Sundar kaa maatr prem urdu font

Post Reply
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »

Sundar kaa maatr prem urdu font


خوبصورت کا ماترپرےم
-----------
میں جنوبی ہندوستان میں ستر کی دہائی میں پیدا ہوا. میرے والد مل میں کام کرنے والے ایک براہ راست سادھے آدمی تھے. ان میں بس ایک خرابی تھی، وہ بہت شراب پیتے تھے. اکثر رات کو بیہوشی کی حالت میں ان کو اٹھا کر بستر پر لٹانا پڑتا تھا. پر ماں کے تئیں ان کا رویہ بہت اچھا تھا اور ماں بھی انہیں بہت چاہتی تھی اور ان کا احترام کرتی تھی.

میں نے بہت پہلے ماں پر ہمیشہ چھائی اداسی محسوس کر لی تھی پر بچپن میں اس کی اداسی کی وجہ سے میں نہیں جان پایا تھا. میں ماں کی ہمیشہ مدد کرتا تھا. سچ بات تو یہ ہے کہ ماں مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور اس لئے میں ہمیشہ اس کے پاس رہنے کی کوشش کرتا تھا. ماں کو میرا بہت بنیاد تھا اور اس کا دل بہلانے کے لیے میں اس سے ہمیشہ طرح طرح کی گپپے لڑایا کرتا تھا. اسے بھی یہ اچھا لگتا تھا کیونکہ اس کی اداسی اور بوریت اس سے کافی کم ہو جاتی تھی.

میرے والد صبح جلدی گھر سے نکل جاتے تھے اور دیر رات لوٹتے. فر پینا شروع کرتے اور ڈھیر ہو جاتے. ان کی شادی اب صرف برائے نام کو رہ گئی تھی، ایسا لگتا تھا. بس کام اور شراب میں ہی ان کی زندگی گزر رہی تھی اور ماں کی باقی ضروریات کو وہ نظرانداز کرنے لگے تھے. دونوں ابھی بھی باتیں کرتے ہیں، ہنستی پر ان کی زندگی میں اب محبت کے لیے جیسے کوئی مقام نہیں تھا.

میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام کرتا تھا. اس سے کچھ اور آمدنی ہو جاتی تھی. پر یار دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے کا مجھے وقت ہی نہیں ملتا تھا، محبت وار تو دور رہا. جب سب سو جاتے تھے تو میں اور ماں کچن میں ٹیبل کے پاس بیٹھ کر گپپے لڑاتے. ماں کو یہ بہت اچھا لگتا تھا. اسے اب بس میرا ہی سہارا تھا اور اکثر وہ مجھے پیار سے باںہوں میں بھر لیتی اور کہتی کہ میں اس کی زندگی کا چراغ ہوں.

بچپن سے میں کافی سمجھدار تھا اور دوسروں سے پہلے ہی جوان ہو گیا تھا. سولہ سال کا ہونے پر میں دھیرے دھیرے ماں کو دوسری نظروں سے دیکھنے لگا. بالغ میں داخل کے ساتھ ہی میں یہ جان گیا تھا کہ ماں بہت کشش اور منشیات ناری تھی. اس کے طویل گھنے بال اس کی کمر تک آتے تھے. اور تین بچے ہونے کے باوجود اس کا جسم بڑا کسا ہوا اور جوان عورتوں سا تھا. اپنی بڑی کالی آنکھوں سے جب وہ مجھے دیکھتی تو میرا دل دھڑکنے لگتا تھا.

ہم ہر موضوع پر بات کرتے. یہاں تک کہ انفرادی باتیں بھی ایک دوسرے کو بتاتے. میں اسے اپنی عزیز ابینےتریوں کے بارے میں بتاتا. وہ شادی کے پہلے کے آپ کی زندگی کے بارے میں بات کرتی. وہ کبھی میرے والد کے خلاف نہیں بولتا کیونکہ شادی سے اسے کافی مدھر چیزیں بھی ملی تھیں جیسے کہ اس کے بچے.

ماں کے تئیں بڑھتے توجہ کی وجہ سے میں اب اسی انتظار میں رہتا کہ کس طرح اسے خوش کروں تاکہ وہ مجھے باںہوں میں بھر کر لاڑ دلار کرے اور پیار سے چومے. جب وہ ایسا کرتی تو اس کے اعلی درجے سینوں کا دباؤ میری چھاتی پر محسوس کرتے ہوئے مجھے ایک عجیب گدگدی ہونے لگتی تھی. میں اس نے پہنی ہوئی ساڑی کی اور اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتا جس سے وہ کئی بار شرما کر لال ہو جاتی. کام سے واپس آتے وقت میں نے اس کے لیے اکثر چاکلیٹ اور فولو کی وےي لے آتا. ہر اتوار کو میں نے اسے سنیما اور فر ہوٹل لے جاتا.

سنیما دیکھتے ہوئے اکثر میں بڑے معصوم انداز میں اس سے چپک کر بیٹھ جاتا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتا. جب اس نے کبھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا تو ہمت کر کے میں اکثر اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر اسے پاس کھیںچ لیتا اور وہ بھی میرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر پکچر دیکھتی. اب وہ ہمیشہ اتوار کی راہ دیکھتی. خود ہی اپنی پسند کی پکچر بھی منتخب کر لیتی.
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »

پکچر کے بعد اکثر ہم ایک باغ میں گپپے مارتے ہوئے بیٹھ جاتے. ایک دوسرے سے مذاق کرتے اور كھلكھلاتے. ایک دن ماں بولی. "خوبصورت اب تو بڑا ہو گیا ہے، جلد ہی شادی کے قابل ہو جائے گا. تیرے لئے اب ایک لڑکی تلاش کرنا شروع کرتی ہوں."

میں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے فوری طور جواب دیا. "اماں، مجھے شادی وادی نہیں کرنی، میں تو بس آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں." میری بات سن کر وہ حیرت حیران ہو گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ کر سهسا چپ ہو گئی.

"کیا ہوا اماں؟ میں نے کچھ غلط کہا؟" میں نے گھبرا کر پوچھا.

وہ چپ رہی اور کچھ دیر بعد روكھے سورو میں بولی. "چلو، گھر چلتے ہیں، بہت دیر ہو گئی ہے."

میں نے من ہی من اپنے آپ کو ایسا کہنے کے لیے كوسا پر اب جب بات نکل ہی چکی تھی تو ہمت کرکے آگے کی بات بھی میں نے کہہ ڈالی. "اماں، تمہیں برا لگا تو معاف کرو. پر سچ تو یہی ہے کہ میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں. تمہاری خوشی کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں."

کافی دیر ماں چپ رہی اور پھر اداسی کے لہجے میں بولی. "غلطی میری ہے بیٹے. یہ سب پہلے ہی مجھے بند کر دینا تھا. لگتا ہے کہ اکیلیپن کے احساس سے بچنے کیلئے میں نے تجھے زیادہ چھوٹ دے دی اس لئے تیرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں."

میں بولا. "غلط ہو یا صحیح، میں تو یہی جانتا ہوں کہ تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو."

وہ تھوڑا ناراض ہو کر بولی. "پاگلپن کی باتیں مت کرو. سچ تو یہ ہے کہ تو میرا بیٹا ہے، میری کوکھ سے جنما ہے."

میں نے ادیر ہوکر کہا. "اماں، جو ہوا سو ہوا، پر مجھ ناراض مت ہو. میں اپنا پیار نہیں دبا سکتا. تم بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچو اور پھر بولو."

ماں بہت دیر چپ رہی اور پھر رونے لگی. میرا بھی دل بھر آیا اور میں نے اسے تسلی دینے کو کھینچ کر اپنی باںہوں میں بھر لیا. وہ چھوٹ کر بولی. "چلو، رات بہت ہو گئی ہے، اب گھر چلتے ہیں."

اس کے بعد ہمارا گھومنے جانا بند ہو گیا. میرے بہت اصرار کرنے پر بھی وہ میرے ساتھ نہیں آتی تھی اور کہتی تھی کہ میں کسی اپنی عمر کی لڑکی کے ساتھ پکچر دیکھنے جاؤں. مجھ وہ اب بھی دور رہتی تھی اور بولتی کم تھی. پر جیسے میرے دل میں ہلچل تھی ویسی ہی اس کی بھی دل میں ہوتی مجھے صاف نظر آتی تھی.

ایک دو ماہ ایسے ہی گزر گئے. اس درمیان میرا ایک چھوٹا بذنےس تھا، وہ کافی کامیاب ہوا اور میں پیسہ کمانے لگا. ایک کار بھی خرید لی. ماں مجھ سے دور ہی رہتی تھی. میرے والد نے بھی ایک بار اس سے پوچھا کہ اب وہ کیوں میرے ساتھ باہر نہیں جاتی تو وہ ٹال گئی. ایک بار اس نے ان سے کہا کہ وہ کیوں نہیں اسے گھمانے لے جاتے تو کام زیادہ ہونے کا بہانہ کر کے وہ مکر گئے. شراب پینا ان کا ویسے ہی چالو تھا. اس دن ان میں خوب جھگڑا ہوا اور آخر ماں روتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی اور دھاڑ سے دروازہ لگا لیا.

دوسرے دن بدھ کو جب میرے بھائی بہن باہر گئے تھے، میں نے ایک بار پھر ہمت کرکے اسے اتوار کو پکچر چلنے کو کہا تو وہ خاموشی مان گئی. میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا اور میں اس سے لپٹ گیا. اس نے بھی میرے سینے پر سر ٹکاکر آنکھیں بند کر لیں. میں نے اسے کس کر باںہوں میں بھر لیا.

یہ بڑا مدھر لمحہ تھا. ہمارا تعلق گہرا ہونے کا اور مکمل بدل جانے کا یہ نشان تھا. میں نے پیار سے اس کی پیٹھ اور کندھے پر ہاتھ فےرے اور آہستہ سے اس کے کولہوں کو سہلایا. وہ کچھ نہ بولی اور مجھ اور کس کر لپٹ گی. میں نے اس کی ٹھڈڈي پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا. "اماں، میں تجھے بہت پیار کرتا ہوں، جو بھی ہو، میں تجھے اکیلا نہیں رہنے دوں گا."

فر جھک کر میں نے اس کے گال اور آنکھیں چومي اور جرات کر کے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دیے. ماں بالکل نہیں مشغول ہوئی بلکہ میرے بوسہ کا میٹھا پرتساد اس نے مجھے دیا. میری ماں کا وہ پہلا بوسہ میرے لیے امرت سے زیادہ میٹھا تھا.
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »


اس کے بعد تو اس میں بہت تبدیلی آ گیا. ہمیشہ وہ میری راہ دیکھا کرتی تھی اور میری لائی ہوئی وےي بڑے پیار سے اپنے بالوں میں پہن لیتی تھی. جب بھی ہم اکیلے ہوتے، ایک دوسرے کے آلںگن میں بندھ جاتے اور میں اس کے جسم کو سهلاكر اپنی کچھ پیاس بجھا لیتا. ماں کا یہ بدلہ طور سب نے دیکھا اور خوش ہوئے کہ ماں اب کتنی خوش نظر آتی ہے. میری بہن نے تو مذاق میں یہ بھی کہا کہ اتنا بڑا اور جوان ہونے پر بھی میں چھوٹے بچے جیسا ماں کے پیچھے گھومتا ہوں. میں نے جواب دیا کہ آخر اماں کا تنہائی کچھ تو دور کرنا ہمارا بھی فرض ہے.

اس اتوار کو اماں نے ایک بہت خوبصورت باریک شفان کی ساڑی اور ایکدم تنگ بلاز پہنا. اس کے سینوں کا ابھار اور کولہوں کی گولائی ان میں نكھر آئے تھے. وہ بالکل جوان لگ رہی تھی اور سنیما ہال میں کافی لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے. وہ مجھ بس سات آٹھ سال بڑی لگ رہی تھی اس لئے لوگوں کو یہی لگا ہوگا کہ ہماری جوڑی ہے.

پکچر بڑی رومانٹك تھی. ماں نے ہمیشہ کی طرح میرے کندھے پر سر رکھ دیا اور میں نے اس کے کندھوں کو اپنی بانہہ میں گھیر کر اسے پاس کھیںچ لیا. پکچر کے بعد ہم پارک میں گئے. رات کافی سہانی تھی. ماں نے میری طرف دیکھ کر کہا. "خوبصورت بیٹے، تو نے مجھے بہت خوشی دی ہے. اتنے دن تو نے صبر رکھا. آج مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے."

میں نے ماں کی طرف دیکھ کر کہا. "اماں، آج تم بہت حسین لگ رہی ہو. اور صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ بہت سیکسی بھی."

اماں شرما گئی اور ہنس کر بولی. "خوبصورت، اگر تو میرا بیٹا نہ ہوتا تو میں یہی سمجھتی کہ تو مجھ پر ڈورے ڈال رہا ہے."

میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا. "ہاں اماں، میں یہی کر رہا ہوں."

ماں تھوڑا پیچھے ہٹی اور کاںپتے لہجے میں بولی. "یہ کیا کہہ رہا ہے بیٹا، میں تمہاری ماں ہوں، تو میری کوکھ سے پیدا ہؤا ہے. اور پھر میری شادی ہوئی ہے تیرے والد سے"

میں بولا "اماں، انہوں نے تمہیں جو سکھ دینا چاہیے وہ نہیں دیا ہے، مجھے آزما کر دیکھو میں تمہیں بہت پیار اور سکھ دوں گا."

ماں کافی دیر چپ رہی اور پھر بولی. "خوبصورت، اب گھر چلنا چاہیئے نہیں تو ہم کچھ ایسا کر بیٹھیں جو ایک ماں بیٹے کو نہیں کرنا چاہیے تو زندگی بھر ہمیں پچھتانا پڑے گا."

میں تڑپ کر بولا "اماں، میں تمہیں دکھ نہیں پہنچانا چاہتا پر تم اتنی خوبصورت ہو کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ کاش تم میری ماں نہ ہوتیں تو میں فر تمہارے ساتھ چاہے جو کر سکتا تھا."

میری اس محبت اور چاہت بھری بات پر ماں کھل اٹھی اور میرے گالوں کو سہلاتے ہئے بولی. "میرے بچے، تو بھی مجھے بہت پیارا لگتا ہے، میں تو بہت خوش ہوں کہ تیرے ایسا بیٹا مجھے ملا ہے. کیا واقعی میں اتنی خوبصورت ہوں کہ میرے جوان بیٹے کو مجھ پر محبت آ گیا ہے؟"

میں نے اسے باںہوں میں بھرتے ہوئے کہا. "ہاں اماں، تم سچ میں بہت خوبصورت اور سیکسی ہو."

اچانک میرے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا اور میں نے جھک کر ماں کا بوسہ لے لیا. ماں نے عذاب تو نہیں کیا پر ایک بت جیسی خاموشی میری باںہوں میں بندھے رہی. اب میں اور زور سے اسے چومنے لگا. سهسا ماں نے بھی میرے بوسہ کا جواب دینا شروع کر دیا. اس کا ضبط بھی کمزور ہو گیا تھا. اب میں اس کے پورے چہرے کو، گالوں کو، آنکھوں کو اور بالوں کو بار بار چومنے لگا. اپنے ہونٹ فر ماں کے نرم ہونٹوں پر رکھ کر جب میں نے اپنی جیبھ ان پر لگائی تو اس نے منہ کھول کر اپنے چہرے کو میٹھا خزانہ میرے لیے کھلا کر دیا.

کافی دیر کی چوماچاٹي کے بعد ماں الگ ہوئی اور بولی. "خوبصورت، بہت دیر ہو گئی بیٹے، اب گھر چلنا چاہیئے." گھر جاتے وقت جب میں کار چلا رہا تھا تو ماں مجھ سے چپک کر میرے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی تھی. میں نے كنكھيو سے دیکھا کہ اس کے ہونٹوں پر ایک بڑی مدھر مسکراہٹ تھی.
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »


درمیان میں ہی میں نے ایک گلی میں کار روک کر حیران ہوئی ماں کو فر آلںگن میں بھر لیا اور اسے بیتہاشا چومنے لگا. اس بار میں نے اپنا ہاتھ اس کے چھاتی پر رکھا اور ان سے محبت سے ٹٹولنے لگا. ماں تھوڑی گھبرائی اور اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی. "خوبصورت، ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیئے بیٹے."

میں نے اپنے ہونٹوں سے اس کا منہ بند کر دیا اور اس کا گہرا بوسہ لیتے ہوئے ان مانسل بھرے ہوئے ستنوں کو ہاتھ میں لے کر ہلکے ہلکے دبانے لگا. بڑے بڑے مانسل ان اروجوں کو میرے ہاتھ میں رابطے مجھے بڑا منشیات لگ رہا تھا. انہی سے میں نے بچپن میں دودھ پیا تھا. ماں بھی اب اتیجت ہو چلی تھی اور سسکاریاں بھرتے ہوئے مجھے زور زور سے چومنے لگی تھی. فر کسی طرح سے اس نے میرے آلںگن کو توڑا اور بولی. "اب گھر چل بیٹا."

میں نے چپ چاپ کار سٹارٹ کی اور ہم گھر آ گئے. گھر میں اندھیرا تھا اور شاید سب سو گئے تھے. مجھے معلوم تھا کہ میرے والد اپنے کمرے میں نشے میں دھت پڑے ہوں گے. گھر میں اندر آ کر وہیں ڈرائنگ روم میں میں فر ماں کو چومنے لگا.

اس نے اس بار احتجاج کیا کہ کوئی آ جائے گا اور دیکھ لے گا. میں دھیرے سے بولا. "اماں، میں تمہیں بہت پیار کرتا ہوں، ایسا میں نے کسی اور عورت یا لڑکی کو نہیں کیا. مجھ سے نہیں رہا جاتا، سارے وقت تمہارے ان رسیلے ہونٹوں کا بوسہ لینے کی خواہش ہوتی رہتی ہے. اور پھر سب سو گئے ہیں، کوئی نہیں آئے گا. "

ماں بولی "میں جانتی ہوں بیٹے، میں بھی تجھے بہت پیار کرتی ہوں. پر آخر میں آپ کے والد کی بیوی ہوں، ان کا باندھا مریخ فارمولا اب بھی میرے گلے میں ہے."

میں دھیرے سے بولا. "اماں، ہم تو صرف بوسہ لے رہے ہیں، اس میں کیا پریشانی ہے؟"

ماں بولی "پر خوبصورت، کوئی اگر نیچے آ گیا تو دیکھ لے گا."

مجھے ایک ترکیب سوجھی. "اماں، میرے کمرے میں چلیں؟ اندر سے بند کر کے سٹكني لگا لیں گے. باپو تو نشے میں سوئے ہیں، انہیں خبر تک نہیں ہوگی."

ماں کچھ دیر سوچتی رہی. صاف دکھ رہا تھا کہ اس کے دل میں بڑی ہلچل مچی ہوئی تھی. پر جیت آخر میرے پیار کی ہوئی. وہ سر ڈلا کر بولی. "ٹھیک ہے بیٹا، تم اپنے کمرے میں چل کر میری راہ دیکھ، میں ابھی دیکھ کر آتی ہوں کہ سب سو رہے ہیں یا نہیں."

میری خوشی کا اب اختتام نہ تھا. اپنے کمرے میں جا کر میں نے ادھر ادھر گھومتا ہوا بے چینی سے ماں کا انتظار کرنے لگا. کچھ دیر میں دروازہ کھلا اور ماں اندر آئی. اس نے دروازہ بند کیا اور سٹكني لگا لی.

میرے پاس آکر وہ كاپتي آواز میں بولی. "تیرے والد ہمیشہ جیسے پی کر سو رہے ہیں. پر خوبصورت، شاید ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے. اس کا اختتام کہاں ہوگا، کیا پتا. مجھے ڈر بھی لگ رہا ہے."

میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دلاسہ دیا. "ڈر مت اماں، میں جو ہوں تیرا بیٹا، تجھ پر آنچ نہ آنے دوں گا. میرا یقین کرو. کسی کو پتہ نہیں چلے گا" ماں سست آواز میں بولی "ٹھیک ہے خوبصورت بیٹے." اور اس نے سر اٹھا کر میرا گال پیار سے چوم لیا.

میں نے اپنی قمیض اتاری اور اماں کو باںہوں میں بھر کر بستر پر بیٹھ گیا اور اس کے ہونٹ چومنے لگا. ہمارے چبنو نے جلد ہی شدید شکل لے لیا اور زور سے چلتی سانسوں سے ماں کی اتیجنا بھی واضح ہو گئی. میرے ہاتھ اب اس کے پورے بدن پر گھوم رہے تھے. میں نے اس کے اروج دبایے اور کولہوں کو سہلایا. آخر مجھ سے اور نہ رہا گیا اور میں نے ماں کے بلاز کے بٹن کھولنے شروع کر دیے.
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Sundar kaa maatr prem urdu font

Post by Jemsbond »

ایک لمحہ کو ماں کا جسم سهسا سخت ہو گیا اور پھر اس کا آخری ضبط بھی ٹوٹ گیا. آپ کے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا. اس سے پہلے کہ وہ فر کچھ آنا کانی کرے، میں نے جلدی سے بٹن کھول کر اس کا بلاز اتار دیا. اس سارے وقت میں مسلسل اس کے ملائم ہونٹوں کو چوم رہا تھا. برےسير میں بندھے ان ابھرے سینوں کی بات ہی اور تھی، کسی بھی عورت کو اس طرح سے نیم برہنہ دیکھنا کتنا متحرک ہوتا ہے، اور یہ تو میری ماں تھی.

بلاز اترنے پر ماں فر تھوڑا هچكچاي اور بولنے لگی. "ٹھہر بیٹے، سوچ یہ ٹھیک ہے یا نہیں، ماں بیٹے کا ایسا تعلق ٹھیک نہیں ہے میرے لال! اگر کچھ ..."

اب پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں تھا اس لئے میں نے اس کا منہ اپنے ہوںٹھوں سے بند کر دیا اور اسے آلںگن میں بھر لیا. اب میں نے اس کی برےسير کے ہک کھول کر اسے بھی نکال دیا. ماں نے خاموشی ہاتھ اوپر کرکے برا نکالنے میں میری مدد کی.

اس کے ننگے چھاتی اب میری چھاتی پر ملحق تھے اور اس کے ابھرے نپلو کا لمس مجھے مدہوش کر رہا تھا. اروجوں کو ہاتھ میں لے کر میں ان سے کھیلنے لگا. بڑے ملائم اور مانسل تھے وہ. جھک کر میں نے ایک نپل منہ میں لے لیا اور چوسنے لگا. ماں اتیجنا سے سسک اٹھی. اس کے نپل بڑے اور طویل تھے اور جلد ہی میرے چوسنے سے سخت ہو گئے.

میں نے سر اٹھا کر کہا "اماں، میں تجھے بہت پیار کرتا ہوں. مجھے معلوم ہے کہ اپنے ہی ماں کے ساتھ رت کرنا ٹھیک نہیں ہے، پر میں کیا کروں، میں اب نہیں رہ سکتا." اور فر سے ماں کے نپل چوسنے لگا.

اس کے جسم کو چومتے ہئے میں نیچے کی طرف بڑھا اور اپنی زبان سے اس کی ناف چاٹنے لگا. وہاں کا تھوڑا نمکین ذائقہ مجھے بہت منشیات لگ رہا تھا. ماں بھی اب مستی سے ہنکار رہی تھی اور میرے سر کو اپنے پیٹ پر دبایے ہوئی تھی. اس کی ناف میں زبان چلاتے ہوئے میں نے اس کے پاؤں سہلانا شروع کر دیے. اس کے پاؤں بڑے چکنے اور بھرے ہوئے تھے. اپنا ہاتھ اب میں نے اس کی ساڑی اور پیٹیکوٹ کے نیچے ڈال کر اس کی مانسل موٹی جاںگھیں رگڑنا شروع کر دیں.

میرا ہاتھ جب رانوں کے درمیان پہنچا تو ماں فر سے تھوڑی سمٹ سی گئی اور رانوں میں میرے ہاتھ کو پکڑ لیا کہ اور آگے نہ جاؤں. میں نے اپنی جیبھ اس کے ہونٹوں پر لگا کر اس کا منہ کھول دیا اور زبان اندر ڈال دی. اماں میرے منہ میں ہی تھوڑی سےسسکی اور فر میری جیب کو چوسنے لگی. اپنی جاںگھیں بھی اس نے الگ کر کے میرے ہاتھ کو کھلا چھوڑ دیا.

میرا راستہ اب کھلا تھا. مجھے کچھ دیر تک تو یہ یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ میری ماں، میرے خوابوں کی رانی، وہ عورت جس نے مجھے اور میرے بھائی بہنوں کو اپنی کوکھ سے پیدا ہؤا تھا، وہ آج مجھ سے، اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ رت كريڑا کرنے کی اجازت دے رہی ہے.

ماں کے پیٹیکوٹ کے اوپر سے ہی میں نے اس کے فولے جننانگوں کو رگڑنا شروع کر دیا. اماں اب كامواسنا سے کراہ اٹھی. اس کی اندام نہانی کا گیلاپن اب پیٹیکوٹ کو بھی بھیگی رہا تھا. میں نے ہاتھ نكلاكر اسکی ساڑی پکڑ کر اتار دی اور پھر کھڑا ہو کر اپنے کپڑے اتارنے لگا. کپڑوں سے چھوٹتے ہی میرا بری طرح تننايا ہوا لوہے کے ڈنڈے جیسا عضو تناسل اچھل کر کھڑا ہو گیا.

میں فر پلنگ پر لیٹ کر اماں کی کمر سے لپٹ گیا اور اس کے پیٹیکوٹ کے اوپر سے ہی اس کے پیٹ کے نچلے حصہ میں اپنا منہ دبا دیا. اب اس کے جننانگوں اور میرے منہ کے درمیان صرف وہ پیٹیکوٹ تھا جس سے ماں کی اندام نہانی کے رس کی بھینی بھینی منشیات خوشبو میری ناک میں جا رہی تھی. اپنا سر اس کے پیٹ میں گھساكر رگڑتے ہوئے میں اس خوشبو سے لطف اٹھانے لگا اور پیٹیکوٹ کے اوپر سے ہی اس کے جننانگوں کو چومنے لگا.

میرے ہوںٹھوں کو پیٹیکوٹ کے کپڑے میں سے ماں کے جننانگوں پر اوگے گھنے بالوں کا بھی تجربہ ہو رہا تھا. اس منشیات رس کا ذائقہ لینے کو مچلتے ہوئے میرے من کی تسلی کے لیے میں نے اس کے کپڑے کو ہی چوستے اور چاٹنا شروع کر دیا

آخر اتاولا ہوکر میں نے اماں کے پیٹیکوٹ کی پلس کھولی اور اسے کھینچ کر اتارنے لگا. ماں ایک بار پھر کچھ هچكچاي. "او میرے پیارے بیٹے، اب بھی وقت ہے ... رک جا میرے بیٹے .... یہ کرنا ٹھیک نہیں ہے رے ..."

میں نے اس کا پیٹ چومتے ہوئے کہا "اماں، میں تجھ سے بہت محبت کرتا ہوں، تم میرے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہو. ماں اور بیٹے کے درمیان کام تعلق نامناسب ہے یہ میں جانتا ہوں پر دو لوگ اگر ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہوں تو ان میں رت كريڑا میں کیا حرج ہے؟ ہے "

ماں سسکاریاں بھرتی ہوئی بولی. "پر خوبصورت، اگر کسی کو پتہ چل گیا تو؟"

میں نے کپڑے کے اوپر سے اسکی بر میں منہ رگڑتے ہوئے کہا. "اماں، ہم چپ چاپ محبت کیا کریں گے، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی." وہ فر کچھ بولنا چاہتی تھی پر میں نے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر دیا اور اس کے بال اور آنکھیں چومنے لگا. بھاو وبھور ہوکر اماں نے آنکھیں بند کر لیں اور میں پھر اس منشیات رسیلے ہوںٹھ چومنے لگا.
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Post Reply