اندھے کے ہاتھ بٹیرا

Post Reply
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

اندھے کے ہاتھ بٹیرا

Post by sexi munda »

اندھے کے ہاتھ بٹیرا

دوستو آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہو گا انے دے ہتھ بٹیرا یعنی بیٹھے بٹھائے مفت میں کچھ ایسا مل جائے جس کا سوچا تک نہ ہو تو بالکل اسی ضرب المثل سے ملتا جلتا یہ میری زندگی کا سچا واقعہ ہے جو آپ سے شئر کرنے جا رہا۔
یہ بات ہے آج سے چھ ماہ پہلے کی ۔ اردو فنڈا استعمال کر کر کے ذہن میں اتنی گرمی چڑھی ہوئی تھی کہ ہر طرف بس چوت اورممے ہی نظر آتے تھے ۔ وہ کہتے ہیں ناں کے کسی نے ایک بھوکے سے پوچھا کہ دو اور دو
کتنے ہوتے ہیں تو اس نے کہا چار روٹیاں ۔ تو بالکل اسی طرح ہم سے کوئی پوچھتا کہ کیا کھانا تو دل سے یہی آواز نکلتی کہ دو رس بھری مسمیاں ۔
خیر آتے ہیں کہانی کی طرف ۔ میں دانش چوہدری ان دنوں اپنے گھر گیا ہوا تھا ویسے تو میں تعلیم کے سلسلےدوسرے شہرایک ہوسٹل رہتا ہوں پر تب چھٹیاں تھیں۔ میں بہت بور ہو رہا تھا ۔ تب میری ایک آنٹی کی کال آئی ۔ وہ دور ایک گاؤں میں رہتے تھے اور ان کی بیٹی ہمارے شہر ایک کالج میں پڑھتی تھی۔ آنٹی نے کہا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا چیک اپ کروانا ہے پر ڈاکٹر لیٹ آئے گا ۔ خیر میں انہیں اپنے گھر لے آیا ۔ ویسے بھی ان کا ہمارے گھر کافی آنا جانا تھا ۔ اتفاق سے میری امی گاؤں گئی ہوئی تھی اس دن اور چھوٹے بہن بھائی سکول تھے ۔ میں نے انہیں چائے پلائی ۔ اتنے میں آنٹی کو کوئی کال آئی اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ انہیں واپس جانا ہے اور میں ثنا کو چیک کروا کے اس کے کالج ہاسٹل چھوڑ دوں ۔ میرے دل میں لڈو پھوٹ پڑے ۔ دل میں جلترنگ سے جل اٹھے ۔ سوچا آج تو بیٹھے بٹھائے عید ہو گئی۔

خیر آنٹی چلی گئی اور مجھے دہکتی آگ میں جھونک گئی ۔ مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ ثنا مجھے پسند کرتی ہے پر اتنا آسان نہ تھا اس سے سب کرنا ۔ ان کی فیملی بڑی سخت تھی ان معاملوں میں۔

آنٹی کے جانے کے بعد میں دروازہ بند کر کے آ گیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا ۔ مجھے شرم بھی آ رہی تھی اور بس یہی سوچی جا رہا تھا کہ بات کیسے شروع کروں ۔ وہ باہر لانج میں بیٹھی تھی ۔ اور آپ یقین کریں گے کہ سوچتے سوچتے ایک گھنٹہ گزر گیا۔ اب میرے پاس صرف 3 گھنٹے تھے ۔ ایک بجے میرے بھائیوں نے سکول سے آ جانا تھا ۔ میری دھڑکن تیز ہو گئی تھی ۔ میں باہر گیا اور اس سے کافی فاصلے پر بیٹھ کر بات چیت شروع کر دی ۔

میں پڑھائی کے حوالے سے کافی سئنیر تھا اس سے تو پڑھائی کے حوالے سے ہی پوچھنے لگ گیا ۔ وہ بھی بتانے لگ گئی ۔ پھر ایسے ہی ہلکی پھلکی گپ شپ ہونے لگی ۔ آدھا گھنٹا اور گزر گیا ۔ میں نے دل میں سوچا اب نہیں تو کبھی نہیں ایسا موقع پھر کبھی نہیں آئے گا ۔ خیر میں نے اس سے کہا کہ چائے ہی بنا دے تو اس نے کہا جی ضرور ۔ وہ کچن میں چائے بنانے چلی گئی ۔ کچھ دیر بعد میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلا گیا ۔ اب اتنی گپ شپ کر کے تھوڑی سی بے تکلفی پیدا ہو چکی تھی ۔ اس نے کہا آپ یہاں کیوں آئے بیٹھیے میں چائے لے آتی ہوں ...
میں نے کہا نہیں نہیں کوئی بات نہیں ۔ میں بھی چائے بنانا سیکھنا چاہتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ ایک خوبصورت لڑکی کیسے چائے بناتی ہے ۔
اپنی تعریف پر وہ شرما سی گئی اور دوسری طرف منہ کر کے کچھ نہ بولی ۔ میں سمجھ گیا کہ لوہا گرم ہو رہا ہے ۔ اتنے میں سامنے شیلف سے چینی اٹھانی تھی اور اس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا ۔ میں نے کہا رکو میں اٹھا دیتا ۔میں جلدی سے آگے بڑھا ۔ اب سین یہ تھا کہ وہ میرے آگے تھی ۔ میں اس کے بہت قریب ہو گیا اور اپنا ہاتھ اوپر شیلف پہ لے گیا ۔ اور اسی دوران ایک لہر سی اپنے بدن میں محسوس ہوئی۔ اس نے بھی شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور میں نے بھی ۔ میرا عضو فل تناؤ مں اس کے نرم نرم کولہوں سے ٹکرا رہا تھا ۔ شاید جب میں آگے بڑھا تب وہ سائیڈ پہ ہونا چاہتی تھی پر میں اتنی تیزی سے آگے بڑھا کہ اسے نکلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ میں نے جان بوجھ کر دیر لگانی شروع کر دی اور بار بار ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا ۔ میرا عضو بار بار اس کی رانوں کے بیچ گھس رہا تھا ۔ وہ بھی بے چین سی ہو رہی تھی ۔ اندازہ کریں کیا سماں ہو گا ۔ ایک کنواری لڑکی چولہے کی طرف منہ کیے کھڑی ہے اور میں پیچھے سے چینے اٹھانے کے بہانے چسکے لیے جا رہا تھا ۔ خیر جب مجھے احساس ہوا کہ وہ بہت زیادہ بے چین ہو رہی تو میں نے جلدی سے چینی اٹھائی اور اسے دے دی ۔ اس نے قہر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور میں نے دل میں سوچا گئے کام سے ۔
میں واپس آ گیا ۔ اور وہ چائے لے آئی . ٹائم دیکھا تو 2 گھنٹے رہ گئے تھے ۔


میں نے پھر اس سے بات چیت شروع کر دی ۔ میرے اندر گرمی تھی کہ تیز ہوتی جا رہی تھی ۔ وہ صوفے پہ بیٹھی تھی ۔ میں اٹھا اور اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔ وہ دور ہونے لگی میں اور قریب ہو گیا ۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا ۔ اس نے اپنا ہاتھا چھڑوانا چاہا پر میں نے نا چھوڑا ۔ نہ کریں نہ پلیز.. آپ کیا کر رہے ہیں یہ ۔ وہ بولی ۔
کچھ نہیں ثنا .. .. میری ایک بار مانو گی ؟ میں بولا ...
جی بولیں کون سی بات ؟ وہ بولی ۔
مجھ سے دوستی کر لو ۔ ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔ میں نے ترپ کا دہلا پھینکا ۔
لڑکا لڑکی میں دوستی کیسے ہو سکتی؟ اس نے کہا ..
میں نے کہا کیوں نہیں ہو سکتی .. ہم کر کے دکھائیں گے نا .. میں نے ترپ کا گولا پھینکا ۔ اس دوران میں مسلسل اس کا ہاتھ سہلائے جا رہا تھا ۔ میرے تھائیز اس کی تھائیز سے ٹچ کر رہے تھے ۔ اس کی دھڑکن کی تیزی مجھے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات سے بخوبی ہو رہی تھی۔
اچھا آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہے ۔ پر پلیز ہاتھ تو چھوڑیں نا ۔اس نے بے بس ہوتے کہا ۔
میں نے اپنے چہرے کے تاثرات بدلے۔ جھوٹ موٹ کا غصہ لایا ۔ اس کا ہاتھ دور پٹخ دیا اور بولا ہونہہ یہ لو چھوڑ دیا ۔ کھا رہا ہوں تمھارے ہاتھ کو کیا ۔ ہونہہ ۔میں نے ترپ کی بیگی پھینکی ۔ یہ کہ کر میں دوسرے کمرے میں جا کے بیڈ پہ لیٹ گیا ۔ اب مجھے پتا تھا وہ آئے گی سوری کرنے ۔ لڑکیاں ہوتی ہی ایسی ہیں۔ اگر وہ نہ آتی تو میری زندگی کا سارے تجربے کس کام کے ۔
وہی ہوا کچھ دیر بعد وہ آئی ۔ میں کروٹ کے بل لیٹا ہوا تھا ۔ اس نے کہا کہ سوری میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا ۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے میری کمر پہ ہاتھ رکھ کر مجھے ہلایا ۔ اور بولا سوری پلیز ادھر دیکھیں نا ۔ میں نے کروٹ بدلی اور اس کے ہاتھ سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا ۔ وہ پکے ہوئے آموں کی طرح میرے اوپر آ گری ۔ میں نے ترپ کا کنگا پھینکا اور کوئی وقت ضائع کیے بغیر اس کے چہرے اور ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا ۔ اسے پہلے تو سمجھنے میں یہ ٹائم لگا کہ اچانک سے ہوا کیا ہے اور جب احساس ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تب اس نے مزاحمت شروع کر دی پر میرے سامنے اس کی ایک نہ چلی ۔ میں مسلسل اس کے ہونٹ چوم رہا تھا ۔ وہ اپنا منہ نہیں کھول رہی تھی پر میں لگا رہا ۔ اس نے کچھ بولنے کیلئے منہ کھولنا چاہا تو میں نے جھٹ سے زبان اندر داخل کر دی ۔ اف کی نظارہ تھا ۔ کیا مزہ تھا ۔ اس کا گرم بدن میرے اوپر تھا اور میں مسلسل اس کو چومے جا رہا تھا ۔ میری زبان اس کے منہ کو خراج تحسین پیش کر رہی تھی ۔ جب کبھی زبانوں کا ٹکراؤ ہوتا تو بدن میں لہر سی دواڑتی ۔ وہ میرے اوپر تھی تو مزاحمت پر قابو پانامشکل ہو رہا تھا ۔ میں نے یکدم اس کندھوں سا پکڑا اور سائڈ پہ کر کے خود اوپر آگیا ۔ اب اس کی مزاحمت بہت حد تک کنٹرول میں تھی ۔ تھوڑی دیر کیلئے منہ کھلا تو وہ منتیں کر رہی تھی کہ دانش پلیز چھوڑ دیں ۔ نہ کریں یہ ۔ پر میں کہاں یہ سب سننے والا تھا ۔ میں نے کہا ۔ ثنا دیکھو تمھیں دوست کہا ہے نہ تو بے فکر رہو تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گا ۔ بس ٹھوڑا سا فن کریں گے تم بھی انجوائے کرو ۔ یہ کہ کر میں نے پھر سے کسنگ شروع کر دی ۔


وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی پر میں برابر اپنے کام میں لگا ہوا تھا ۔ میرا عضو بھی نیچے کہیں اسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا ۔ میں اس کے ہونٹوں اور زبان کے نرم اور شیریں ذائقے کو اپنے اندر سمانے لگا ۔ وہ بھی جوان کنواری لڑکی تھی کب تک مزاحمت کرتی ۔ رفتہ رفتہ اس کی مزاحمت دم توڑتی گئی ۔ پھر میں تھوڑا نیچے آیا ۔اب ترپ کا اکا پھینکا جو میری آخری چال تھی ۔ میں نے اس کے کانوں کی لو کو چوسنا شروع کر دیا ۔ اسے تو جیسے کرنٹ سا لگا ۔ اس کے چہرے کے تاثرات شہوت سے بھر گئے ۔ اس نے بے خودی میں اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ دیا اور میرے بالوں کو سہلانے لگی ۔
میں بھی خوش ہو گیا کہ لوہا گرم ہے ۔ اب جدھر موڑوں مڑ جائے گا ۔ میں نے اس کے کانوں کی بیک پہ کس کیا اور پھر وہاں سے نیچے آیا اس کی گردن کو چوما ۔ چومنا اور چوسنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ چوسنے میں
زبان اور ہونٹوں سے کسی چیز کو اپنی طرف کھینچا جاتا اور چومنے میں بس لب ٹچ کرتے
میں کبھی چوم رہا تھا کبھی چوس رہا تھا۔ اس کی صراحی دار گردن اتنی نرم اور شفاف تھی کہ پانی پیے تو پانی گزرتا محسوس ہو ۔
اس کی گردن سے ہوتا اس کے کندھے پہ آیا۔
اس نے ہرے رنگ کی قمیص اور اسی رنگ کی شلوار پہنی ہوئی تھی ۔
میں نے اس کا دوپٹہ اتار کے سائیڈ پہ رکھ دیا اور اس کے کندھے سے تھوڑی سی قمیص سائیڈ پہ کر کے چومنے لگا ۔ یہاں میں نے اتنی شدت سے چوسا کہ نشان سے پڑ گئے ۔ وہ بھی تھوڑا کسمائی ۔ بے قرار سی ہوئی پر یہ سب بے قراری شہوت سے لبریز تھی ۔ میں نے ایک ہاتھ اس کے ممے پر رکھ دیا اور تھوڑا دبانے لگا ۔ اس نے پھر میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی ۔ شاید پھر سے کچھ شرم محسوس ہوئی پر میں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔ اس کی قمیص کا گلا تھوڑا سا کھلا تھا ۔ میں نے گلے میں سا ہاتھ ڈال کر اس کا دایاں ممہ پکڑ لیا اور دبانے لگا ۔ اف کیا فیلنگز تھی ۔ اتنا نرم اور ملائم ممہ جیسے روئی گولا ۔ اپنے بدن میں ہوتی سنسناہٹ کو واضح محسوس کر سکتا تھا میں


اور میری اس جسارت پر تو جیسے سچ میں اچھل پڑی وہ ۔ میرے ہاتھ پہ اس نے اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔ جیسے روکنا چاہتی ہو وہ مجھے کہ نہ کرو یہ ۔ پر میرا عضو جو میرے دماغ پہ غالب آ چکا تھا کہاں اس کی بات سننے کیلئے تیار تھا ۔ میں نے پھر اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور اس کے ممے کو دبانے لگا ۔
اس نے خود کو میرے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور آنکھیں بند کر لی ۔
میں نے اب اس کی قمیص کے گھیرے کو پکڑا اور اسے اوپر کر کے اس کے بازؤں سے نکالنے لگا۔ اس نے پھر تھوڑی سی مزاحمت دکھائی.
پر میں نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور قمیص اتار کے سائیڈ پہ پھینک دی ۔ اس نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پہ رکھ دیا. فطری شرم غالب آ رہی تھی ۔ پر میں جو نظارہ دیکھ چکا تھا آنکھوں کو چندھیا دینے کیلئے کافی تھا ۔

دودھیا گورا پیٹ جو بلکل ہموار تھا۔ لچکدار کمر کے کے خم۔ انتہائی گول ناف کا سوراخ جو اس کے بدن کی خوبصورتی کو اور بڑھا رہا تھا ۔ ہلکے گلابی رنگ کا برا جس میں قید اس کے گورے سڈول ممے . غالباً 34 کے تو ہوں گے . اس سے اوپر اس کی سیکسی کلیویج اور سینے کے پیچ و خم ۔
میں تو کچھ لمحے دیکھتا ہی رہ گیا ۔ مجھے یوں دیکھتے اس نے شرما کے آنکھیں بند کر لی ۔
وہ نصرت کا شعر بھی ہے نا کہ

اس نے شرما کے میرے سوالات پر ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا
میں نے اس کے پیٹ پہ ہاتھ پھیرا ۔ اس نے اپنے بدن کو سمیٹا ۔ شاید اسے گدگدی سی محسوس ہو رہی تھی ۔ میں اس کے پورے بدن پہ ہاتھ پھیر رہا تھا جیسے جوہری زیور کو پرکھتا ہے ۔
اس کے مموں پہ جا کے مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے دونوں ہاتھوں میں دونوں ممے بھر لیے ۔ زور زور سے دبانے لگے ۔ اس کے لبوں سے ہلکی سی سی برامد ہوئی اور پھر وہ چپ کر گئی ۔ میں نے اب ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ پرے کیے اور اس کی برا کو اوپر کر کے اس کے بوبز کو ننگا کر دیا ۔
اف بالکل ویسے ہی پستان جیسے میں چاہتا تھا . انتہائی گول اور بالکل آئیڈیل سائز کے نرم و ملائم اور تنی ہوئی چھاتیاں ۔
مکھن کے پیڑے ہوں جیسے

مموں کے درمیان میں چھوٹا سا ڈارک دائرہ جس میں چھوٹے چھوٹے براؤن نپل ۔ سب نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ پر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ بس دیکھنے میں ہی وقت ضائع کرتا رہتا ۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر جلدی سے اس منظر کو آنکھوں میں قید کیا اور اس کے ننگے مموں کو تھام لیا ۔ اس کے جسم میں ایک سرسراہٹ سی ہوئی جیسی ۔
میرے منہ میں پانی سا آ گیا تھا ۔ میں نے اپنے لب اس کے دائیں ممے پہ رکھ دیے ۔ وہ مزہ جو مجھے مل رہا تھا اس کا اظہار لفظوں میں بیاں نہیں ۔ منہ میں شیرہ سا گھل رہا تھا جیسے ۔ دنیا جہان کا ہوش نہیں تھا۔ بے خود سا ہو رہا تھا میں اور اسے بھی کر رہا تھا ۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھ دیا گویا کہ رہی ہو شاباش میرے شیر اور پیار دو مجھے۔ میں تو جیسے اس کی رس بھری مسمیوں پہ ٹوٹ سا پڑا ۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح پورے پستان کو منہ میں لے لو ۔ جون کے وہ اشعار بھی میرے جذبات کی غمازی کر رہے تھے ۔
ہائے تیری چھاتیوں کا تن تناؤ
پھر تیری مجبوریاں ناچاریاں
تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دودھوں سے ہیں چشمے جاریاں
اس کے نپلز کا تناؤ اور بڑھ گیا تھا ۔ میرے لب بار بار کبھی اس کے نپل کو سیراب کرتے کبھی اس کے گرد حلقے کو ۔ میں جب دانتوں سے اس کے نپل کو مسلتا تو اس کا جسم اکڑ سا جاتا اور میرے سر پہ اس کا دباؤ بڑھ سا جاتا ۔
اس بات کا اندازہ کرنے کیلئے کہ اسے کتنا مزہ آ رہا میں اپنا بایاں ہاتھ نیچے لایا اور اس کی شلوار میں سے گزار کر اس کی چوت پر رکھ دیا ۔ اف میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی ۔ کیا دہکتی چوت تھی۔ حد سے زیادہ گیلی اور مزید پانی چھوڑ رہی تھی۔ مجھے پتا چل گیا کہ میرے دانتوں کے عمل سے اسے اور زیادہ مزہ آتا . میں نے اسی بات کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔

میں جب جب دانتوں کو اس کے مموں اور نپلز پہ رگڑتا اس کی بےقراری دیدنی ہوتی ۔ ساتھی میں نے اپنے ہاتھ سے اس کی چوت کا مساج بھی شروع کر دیا تھا ۔ اس نے اپنے ہاتھ سے میرا نیچے والا ہاتھ پکڑنا چاہا پر میں کہاں اس کی ماننے والا تھا ۔ میں یوں اس کے پستان چوس رہا تھا جیسے کوئی بھوکا بچہ دودھ پی رہا ہو۔ نپلز چوس چوس کے لال کر دیے تھے ۔ پھر ایک ممے کو چھوڑ کر دوسرے پر حملہ کیا ۔ اس کا بھی یہی حال کیا ۔ وہ پستان جو کچھ دیر پہلے دودھ ملائی کی طرح بے داغ تھے اب جگہ جگہ میرے جذبات کی شدت کی نمائش پیش کر رہے تھے ۔ میں نے جلدی سے اپنی شرٹ بھی اتار کر پھینک دی اور اس کا برا بھی اتار دیا ۔

میں ایسے ہی اس کے اوپر لیٹ گیا ۔ میرا سینہ اس کے سینے سے رگڑ کھا رہا تھا اور پیٹ پیٹ سے ۔ اف کیا مزہ تھا ۔ اس کا گرم جسم جیسے میرے جسم کی ٹکور کر رہا تھا ۔ ہلکی ہلکی سردیاں تھی اس لیے مزہ بہت آ رہا تھا ۔ میں نے پھر سے اسے چومنا شروع کر دیا ۔ اس بار وہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی ۔ کبھی وہ میری زبان چوستی کبھی میں اس کی ۔ اب وہ بھی میرے چہرے کو اپنے بوسوں سے نواز رہی تھی ۔ میں نے اپنی زبان اس کے چہرے پہ گھمائی ۔ کچھ دیر بوس و کنار کے بعد میں نیچے آیا ۔ گردن کندھوں اور پستان کو چومتا چاٹتا نیچے پیٹ پہ آیا ۔ جب ناف کے ارد گرد زبان پھیری تو وہ پھر کچھ سمٹی سکڑی ۔ میں نے ہر ہر انچ کو چوما۔ اس کے ہاتھوں کی بے قابو حرکتیں اس کے اندر کی بے چینی و بے قراری کو ظاہر کر رہیں تھی ۔ میں نے جھٹ سے اس کی شلوار نیچے کر دی ۔ ایک بار پھر غضب کا نظارہ میرا منتظر تھا ۔ بالوں سے پاک ایک سیکسی لکیر جس کا میں تھا فقیر ۔
پانی سے تر تھی اس کی چوت ۔ میں نے اپنی انگلی اس کی چوت کے جڑے ہوے لبوں کے درمیان پھیری . اس کی ہلکی سی سی برامد ہوئی ۔ میں نے اس کی شلوار پوری اتار دی۔ اس نے الاسٹک پہنا ہوا تھا اس لیے کوئی ٹینشن نا ہوئی ۔


3
اب وہ پوری برہنہ تھی اور میرے سامنے تھی ۔ میں نے اپنے شلوار بھی اتار دی اور خود برہنہ ہو کر اس کے اوپر لیٹ گیا ۔ میں اپنے عضو کو اس کی فرج سے رگڑنے لگا ۔ اپنے لن کی ٹوپی کو کبھی اوپر کرتا کبھی نیچے ۔ ایک سیکنڈ سے بھی پہلے میرا لن اس کی چوت کے گرم پانی سے بھیگ کر رواں ہو چکا تھا ۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ابھی اندر کر دوں اور کچھ یہی چاہت اس کی بھی تھی پر ایک کام رہتا تھا ۔ جو اسے اور بے قرار کرنے کیلئے ضروری تھا ۔
میں نے ایک ٹشو اٹھایا اور اچھی طرح اس کی چوت صاف کی اور اس کے قدموں کے درمیان بیٹھ کر اس کی ٹانگیں اٹھا دیں ۔ میں نے اپنا منہ اس کے چوت پر رکھ دیا ۔ اسے حیرانگی کا ایک جھٹکا سا لگا ۔ شاید اس نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرا سر ہٹانے کی کوشش کی پر دیر ہو چکی تھی . میرے لب اپنا کام دکھا چکے تھے وہ ہاتھ جو مجھے روکنے کیلئے آئے تھے اب وہی ہاتھ میرا سر دبا کر مجھے شاباش دے رہے تھے۔ میں نے پہلے اس کی چوت کے کنارے کو گرد چوما ۔ اس کی پھدی کے لبوں کے گرد زبان پھیری ۔ اس کے دانے کو زبان سے چھیڑا ۔ میری ہر گستاخی پر اس کی ٹانگیں سکڑتی ۔ میرے سر پر اس کا دباؤ بڑھتا پر میں سب سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف تھا ۔ میں نے اس کی دانے کے گرد گول گول زبان گھمائی تو اس کی بے قراری دیدنی تھی ۔ پھر اپنے ہاتھوں سے اس کی پھدی کے لب کھولے اور زبان سے اندر کا مساج کیا ۔ اس کی چوت ایک دم کنواری تھی ۔ میں چومے جا رہا تھا ۔ پھر ایک لب کو منہ میں لے کر چوسنے سا لگ گیا ۔ اتنا چوسا کہ اس کی ٹانگیں تک کانپنے لگیں ۔ پھر اس کے دانے کے گرد گول گول زبان گھمانے لگا ۔ یہ دانہ یوں سمجھ لیں کے جیسے مرد کے عضو کی ٹوپی ہوتی ویسے ہی اس کے متبادل عورتوں میں یہ دانہ ہوتا ۔ بہت سینسٹو .
اور وہی ہوا ۔ کچھ دیر ہی دانے کو چوسنے کے بعد اس کی ٹانگیں سکڑیں اور چوت نے بے حد پانی چھوڑ دیا ۔ اس کے بعد سے وہ بہت پر سکون ہو گئی ۔ میں اس کے اوپر لیٹ گیا ۔ اور اس کی ٹانگیں اپنی دونوں سائڈز سے گزار لیں ۔ میں نے اپنا لن اس کی چوت پہ رگڑا جس سے اس کی پھدی کی رطوبت لن پہ بھی لگ گئی اور وہ چکنا ہو گیا ۔ اب ٹوپی کو چوت کے سوراخ پر سیٹ کیا اور خود کسنگ کرنے لگ گیا ۔ اب ثنا بہت شانت تھی اور چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی ۔ پر اسے کیا پتا تھا کہ ابھی اسے ایک اور امتحان سے گزرنا ہے ۔ میں نے اپنا لن اس کی چوت پہ فٹ کیا اور تھوڑا سا زور لگایا ۔ لن ایک جھٹکے سے ساری دیواریں توڑتا اندر گھس گیا ۔ ثنا نے اپنی ٹانگیں وہیں اکڑا لیں اور اپنی چوت بھی جکڑ لی ۔ ایک ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے برامد ہوئی جسے میں نے رستے میں ہی پکڑ لیا ۔ میرا لن جیسے کسی دہکتی بھٹی میں آ گیا ۔ مزہ تھا کہ بس اخیر ۔ میں وہیں رک گیا ۔ ثنا کے چہرے سے درد نمایاں تھا ۔ میں اسے پیار کرنے لگا ۔ اور تسلی دینے لگا کہ کچھ نہیں ہوتا ۔
کچھ دیر بعد جب وہ کافی حد تک پر سکون ہو گئی تھی میں نے لن باہر نکال لیا ۔ لن کی ٹوپی پر تھوڑا سا خون لگا ہوا تھا اور یہی حال اس کی چوت کا بھی تھا ۔ خون دیکھ کر ثنا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ میں نے جلدی سے ٹشو سے اس کی چوت صاف کی اور اپنا لن بھی ۔ اور پھر اسے چپ کروانے لگ گیا ۔ اسے ریلکس کرنے میں ہی 5 منٹ لگ گئے ۔ اس دوران اس کی چوت پھر سے خشک ہو چکی تھی ۔

میں نے پھر سے اس کے بوبز چوسنا شروع کر دیے۔ اب تو ہم پورے ننگے تھے . پورے ننگے بدن آپس میں ٹکرا رہے تھے ۔ مزہ کا ایک سیلاب تھا جس میں غوطے لگا رہے تھے ۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنےلن پر رکھ دیا . اس نے کچھ توقف کے بعد اسے پکڑ لیا ۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی کہ اسے دباؤ

اس نے شرما کے آنکھیں بند کی اور دبانا شروع کر دیا ۔ مجھے مزہ آنے لگا . میں نے بھی اس کی چوت مسلنا شروع کر دی . اب اس کی چوت تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑ رہی تھی۔

میں پھر سے پوزیشن میں آ گیا ۔ اپنا لن اس کی چوت پہ سیٹ کیا اور اندر کی طرف زور لگانے لگا ۔ اس کی ٹانگیں میری بغلوں سے گزر کر میری کمر کے گرد گھیر بنا رہی تھیں ۔ میں نے اپنے جسم کو اس کے اوپر جھکایا ہوا تھا ۔
میں نے ایک زور دور جھٹکا مارا اور میرا لن اس کی چوت کی وادیوں میں گم ہوتا گیا ۔ اس کے گرم چوت کی دیواروں نے میرے عضو کو جکڑ لیا ۔ اس لمس میں کچھ الگ ہی بات تھی ۔ میرے اس جھٹکے پر وہ تھوڑا کسمائی پر پھر شانت ہو گئی ۔ میں سکون سکون سے اندر باہر کرنے لگا ۔ میں نے خود کو اس کے اوپر جھکایا ہوا تھا اور اس کے ممے کو چوستے ہوئے مسلسل اسے چودے جا رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ کرنے میں جو مزہ ہے وہ تیز تیز کرنے میں نہیں ۔ میں لن کو اتنا باہر نکالتا کہ بس کیپ اندر رہ جاتی اور پھر ایک جھٹکے سے اندر ڈال دیتا۔ ہر جھٹکے پر وہ تڑپ سی جاتی اور اس کی ایک آہ برامد ہوتی ۔ میرے بریسٹ چوسنے سے اسے ڈبل مزہ آ رہا تھا ۔ کئی بار اس کی پھدی کی گرفت میرے لن پر اور مضبوط ہو جاتی جو مجھے اس کے بدلتے جذبات اور احساسات کا پتا دے رہی تھی۔ بہرحال میرے دھکوں میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی ۔ اس کی آنکھیں میں اب مستی سی چھائی ہوئی تھی ۔ میر تقی میر نے بھی کیا خوب کہا ہے ۔
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
اب اس کی آنکھوں میں میرے لیے پیار تھا چاہت تھی ۔ میں نے اس کے ممے کو چھوڑا اور اسے دیکھنے لگا ۔ پھر اس سے باتیں شروع کر دی۔ ثنا مزہ ہ ہ ہ ۔۔.۔۔ آ ا ا ا ا رررر ہاااا ... میں دھکے مارتے مارتے بولا ۔
ہاہاں۔ں۔ں۔ں آااااا ررررہااااا بہت ۔ اف داننشش.....ششش.. وہ مزے سے ڈوبے لہجے میں بولی ۔
میں لن کو اور گہرائی میں اتارنے لگا۔ کمرے میں تھپک تھپک کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔ اس کی پھدی کئی بار سکڑی اور پانی چھوڑا پر میں اسے چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا ۔ ابھی آدھا گھنٹہ تھا کم از کم میرے پاس ۔ میں نے اب اسے الٹا کر دیا۔ اس طرح اس کی کمر اور گانڈ چھت کی طرف ہو گئی تھی ۔ اف کیا گانڈ تھی ۔ جیسے دو پکے خربوزے ۔ میر دل للچایا پر اتنا ٹائم نہیں تھا کہ میں گانڈ لینے کا بھی سوچتا ۔ میں نے ایسے ہی اس کے اوپر لیٹ کر اس کی چوت میں لن ڈالنے کی کوشش کی۔ پر اس طرح سے کرنے میں مشکل ہو رہی تھی اور کچھ اسے درد بھی ۔ میں نے سائڈ سے آئل اٹھایا اور تھوڑا سا اپنے لن پر لگایا اور کچھ اس کی پھدی پر ۔ اب لن ایڈجسٹ کیا تو وہ بڑی آسانی سے اندر چلا گیا ۔ میں ایسے ہی لیٹے لیٹے اندر باہر کرنے لگا ۔

اس طرح اگرچہ عضو زیادہ گہرائی میں نہ جا پا رہا تھا لیکن مزہ بہت آ رہا تھا اور اسے بھی بہت مزہ مل رہا تھا ۔ شاید میرا عضو کہیں جا کر جی سپاٹ سے بھی رگڑ کھا رہا تھا کیونکہ اس کے مزے کا احوال اس کے بدن کی حرکات سے نمایاں تھا۔ میں آہستی آہستہ حرکت دیتا رہا ۔کچھ دیر بعد میں نے ایسے ہی اسے اپنے ہپس اٹھانے کو کہا اور ہم ڈوگی سٹائل میں آ گئے ۔ میں نے اس پوزیشن میں دھما دھم چودائی شروع کردی ۔ اس دوران میں نے اپنے ہاتھ اس کے کولہوں پر رکھ دیے . اف اتنے نرم کولہے کہ کھانے کو دل کرے ۔ میں نے انہیں بھی سہلانا شروع کر دیا. کبھی زور سے بھینچتا کبھی دباتا کبھی گانڈ کی لکیر پر انگلی پھیرتا کبھی گانڈ کے سوراخ پر انگلی پھیرتا ۔ میں نے انگلی اندر ڈالنا چاہی پر وہ بہت ٹائٹ تھی ۔ میں نے ارادہ ترک کر دیا۔ ڈوگی سٹائل میں کرنے سے میرا عضو کافی گہرائی تک اندر جا رہا تھا ۔ پھر میں نے دوبارہ سیکس پوزیشن چینج کی ۔ اب میں لیٹ گیا اور اسے اوپر آنے کا کہا ۔ وہ اوپر آتے شرما رہی تھی پھر آخر کار آ ہی گئی۔ میں نے اس کا منہ دوسری طرف کر دیا ۔ اس کی گانڈ میری طرف تھی ۔ کبھی وہ اوپر نیچے ہوتی کبھی میں ایک آدھ دھکا نیچے سے لگا دیتا۔ مزے کی طرف یہ سفر رواں دواں تھا ۔
مجھے لگا میں انزال کے قریب ہوں۔ پر میں اس پوزیشن میں فارغ نہیں ہونا چاہتا تھا ۔ میں نے جلدی سے اسے اٹھایا اور اسے صوفے پر بٹھا کر اس کے سامنے سے آ گیا ۔ اب اس کی ٹانگیں اٹھا کر کندھوں پر رکھیں اور لن اس کی پھدی میں ڈال دیا ۔ اس طرح کرنے سے ہم دونوں پوری طرح ایک دوسرے کے آمنے تھے ۔ میں کبھی اسکے لب چومتا کبھی گال ۔ میرا لن مسلسل اندر باہر ہو رہا تھا۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ یہ پوزیشن تو سب سے بیسٹ تھی. خیر میرے دھکوں میں تیزی آ رہی تھی ۔ اس کی چوت کی پکڑ بھی کبھی کم کبھی زیادہ ہو رہی تھی ۔ اس کی ٹانگوں کو اٹھائے اٹھائے میں نے کچھ آخری دھکے لگائے اور لن باہر نکال لیا ۔ منی کا سیلاب تھا جو میرے لن سے نکل کر اس کے پیٹ پر گر رہا تھا ۔ میں کسی اور جہان میں ہی گم تھا ۔ میں اس کے اوپر ہی گر سا گیا اور اپنا سانس بحال کرنے لگا۔ میں اسے چوم رہا تھا ۔ پھر کچھ دیر بعد میں اٹھا اور اس کے پیٹ سے اپنی منی صاف کی ۔ پھر ہم نے کپڑے پہن لیے ۔ اس نے ملک شیک بنایا جو ہم دونوں نے پیا۔ پھر میں نے اس کا چیک اپ کروایا اور اسے واپس چھوڑ دیا ۔
اس کے بعد بہت کوشش کی کچھ کرنے کی پر ایسا کوئی موقع نہ مل سکا ۔

ختم شد
Post Reply