Shaadi ka wada

Post Reply
User avatar
rajsharma
Super member
Posts: 15829
Joined: 10 Oct 2014 07:07

Shaadi ka wada

Post by rajsharma »

Shaadi ka wada


شادی کا وعدہ انسپکٹر شاہد نے فون کا ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف ایک نوجوان نسوانی آواز آئی۔ آسیہ بول رہی ہوں جناب۔ جی فرمائیے؟ شاہد نے پوچھا۔ آپ نے گزشتہ رات جوئے کے اڈے سے میرے چھوٹے بھائی کو پکڑا تھا حالانکہ وہ جواری نہیں اڈے کے مالک کا ملازم ہے۔ اسکی عمر صرف پندرہ برس ہے ابھی تو وہ بچہ ہے۔ اگر وہ بچہ ہے تو شاید آپ بھی ابھی بچی ہیں؟ شاہد نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ نہیں میری عمر اٹھارہ سال ہے اور میں انٹر کر چکی ہوں۔ آسیہ کی آواز آئی۔اس کے جواب پر شاہد بے اختیار مسکرا دیا۔ مگر آپ کے جواب سے تو لگتا ہے کہ آپ ابھی معصوم بچی ہیں۔ نہیں تو آپ شک آکر دیکھ لیں۔میری اسناد پر تاریخ پیدائش۔ اچھا آپ کسی کے ہاتھ ثبوت بھیج دیں۔ شاہد نے یوں ہی مذاقاً کہا۔ کس کے ہاتھ بھیجوں گھر میں میرے سوا کوئی نہیں ہے والد فوت ہو چکے ہیں والدہ نابینا ہے۔ آپ خود آجائیں یا کسی ملازم کو بھیج دیں۔ لیکن مہربانی کرکے آصف کو چھوڑ دیں۔ شاہد نے مسکراتے ہوئےکہا اس کی آپ فکرمت کریں۔کیونکہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کی گارنٹی یا سفارش قبول نہیں کی جاسکتی کیاآپ گارنٹی دے سکتی ہیں؟ کیوں نہیں لیکن گارنٹی کے لئے آپ کو یہاں آنا ہوگا۔آسیہ نے کہا۔ ٹھیک ہے اس وقت دس بج رہے ہیں میں سادہ لباس میں ساڑھے دس بجے تک آپ کے گھر پہنچ جاوں گا۔تاکہ مجھے وردی میں دیکھ کر لوگ صورت حال دریافت کرنے کیلئے وہاں جمع نہ ہوجائیں۔پھربھی آپ کی شکل دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں گے کہ آپ پولیس کے آدمی ہیں اسلئے آپ عقبی گلی سے آئیں گھر کا ایک دروازہ اس گلی میں بھی ہے۔ آسیہ بولی۔ البتہ گلی میں کوڑے کرکٹ کی بدبو آپ کو برداشت کرنا پڑے گی۔ گھر کا ایڈریس بتاوں؟ نہیں آصف سے معلوم کرچکا ہوں۔ شاہد نے مسکراتے ہوئ؁ کہا اس نے فون کا رسیور رکھا پھر یونیفارم اتار کر سادہ لباس پہنا اور سب انسپکٹرکی موٹر سائکل لے کر آسیہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیاجو پی آی بی کالونی کی ایک گلی میں واقع تھا۔ عقبی گلی سنسان پڑی تھی۔ اس میں جابجا غلاظت اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پڑے تھے۔ انسپکٹر شاہد فرنٹ سے مکان کا محلِ وقوع دیکھ کر اس گلی میں آیا تھا۔ اس نے دروازے پر دبائو ڈالا تو وہ کھل گیا۔ اندر مکان کا صحن تھا۔جس میں سامنے برآمدے میں ایک خوبصورت لڑکی کھڑی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ شاہد نے دروازہ بند کرکے کنڈی لگائی اور آگے پڑھتے ہوئے اس لڑکی کا غور سے جائزہ لینے لگا جو یقیناً آسیہ تھی۔ آسیہ نے سفید لون کا شلوار کرتا پہنا ہوا تھا۔ اسکی رنگت سفید اور رخسار مکھن کے پیڑوں کی طرح ابھرے ہوئے تھے۔ ہونٹ رس سے بھرے سنگترے کی قاشیںلگ رہے تھےجس پر گلابی لپ اسٹک لگائی گئی تھی۔ خوبصورت کشادہ آنکھوں میں کاجل کی دھاریں نظر آرہی تھیں۔ کرتے کے نیچے سیاہ رنگ کے بریزئیرمیں اس کے سینے کے ابھار سرکش چٹانوں کی طرح تنے ہوئے تھے بالائی بٹن کھلے ہوئے تھے جن سے گریبان کشادہ ہوگیااوروہاں سے اس کے مخروطی نوکیلے ابھاروں کی قوسیں جھانک رہی تھیں۔ آئیے انسپکٹر صاحب قریب پہنچنے پر آسیہ نے دلکش آواز میں کہا بہت انتظار کروایاآپ نے پورے نصف گھنٹے سے کھڑی ہوں یہاں۔ اوہ میں تو ٹھیک وقت پر پہنچا ہوں ۔ آپ بے شک گھڑی دیکھ لیں۔ شاہد نے گھڑی والا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور آسیہ نے اس کا ہاتھ اپنے نازک ہاتھوں میں لے لیا۔ آپ کی گھڑی دیکھوں یا اپنے دل کا اضطراب؟جو اندیشوںکا شکار ہورہا ہے کہ آپ کو راستے میں کوئی حادثہ پیش نہ آگیاہو۔ دیکھئے کتنی بری ظرح پھڑک رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شاہد کا ہاتھ اپنے سینے کے بائیں ابھار پر رکھ دیا۔ شاہد کے بدن میں کرنٹ سا دوڑ گیا جبکہ آسیہ کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔ اس نے آسیہ کے مخروطی ابھاروں پر ہاتھ پھیرا۔ ہاں آپ کا دل بہت تیز چل رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے اس کے ابھاروں کو مٹھی میں لے کر دبایا۔آہ آپ کے ہاتھ سے تو اور تیز ہوگیاہے۔ وہ سسکاری لے کر بولی۔ آئیے اندر چل کر باتیں کرتے ہیں۔ شاہد کا ہتھیار شلوار میں کھڑا ہوچکا تھا۔ وہ اس کے پیچھے چلا تو اس کے بھاری گداز کولہوں کی حرکت دیکھ کراس کا دورانِ خون اور تیز ہوگیا تین کمروں کا گھرتھا۔ وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی جو ڈرائنگ روم معلوم ہوتا تھا اس نے پلٹ کر صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ تشریف رکھیں انسپکٹر صاحب، شاہد بیٹھ گیا اور وہ کمرے سے نکل گئی چند لمحوں بعد واپس آئی تو ہاتھ میں کوک کوک کی بوتل تھی۔ لیجئے گرمی بہت ہورہی ہے اس نے بوتل شاہد کے سامنے میزپررکھی۔ پھر اس کے پاس ہی بیٹھ کر اپنے گریبان کا آخری بٹن کھول دیا۔اس کے ابھاروں کے نصف دائرے نظر آنے لگے اور شاہد نے بےچین ہوکر بوتل منہ سے لگالی اس کی نگاہیں آسیہ کے کھلے گریبان سے نظر آنے والے ابھاروں پر مرکوز تھیں۔ چند گھونٹ لے کر اس نے بوتل میز پر رکھ دی۔ آپ کی امی کہاں ہیں؟ اس نے پوچھا۔ گرمی کی وجہ سے انہیں پڑوس کے گھر چھوڑآئی ہوں ان کے ہاں اے سی لگاہواہے۔ وہ مسکرائی۔ اب آپ فرمائیے پیدائش کا سرٹیفیکیٹ دکھاوں؟ تلاش کرنے میں کچھ دیر لگےگی۔ویسے کیا میں آپ کو نابالغ لگ رہی ہوں؟ حالانکہ میں سچ مچ بالغ ہوں۔ اس نے اپنے ابھاروں پر ہاتھ پھیرا۔ ثبوت دیکھنا ضروری ہے مس آسیہ۔ شاہد خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا بولا اچھا؟ آپ کے خیال میں بالغ لڑکی بریزئیر کس نمبر کا استعمال کرتی ہے؟ آسیہ نے پوچھا۔ میرا خیال ہے کم از کم 36نمبر کا شاہد نے حیرت سے کہا۔ بس تو ثبوت موجود ہے۔ وہ ہنس کر بولی میں 36نمبر کا ہی استعمال کرتی ہوں۔ دکھائوں نمبر؟ شاہد اپنی رانوں میں کھڑے ہتھیار کو کھجاتا ہوا بولا نمبر دیکھنے کیلئے قمیض اتارنا پڑے گی۔ وہ بولی ذرا آپ خود ہی تکلیف کریں۔ شاہد نے بڑی بے تابی سے اس کا کرتہ اتاردیا اب اس کے سامنے سیاہ بریزئیر میں قید تنی ہوئی چٹانیں کھڑی تھیں۔ اس نے ان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہاں ہے نمبر؟ اندر کی ظرف ہوگا۔ وہ جذباتی لہجے میں بولی اس کی نگاہیں شاہد کی رانوں پر مرکوز تھیں۔ جہاں سے شلوار کافی بلند تھی۔ شاہد نے اس کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ پھر تو اسے اتارنا پڑے گا۔ تو اتار لیں۔ کرتے سے تو یہ بہت چھوٹا ہے؟ وہ اس کی طرف پشت کرتے ہوئے بولی۔ اور شاہد نے بریزئیر کا ہک کھول دیا۔ اس نے دوبارہ شاہد کی طرف رخ کیا اور بریزئراتار دیا۔ شاہد نے اس کے گلابی ابھاروں کو دیکھا تو اسکے ہتھیار کو جھٹکا لگا آسیہ کے ابھار قدرت کا حسین شاہکار تھےجو سینے پر پیچھے سے کشمیری سیبوں جیسے تھے اور آگے سے قلمی آموں کی طرح اوپر کی جانب اٹھے ہوئے تھےان کے گلابی دائرے اور سرخی مائل نپل شاہد کی پیاس بڑھارہے تھے۔ اس نے بے اختیار ان پر ہاتھ پھیرا!اف کتنے ٹھوس اور گداز ابھار ہیں جیسے کچے قلمی آم۔ وہ جذباتی انداز میں ایک ابھار کو دبا کر بولا۔ آہ یہ کچے نہیں ہیں انسپکٹر پکے آم ہیں۔ وہ لذت سے سسک کر بولی۔ رس سے بھرے سندھڑی آم۔ ہاں لیکن نمبر سے بڑے ہیں۔ وہ اس کے ابھاروں کے نپل دباتا ہوا بولا۔ اس کا کیا نمبر ہے؟ آسیہ نے ایکدم ہاتھ اس کی شلوار کے اوپر سے تنے ہوئے ہتھیار پر رکھ دیا۔ خود دیکھ لو میری جان۔ شاہد نے بےقراری سے کہا اور ایکدم اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اس کے رسیلے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جمادئے۔ آسیہ ضبط نہ کرسکی اوراس سے لپٹ گئی۔ وہ اس کے لبوں کو چوستا ہوااس کے ابھاروں کو ایک ہاتھ سے مسلنے لگا۔ آہ کیا آموں کا رس نہیں چکھوگے؟ ڈئیرانسپکٹر ! طویل بوسے کے بعد آسیہ نے دوبارہ اس کے ہتھیار کو پکڑتے ہوئے دبایا۔ اف کتنا سخت کیلا چھپارکھاہےتم نے؟ شاہد نے ایک ہاتھ سے اپنا ازاربند کھول کر شلوار نیچے کردی۔ رانوں میں اس کا نوانچ لمبا اور دوانچ موٹا پولیس والا ہتھیار تیر کی طرح سیدھا کھڑا تھا۔ آسیہ نے دیکھا اور بے تاب ہوکراسے ہاتھ میں لے لیا۔اف کتنا موٹااورلمباہےتمہاراکیلا ! وہ اسکے ہتھیارپرہاتھ پھیرتےہوئے بولی۔ شاہد نے فوراً ہیکجل لر اسکے ایک قلمی آم کو منہ میں لیا اورچوسنےلگا۔دوسرےہاتھ سے وہ اس کے اکڑے ہوئے نپل کومسل رہا تھااورآسیہ لذت سے سسکاری لے رہی تھی۔ شاہد نے ایک کے بعد دوسرے ابھارسےمنہ لگایااورچوستے ہوئےایک ہاتھ سے آسیہ کی شلوارمیںڈال دیا۔آسیہ کی سنگم ڈبل روٹی کی طرح پھولی ہوئی تھی۔ جس پربال نہیںتھے۔چکنی ملائم سنگم کاسروے کرتے ہوئے اس کی انگلیاں سنگم کے دہانے پر پہنچیں۔ توآسیہ نےلذت سےسسک کرپاتھ میں اس کے آلےکوبھینچ ڈالا۔ کپڑے تو اتارلواپنے ڈئیرانسپکٹر ! وہ اس کے آلہ کودباتی ہوئ بولی۔ شاہدنے فوراً ہی اپنا لباس اتاردیااورآسیہ صوفے پرنیم دراز ہوگئی۔ شاہد اس کے پیروں کی جانب بیٹھا اوراسکی چکنی ملائم سنگم پر اپنی زبانسے مساج کرنے لگا۔ وہ لذت سے کراہنے اور سسکنے لگی۔ آہ پس کرو اب میرابالغ پن چیک کرواپنے آلے سےمیری جان انسپکٹر۔ شاہد نے اس کی بے تابی دیکھی تو اسکی رانیں اکھٹی کرکے پیٹ سے لگائیں اوراپنے تنے ہوئے آلے کا سرا اس کی سنگم پررگڑا۔اف اب اندر کرو نا انسپکٹر۔ وہ مچلی شاہد نے فوراً ہی آلہ اس کی سنگم پر رکھ کر دباو ڈالا سنگم تنگ تھی تھوڑا ساآلہ اندرگیا۔ اس نے آلہ واپس کھینچاپھرایک جھٹکے میں پورا اندرکردیا۔ آسیہ لذت سے تڑپنے لگی۔ اور شاہد جھٹکے مارنے لگاآسیہ کے منہ سے لذت کے مارے کراہیں اور سسکاریاں خارج ہورہی تھیں اور وہ کہ رہی تھی۔ آہ تمہارا ہتھیار بہت مزا دے رہا ہے انسپکٹر اف اچھی طرح چیک کرو میری بلوغت کو آہ آہ۔ شاہد نے رفتار میں ایکدم اضافہ کردیا اس کا نو انچ لمبا ہتھیار پسٹن کی طرح چل رہا تھا۔ چند منٹ بعد ہی آسیہ کی سنگم میں سیلاب آگیا اور وہ ہتھیار کو بھینچنے لگی۔ چند جھٹکوں کے بعد شاہد کا ہتھیار بھی کند ہوگیااوروہ آسیہ کے اوپر لیٹ کر ہانپنے لگا۔ چند لمحوں بعد وہ اٹھا اور لباس پہن لیا۔ آسیہ نے کپڑے پہنے اور اس کی گود میں بیٹھکر اسے چومنے لگی۔ اب تو تمہیں یقین آگیا ہے کہ میں بالغ ہوں؟ وہ اس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔ ہاں بلکہ بالغ سے بھی کچھ آگے ہو۔ وہ اس کے لبوں کو چوم کر بولا۔ تو کیا اب تم جاکر میرے بھائی کو بھیج دوگے یہاں؟ اس نے پوچھا۔ بالکل شاہد نے اس کی خوبصورت آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔ لیکن تم سے دوبارہ کب ملاقات ہوگی؟ جب تمہارا دل چاہے آکر میری عمرکا ثبوت لے لیا کرو ڈئیر میں تمہارے سوا کسی اور کو ثبوت نہیں دوں گی۔ وہ مسکرائی یہ خیال مت کرنا کہ میں کوئی فاحشہ ہوں۔ کالج کی سہیلیوں نے انگلیوں سے میری کئی بار تسکین کی تھی۔ لیکن کیلے کا مزہ پہلی بار لیا ہے اور وہ بھی محض بھائی کو بچانے کیلئے کہ اس کے سوا ہمارا کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ ہاں ہوسکے تو مجھے ہمیشہ کیلئے اپنا بنا لو ورنہ تم نے جو لطف دیا ہے اسے دوبارہ پانے کیلئے ہوسکتا ہے میں غلط راستے پر چل پڑوں۔ شاہد کو اس کی باتوں میں سچائی محسوس ہوئی اور اس نے آسیہ سے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے آسیہ تم تیاری کرلو اگلے ہفتہ میں بارات لے آوں گا۔ سوچ لو انسپکٹر بھول مت جانا۔ وہ خوش ہوکراس سے لپٹتے ہوئے بولی۔ وعدہ کرکے جاو۔ شاہد پھر گرم ہوچکا تھا۔ اس نے آسیہ کے مخروطی ابھاروں کو دباتے ہوئے کہا اچھا اتارو کپڑے میں زبانی وعدہ ک بجائے اپنے قلم سے تمہاری مکھن جیسی چکنی کاپی پر لکھ دیتا ہوں۔ چند لمحوں بعد دونوں بے لباس قالین پر پڑے تھےاور شاہد اس کی ٹانگیں کندھوں پر رکھے اپنے نو انچ لمبے اور موٹے قلم سے آسیہ کی چکنی ملائم اور خوبصورت کاپی پر شادی کا وعدہ تحریر کررہا تھا۔ اگر کہانی پسند آئے تو فیڈبیک درج ذیل ای میل ایڈریس پر ضرورارسال کریں۔ اگر آپ بھی کوئی کہانی اپنے نام اور میل ایڈریس سے پوسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ تو ای میل کریں
Read my all running stories

(वापसी : गुलशन नंदा) ......(विधवा माँ के अनौखे लाल) ......(हसीनों का मेला वासना का रेला ) ......(ये प्यास है कि बुझती ही नही ) ...... (Thriller एक ही अंजाम ) ......(फरेब ) ......(लव स्टोरी / राजवंश running) ...... (दस जनवरी की रात ) ...... ( गदरायी लड़कियाँ Running)...... (ओह माय फ़किंग गॉड running) ...... (कुमकुम complete)......


साधू सा आलाप कर लेता हूँ ,
मंदिर जाकर जाप भी कर लेता हूँ ..
मानव से देव ना बन जाऊं कहीं,,,,
बस यही सोचकर थोडा सा पाप भी कर लेता हूँ
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- raj sharma
Post Reply