سزا اور مزا(i n c e s t)

Post Reply
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

سزا اور مزا(i n c e s t)

Post by sexi munda »

سزا اور مزا(i n c e s t)


آج پھر وہ کمینہ اپنی چھت پہ کھڑا مجھے دیکھے جا رہا تھا.تنگ آ چکی تھی میں اسکے یوں روز چھت پہ آنے، مجھے گھورے جانے اور کبھی کبھی مجھے دیکھ کہ مسکرانے سے



میرا نام آرزو ہے..میرے علاوہ ایک ہی بھائی ہیں جن کا نام شوکت ہے.باقی ہمارے علاوہ گھر میں امی ابو ہوتے ہیں.میری عمر پندرہ سال ہے ، جبکے بھائی کی عمر تئیس سال ہے ، یعنی بھائی مجھ سے آٹھ سال بڑے ہیں.ہمارا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے..ایک چھوٹا سا دو کمرے کا گھر ہے ہمارا..ایک باتھ ہے جو امی ابو کے کمرے سے اٹیچ ہے اور کچن ہمارے چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں ہے..گھر ہمارا چھوٹا سا ہے پر امی اسے ہر وقت صاف ستھرا رکھتی ہیں..ابو آرمی سے لانس نائیک ریٹائر ہیں.ریٹائرمنٹ کی جو رقم ملی اس سے مناسب سی کوالٹی کا یہ گھر بنا لیا اور کچھ جوڑے ہوۓ پیسوں سے محلے میں ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان ڈال لی ، جس میں اکثر آئٹم ہی پورے نہیں ہوتے تھے



میرے بڑے بھائی آٹھوی فیل ہیں..باپ کو ایک امید سی ہوتی ہے کے بیٹا بڑا ہو کے اسکا سہارا بنے گا.پر بھائی ابو کی امیدوں پہ پورا نہیں اتر سکے.بھائی بھی ابو کہ ساتھ دکان پہ ٹائم دیتے ہیں یعنی دونوں باری باری دکان پہ بیٹھتے ہیں..ابو نے فوج میں افسروں کے بچوں کو انکی طرح ترقی کرتے دیکھا تھا سو انکا بھی دل تھا کے انکے بچے بھی بڑے افسر بنیں..بھائی تو ابو کا خواب پورا نہ کر سکے پر میں نے دل میں عہد کر لیا تھا کہ میں ابو کا خواب پورا کروں گی اور میرٹ پہ سیٹ لے کے ڈاکٹر بن کے دکھاؤں گی.ابو نے مرے ساتھ وعدہ کر رکھا تھا کے ''تمہاری پڑھائی کے لئے مجھے قرض بھی لینا پڑا تو میں لے لوں گا''..





ابو غصے کے بہت تیز تھے ، ویسے تو انھیں غصہ آتا نہیں تھا ، پر جب آتا تھا تو ہم سب کیا گھر کہ در و دیوار بھی کانپ سے جاتے تھے..ہر وقت انکے چہرے پہ اک سختی اور سنجیدگی سی رہتی تھی، جس سے ہم سب ہر وقت ڈرے سہمے سے رہتے تھے.بھائی کہ دوست کبھی ہمارے دروازے پر نہ آے ، ابو کا کہنا تھا کے جوان بہن ہے گھر میں تو دوستوں کو گھر تک آنے کی مجال کیسے ہو..بھائی بھی مجھ پہ کافی سختی کرتے تھے، پر پیار بھی بہت کرتے تھے..بچپن سے ہی میں انکے بازو پہ سر رکھ کر سوئی تھی.پر اب جب سے بڑی ہوئی تھی تو امی ابو کہ کمرے میں سوتی تھی.امی ابو ڈبل بیڈ پہ اور میں ایک کونے میں لگے سنگل بیڈ پہ..بھائی کا کمرہ بھی ہمارے کمرے کے ساتھ ہی تھا.دونوں کمروں میں مناسب سا فرنیچر تھا دو کرسیاں امی وغیرہ کہ کمرے میں اور ایک تین سیٹر صوفہ بھائی کہ کمرے میں ، دونوں کمروں میں لوہے کی الماریاں اورامی وغیرہ کہ کمرے میں لوہے کے بڑے بکسے تھے..الماریوں میں ہم اپنے کپڑے ٹانگتے ، جبکے بکسوں میں جو موسم گزر جاتا اسکے کپڑے ڈالتے..بھائی کہ کمرے میں بھی سنگل بیڈ ہی تھا



امی وغیرہ کہ کمرے میں ایک ٹی وی تھا جس پہ صرف پی ٹی وی آتا تھا ، کیوں کہ ابو کیبل کہ سخت خلاف تھے



.
میرے میٹرک بورڈ کہ امتحان ہونے والے تھے اور پپرز سے پہلے کی چھٹیاں چل رہی تھی.سردیوں کا موسم تھا اور میں چھت پہ دھوپ میں بیٹھی پڑھ رہی تھی اور وہ لوفر لڑکا مجھے دیکھ کہ مسکراۓ جا رہا تھا.ایسے حالات میں بھلا میں کیسے توجو دے پاتی اپنی پڑھائی پہ.دل تو کرتا تھا کہ بھائی کو کہہ کہ اس کی پٹائی کرواؤں.پھر یہ سوچ کہ چپ کر جاتی کہ محلے میں تماشا بن جاۓ گا اور ابو کی عزت پہ حرف نہ آ جائے




میرے پاس اب کوئی اور چارہ نہ تھا سواۓ اسکے کہ میں نیچے چلی جاؤں.ہمارے گھر اور اسکے گھر کی بیک سائیڈ اور چھت جڑہے ہوے تھے.ابو کو تو وہ لوگ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے ، کیوں کہ دن کے وقت انکے گھر میں اونچی آواز میں ٹیپ لگی رہتی تھی.میرے بھائی کہ پاس بھی ٹیپ تھی ، پر انھنوں نے تو کبھی اونچی آواز میں نہیں لگائی




ایک دن میں چھت پہ بیٹھی پڑھ رہی تھی کے وہ الو کا پٹھا پھر اپنی چھت پہ آ گیا..میں کرسی پہ بیٹھی آنکھیں کتاب میں جماۓ یوں ظاہر کرنے لگی ، جیسے اسے دیکھا ہی نہ ہو..پھر اسنے ایسی حرکت کی جس کی مجھے ہرگز توقع نہیں تھی.ایک گولا بنا کاغذ میرے پاؤں میں آ گرا..میں نے حیرت میں ڈوبے ہوے نظریں اٹھائی تو وہ جا چکا تھا





وہ کاغذ اٹھانے کی مجھے ہمّت ہی نہیں پڑ رہی تھی..زندگی میں اس طرح کہ حالات سے میں کبھی گزری ہی نہیں تھی تو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں..بڑی مشکل سے اپنی بکھری ہمّت کو سمیٹ کر میں نے وہ کاغذ اٹھایا اور کھولا..'' میری زندگی کا لاحاصل بھی تم ہو ، میری زندگی کا حاصل بھی تم ہو ، تم ہی سے شروع ہوتی ہے میری زندگی،اور تمہاری آنکھوں کی گہرائی جو کہ کتنی حسین ہے اسی پہ ختم ہوتی ہے میری زندگی، تم پلکیں اٹھاتی ہو تو میں ڈوبتا سا بچ نکلتا ہوں تم پلکیں گراتی ہو تو میں سنبھلتا سا پھر ڈوبنے لگتا ہوں.تم سوچتی ہو گی یہ پاگل سا مجھے دیکھ کہ ہستہ کیوں رہتا ہے ، تمہیں کیا بتاؤں جاناں تم سے محبت کا جام جب سے پی رکھا ہے ، میرے دن رات ایک سے ہو گے ہیں.ایک التجا ہے تم سے اگر تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو یا نہیں کرتی ، دونوں صورتوں میں مجھے جواب ضرور دینا.اگر تمہارا جواب نا ہوا تو تمہیں کبھی اپنی شکل نہیں دیکھاؤں گا..تمہیں تمھارے ان خاموش گلابی ہونٹوں کی قسم ہے جواب ضرور دینا






اندر تک جنجور کہ رکھ دیا اسکے الفاظ نے مجھے..پر ان لفظوں کی نہ تو میرے مستقبل میں کوئی جگہ تھی نہ ہی میرے دل میں.اس دن میں اچھے سے پڑھ بھی نہ سکی..سارا دن اسکے لفظ میرے ذہن میں گھومتے رہے.رات تک جب میں اپنی توجو پڑھائی پہ مکمل نہ لا سکی تو میں نے بھائی سے انکا موبائل لیا(ان دنوں میں رات گے تک بھائی کہ کمرے میں ہی صوفے پہ بیھٹی پڑھتی رہتی تھی، کیونکہ امی ابو تو جلدی سو جاتے تھے ، بھائی رات گے تک موبائل پہ فلمیں دیکھتے رہتے تھے ، جو وہ اپنے کمپیوٹر کی دکان والے دوست سے ڈلوا کہ لاتے تھے، بھائی کہ کمرے میں ڈبل ٹیوب لائٹ اور کوئلے کی انگیٹھی دہق رہی ہوتی تھی جس وجہ سے میں مزے سے بیٹھ کر پڑھتی رہتی تھی) ، یہ کہہ کہ ، کہ عنبرین(میری سب سے اچھی سہیلی جو کلاس میں سیکنڈ اور میں فرسٹ آتی تھی)سے بائیولوجی کا سوال ڈسکس کرنا ہے..میں اور عنبرین گورنمنٹ گرلز سکول میں ایک ساتھ ہی پڑھتی تھی.. میں نے عنبرین کہ ابو کا نمبر ملایا ، انکل نے فون اٹھا تو ان سے سلام کہ بعد میں نے عنبرین سے بات کرانے کا کہا.عنبرین جب فون پہ آئی تو سلام دعا کہ بعد میں نے اس سے بائیولوجی کہ ایک سوال پر ڈسکشن شروع کی اور بات کرتے کرتے میں کمرے سے باہر صحن میں موجود سیڑیوں کہ پاس کھڑی ہو گئی..''اچھا سنو بات یہ نہیں بات کچھ اور ہے ، وہ بھائی کہ سامنے نہیں کر سکتی تھی اس لئے بائیو کا سہارا لیا''..پھر میں نے ساری بات عنبرین کو سنا دی




عنبرین کا رشتہ اپنے کزن سے بچپن سے ہی طہ تھا، وہ اپنے کزن سے محبت اور فون پہ بات بھی روز کرتی تھی.اسکا اپنے کزن سے جسمانی تعلق تو نہ تھا پر فون پہ وہ ہر حد پار کر چکے تھے..وہ مجھے بھی ساری باتیں بتاتی رہتی تھی ، الٹی سیدھی تمام باتیں..کبھی کبھی ایسی باتیں بتاتی تھی کے ہاتھ اسکے منہ پہ رکھ کے اسے چپ کروانا پڑتا تھا..حیا اور شرم لڑکی کا زیور ہوتی ہے ، سو میں اس زیور سے مالامال تھی.عنبرین نے میری ساری بات سن کہ مجھے کہا ''تم بہت بھولی ہو ، یہ آج کل کہ لڑکوں کا طریقہ کارہے ، کہ اپنے میٹھے میٹھے لفظوں میں لڑکی کو پھساتے ہیں اور پھر اس کی زندگی تباه کر دیتے ہیں ، میں نے اپنے منگیتر سے ایسی کتنی کہانیاں سن رکھی ہیں، تو نے اپنے ابو کا خواب پورا کرنا ہے نہ تو پھر پہلے کہ جیسے اپنی پڑھائی پر توجو دے ، نکال اسکے گھٹیا لفظوں کو اپنے دماغ سے''..میں نے جواب دیا '' یار تو نے اسکا پیغام پڑھا نہیں اسلئے تو ایسا کہہ رہی ہے''..عنبرین تھوڑی پریشان سے لہجے میں بولی '' تو تم اب کیا چاہتی ہو ''.. '' یار مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ، یہ بات تو طہ ہے کہ میری زندگی میں ان فضولیات کی کوئی جگہ نہیں نہ میں اسے پسند کرتی ہوں اور نہ ہی پسند کرنا چاہتی ہوں ، پر اسکے لفظوں میں مجھے سچائی نظر آ رہی ہے''..عنبرین بولی '' تو چلو ٹھیک ہے تم اسے جواب دے دو پھر ''..میں گبھرا گئی ''ارے نہیں ، میں کیسے جواب دے دوں ، مجھ میں نہیں اتنی ہمّت ''..عنبرین بولی ''دیکھو تمہیں ابھی پتہ ہی نہیں کہ تم نے کیا کرنا ہے ، تھوڑا ٹائم لے لو اور سوچ لو







وہ رات میں کافی دیر سے سوئی ، اگلے دن میں نے نیچے ہی بیٹھ کے پڑھائی کی..میری توجو تو اسکے لفظوں میں ہی گم تھی کہ '' جواب ضرور دینا ''..میں نے ایک کڑھا فیصلہ کیا، ہاں اسکو جواب دینے کا.میرا دل مجھے اجازت نہیں دے رہا تھا کہ میں اس سچے پیار کرنے والے کو زندگی بھر کا انتظار دوں.سو میں نے پیغام کاغذ پہ لکھ ڈالا کہ '' ہو سکے تو مجھے بھول جانا ''..دوپہر کا وقت تھا میرے پاؤں میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، بڑی مشکل سے میں چھت تک پہنچی..دیکھا تو وہ اپنی چھت پہ کھڑا جیسے میرا ہی انتظار کر رہا تھا..اسکی آنکھوں میں انتظار صاف نظر آ رہا تھا..میں ڈری سہمی سی آگے بڑھی اور میں نے اپنے ہاتھ میں موجود کاغذ کے گولے کو اسکے چھت کی جانب پھنکا..ہوا میں اڑتے آتے گولے کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں خوشی کی چمک ابھری ، اسنے دیوانوں کی طرح لپک کہ وہ گولا اپنے ہاتھوں میں کیچ کیا ، ایسے جسے وہ گولا نیچے گر گیا تو بے ادبی ہو جائے گی..ایک بوجھ سا میری روح پر سے اتر گیا جیسے.میں نیچے جانے کہ لئے پیچھے کو مڑی تو دیکھا کہ شوکت بھائی میرے سامنے کھڑے ہیں.ایک زناٹے دار تھپڑ میرے منہ پہ آ کہ پڑا.. شوکت بھائی کا رنگ کالا سیاہ تھا(بلکل ابو کی طرح) ، غصے میں انکی شکل بگڑ کر اور خوفناک ہو چکی تھی







User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: سزا اور مزا(i n c e s t)

Post by sexi munda »






شوکت کی زبانی



میرا نام شوکت ہے پہلے میں تھوڑا اپنے حلیے کے بارے میں بتا دوں..میرا رنگ کالا ہے آنکھیں میری چھوٹی چھوٹی ہیں پتلیاں کالی ہیں باقی اندر سے آنکھیں سفید ہیں ، ماتھا میرا کشیدہ ہے ، بال میرے کالے ہیں،جنھیں میں درمیان سے کنگی کرتا ہوں ، جو ماتھے کی سائیڈوں سے آتے ہوے میرے کانوں تک کو چھوتے ہیں ، ہونٹ میرے رنگ کہ جسے کالے ہیں ، ہاں دانت سفید ہیں میرے..میرا قد پانچ فٹ نو انچ ہے،جسم میرا درمیانہ سا ہے نہ بہت موٹا نہ بہت پتلا ، کہنے کو صحتمند جوان ہوں..میں روز دیر سے اٹھتا ہوں کیوں کے ابو صبح صبح دکان کھولتے ہیں، میں آرام سے اٹھتا ہوں، پھر امی ناشتہ دیتی ہیں، بارہ بجے تک گھر پہ رہتا ہوں اور اسکے بعد دکان پہ جاتا ہوں.تب ابو گھر کھانا کھانے جاتے ہیں.تین بجے تک ابو گھر پہ کھانا کھا کہ آرام کرتے ہیں پھر تین سے چھ ہم دونوں دکان پر رہتے ہیں.چھ بجے میں اپنے دوستوں کی طرف نکل جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے گھر واپس آتا ہوں.ابو بھی آٹھ بجے دکان بند کر کے گھر آتے ہیں.پھر ہم سب کھانا ابو کہ کمرے میں کھاتے ہیں..رات گے تک میں ھیڈ فون لگا کر موبائل پہ فلمیں دیکھتا رہتا ہوں






جیسے سب پہ جوانی آتی ہے، ایسے میرے پر بھی آئی..پر میری جوانی میں کوئی رنگ نہیں تھا ، بڑی بے رنگ سی جوانی تھی میری..اپنے دوستوں کہ گروپ میں واحد میں ہی تھا جس کی کوئی فرینڈ نہیں تھی..شاید میں کالا تھا اس لئے.جب انسان کی زندگی میں اس طرح کہ حالات ہوں تو انسان سواۓ امید رکھنے کہ کچھ نہیں کر سکتا..کچھ لڑکیاں ہوتی ہیں جو پیسے کو دیکھ کر پھستی ہیں ، کچھ لڑکیاں ہوتی ہیں جو حسن کو دیکھ کے پھستی ہیں ، کچھ لڑکے کہ دل کو دیکھ کر متاثر ہوتی ہیں..پہلی دو چیزیں تو میرے پاس نہیں تھی.بس تیسری بات کی آس دل میں بساۓ میں زندگی گزار رہا تھا..پر انسان تھا کیا کرتا جب بھی دوستوں میں بیٹھتا تو وہ اپنی فرینڈ لڑکیوں کی باتیں کرتے کبھی مرے سامنے ہی انسے بات کرتے ، تب اندر ہی اندر میں بہت جلتا ، حسد ہوتا مجھے ان سے، رشک آتا انکی قسمت پہ.انسان کے پاس جس چیز کی کمی ہوتی ہے انسان اسی چیز کے پیچھے سب سے زیادہ بھگتا ہے..لڑکی ایک پہاڑ سا بن گئی تھی میرے ذہن میں ، بس مجھے چاہیے تھی کوئی لڑکی جس کہ ساتھ میں بھی انجوے کروں جیسے مرے دوست کرتے ہیں..کب تک میں روز رات کو مٹھ مار کہ سوتا رہوں گا.مرے دوستوں نے کوشش کافی کی میری سیٹنگ اپنی فرینڈ کی فرینڈ سے کروانے کی ، پر وہ لڑکیاں جب مجھے دیکھتی تو صاف مکر جاتی






آرزو میری اکلوتی بہن تھی ، جان سے بڑھ کر عزیز تھی وہ مجھے..میرا مان میرا غرور تھی وہ..میں اور لڑکیوں کے حالات دیکھتا تھا تو فخر ہوتا تھا مجھے اپنی بہن پر کہ وہ ان جیسی نہیں ہے.بہت کم لڑکیاں ہیں آج کل کے دور میں جن کا کسی سے چکر نہیں چل رہا..آرزو جیسی بہن بیٹیوں کی وجہ سے ہم بھائی باپ محلے میں سر اٹھا کر سینہ تان کر چل سکتے ہیں..پھر میری آنکھیں ایک دن اس منظر سے روبرو ہوئی جیسے دیکھ کر میرا مان میرا غرور میرا فخر سب کرچی کرچی ہو گیا.آرزو چھت پر سے محلے کہ ایک آوارہ اور لوفر لڑکے کو خط پھینک رہی تھی..امی گھر پر تھی نہیں محلے میں کسی کہ گھر گئی ہوئی تھی.ابو نے مجھے گھر چاہے لانے بیھجا.جب مجھے نیچے کوئی نہیں ملا تو میں چھت پر آیا یہ دیکھنے کہ آرزو پڑھ رہی ہو گی اسے کہوں چاہۓ بنا دے..جب کسی کا مان غرور اور فخر کرچی ہوتا ہے تو غصے کے طوفان آ جایا کرتے ہیں..تھپڑ کہ بعد میں نے آرزو کو نیچے دفع ہونے کہ لئے کہا اور خود بھی نیچے آ گیا





نیچے پہنچ کر میں نے آرزو کو اپنے کمرے میں چلنے کا کہا.وہ آنسووں سے بھری آنکھوں کہ ساتھ مرے کمرے میں آ گئی.میں کچن میں گیا اور وہاں سے پلاسٹک پائپ کا دو فٹ کا ٹکڑا اٹھا لایا..اپنے کمرے میں واپس آیا تو آرزو سر جھکاۓ کھڑی تھی.میں نے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی اسکی پائپ سے پٹائی شروع کر دی..پائپ اسکی پیٹھ پر کندے سے تھوڑے سے نیچے والا حصّے پر تاڑاخ تاڑاخ کی آواز ٹکرانے پر پیدا کر رہا تھا.اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو چکے تھے ، وہ روۓ جا رہی تھی اور ساتھ ساتھ کہنے لگی کہ بھائی جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے..میں غصے میں چلّایا '' بکواس بند کرو ، تم آوارہ لڑکی ہو ''..وہ درد سے تڑپی روتے ہوے بولی''بھائی میرا یقین کریں ، میں نے کچھ غلط نہیں کیا''.میں غصّے میں گرجا '' یہ جو کیا یہ تمہیں غلط نہیں لگتا واہ ''..جب میں اسے بہت مار چکا تو مرے ذہن میں ایک خیال نے جنم لیا کے میں آرزو کو ایسی سزا دوں جس سے اسے غیرت آے اور وہ آئندہ ایسا کام کرنے کی جرت نہ کرے ..میں نے اپنے غیض و غصب میں اسے کہا'' چلو مرغا بن جاؤ ..اسنے آنسووں میں لتھڑی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا ''بھائی میں معافی مانگتی ہوں آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا''..میں نے پھنکار کہ جواب دیا '' آئندہ تو تب آے گا کہ جب تم زندہ رہو گی، آج ابو ہی فیصلہ کریں گے تمھارے ان کرتوتوں کا''...ابو کا نام سن کر اسکے ڈر میں مزید اضافہ ہو گیا وہ مرے پاؤں میں گر پڑی اور بولی '' بھائی ایسا مت کرنا میں دل سے معافی مانگتی ہوں''..وہ جانتی تھی ابّو اسے جان سے مار دیں گے..میں نے کہا'' اٹھو اور مرغا بنو ..وہ اٹھی اور کھڑے کھڑے ہی اپنے دونوں کان ہاتھوں سے پکڑ لئے.میں نے غصّے سے کہا '' ایسے بنتے ہیں مرغا ، نیچے جھکو اور مرغا بنو





وہ غم سے بھری ہچکچائی سی نیچے کو جھکی ، اسنے دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر ٹانگوں سے گزارے اور اپنے کان پکڑ لئے..''میں چاہۓ بنانے جا رہا ہوں میں ابّو کو چاہۓ دے کر واپس آؤں گا تم مجھے تب تک ایسے ہی مرغا بنی ہوئی نظر آؤ..یہ کہہ کہ میں کچن میں گیا چاہۓ بنائی اور ابّو کو دکان پہ دینے چلا گیا..ابّو سے میں کوئی بہانہ کر کے گھر واپس آ گیا..دیکھا تو وہ ابھی بھی اسی پوزیشن میں تھی..میں نے اسے کھڑے ہونے کے لئے کہا ، وہ کھڑی ہوئی ، اسکی سفید رنگت مرغا پوزیشن میں رہنے کی وجہ سے گلابی ہو چکی تھی..میں نے اسے کہا '' اب میری بات غور سے سنو '' روز رات کو جب تم میرے کمرے میں آتی ہو تب تمہیں روز ہی آدھا گھنٹہ مرغا بننانہ پڑے گا ، اب جاؤ یہاں سے دفع ہو جاؤ




میں بیڈ پہ لیٹ گیا اسکے جانے کہ بعد ، اور گہری سوچوں میں گم ہو گیا..مرے دل میں خیال آیا کہ جوان بہن ہے میری ، ایسے اسے مرغا بنانا مناسب نہیں رہے گا ، پھر خیال آیا کے جو اسنے کیا ہے وہ کیا مناسب بات ہے، اسے سزا غیر مناسب ملے گی تبھی وہ سدرے گی




آج تیسرا دن تھا اسے مرغا بنتے ہوے.روز رات کو امی ابو کے سونے کہ بعد وہ میرے روم میں آتی اور میرے اشارے پر مرغا بن جاتی.اس پوزیشن میں جتنی دیر وہ رہتی ، متواتر میرے طانوں کی زد میں رہتی.روتی تو اسکے آنسوں ٹپ ٹپ زمین پہ گرتے.مجھے اسکے آنسووں کی کوئی پرواہ نہ تھی.ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا غصّہ اور بڑتا جا رہا تھا..پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ اب وہ لڑکا اپنے دوستوں میں بیٹھ کہ میری بہن کہ قصّے سنایا کرے گا اور جب میں باہر محلے میں نکلوں گا تو لوگ میری پیٹھ پیچھے کہیں گے شوکت کی بہن فلاں لڑکے کہ ساتھ پھسی ہے..یہ خیال آتے ہی میرے پورے بدن میں جیسے کانٹے سے چب گے.اگلے ہی دن میں نے ایک سٹک کا بندوبست کیا اور دوکان سے سلوشن ٹیپ لا کر اس چھری پر چڑھائی..اسی رات جوں ہی وہ کمرے میں دروازہ بند کر کے مرغا بنی میں نے اسکی پیٹھ پر اس چھڑی سے پٹائی شروع کر دی..وہ بلک بلک کہ رونے لگی ، میں دبی آواز میں گرجا '' آواز نہ نکلے تمہاری



پھر مجھے اپنے گورنمنٹ سکول کا وہ ماسٹر یاد آ گیا ، جو سبق نہ سنانے پر پوری کلاس کہ سامنے مرغا بنا کر کوہلے پر چھڑی سے پٹائی کرتا تھا..میں نے اپنی چھڑی کا رخ موڑا اور ایک زور کی ضرب آرزو کے کوہلوں پر لگائی..سٹک لگنے پر اسکی سسکاری نکلی ، پھر ایک بارش سی کر دی میں نے اسکے کوہلوں پر..ضربیں اسے لگ رہی تھی سسکاریاں اسکی نکل رہی تھی، پر ہاتھ میرا کانپنے لگا.اسکے اوپر اٹھے کوہلے جیسے مجھے ہی دیکھ رہے تھے..شلوار کہ اندر(میں شلوار قمیض ہی پہنتا ہوں)ہلچل سی شروع ہو گئی..میں سانس لینا بھول سا گیا تھا..حیرت و مستی محوے رقص تھی میرے اندر..میرا دل مرے دماغ کے قابو سے باہر ہو چکا تھا..ہاں میں آج اک نئی دنیا میں داخل ہو چکا تھا.ایسی دنیا جہاں ہر جانب مستی ہی مستی اور لطف ہی لطف بکھرا پڑا ہے..جس منزل کی تلاش میں کب سے میں بھٹکتا پھر رہا تھا وہ منزل آج میرے سامنے تھی..آدھا گھنٹہ کب پورا ہوا مجھے احساس بھی نہ ہوا..چھوٹی کی درد سے بھری آواز میرے کانوں سے ٹکرائی '' بھائی اب اٹھ جاؤں ؟'''..ہاتھ تو میرا کب کا رک چکا تھا بس نظریں تھی کے اک اسی جگہ پہ جمی سی رہ گئی تھی..میرے دور اندر کہیں سے آواز نکلی'' ہاں





میں گم سم سا بیڈ پہ بیٹھ گیا..چھوٹی صوفے پہ بیٹھ کر اپنی کتاب کھول کر پڑھنے لگی..پھر میں کمبل اوپر رکھ کر لیٹ گیا..میرا جسم اس نئے جذبے سے دہق رہا تھا.چھوٹی جب پڑھ کر چلی گئی تو میں نے اٹھ کے دروازے کو کنڈی لگائی.بیڈ پہ واپس آ کہ لیٹ گیا میں..دنیا بدلی نگاہ بدلی ، سوچ رہا تھا اس دنیا میں مجھے لایا کون؟..نگاہ یا دل ؟؟..نگاہ تو میری اب چھوٹی کے سراپے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی..چھوٹی کا رنگ چٹا سفید تھا(بلکل امی کی طرح) ،اسکا قد تقریبا پانچ فٹ پانچ انچ تھا بلکل پتلی سلم تھی وہ.بال گھنے اور پیٹھ کے درمیان تک لمبے تھے ،آنکھیں ڈارک براؤن گہری آنکھیں ، پیاری آنکھیں، دونوں ہونٹ ایک جتنے سائز کے نہ بہت موٹے نہ بہت پتلے گلابی گلابی سے، جنھیں دیکھ کر پنک کلر کا گلاب یاد آ جائے.. سفید گال ریشم کے جیسے نرم دکھنے والے ، کندے ہلکے سے اندر کی جانب مڑے ہوے، ابھار بتیس سائز کہ ، ہاں بھائی کچی کلی کے جیسے، پتلی کمر کے نیچے کوہلے موٹے موٹے ، کرشمہ تھے جی کرشمہ ورنہ اس عمر میں اتنے موٹے کوہلے نصیبوں والیوں کہ ہوتے ہیں ، اتنے موٹے کہ جب چلے تو اوپر نیچے اوپر نیچے تھرکتے تھے





آرزو کی زبانی




میں بہت شرمندہ تھی اپنے کئیے پہ.بھائی کا غصہ جائز تھا میرے پر.میں اسی قابل تھی ، کیوں جرت کی تھی میں نے ایک غیر لڑکے کو خط دینے کی.میں نے اپنے بھائی کا بھروسہ توڑا تھا..کاش میں ایسا نہ کرتی.بھائی روز مجھے سٹک سے مارنے لگے ، جب میں ان کے سامنے مرغا بنتی تو مجھے بہت شرم آتی اور جب وہ مرے کوہلوں پہ چھڑی مارتے تو شرم میں مزید اضافہ ہو جاتا ، پر کیا کرتی میں ، اس نہج پہ میں خود ہی تو لائی تھی اپنے آپ کو.سہی سے بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا مجھ سے ، اتنا درد جو ہوتا تھا.رات کو بھی بہت دیر سے آنکھ لگتی ، درد سے کروٹیں ہی بدلتی رہتی.ایک رات جب میں بھائی کے کمرے میں داخل ہوئی (بھائی کہ کمرے میں لوہے کا دروازہ لگا ھوا ہے، اس سے اندر کمرے میں داخل ہوں تو داہیں ہاتھ دیوار کے ساتھ صوفہ لگا ھوا ہے ، یہ وہ دیوار ہے جو صحن کی سائیڈ پہ ہے ، اسکے ساتھ والی دیوار کے ساتھ بھائی کا بیڈ لگا ہوا ہے ، بیڈ سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک ٹیبل ہے اور ٹیبل سے کافی دور الماری رکھی ہوئی ہے ، الماری والی دیوار ابو بھائی کے کمرے کی ایک ہی ہے، دیواروں پہ کیلنڈر اور ایک دو پرانی اور سستی سینریاں لگی ہوئی ہیں)تو میں اپنی کتابیں ٹیبل پر رکھ کر مرغا بننے ہی لگی کہ بھائی نے روز کی طرح مجھے غصے سے مخاطب کیا ''آج سے تمہاری یہ سزا ختم




میرے دل میں خوشی کی اک لہر سی دوڑی ، کہ بھائی نے شاید مجھے معاف کر دیا ہے ، ابھی خوشی میرے دل سے سفر کرتے میرے چہرے پہ پہنچنے والی تھی کہ بھائی کی اگلی بات نے مجھے حیرتوں کے حوالے کر دیا..''آج سے تمہاری نئی سزا یہ ہے کہ تم روز آدھا گھنٹہ میری جھولی میں بیٹھا کرو گی''..مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کے یہ کیسی سزا ہے؟؟..پھر میں نے سوچا شاید بھائی مجھے پاس بیٹھا کر مارنا چاہتے ہیں..میں اسی جمع تفریق میں مصروف تھی کہ بھائی نے غصے سے کہا ''چلو بیٹھو ''..میں چہرے پہ حیرانیاں سجاۓ بھائی کی جھولی میں بیٹھ گئی(بھائی صوفے پر بیٹھے ہوے تھے).ابھی میں جھولی میں بیٹھی ہی تھی کہ میرے جسم کو جسے اک زور کا کرنٹ لگا، نیچے سے کوئی چیز میرے کوہلوں سے ٹکرائی..سمجھ آنے پر میں بجلی کی سی تیزی سے بھائی کی جھولی سے اٹھی اور مڑ کر بھائی کو دیکھا..مرے وہم و گمان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کے بھائی ایسا بھی کر سکتے ہیں..میں بھائی کہ چہرے کی جانب دیکھ رہی تھی اور میرے پریشان چہرے پر کتنے ہی سوال تھے..بھائی دبے لہجے میں غصے سے اپنے آنکھیں باہر نکالتے ہوے بولے '' تم چاہتی ہو کے تمھارے کرتوت میں ابو کو بتاؤں ، اگر نہیں چاہتی تو چپ کر کہ ادھر بیٹھ جاؤ ، ورنہ اپنے انجام کہ لئے تیار ہو جاو



ایک طرف بھائی کا غضب ناک چہرہ اوپر سے ابو کا چہرہ میری آنکھوں کہ سامنے سے گزرا تو میں ڈر گئی ، موت کے خوف نے مجھے ڈرا دیا..میں خوفزدہ چہرے کے ساتھ انکی جھولی میں بیٹھ گئی.بھائی کا لن میرے کوہلوں کے درمیان لکیر میں قمیض شلوار کے اوپر سے دنس گیا.گھن آنے لگی مجھے بھائی سے..میرے آنسو نکل پڑے..بھائی ہی تو ہوتے ہیں جن پہ انسان بھروسہ کرتا ہے ، جب بھائی ہی وحشی بن جائیں تو ہم بہنیں کدھر کو جائیں..اس رات میں کمرے میں جا کر کمبل میں منہ دے کر بہت روئی..پھر ہر رات بھائی میرا ساتھ گندا کام کرتے..میں ان سے اور ابو سے ڈری سہمی اپنے ساتھ یہ ہونے دیتی.دن کو دوپہر کو رات کو جب میرا دل بھر جاتا تو کبھی کمبل میں کبھی باتھ روم میں جا کر میں دل بھر کے رو لیتی.جس سے کم از کم کچھ دیر کے لئے میرا درد کم ہو جاتا.روز جب میں انکی جھولی سے اٹھتی تو اپنے کوہلوں کے بیچ پھسی شلوار قمیض میں اپنے ہاتھ سے باہر نکالتی اور اپنی کتابیں اٹھا کر واپس اپنے کمرے میں آ جاتی



پڑھائی سے میرا رشتہ اب پہلے جیسا نہ رہا تھا ، دل ہی نہیں لگتا تھا کتابوں میں..دن کے وقت بھی بس کتاب منہ کے آگے رکھ کر بیٹھی رہتی





ایک رات جب میں انکے کمرے میں گئی تو وہ صوفے پہ بیٹھے میرا ہی انتظار کر رہے تھے ، میں نے کتابیں ٹیبل پر رکھی اور کھڑی ہو گئی..وہ انتظار میں تھے کے کب میں انکی جھولی میں بیٹھوں گی..میں آج ایک ذہن بنا کر آئی تھی ..میں نے اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ رکھے اور دبی ہوئی آواز میں کہا ''آپ کو واسطہ ہے مجھے چھونا بند کریں پلیز..وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے ''اچھا اب کبھی نہیں چھوتا تمیں ،جاؤ بیڈ پر جا کر بیٹھو..میں خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی..صوفے کے بلکل سامنے بیڈ تھا، بیڈ سر سے پاؤں تک کہ حصّے تک دیوار کہ ساتھ لگا ہوا تھا..وہ پھر بولے ''اب آنکھیں بند کر کے بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کرلیٹ جاؤ..میں نے انکے حکم کی تعمیل کی..اب میری پیٹھ اور سر بیڈ کی اونچی سی بیک کے ساتھ لگا ہوا تھا، اور میری ٹانگیں بیڈ کے اوپر لیٹی ہوئی تھی.''اب جب تک میں نہ کہوں اپنی آنکھیں مت کھولنا..میں نے آنکھیں بند کر لی..''اب اپنی قمیض اپنے پیٹ پر سے ہٹا دو



میں آنکھیں بند کئیے سوچ رہی تھی ایک امتحان سے نکلی ہی تھی کے دوسرے نے آ لیا مجھے..میں دل ہی دل میں بولی ''بھائی آپ تو اتنے اچھے تھے یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو ، میں تو آپ کی چھوٹی تھی نہ جسے آپ پیار سے گڑیا گڑیا کہتے تھے، بھائی چھوڑ دو یہ پاگل پن..اتنے میں بھائی کی کوفت شدہ آواز مرے کانوں سے ٹکرائی ''اوپر کرتی ہو یا میں پہلے والی سزا دوبارہ سے شروع کروں، سزا تو تمہیں بھگتنی ہے اب جلدی سے فیصلہ کرو یہ سزا یا پہلے والی''..ہر شریف لڑکی کا خواب ہوتا ہے کے ہاں ایک خواب ہوتا ہے کے اس کا خاوند وہ مرد ہو جو اسے سب سے پہلے چھوے ، میرا بھی یہی خواب تھا..اس طرف بھی گڑھا تھا اور دوسری طرف بھی گڑھا تھا..میں نے جھجکتے ہوے اپنی قمیض کا دامن پکڑا اور آہستہ سے اپنی قمیض پیٹ کے اوپر تک اٹھا لی..'' تھوڑا اور اوپر کرو ''..میں نے تھوڑی سی قمیض اور اوپر کر دی..بھائی کی گھٹی گھٹی آواز آئی تھوڑا اور اوپر.میں اس سے اوپر نہیں کر سکتی تھی ، پر یہ بات انھیں کون سمجھاتا.بھائی نے جهلاۓ ہوے لہجے میں کہا '' اب کر بھی دو اوپر''..میں نے ڈرتے ہوے اپنی قمیض اپنی برا سے اوپر تک اٹھا لی..اب مرے بتیس سائز کے ابھار مرے بھائی کے سامنے میری برا میں قید تھے..''برا کو بھی اوپر کرو اور اب مجھے اپنی بات دوہرانی نہ پڑے..میں کرتی بھی تو کیا ، قسمت میری پھوٹی تھی ، میں نے ایک کڑوا گھونٹ بھرا اور اپنی برا کو درمیان سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا




کتنا مان ہوا کرتا تھا مجھے اپنے آپ پہ ، پر قسمت وقت حالات مجھے کہاں لے آے تھے ، وہاں لے آے تھے جہاں کا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا.میری زندگی کے کیا گولز تھے، اور میں کیا کر رہی تھی اب ، ایسا میں نے کب سوچا تھا.مرے دونوں سفید چھوٹے چھوٹے ابھار اس وقت کسی کی نظروں کا محور تھے



اب روز رات کو میں نئی پوزیشن میں بھائی کے بیڈ پہ آنکھیں بند کر کے لیٹی رہتی..اب تو مرے آنسو بھی مجھ سے روٹھ گے تھے ، یا پھر رو رو کے خشک ہو چکے تھے..ایک دن میں اسی پوزیشن میں بیڈ پہ موجود تھی کہ مجھے بھائی کی سسکی کی آواز آئی ، تجسّس کے تحت میں نے یہ معلوم کرنے کے لئیے آنکھیں بلکل معمولی سی کھولی کے بھائی کی سسکی کیوں نکلی..آنکھیں ہلکی سی کھولنے پر جو منظر میں نے دیکھا اسے دیکھ کر میں نے فورن سے آنکھیں بند کر لی..شوکت بھائی نے اپنا ناڑا کھول کر اپنے لن کو باہرنکالا ہوا تھا اور اسے ہاتھ میں لے کر مجھے دیکھتے ہوے مٹھ مار رہے تھے، انکا لن بہت موٹا تندرست بہت لمبا اور کالا سیاہ تھا..مرے جسم میں جیسے سوئیاں سی چبھنے لگی، ایسی سوئیاں مجھے پہلے کبھی نہیں چبھی تھی، مرے جسم کو جیسے ہلکے ہلکے غیر محسوس سے ہونے والے جھٹکے لگنے لگے..اک لہر سی مرے پاؤں سے ہوتے ہوے میرے سر تک جاتی.یہ جن کفیات سے میں گزر رہی تھی ان سے تو میں کبھی رو برو نہیں ہوئی تھی.اس رات اپنے کمرے میں واپس آ کر اپنے بیڈ پر لیٹ کر رات گۓ تک مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، مرے جسم میں ایک عجیب سی بے چینی تھی





اسی بیچینی کے عالم میں میرا ہاتھ اپنی رانوں کے بیچ میں چلا گیا اور میری انگلیوں نے حرکت شروع کر دی ، میں نے آنکھیں بند کی تو مرے سامنے شوکت بھائی کا لن آ گیا..میری رانوں کے بیچ والی جگہ پانی پانی ہو گئی..میرا سب کچھ بدل گیا تھا ، میری سوچوں کا محور ، مرے خیالوں کی دنیا..اب روز رات کو میں ہلکی سی آنکھیں کھول کر بھائی کو مٹھ مارتے ہوے دیکھتی، اپنی رانوں کو زور سے ملا کر کچھ سکون ملتا تب مجھے..ایک رات میرے ضبط کے بندن ٹوٹ سے گے ، میں لطف کے دریا میں غوطہ زن ہونے سے خود کو بچا نہ پائی..آنکھیں ہلکی سی کھولے ہوے میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور شلوار کے اندر نرم گرم بھری ہوئی رانوں کے بیچ ڈال دیا اور اپنی چوت رگڑنے لگی..شوکت بھائی کی خوشی میں لتھڑی آواز مرے کانوں تک پہنچی ''' چھوٹی تجھے بھی مزہ آ رہا ہے نہ ''..یہ کہتے ہوے وہ اپنا گھوڑا پکڑے ہوے صوفے سے اٹھے، شلوار ان کے قدموں میں جا گری اور وہ مرے پاس آ کر مرے پاؤں کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گے..میں نے آنکھیں کھول کر انکی جانب دیکھا ، نشہ انکی آنکھوں میں بھی تھا نشہ میری آنکھوں میں بھی تھا



انہوں نے اپنا ہاتھ میری رانوں کی طرف بڑھایا تو میں بولی ''آپ نے کہا تھا کے آپ مجھے چھوویں گے نہیں..انہوں نے نرم لہجے میں کہا ''چھوٹی مت ترسا مجھے''..''نہیں بھائی پلیز اپنی بات پہ قائم رہیں''..''اچھا تو تو پکڑ لے نہ مرے لن کو ''..بھائی کے منہ سے لن سن کہ میں شرم سے پانی پانی ہوے جا رہی تھی ، اپنی ٹانگوں کہ بیچ بھی اور اپنے دل میں بھی..میں نے اپنا باہیں ہاتھ کو اپنی شلوار میں ڈالا اور داہیں ہاتھ کو شلوار سے نکل کے بھائی کا پلا ہوا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا..انکا لن بہت گرم ہوا ہوا تھا..میں ایک ہاتھ سے اپنی چوت رگڑ رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے انکی مٹھ مارنے لگی بلکل ویسے ہی جسے وہ روز مارتے تھے..مجھے نہیں پتا کے میں کیسے اتنی بے شرم ہو چکی تھی..پر اپنے بھائی کے سامنے اپنی عزت حیا کو تار تار کرتے جو لطف مجھے مل رہا تھا ، اس لطف کو پانے کے لئے میں سو بار اپنی عزت و حیا کو تار تار کرتی..میں ابھی انکی مٹھ مار رہی تھی کے انہوں نے کہا''چھوٹی اپنی گانڈ اور چوت تو دیکھا دے..انکے حلق سے یہ آوازیں با مشکل نکل رہی تھی..میں نے شرماتے ہوے کہا ''اچھا آپ صوفے پر جا کر بیٹھیں''..وہ صوفے پر جا کر بیٹھ گے تو میں نے اپنی شلوار کو مستی کے ساتھ آہستہ آہستہ نیچے کرنا شروع کیا.پہلے میری گوری چٹی رانیں سامنے آئی پھر میری ٹانگیں..میں نے اپنی شلوار پوری اتار دی.پر اپنی ٹانگیں بند رکھی..میرے ابھاروں کہ سامنے اب میری قمیض آ چکی تھی ، کیوں کہ میں نے سویٹر پہنا ہو تھا اور اس ساری کاروائی میں قمیض نیچے گر چکی تھی..''چھوٹی اپنی ٹانگوں کو ھوا میں اٹھاؤ اور مجھے اپنی پھدی دکھاؤ



میں بے حیائی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوے بیڈ پر پوری لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں ھوا میں اٹھا لی اورتھوڑی سی کھول لی..میں بھائی کو مٹھ مارتے ہوے دیکھ رہی تھی، ساتھ ساتھ میں اپنی چوت پر بھی انگلیاں پھیر رہی تھی..کتنی ہی دیر میں انھیں اپنی چوت کے درشن کرواتی رہی، پھر میں الٹی ہو کر لیٹ گئی ، اپنی گانڈ پر سے میں نے قمیض بھی اٹھا دی..دیکھا دی اپنی گانڈ بھی اپنے بھائی کو ، وہ گانڈ جسکی دید کی خاطر وہ کتنا تڑپے تھے.انہوں نے نشے سے مد مست آواز میں مجھے کہا ''چھوٹی تیری عمر کی لڑکیوں کی اتنی موٹی گانڈ میں نے کبھی نہیں دیکھے، بہت خوبصورت گانڈ ہے تیری ، کتنی خوبصورتی سے اندر سے باہر کو نکل رہی ہے، گڑیا چھونے دو نہ مجھے اپنا جسم ، میری جان کی دشمن کیوں بن گئی ہے..مجھے وہ گانا یاد آ گیا ''آج کی رات بڑی قاتل ہے ' آج کی رات کٹے گی کیسے ،مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں نے سرور کی شراب کا ڈرم پی لیا ہو، مجھے یوں لگ رہا تھا جسے مجھے لذّت کے بچھو نے کاٹ کھایا ہو ، مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ننگی پریاں لطف کے شہد سے میرے پورے جسم کی مالش کر رہی ہیں.میں نے بے پرواہ مستی سے کہا''بھائی آؤ چھو لو مجھے''جتنی دیر میں وہ مرے پاس پہنچے اتنی دیر میں میں بھی اٹھ کر بیٹھ گئی، بیڈ پہ چوکڑی مار لی میں نے..وہ آۓ اور انہوں نے میری گلابی چوت پہ اپنی کالی انگلیاں رکھ دی،اب کی بار لذت کا بے پناہ احساس جو مجھے ہوا ، ایسا احساس تو مجھے پہلے کبھی نہ ہوا تھا ، ان چھوا احساس ، لذت کی بارش تھی جو چھم چھم کہ برس رہی تھی میرے اوپر.وہ میری گیلی نرم گلابی چوت کو رگڑنے لگے اور میں نے اپنی گوری چٹی انگلیوں میں انکے کالے سیاہ لن کو تھام کر انکی مٹھ مارنے لگی، اب کی بار وہ زیادہ نہ سہہ سکے نہ ہی میں زیادہ سہہ سکی ، میں نے انکے ہاتھ پہ اپنی چوت کا پانی چھوڑا اور انہوں نے مرے ہاتھوں پہ اپنے لن کا پانی گرا.مزے کی بلندیوں کو پا لینے کہ بعد میں نے سوچا یہ سزا یہ مزا مجھے ہر صبح ملے ہر شام ملے ہر رات ملے ہر پل ملے جب تک زندہ ہوں تب تک ہر سانس ملے

The End
User avatar
naik
Gold Member
Posts: 5023
Joined: 05 Dec 2017 04:33

Re: سزا اور مزا(i n c e s t)

Post by naik »

nice story
Post Reply