Urdu font sexi story--Hema ki chudai

Post Reply
User avatar
rajaarkey
Super member
Posts: 10097
Joined: 10 Oct 2014 10:09
Contact:

Urdu font sexi story--Hema ki chudai

Post by rajaarkey »

Urdu font sexi story--Hema ki chudai



سب سے پہلے تو بتا دوں کہ یہ ایک حقیقت افسانے ہے کیونکہ مجھے جھوٹ بولنے سے بھی اور بولنے والوں سے بھی سخت نفرت ہے. یہ بات ابھی گزشتہ ماہ کی ہے، ہم نے دلی میں ایک نیا گھر خریدا تھا.
ایک لڑکی جس کا نام ہیما ہے، ہمارے گھر کے سامنے اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہے. عمر کوئی ہوگی 17-18 کے قریب، چھوٹی چھوٹی چوچیاں، پتلی کمر، گلابی ہونٹ اور چوتڑ تو سمجھو کیامت.
ابھی ہمیں نئے گھر میں آئے ہوئے چار دن ہی ہوئے تھے. میں نے دیکھا کہ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی. میں نے اس دن اس کو پہلی بار دیکھا. بس میرا تو سمجھو لںڈ پورا اکڑ گیا. من کیا کہ سالی کو ابھی پٹک کر چود دوں پر میں چاہتا تھا کہ پہل وہی کرے تو مزید اچھا رہے گا.
میں بايس سال کا سمارٹ لڑکا ہوں، اچھی اچھی لڑکیاں مرتی ہیں میرے اوپر! بس اس دن تو میں جیسے تیسے آفس چلا گیا تو وہ بعد میں میرے گھر آئی، میری ممی سے ملی اور پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ اور میرے بارے میں بھی پوچھا.

آپ کو بتا دوں کہ میرا خود کا بزنس ہے كركري ایکسپورٹ کا. میں صبح 10 بجے آفس جاتا ہوں اور رات کو 8 بجے آتا ہوں. ہفتہ اور اتوار میری چھٹی ہوتی ہے.
اگلے دن ہفتہ تھا تو وہ سکول نہیں گئی. شاید اسے ممی نے بتا دیا تھا کہ میں ہفتے کو گھر پر ہی رہتا ہوں. جب میں 7 بجے سوکر اٹھا تو بالکونی کی طرف آیا. دیکھا کہ وہ کھڑی تھی، میری طرف دیکھتے ہی اس نے گردن ہلا کر مجھے ہیلو کیا اور میری طرف ایک منٹ میں آنے اشارہ کر کے چلی گئی.
میں دیکھتا رہا. اچانک دیکھا تو وہ میرے گھر پر ہی میرے پیچھے کھڑی تھی. اچھا ہوا کہ اس وقت ممی وہاں نہیں تھی مندر چلی گئی تھی. میں نے اس سے پوچھا – جی ہاں! بتاييے!

تو وو کہنے لگی – آپ میری طرف دیکھ رہے تھے نہ! تو میں نے سوچا کہ جا کر ہی مل لوں.

میں نے کہا – پلیز، آپ یہاں سے چلی جاؤ! کہیں کسی نے دیکھ لیا تو پریشانی ہو جائے گی.

وہ بولی – او کے بابا! چلی جاؤں گی، تم کیوں اتنا ڈر رہے ہو؟

پھر بولی – اچھا تمہارا نام انکر ہے نا؟ اور تم بزنس کرتے ہو! اور تمہاری شادی بھی نہیں ہوئی ہے! ابھی تک کیا تمہارا شادی کرنے کا دل نہیں کرتا؟

تو میں نے غصے سے کہا – تمہیں اس سے کیا مطلب؟

کیونکہ مجھے ڈر لگ رہا تھا، ابھی چار دن ہوئے تھے محلے میں آئے ہوئے.

وہ بولی – پلیز، میرا ایک کام کرو گے؟

اس کی آنکھوں میں معصومیت کی جھلک رہی تھی تو میں بھی پگھل گیا اور بولا – بولو، کیا کام ہے؟

تو وہ بولی – میں نے سنا ہے کہ آپ کی انگلش بہت اچھی ہے لیکن میری بہت کمزور ہے. اگر آپ مجھے تھوڑا بہت پڑھا دیا کریں تو آپ کا احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوگي.

تو میں نے کہا – اس میں احسان کی کیا بات ہے، اگر تمہارے گھر والوں کو کوئی پریشانی نہیں ہے تو مجھے بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی. تم روز رات کو آٹھ بجے آ سکتی ہو.

اس نے مجھے شکریہ کہا تو میں نے سوچا کہ موقع ہے گرو! چوکا مار دو اور بول دیا – دوستی میں نو ساری! نو تھینکس!

وہ مسکرائی اور جانے لگی، اس وقت میری ممی بھی مندر سے آ گئی. اور اس سے پوچھ ہی لیا – ہاں بیٹی! کیسے آئی تھی.

ممی کو شک تو ہو رہا تھا، بس میں فورا اپنے کمرے میں چلا گیا.

پر اس نے خود ہی ممی کو بول دیا کہ میں آج سے شام کو 8 بجے سے اسے پڑھانے والا ہوں کیونکہ اس کی امتحان قریب آ رہی ہیں، اور اسے کوئی انگلش کا اچھا ٹیچر نہیں مل رہا ہے.

میں نے بھی چپکے سے سن لیا. میں بھی دل ہی دل خوش ہونے لگا. اس دن آفس میں بھی کام میں دل نہیں لگا. اب اتنی خوبصورت لڑکی اور وہ بھی نئی، تو بھلا کس کا دل کرے گا کام کرنے کا! اور میں آفس سے سات بجے ہی آ گیا.

ممی نے کھانے کو پوچھا تو میں نے بولا – ابھی نہیں! تھوڑا بعد میں كھاوگا.

بس 8 بجے اور وہ گئی اپنی کتابیں لے کر!

تو میں نے اسے بولا کہ پڑھائی ہمیشہ تنہائی میں ہی ہوتی ہے اور اپنے کمرے میں آنے کو کہا. بس وہ میرے پیچھے پیچھے آ گئی. اب وہ اور میں میرے بستر پر بیٹھ گئے. اس نے اپنی کتاب کھولی اور پوچھنے لگی یہ کیا ہوتا ہے، وہ کیا ہوتا ہے.

میرا کہاں دل کر رہا تھا پڑھانے کا! میں تو بس اس کی طرف دیکھتا ہی جا رہا تھا.

اس نے پوچھا – کیا دیکھ رہے ہو؟ تو میں نے کہا – تمہارا چہرہ پڑھ رہا ہوں کیونکہ میں ایک ساكولوجسٹ ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ تمہیں کوئی نہ کوئی پریشانی ضرور ہے.

تب وہ خوش ہو گئی اور بولی – آپ کو کیسے پتہ؟ اور بتاو نا کچھ!

تو میں نے بھی سوچا کہ موقع اچھا ہے اور بولا – لگتا ہے تمہیں کسی کی کمی کھلتی ہے اپنی زندگی میں!

تو وہ بولی – ہاں! اور تمہیں شاید کوئی اچھا دوست نہیں ملا جس سے تم اپنے دل کی باتیں کر سکو!

تو اس نے ہاں میں سر ہلایا اور اداس سی ہی گئی اور بولی – کچھ اور بھی بتاؤ نا!

تو میں نے کہا – لاؤ تمہارے گالوں کی لکیریں دیکھتا ہوں کیا کہتی ہیں! اور اس کے گالوں کو چھو – چھو کر دیکھنے لگا.

میرا لںڈ تو سمجھو باہر آنے کو بے تاب تھا پینٹ سے!

وہ دیکھ رہی تھی اور بولی – بتاو نا کیا لکھا ہے میرے گالوں پر؟

تو میں نے بول دیا کہ تمہاری زندگی میں کوئی بہت جلد آنے والا ہے اور تم بھی اسے چاہتی ہو اور اگر تم نے اسے بولنے میں تھوڑی بھی دیر کی تو تم زندگی بھر ایسے ہی پچھتاتے رہو گی.

تب وہ بولی – اگر اس نے منع کیا تو؟ میں نے کہا – ایسا ہو ہی نہیں سکتا.

تب اچانک وہ مجھ سے لپٹ گئی اور بولی – آئی لو یو انکر!

بس میں نے بھی بولا – آئی لو یو ٹو جان!

اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. پانچ منٹ تک ہم دونوں ایسے ہی لپٹے رہے کہ اچانک اس کی ممی نے نیچے سے آواز لگائی – تعلیم ختم ہو گئی ہو تو آ جاؤ بیٹا! باقی کل پڑھ لینا. اگلے دن اتوار تھا تو میں نے اسے کہا – کل میں کہیں باہر جا سکتا ہوں اس لئے تمہیں صبح آٹھ بجے ہی پڑھا دوں گا.

رات بھر نیند نہیں آئی اور بس سوچتا رہا کہ کب صبح ہو اور چود ڈالوں اسے!

وہ رات بھی اتنی لمبی ہو گئی کہ بس آپ تو جانتے ہی ہوں گے دوستو کہ انتظار کتنا مشکل ہوتا ہے.

خیر صبح ہوئی، آٹھ بجے اور وہ آ گئی. اور تبھی ممی بھی مندر چلی گئی. وہ اور میں براہ راست کمرے میں گئے، دروازہ بند کر لیا اور جاتے ہی اس کے جلتے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے. وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی. نا جانے کب ہی کب میں نے اسکی چوچیوں کو آزاد کر دیا اور انہیں زور زور سے مسلنے لگا. اس نے میرا ہلکا سا احتجاج کیا پر اس کے بعد وہ بھی گرم ہو گئی.

میرا لںڈ اندر ہی پینٹ پھاڑنے لگا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے مسلنا شروع کر دیا. تقریبا 10 منٹ کی چما – چاٹی کے بعد وہ پوری گرم ہو گئی اور میرے کپڑے اتارنے لگی.

میں نے بھی دیر نہ کرتے ہوئے اس کے کپڑے اتار دئے. اس نے صرف پینٹی ہی پہنی تھی. اسکا نںگا بدن دیکھ کر میں دںگ رہ گیا. اس کی چوچیاں اس طرح میرے سامنے تھیں کہ گویا مجھے اپنی شہوت بجھانے کے لئے مدعو کر رہی ہوں. تھوڑے ہی وقت میں دونوں پورے ننگے ہو گئے. وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گئی اور میرا لںڈ چوسنے لگی اور میں اسکے ممے دبا رہا تھا. پھر میں نے اسے لٹا دیا اور اس کی سگمرمري چوت اپنی انگلیوں سے چودنے لگا. اس کی چوت ایک دم کسی تھی انچدي کلی تھی. وہ سسکاریاں بھر رہی تھی اور اتنے میں وہ جھڑ چکی تھی. میں نے اس کے آب حیات – رس کو صاف کر دیا.

تب میں نے اپنے لںڈ کو اس کی چوت کے چھید سے سٹايا اور سانس روک کر زور لگانے لگا. پر اس کی چوت بہت کسی لگ رہی تھی تو میں نے کر تھوڑا جور سے دھکا لگایا تو اس کی چیخ نکل گئی. میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ پڑوسی نہ سن سکیں.

لںڈ کا سپاڑا اسکی چوت میں گھس چکا تھا. اب میں نے لنڈ کو تھوڑا سا پیچھے کرکے ایک اور زور سے دھکا دیا تو لنڈ چوت کی دیواروں کو چیرتا ہوا آدھا گھس گیا. اب وہ سر کو ادھر ادھر مار رہی تھی پر لںڈ اپنا کام کر چکا تھا. میں نے اپنی سانس روکی اور لںڈ کو واپس تھوڑا سا پیچھے کرکے زور سے دھکا دیا تو لںڈ مکمل اسکی چوت میں گھس گیا. اس کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بے ہوش ہو گئی ہو!

تھوڑی دیر میں اس کا درد کچھ کم ہوا. اب وہ دھکے پر ا اوههه ش اوررر ااههههه کر رہی تھی، اس کے ہاتھ میری پیٹھ پر تھے اور وہ اپنے ناخن میری پیٹھ میں گڑا رہی تھی. اس نے اپنی ٹانگوں کو میری ٹانگوں سے ایسے لپٹا لیا تھا جیسے سانپ درخت سے لپٹ جاتا ہے.

مجھے بہت آنںد آ رہا تھا. اس کے ایسا کرنے سے لںڈ اسکی چوت کی پوری گہرائی ناپ رہا تھا اور ہر شاٹ کے ساتھ وہ مکمل لطف لے رہی تھی، دھن رہی تھی – انکر، پلیز کم اون نہ! پھک می ہارڈ!

اس کی سانسیں تیز ہو گئی تھی اور پورے کمرے میں آ آ … آ … ا. .. کی آوازیں گوجنے لگی اور پھر اههچھ اپھپھپھپھپھپھپھ شهههههه کی آوازیں کرتے کرتے وہ پھر سے جھڑ گئی. اب اس کی چوت اور چکنی ہو گئی تھی اور میں نے اپنی سپیڈ اور بڑھا دی – کبھی تیز شاٹ اور چھوٹے شاٹ تو کبھی تیز شاٹ اور لنگ شاٹ لگاتا. جب چھوٹے شاٹ لگاتا تو اس کو لگتا کہ اس کی جان نکل رہی ہے، جب لنگ شاٹ لگاتا تو اس کو درد ہوتا اور ایسے ہی دس منٹ کی چدائی کے بعد میں اس کی چوت میں ہی جھڑ گیا اور ایسے ہی اس کے اوپر نڈھال ہو کر لیٹ گیا. اس کے چہرے پر اطمینان اور لطف جھلک رہا تھا.

ہم دونوں مکمل طور پر تھک چکے تھے. اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے کپڑے پہن سکے. میں نے اس کو جلدی جلدی جلدی کپڑے پہنائے کیونکہ ڈر تھا کہیں کوئی آ نہ جائے!

مجھے اس نے بعد میں بتایا کہ اب وہ بہت خوش ہے!
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &;
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- Raj sharma
Post Reply