Sundar kaa maatr prem urdu font

Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »

ہمارا جماع اسی طرح چلتا رہا. ایک بار دو دن تک ہمیں میتھن کا موقع نہیں ملا تو اس رات ہوس سے پریشان ہو کر آخر میں ماں اور باپو کے کمرے میں دھیرے سے گیا. باپو نشے میں دھت سو رہے تھے اور ماں بھی وہیں بازو میں سو رہی تھی.

سوتے وقت اس کی ساڑی اس وكشستھل سے ہٹ گئی تھی اور اس کے اعلی درجے اروجوں کا پورا ابھار دکھ رہا تھا. سانس کے ساتھ وہ اوپر نیچے ہو رہے تھے. میں تو گویا محبت اور چاہت سے پاگل ہو گیا. ماں کو نیند میں سے اٹھایا اور جب وہ گھبرا کر اٹھی تو اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر کے اپنے کمرے میں آنے کو کہہ کر میں واپس آ گیا.

دو منت بعد ہی وہ میرے کمرے میں تھی. میں نے اس کے کپڑے اتارنے لگا اور وہ بیچاری تنگ ہو کر مجھے ڈاٹنے لگی. "خوبصورت، میں جانتی ہوں کہ میں تمہاری بیوی ہوں اور جب بھی تم کال، آنا میرا فرض ہے، پر ایسی خطرے مت اٹھا بیٹے، کسی نے دیکھ لیا تو گڑبڑ ہو جائے گا."

میں نے اپنے منہ سے اس کا منہ بند کر دیا اور ساڑی اتارنا چھوڑ صرف اسے اوپر کر کے اس کے سامنے بیٹھ کر اسکی چوت چوسنے لگا. لمحہ بھر میں اس کا غصہ اتر گیا اور وہ میرے سر کو اپنی رانوں میں جکڑ کر كراهتے ہوئے اپنی یون میں پیوست ہوئی میری جیب سے لطف اٹھانے لگی. اس کے بعد میں نے اسے بستر پر لٹا کر اسے چود ڈالا.

من بھر کر چدنے کے بعد ماں جب اپنے کمرے میں واپس جا رہی تھی تو بہت خوش تھی. مجھے بولی. "خوبصورت، جب بھی تو چاہے، ایسے ہی بلا لیا کر، میں آ جاؤں گی."

اگلی رات کو تو ماں کھلے عام اپنا تکیہ لے کر میرے کمرے میں آ گئی. میں نے پوچھا تو ہنستے ہوئے اس نے بتایا "سندر، تیرے باپو کو میں نے آج بتا دیا کہ ان کی شراب کی بدبو کی وجہ سے مجھے نیند نہیں آتی اس لئے آج سے میں تمہارے کمرے میں سویا کروں گی. انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے. اس لئے میرے بادشاہ، میرے سرخ، آج سے میں کھلے عام تیرے پاس سو سکتی ہوں. "

میں نے اسے بھینچ کر اسپر چبنو کی برسات کرتے اے کہا. "سچ اماں؟ آج سے تو فر ہم بالکل شوہر بیوی جیسے ایک ساتھ سو سکیں گے." اس رات کے میتھن میں کچھ اور ہی مدھرتا تھی کیونکہ ماں کو اٹھ کر واپس جانے کی ضرورت نہیں تھی اور دماغ بھر کر آپس میں جھیلنے کے بعد ہم ایک دوسرے کی باںہوں میں ہی سو گئے. اب صبح اٹھ کر میں ماں کو چود لیتا تھا اور پھر ہی وہ اٹھ کر نیچے جاتی تھی.

کچھ ہی دن بعد ایک رات جماع کے بعد جب ماں میری باںہوں میں لپٹی پڑی تھی تب اس نے شرماتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ حاملہ ہے. میں خوشی سے اچھل پڑا. آج ماں کا روپ کچھ اور ہی تھا. شرم سے گلابی ہوئے چہرے پر ایک نكھار سا آ گیا تھا.

مجھے خوشی کے ساتھ کچھ فکر ہی ہوئی. دور کہیں جا کر گھر بسانا اب ضروری تھا. ساتھ ہی باپو اور بھائی بہن کے عمل کا بھی انتظام کرنا تھا.

شاید کامدیو کی ہی مجھ مہربانی ہو گی. ایک یہ کہ اچانک باپو ایک کیس جیت گئے جو تیس سال سے چل رہا تھا. اتنی بڑی پراپرٹي آخر ہمارے نام ہو گئی. آدھی بیچ کر میں نے بینک میں رکھ دی کہ صرف سود ہی گھر آرام سے چلتا. ساتھ ہی گھر کی دیکھ بھال کو ایک بیوہ پھوپھی کو بلا لیا. اس طرف سے اب میں مطمئن تھا.

دوسرے یہ کہ مجھے اچانک آسام میں دور پر ایک کام ملی. میں نے جھٹ سے اپنا اور ماں کا ٹکٹ نکالا اور جانے کی تاریخ طے کر لی. ماں نے بھی سب کو بتا دیا کہ وہ نہیں سہ سکتی کہ اس کا بڑا بیٹا اتنی دور جا کر اکیلا رہے. یہاں تو پھوپھی تھی کہیں سب کی دیکھ بھال کرنے کے لیے. اس سب کے درمیان ماں کا روپ دن بہ دن نكھر رہا تھا. خاص کر اس روح سے اس کے پیٹ میں اسی کے بیٹے کا بیج پل رہا ہے، ماں بہت بھاو وبھور تھی.
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »

ہم آخر آکر نئی جگہ بس گئے. یہاں میں نے سب کو یہی بتایا کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہوں. ہمارا جماع تو اب ایسا بڑھا کہ ركتا ہی نہیں تھا. صبح اٹھ کر، فر کام پر جانے سے پہلے، دوپہر میں کھانے پر گھر آنے کے بعد، شام کو لوٹ کر اور پھر رات کو جب موقع ملے، میں بس اماں سے لپٹا رہتا تھا، اس پر چڑھا رہتا تھا.

ماں کی ہوس بھی پرسکون ہی نہیں ہوتی تھی. کچھ ماہ ہم نے بہت مزے لیے. فر آٹھویں ماہ سے میں نے اسے چودنا بند کر دیا. میں اسکی چوت چوس کر اسے جھڑا دیتا تھا اور وہ بھی میرا لںڈ چوس دیتی تھی. گھر والوں کو میں نے اپنا پتہ نہیں دیا تھا، بس کبھی کبھی فون پر بات کر لیتا تھا.

آخر ایک دن ماں کو اسپتال میں بھرتی کیا. دوسرے ہی دن چاند سی گڑیا کو اس نے جنم دیا. ماں تو خوشی سے رو رہی تھی، اپنے ہی بیٹے کی بیٹی اس نے اپنی کوکھ سے جني تھی. وہ بچی میری بیٹی بھی تھی اور بہن بھی. ماں نے اس کا نام میرے نام پر سندري رکھا.

اس بات کو بہت دن گزر گئے ہیں. اب تو ہم اقدار جنت میں ہیں. ماں کے تئیں میری محبت اور ہوس میں ذرا بھی کمی نہیں ہوئے ہے، بلکہ اور بڑھ گئی ہے. ایک مثال یہ ہے کہ ہماری بچی اب ایک سال کی ہو گئی ہے اور اب ماں کا دودھ نہیں پیتی. پر میں پیتا ہوں. ماں کے حاملہ ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ مجھے ہوا ہے کہ اب میں اپنی ماں کا دودھ پی سکتا ہوں.

اس کی شروات ماں نے سندري چھ ماہ کی ہونے کے بعد ہی کی. ایک دن جب وہ مجھے لٹا کر اوپر چڑھ کر چود رہی تھی تو جھک کر اس نے اپنا نپل میرے منہ میں دے کر مجھے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا. اس میٹھے امرت کو پا کر میں بہت خوش تھا پر پھر بھی ماں کو پوچھ بیٹھا کہ بچی کو تو کم نہیں پڑے گا.

وہ بولی. "نہیں میرے لال، وہ اب آہستہ آہستہ یہ چھوڑ دے گی. پر جب تو نے پہلی بار میرے نپل چوسے تھے تو میں یہی سوچ رہی تھی کہ کاش، میرے اس جوان مست بیٹے کو فر سے پلانے کو میرے ستنوں میں دودھ ہوتا. آج وہ خواہش پوری ہو گی. "

ماں نے بتایا کہ اب دو تین سال بھی اس کے سینوں سے دودھ آتا رہے گا بشرطیکہ میں اسے مسلسل پو. اندھے کو چاہیے کیا، دو آنکھیں، میں تو دن میں تین چار بار اماں کا دودھ پی لیتا ہوں. خاص کر اسے چودتے ہوئے پینا تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے.

میں نے ماں کو یہی کہا ہے کہ جب میں گھر میں هوو، وہ ننگے رہا کرے. اس نے خوشی سے یہ مان لیا ہے. گھر کا کام وہ نگناوستھا میں ہی کرتی رہتی ہے. جب وہ کچن میں پلےٹفارم کے سامنے کھڑی ہوکر کھانا بناتی ہے، تب مجھے اس کے پیچھے کھڑا ہو کر اس کے چھاتی دبانا بہت اچھا لگتا ہے. اس وقت میں اپنا لںڈ بھی اس کے کولہوں کے درمیان کے گہری لکیر میں سٹا دیتا ہوں.

ماں کو بھی یہ بہت اچھا لگتا ہے اور کبھی کبھی تو وہ مجھے ایسے میں اپنے مقعد میں عضو تناسل ڈالنے کی بھی رضامندی دے دیتی ہے.

ہاں، ماں سے اب میں کئی بار غیر معمولی میتھن یعنی مقعد میتھن کرتا ہوں، اسکی گاںڈ مار دیتی ہوں. اسے یہ ہمیشہ کرنا اچھا نہیں لگتا پر کبھی کبھی جب وہ موڈ میں ہو تو ایسا کرنے دیتی ہے. خاص کر اپنے حیض کے دنوں میں.

اس کی شروات بھی ایسے ہی ہوا. ماں جب رجسولا ہوتی تھی تو ہمارا میتھن رک جاتا تھا. وہ تو ان دنوں میں اپنے آپ پر ضبط رکھتی تھی پر میرا لںڈ چوس کر میری ترپت کر دیتی تھی. مجھے اسے جور جور سے چڑھ کر چودنے کی عادت پڑ گئی تھی اس لئے ایسے میں میرا مکمل انزال نہیں ہو پاتا تھا.

ایک دن جب وہ ایسے ہی میرا لںڈ چوس رہی تھی پھر میں اس کے نتب اسکی ساڑی میں ہاتھ ڈال کر سہلا رہا تھا. اس نے پیڈ باندھا تھا پس پیںٹی پہن تھی. میرے ہاتھوں کے اس نتب سہلانے سے اس نے پہچان لیا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں. فر جب میں نے انگلی پیںٹی کے اوپر سے ہی اس کے مقعد میں ڈالنے لگا تب لںڈ چوسنا چھوڑ کر وہ اٹھی اور اندر سے کولڈ کریم کی شیشی لے آئی. ایک کینچی بھی لائی.

فر مسکرا کر لاڑ سے میرا بوسہ لیتے ہوئے پلنگ پر اودھي لیٹ گئی اور بولی. "خوبصورت، میں جانتی ہوں تم کتنا بھوکا ہے دو دن سے. لے، میرے پیچھے کے سوراخ سے تیری بھوک کچھ مٹتی ہو تو اس میں میتھن کر لے."

میں نے ماں کے کہے مطابق پیںٹی کے درمیان دھیرے سے چھید کاٹا اور پھر اس میں سے ماں کے مقعد میں کریم لگا کر اپنی مچلتا لںڈ دھیرے دھیرے اندر اتار دیا. اماں کو کافی دکھا ہوگا پر میرے لطف کیلئے وہ ایک دو بار سيتكارنے کے سوائے کچھ نہ بولی. ماں کے اس نرم سكرے گدا کے چھید کو چودتے ہوئے مجھے اس دن جو لطف ملا وہ میں بتا نہیں سکتا. اس کے بعد یہ ہمیشہ کی بات ہو گی. حیض کے ان تین چار دنوں میں روز ایک بار ماں مجھے اپنی گاںڈ مارنے دیتی تھی.

مهنے کے باقی صحت مند دنوں میں وہ اس سے ناخوش رہتی تھی کیونکہ اسے دكھتا تھا. پر میں نے آہستہ آہستہ اسے منع لیا. ایک دو بار جب اس نے سادہ دنوں میں مجھے گدا میتھن کرنے دیا تو اس کے بعد میں نے اس کی اندام نہانی کو اتنے پیار سے چوسا اور زبان سے چودا کہ وہ ترپت سے رو پڑی. ایسا ایک دو بار ہونے پر اب وہ ہفتے میں دو تین بار خوشی خوشی مجھ گاںڈ مروا لیتی ہے کیونکہ اس کے بعد میں اس کی بر گھنٹوں چوس کر اسے اتنا سکھ دیتا ہوں کہ وہ نہال ہو جاتی ہے.

اور اسيليے کھانا بناتے وقت جب میں پیچھے کھڑا ہو کر اس کے چھاتی دباتا ہوں تو کبھی کبھی مستی میں آ کر اپنا عضو تناسل اس کے مقعد میں ڈال دیتا ہوں اور جب تک وہ روٹی بنائے، کھڑے کھڑے ہی اسکی گاںڈ مار لیتا ہوں.

میرے كامجيون کی شدت کا مجھے پورا احساس ہے. اور میں اسيليے یہی منا ہوں کہ میرے جیسے اور ماترپرےمي اگر ہوں تو وہ ہمت کریں، جاری رکھیں، کیا پتہ، انہیں بھی میری طرح جنت سکھ ملے. کامدیو سے میں یہی دعا کرتا ہوں کہ سب ماتربھكتو کی اپنی ماں کے ساتھ منشیات اور مدھر رت کرنے کی خواہش پوری کریں.

---- ختم ----

End of Story
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Post Reply