہ دکھائی دیا۔ یہ اکبر لوکاٹی ہی تھا۔ تانیہ پر نظر پڑتے ہی لوکاٹی جیسے پتھر کا ہوگیا تھا، تانیہ نے بھی ایک دم سے پیچھے مڑ کے دیکھا اور حیرانگی کا ڈرامہ کرتے ہوئے بولی ارے لوکاٹی صاحب آپ۔۔۔ میں سمجھی ویٹر ہوگا۔ یہ کہ کر تانیہ آگے بڑھی اور لوکاٹی کو پاس پڑے صوف پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ذرا شرمندہ ہوتے ہوئے بولی کہ میں نے سوچا اب آپ نہیں آئیں گے کافی رات ہوگئی تھی اس لیے میں سونے کی تیاری کر رہی تھی۔ اسی لیے نائٹ ڈریس پہن لیا تھا، آپ بیٹھیں میں بس 5 منٹ میں چینج کر کے آئی۔ لوکاٹی بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اتنی حسین و جمیل لڑکی جسکو وہ کچھ دیر پہلے دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اسکے جسم کے ابھار کیسے ہونگے، وہ اب اسکے سامنے نائٹی پہنے کھڑی ہے اور لوکاٹی اسکو کپڑے چینج کرنے دے۔ لوکاٹی جو صوفے پر بیٹھ رہا تھا انجلی یعنیی تانیہ کی بات سنتے ہی دوبارہ سے کھڑا ہوگیا اور مسکراتے ہوئے بولا ارے نہیں نہیں انجلی جی، یہ ظلم مت کیجیے گا، اس نائٹ ڈریس میں آپ کسی حسن کی دیوی سے کم حسین نہیں لگ رہیں، ہمیں بھی یہ اعزاز بخشیں کہ ہم آپکے اس خوبصورت سراپے کا نظارہ کر کے اپنی آنکھوں کو خیرہ کر سکیں۔ انجلی پھر سے تھوڑا ہچکچائی اور بولی وہ اصل میں مجھے عجیب سا لگ رہا ہے اس حلیے میں آپکے سامنے آنا۔۔۔ اسکی ہچکچاہٹ دیکھتے ہوئے لوکاٹی بولا آپ حکم کریں ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ پھر مسکراتے ہوئے بولا انجلی جی اب ایسا بھی کیا شرمانا ہم سے۔ ہم آپکو کھا تھوڑی ہی جائیں گے بس چند لمحے آپکے پاس بیٹھ کر آپکو جاننے کی کوشش کریں گے، کچھ اپنے بارے میں بتائیں گے کچھ ہنسی مذاق کی بات کریں گے، پھر ہم اپنے کمرے میں واپس کیونکہ آپ بھی کافی تھکی ہوئی معلوم ہورہی ہیں۔

اب انجلی تھوڑی نارمل ہوئی اور بولی اچھا چلیں آپ بیٹھیں میں نےبہت لمبا سفر کیا ہے اور کافی بھوک لگی ہے، کیا آپ میرے ساتھ کچھ کھانا پسند کریں گے؟؟ لوکاٹی جو اب انجلی کے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اور صوفے کے کارنر سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکا تھا بولا کسی بھی چیز کی طلب نہیں ما سوائے اگر آپکے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے ایک جام مل جائے تومزہ آجائے گا۔ یہ بات کرتے ہوئے لوکاٹی کی نظریں انجلی کی نائیٹی کو پھاڑ کر اسکےجسم پر موجود برا کو بھی ہٹا کر اسکے مموں کو دیکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں اور انجلی نے بھی اسکی نظروں کی گرمی کو اپنے مموں پر محسوس کر لیا تھا مگر اس نے اس پر کوئی رسپانس نہیں دیا اور محض لوکاٹی کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اٹھ کر ساتھ موجود فریج میں سے اپنے لیے کوک کا ایک ٹِن پیک اور ساتھ کچھ بسکٹ اٹھا لیے جب کہ لوکاٹی کے لیے ایک جام بنا کر اسکو پیش کر دیا۔ انجلی جب لوکاٹی کو جام پیش کرنے کے لیے تھوڑی سی نیچے جھکی تو اسکے نازک سے برا نے انجلی کے 36 سائز کے وزنی مموں کا وزن اٹھانے سے انکار کر دیا اور اسکے ممے کافی حد تک برا سے باہر نکل آئے۔ لوکاٹی کے لیے تو یہ نظارہ کسی جام سے بھی زیادہ نشیلہ تھا ، اسکا دل کیا کہ بڑھ کر ان خوبصورت مموں پر اپنے ہاتھ رکھ دے اور ساری دنیا کو بھول جائے مگر وہ اس کام میں اتنی جلدی نہیں کرنا چاہتا تھا، انجلی کے برا سے باہر نکلے ہوئے مموں پر نظریں جمائے اس نے انجلی سے جام پکڑا اور صوفے پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

انجلی واپس کھڑی ہوئی اور ایک شیطانی مسکراہٹ سے لوکاٹی کو دیکھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انکو تھوڑا سا ہلا کر صحیح کیا تاکہ وہ دوبارہ سے برا کے اندر جا کر لوکاٹی کی نظروں سے چھپ سکیں اور اسکو ترسا سکیں۔ یہ حرکت کرنے کے بعد انجلی دوبارہ جا کر اپنے صوفے پر بیٹھ گئی اور کوک کا ٹِن پیک اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔ تھوڑی سی کوک پینے کے بعد انجلی نے آہستہ آہستہ بسکٹ کھانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ لوکاٹی سے باتیں بھی کرتی جارہی تھی۔ انجلی اب ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر بیٹھی تھی جس کی وجہ سے اسکی ایک ٹانگ کی تھائی قریب قریب ساری ہی ننگی تھی اور اسکی یہ گوری گوری تھائی لوکاٹی کی پینٹ میں موجود لن کو سر اٹھانے پر مجبور کر رہی تھی اور کسی حد تک اسکی پینٹ کا ابھار بھی واضح ہونا شروع ہوگیا تھا۔ باتیں کرتے کرتے انجلی نے اپنا سرسری سا تعارف کروایا اور اسکے بعد لوکاٹی سے پاکیشا اور خصوصا اسکے صوبے ہولستان کے بارے میں پوچھنے لگی۔ لوکاٹی جو وہاں کا وزیرِ اعلی تھا اس نے بھی اپنے علاقے کی مشہور چیزوں کے بارے میں بتایا، وہاں کے خوبصورت علاقے اور وہاں کے رہن سہن کے بارے میں بتایا۔ اس دوران انجلی اپنی کوک اور لوکاٹی اپنا جام ختم کر چکا تھا



انجلی نے جب دیکھا کہ لوکاٹی کا جام ختم ہوگیا ہے تو وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اسکے ہاتھ سے جام پکڑ کر دوبارہ فریج کے پاس گئی، وہاں جا کر ایک جام اور بنایا، اس میں آئس کیوبز ڈالے اور دوبارہ سے لوکاٹی کے سامنے آکر اسکو جام پیش کیا۔ اس دوران انجلی ایک بار پھر جھکی اور پہلے کی طرح پھر سے اسکے ممے نازک سے برا سے نکلنے کی ضد کرنے لگے، کافی حد تک ممے باہر نکل بھی آئے جس پر لوکاٹی کی نظریں گڑھ چکی تھیں مگر انجلی کے نپلز ابھی تک برا کے اندر ہی تھے جنکو دیکھنے کے لیے لوکاٹی بے تاب ہورہا تھا۔ لوکاٹی نے انجلی کے ہاتھ سے جام پکڑا تو انجلی ایک بار پھر سے سیدھی ہوئی اور دوبارہ سے اپنے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انکو ہلکا سا دبایا تاکہ ممے دوبارہ برا کے اندر جا سکیں۔ اس دوران لوکاٹی نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی نظریں انجلی کے ان خوبصورت مموں سے نہیں ہٹائیں تھیں۔ انجلی نے بھی ایک شرمیلی سی مسکراہٹ سے لوکاٹی کو دیکھا اور بولی وہ اصل میں نائٹ ڈریس پہن رکھا ہے نا تو لوز ہونے کی وجہ سے بریسٹ باہر نکلتے ہیں۔ انجلی کے منہ سے اتنی بولڈ بات سن کر تو لوکاٹی کے لن نے پوری طرح اپنا سر اٹھا لیا جسکو انجلی نے بھی دیکھ لیا تھا۔ پھر انجلی واپس اپنی سیٹ پر جانے لگی مگر پھر رک گئی اور بولی اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں یہیں بیٹھ جاوں؟؟؟ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ لوکاٹی فورا سیدھا ہوگیا اور انجلی کو اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی۔ انجلی بڑے ہی نازک انداز سے لوکاٹی کی دائیں سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ انجلی نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر صوفے پر موڑ کر رکھ لی جب کہ دوسری ٹانگ نیچے ہی رہی، ٹانگ فولڈ کرنے پر اب انجلی کی بائیں ٹانگ کا کچھ حصہ لوکاٹی کی دائیں ٹانگ اور تھائی کے اوپر تھا۔ لوکاٹی بھی اب اندازہ لگا چکا تھا کہ انجلی ایک بولڈ لڑکی ہے جس پر چانس مارنے میں کوئی حرج نہیں، اسی لیے اس نے فوری طور اپنا اپنا جام بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا اور اپنا دایاں ہاتھ ہولے سے انجلی کی ٹانگ پر رکھ دیا۔ نرم و ملائم مخملی ٹانگ پر ہاتھ رکھا تو لوکاٹی کے پورے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا۔ اتنی ملائم بالوں سے پاک اور گرم تھائی پر ہاتھ رکھتے ہی لوکاٹی جیسے میچور آدمی کو معلوم ہوگیا تھا کہ انجلی میں بہت گرمی ہے جسکو کچھ ہی دیر میں لوکاٹی کا لن نکلانے کی کوشش کرے گا۔

انجلی نے بھی اپنا ایک ہاتھ لوکاٹی کے کندھے پر رکھ دیا اور بولی لیکن میں نے سنا ہے کہ آپکے صوبے میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی بہت چل رہی ہیں۔ لوکاٹی نے کن اکھیوں سے انجلی کو دیکھا اور بولالگتا ہے آپکو سیاست میں کافی انٹرسٹ ہے۔ انجلی مسکرائی اور بولی یہ تو کوئی خاص بات نہیں، روازنہ کے نیوز بلیٹن میں پاکیشا میں ہونے والی علیحدگی پسند تحریکوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اور اس میں سب سے زیادہ ہولستان کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ بلکہ میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ وہاں کے لوگ ہندوستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں؟؟



اب کی بار لوکاٹی نے تھوڑا سیریس موڈ بناتے ہوئے کہا کہ ہاں تم ٹھیک کہ رہی ہو ، جب ہماری حکومت ہمارے ساتھ نا انصافی کرے گی ہمارے حقوق ہمیں نہیں دے گی تو ہمارے لوگ اپنے حقوق لینے کے لیے احتجاج تو کریں گے ہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ لوکاٹی کی بات مکمل ہونے پر انجلی نے پوچھا مگر آپ تو وہاں کے وزیرِ اعلی ہیں، آپ کیوں نہیں حل کرتے لوگوں کے مسائل۔ بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ آپ خود بھی ہندوستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں اور وہاں ہونے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینے میں بھی آپکا اہم کردار ہے۔ یہ کہتے ہوئے انجلی کے لبوں پر ایک مسکراہٹ تھی۔ لوکاٹی نے کچھ دیر توقف کیا اور انجلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا رہا، پھر بولا یہ بات تو کسی نیوز بلیٹن میں نہیں بتائی گئی۔ اس پر انجلی نے ایک ہلکہ سا قہقہہ لگایا اور بولی ٹینا کسی نیوز بلیٹن سے کم ہے کیا؟ کل ہم دونوں انکل وشال کی کچھ تصویریں دیکھ رہے تھے تو اس میں آپکی تصویر بھی آئی اور میں نے جب ٹینا سے آپکے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے تفصیل سے یہ باتیں بتائیں تھیں۔ بلکہ اسکا کہنا تو تھا کہ آپکا یہاں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے ہماری حکومت سے بات چیت کر سکیں اور انکے مسائل حل کرنے کے لیے ہندوستان کی حکومت آپکی مدد کرے۔

لوکاٹی نے اب کی بار مسکراتے ہوئے کہا کہ اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کرنا غلط ہے کیا؟؟؟ اس پر انجلی بولی، ارنے نہیں میں نے ایسا کب کہا۔ بلکہ میں تو آپ سے متاثر ہوئی ہوں کہ اپنے لوگوں کو حقوق دلوانے کے لیے آپ اپنے ملک کے کرپٹ حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہیں ، اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایک وزیرِ اعلی کو یہی کرنا چاہیے کہ اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے کسی بھی حد تک جائے۔ اگر آپ اپنے لوگوں کو انکے حقوق نہیں دلوا سکتے تو آپکو کوئی حق نہیں کے آپ اس صوبے پر حکمرانی کریں۔ اب لوکاٹی تھوڑا نارمل ہوا، کچھ اس پر ہلکا ہلکا شراب کا نشہ بھی طاری ہوگیا تھا، دوسرا جام بھی وہ خالی کر چکا تھا۔ وہ اب انجلی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ہاں یہ بات صحیح ہے کہ میں ان تحریکوں کی پشت پناہی کرتا ہوں۔ اور میری پوری کوشش ہوگی کہ میں ہولستان کو پاکیشا سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ریاست بنا سکوں، یا پھر کم سے کم ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر سکوں۔ اور اس کوشش میں کافی حد تک میں کامیاب بھی ہوچکا ہوں۔ میری عوام میرے ساتھ ہے، بس پاکیشا کی آرمی میرے راستے کا پتھر ہے۔ اگر ہندوستان کی حکومت اور آرمی مل کر پاکیشا کی آرمی کو دہشت گردی اور طالبان کے خلاف الجھائے رکھے اور پاکیشا کی آرمی کی توجہ ہولستان سے ہٹ جائے تو میں کسی بھی وقت یہ اعلان کر سکتا ہوں اور تب فوری طور پر ہندوستان کی حکومت ہماری مدد کے لیے اپنی افواج کو ہولستان میں داخل کر دے گی پھر پاکیشا بے بس ہوگا وہ ہمارے خلاف کچھ نہیں کر سکے گا۔ اور اس کام میں امریکہ اور اسرائیل بھی ہمارے ساتھ ہیں، جیسے ہی میں اعلان کروں گا، سب سے پہلے اسرائیل اور پھر امریکہ ہماری آزاد حیثیت کو تسلیم کر کے عالمی سطح پر ہماری آزادی کو قانونی حیثیت دے دیں گے
Post Reply