Sarkaari Doctor

Post Reply
User avatar
rajaarkey
Super member
Posts: 10097
Joined: 10 Oct 2014 10:09
Contact:

Sarkaari Doctor

Post by rajaarkey »

Sarkaari Doctor

سرکاری ڈاکٹر جن دنوں میں نویں جماعت میں پڑھتی تھی میری اپنی کلاس فیلو صائمہ سے گہری دوستی تھی وہ کلاس میں سب سے خوبصورت تھی اس کے سینے کے ابھار ٹھوس اور مخروطی تھے اسے ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اسکول میں بھی وہ وقفہ کے دوران کلاس روم میں بیٹھی ناول پڑھتی رہتی تھی میں نے کئی بار اسے کہا کہ مجھے بھی کوئی ناول پڑھنے کےلئے دے لیکں وہ ٹال جاتی ایک دن میں نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم مجھے ناول نہیں دوگی تو میں دوستی ختم کردوں گی۔ صائمہ نے فوراً ہی وعدہ کرلیا کہ پہلے وہ خود ناول پڑھ لے پھر مجھے دے گی چنانچہ چھٹی کے وقت اس نے ناول میرے حوالے کیا اور کہنے لگی۔ یہ خفیہ قسم کا ناول ہے جس میں شوہر بیوی کی سہاگ رات کا ذکر ہے اس لیے تنہائی میں پڑھنا گھر والوں کو پتا نہ چلے ورنہ وہ تمہاری کھال کھینچ لیں گے۔ میں نے گھر آکر لنچ کے بعد اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیااور ناول نکال کر پڑھنے لگی وہ سیکسی ناول تھا اسے پڑھ کر میرے بدن میں عجیب بےچینی سی پھیل گئی اور میری سنگم میں لذت آمیز خارش ہونے لگی میں نے اپنی سنگم کو کھجایا تو مجھے مزہ آنے لگا اور میں نے اپنی سنگم پر نمی محسوس کی میری انگلی چکنی ہوگئی اور میں نے اپنی سنگم میں داخل کرکے آگے پیچھے کرنے لگی۔ مجھے بے حد مزہ آرہا تھا میں نے جوش میں آکر زیادہ زور سے انگلی چلائی اور پھر ایکدم مجھے تسکین کا بے پناہ احساس ہوا میں آسودہ ہوگئی لیکن پھر میں نے اپنی انگلی اور رانوں پر خون کے دھبے دیکھے تو گھبرا گئی لذت میں مجھے اپنی سیل ٹوٹنے کا احساس نہ ہوسکا تھا بہرحال میں نے غسل کیا اور ناول سنبھال کر رکھھ دیا۔ لیکن اب میں ہر وقت بےچین رہتی تھی جی چاہتا تھا کہ کوئی مرد میرے سینے کے ابھاروں کو دبائے مسلے ان کا رس چوسے اور اپنا آلہ میری سنگم میں ڈال کر مجھے تسکین پہنچائے جیسے ناول میں ہیرو ہیروئن کے ساتھ کرتا ہے۔ اب میں روزانہ دوپہر کو اور پھر رات کو انگلی سے تسکین حاصل کرنے لگی لیکن اس سے مجھے لیکوریا کا مرض ہوگیااور ہر وقت میری سنگم سے سفید سفید پانی بہتا رہتا جس کے سبب میری شلوار خراب رہتی لیکوریا سے میری صحت گرنے لگی تھی ماں نے دیکھا تو سبب پوچھا میں نے ججھکتے ہوئے بتایا کہ سنگم سے پانی بہتا ہے ماں نے کہا کہ یہ تو لیکوریا کا مرض ہے اس نے پڑوسن سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ کسی ڈاکٹر سے علاج کروایا جائے تب امی مجھے سرکاری اسپتال میں لے گئیں۔ وہاں ڈاکٹر نے میری بیماری کا سن کر کہا۔ یہ تو خطرناک بیماری ہے ایسا کریں کہ اس کا پرائیویٹ علاج کرائیں اسپتال میں تو دوتین ماہ لگ جائیں گے۔ اسے یہاں ایڈمٹ کرنا پڑے گا۔ مگر امی میرے بغیر تنہا نہیں رہ سکتی تھیں کیونکہ میں ان کی واحد اورلاد تھی اس نے ڈاکٹر کو اپنی مجبوری بتائی اور کہا ۔ بچی نے اسکول بھی جانا ہوتا ہے آپ خود مہربانی کرکے اس کا پرائیویٹ علاج کر دیں۔ مگر یہاں میں سرکاری ڈیوٹی پر ہوتا ہوں آپ لڑکی کو میرے بنگلے پر لائیں وہاں میں اس کا تفصیلی چیک اپ کروں گا۔ اور نسخہ بنادوں گا یا خود اسے دوا دیا کروں گا۔ ایک مہینہ بلا ناغہ روزانہ علاج ہوگا۔امی مان گئیں اور ڈاکٹر ارشد نے اپنے گھر کا پتا کاغذ پر لکھھ کردیتے ہوئے کہا ۔ شام پانچ بجے بچی کو لے آنا۔ اس شام میں امی کے ساتھ پانچ بجے ڈاکٹر ارشد کے بنگلے پر جاپہنچی ملازم نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بیٹھایا چند منٹ بعد ڈاکٹر راشد نے آکر ہماری خیریت معلوم کی اس کی عمر 30۔35 سال تھی اور وہ خوبصورت نوجوان تھا۔ اتنی دور آنے پر آپ یقیناً تھک گئی ہوں گی خالہ ۔ اس نے سامنے بیٹھتے ہوئے امی سے کہا پھر مجھ سے بولا ناصرہ تم بھی تھکی ہوئی لگتی ہو لیکن میں نے صرف خالہ کے لیے چائے بنوائی ہے تم بیمار ہو تمہارے لئے شربت آرہا ہے شربت پینے کے بعد ساتھھ والے کمرے میں آجانا میں ذرا ایک مریض کو فارغ کرلوں وہ بھی اسی مرض کا شکار ہے لیکن اب صحت یاب ہوچکی ہے۔ سات دن دوا لینے آتی رہی ہے آج اسے آخری دوا دوں گا۔ وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا امی نے کہا ۔ یہ ڈاکٹر بہت نیک اور قابل معلوم ہوتا ہے۔ اتنے میں ایک ملازم ٹرے میں شربت کا گلاس اور چائے کا کپ رکھ کر لے آیا اور میز پر رکھ کر واپس چلا گیا امی چائے پینے لگی میں نے شربت پیا تو اس کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگا بہرحال میٹھا تھا اس لیے پی گئی امی نے چائے ختم کی اور میں اٹھنے لگی تھی کہ ڈاکٹر اندر آگیا اب اس نے ٹی شرٹ کے ساتھ ایک چادر یعنی دھوتی باندھ رکھی تھی میں گھر میں یہی لباس پہنتا ہوں اس لیے تم لوگ مائنڈ نہ کرنا ۔ خالہ تم صوفہ پر دراز ہو جاو تاکہ تھکاوٹ اتر جائے ۔ پھر اس نے مجھ سے کہا آو ناصرہ میں فارغ ہوچکا ہوں ۔ میں اٹھھ کر اس کے ساتھ چل دی ڈرائنگ روم سے نکل کر ہم آخری کمرے میں آئے یہاں ایک صوفے اور سینٹر ٹیبل کے علاوہ ایک لمبی میز بھی رکھی تھی جس پر پلاسٹک کی چادر بچھی ہوئی تھی میز فرش سے تقریاً چار فٹ بلند تھی اور دو فٹ کشادہ تھی۔ کمرے میں اور کوئی نہ تھا اس نے مجھے صوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا میں صوفہ پر بیٹھ گئی نہ جانے کیوں میرا سر چکرا رہا تھا ذہن پر ہلکا ہلکا سرور طاری تھا اور جسم میں بےچینی محسوس ہورہی تھی شاید یہ شربت کا اثر تھا ۔ ڈاکٹر راشد نے میز سے پیڈ اور قلم اٹھایا اور میرے قریب صوفہ پر بیٹھ گیا میں نے محسوس کیا کہ اس کی نگاہیں میرے سینے کے سرکش ابھاروں پر مرکوز ہیں اس نے مجھ سے کہا۔ ناصرہ اپنے کوائف بتاو یعنی باپ کا نام عمر پیشہ کب سے پانی آرہا ہے۔ پانی کے ذکر پر میں نے شرما کر سر جھکالیا وہ بولا ۔ دیکھو ڈاکٹر اور وکیل سے نہیں شرمانا چاہیے حقیقت تک پہنچنے کے لیے وکیل ملزم سے ہر ظرح کے سوال کرتا ہے ۔ اسی طرح ڈاکٹر بیماری کی اصل وجہ تلاش کرنے کےلئے بہت سے سوال کرتا ہے۔ میں نے اسے کوائف بتانے کے بعد کہا ۔ ایک ماہ سے پانی آرہا ہے۔ گویا مرض اتنا پکا ہونے کے بعد تمہں خیال آیا ہے اس نے کہا۔ ذرا زپان دکھاو آگے ہوکر۔ میں نے اس کی طرف جھکتے ہوئے زبان نکالی اس نے زبان دیکھتے ہوئے میرے کھلے گریبان میں جھانکا پھر بولا اپنی کمر اور سینے کا ناپ بتاو اس سے پتا چلے کا کہ بیماری نے تمہیں کتنا کمزور کیا ہے؟ مجھے پتا نہیں ناپا نہیں ہے۔ میں نے کہا میرے بدن میں عجیب سی سنسناہٹ ہورہی تھی۔ یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ اٹھتا ہوا بولا تم بڑی میز پر دراز ہوجاو میں فیتہ لاتا ہوں ۔ میں معائنہ والی میز پر چت لیٹ گئی اس نے الماری سے فیتہ نکالا اور میرے قریب آگیا اس نے میرے تنے ہوئے مخروطی ابھاروں کو دیکھا اور ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا پھر اس نے فیتہ سے میری کمر کا ناپ لیا ۔ اس کے بعد فیتہ سے میرے سینے کے ابھاروں پر رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ میرے ابھاروں سے ٹکرائے اور مجھے عجیب سا لطف محسوس ہوا اس نے فیتہ میرے تنے ہوئے ابھاروں کے نپلز جاری ہے۔۔۔۔۔ سٹوری کیسی تھی ای میل کرکے ضرور بتائیں اور اپنی سٹوری بھیجنا چاہیں تو ضرور میل کریں۔
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &;
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- Raj sharma
Post Reply