Komal-- urdu font stori

Post Reply
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Komal-- urdu font stori

Post by Jemsbond »

Komal urdu font stori
کومل کو آثار قدیمہ سے بہت دلچسپی تھی - جب وہ کئی سال پہلے کالج میں تھی تو گریجویشن میں انگریزی کے ساتھ اس کا دوسرا خاص مضمون آرکیالوجی ہی تھا - اس کے بعد اس نے ماسٹر اور ایم فل بھی آرکیالوجی میں ہی کیا تھا - مگر اس کے لئے ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی - وہ ایک ٹھاکر خاندان کی اکلوتی بیٹی تھی - اور اس کے پاپا ٹھاکر راجندر کبھی اس کے شوق کے آڑے نہیں آئے تھے - نہ ہی کومل کی ماما رکمنی دیوی نے اسے کبھی روکا اور پھر ایک کار ایکسیڈنٹ میں جب اس کے پاپا اور ماما کی ڈیتھ ہو گئی تو - وہ اب کروڑوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی - اس نے اب اپنے شوق کے لئے ہی خود کو وقف کر دیا تھا - اور وہ آثار قدیمہ کی کھوج ، تحقیق اور مطالعہ میں گم ہو گئی - اب اپنے جنون کی آگ کو سرد کرنے کے لئے وہ کھنڈرات میں ماری ماری پھرتی - اس نے ہندوستان کے سبھی کھنڈر چھان مارے تھے - آج بھی وہ ایک پورانی کتاب میں مہاراشٹر کے ایک علاقے جمنا نگر کے بارے میں پڑھ کر آئی تھی وہاں - اس کتاب میں لکھا تھا - کبھی وہ ایک مہان راجہ کی حویلی ہوا کرتی تھی لیکن اس کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر وہاں سے لوگ جانے لگی اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب اس حویلی پر آسمانی بجلی گری - شاید دیوتاؤں کو بھی اس کے ظلم اب پسند نہیں آئے تھے - اور وہ سارا علاقہ ہی جل کر سیاہ ہو گیا - پھر وہاں بھوت پریت نے قبضہ کر لیا وہاں آج پھر کبھی کوئی نہیں گیا تھا - یہ سب پڑھ کر کومل کا من وہاں جانے کو کرنے لگا اور آج وہ اس علاقے میں موجود تھی - وہ ایک دلیر لڑکی تھی - اس نے بے خوف و خطر اس علاقے میں اکیلی ہی آ گئی تھی - وہ اب اس قدیم حویلی میں داخل ہوئی جس کی دیواریں بھی جلی ہوئیں تھیں - پھر کومل نے اس حویلی میں گھومنا شروع کر دیا اچانک وہ ایک ایسے حصے میں آئی جہاں ایک کمرے کو یوں لوہے کے کیلوں سے جیسے جادو کے زور پر کیلا گیا تھا - وہ اب اشتیاق سے اس دروازے کی طرف بڑھی دروازے پے ایک قدیم ہندی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا - کومل کو مختلف زبانیں سیکھنے کا بھی شوق تھا - اسی لئے اسے وہ قدیم زبان پڑھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی - وہ تحریر کسی پنڈت لکشمی داس کی طرف سے تھی - کہ اس کمرے کو کبھی نہ کھولا جاۓ - اب کومل نے زیر لب مسکرا کر کہا میں تو کھولوں گئیں یہ بھوت پریت سب قصے کہانیاں ہیں - اب اس نے دروازے کی کنڈی کھولی اور اندر داخل ہو گئی اس نے اپنے ہاتھ میں موجود ٹارچ کو کمرے میں گھمایا - سارا کمرہ خالی تھا صرف ایک کونے میں اسے ایک سنہری چھوٹی سی صندوقچی ملی - وہ بولی لو جی پنڈت صاحب نے یہ خزانہ چھپا رکھا تھا جو اسے کھولنے سے روکا گیا تھا - وہ اس صندوقچی کو لے کر باہر آئی اور جیسے ہی اس نے اس کمرے کی حدود سے باہر قدم رکھا اس کے من میں یہ خیال خود بہ خود آنے لگا اب گھر چلا جاۓ - یہاں کیا ہے ایسے ہی اتنا لمبا سفر کیا اور پھر یہ خیال اس پے ہیوی ہو گیا اب وہ کئی دنوں کے سفر سے یہاں آئی تھی - لیکن واپس جانے میں جیسے غائبانہ طور پے اس کی مدد کی گئی ھو وہ حیران تھی کہ گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوا جا رہا تھا -اب وہ سوچنے لگی یہ کیا چکر ہے - پھر اس کی سوچیں آپس میں بھڑنے لگیں - اور وہ جب اپنے شہر بومبئی میں پہنچی تو رات کافی ہو چکی تھی وہ اب گھر میں داخل ہوتے ہیں جیسے کسی اور کے زیر اثر اپنے کمرے میں چلی گئی اس کی خاص اور راز دار ملازمہ جمنا اس کے کمرے میں آئی اور بولی کومل دیدی آپ کے لئے کھانے کو لاؤں یا بعد میں کھائیں گئیں - کومل نے کہا نہیں یار آج بھوک نہیں ہے میں اب سونے لگی ہوں - کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے اب جمنا نے کہا جی دیدی اور واپس چلی گئی - کومل نے اب اندر سے دروازہ لاک کیا اور اور اپنے بیڈ پے بیٹھ گئی - اب اس نے اس صندوقچی کو کھولنے کا سوچا اور پھر جیسے ہی اس نے صندوقچی کھولی وہ چونک گئی اس کے اندر ایک سنہری رنگ کا ایک پانچ انچ لمبا بال تھا جو عام بال سے حجم میں کچھ موٹا تھا وہ اب اشتیاق سے اس بال کو دیکھنے لگی - پھر اس نے سوچا یہ کس کا بال ہے اور بال کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس نے جیسے ہی اس صندوقچی سے باہر نکالا - اسی لمحے میں لائیٹ بند ہو گئی اب کومل نے حیرانی سے سوچا یہ لائیٹ کیسے بند ہوئی ہے - آج تک تو کبھی نہیں ہوئی اب وہ ایمر جنسی لائٹ لینے کو اٹھی تو اس کا پاؤں قررب ہی رکھی کرسی سے ٹکرایا اور وہ بل اس کے ہاتھ سے گر گیا اب کومل ابھی سیدھی ہی ہوئی تھی کہ لائٹ آ گئی اب وہ نیچے دیکھنے لگی لیکن اسے کہیں بھی وہ بال نظر نہ آیا - اب وہ پریشاں ہو گئی کہ وہ سنہری بال کہاں گیا اس نے کمرے میں ہر طرف دیکھا بیڈ کے نیچے سے بھی لیکن وہ نہ ملا اب کومل نے وہ صندوقچی بند کر کے ایک طرف رکھی اور خود وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر لیٹ گئی وہ اب جیسے کسی دوسرے کے زیر اثر ہر عمل کر رہی تھی - کچی دیر بعد اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اب اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کوئی چیز اس کے پاؤں سے ٹکرائی ہے پھر اسے ہلکی ہلکی خارش کا احساس ہوا اب کوئی نرم سی چیز اس کی پاؤں سے اوپر کی طرف رینگنے لگی اور پھر وہ چیز کومل کی پینٹ میں گھسی اب وہ پنڈلیوں سے آگے آنے لگی کومل کو ایک عجیب سا مزہ آنے لگا تھا - وہ نرم سی جو بھی چیز تھی اسے ایک ایسی لذت سے روشناس کرا رہی تھی جو اسے کبھی نہیں ملی تھی - اب اس کی آنکھیں ایک جھٹکے سے خودی کھل گئیں اور اسے پینٹ کے آر پار سے اپنی ننگی رانیں نظر آنے لگیں جن پے وہی سنہری بال تھا جو آھستہ آھستہ سے سرسراتا ہوا اوپر آنے لگا پھر وہ بال کومل کی پینتی میں گھسا اور اس کے ساتھ ہے کومل کی اب ایک زور کی چیخ نکل گئی درد سے کیوں کہ وہ سنہری بال اب کومل کی ان چھوئی چوت میں جیسے سرایت کر گیا تھا - اب کومل کے سارے بدن کو یوں ہلکے ہلکے جھٹکے لگنے لگے جیسے اس نے بجلی کی ننگی تار کو پکڑ رکھا ھو - کافی دیر تک کومل کو یہ جھٹکے لگتے رہے - پھر اس کا سارا جسم سردی میں بھی پسینے پسینے ہو گیا - اب کومل کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ روئی کی طرح ہلکی پھلکی ہو گئی ھو - اب اس نے ایک کمر توڑ انگڑائی لی اور کومل کی خوبصورت چھاتی اس کے جسم کے کمان کی طرح تن جانے سے باہر کو نکل آئی - اور اب کومل اٹھی اس نے اپنے جسم سے ایک ایک کر کے سارے کپڑے اتار دئیے اب وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی اور اپنے جسم کا اس نے آئینے میں جائزہ لیا اس کی چھاتی چھتیس تھی اور کمر نہ ہونے کے برابر نیچے سے پیچھے کو نکلے کولہے اڑتیس تھے - اس نے چاروں طرف گھوم کر خود کو دیکھا کومل کی چھاتی بڑی سائز کی ٹینس بال جیسی تھی اور پنک کلر کی قدرے ابھری ہوئی نپلز نے اس کی چھاتی کے حسن کو دو بالا کر دیا تھا وہ اب نیچے آئی اور اپنی چوت کو ٹانگیں پھیلا کر دیکھنے لگی کومل کی چوت بہت ہی صاف اور شفاف تھی - اس کی چوت کی شیپ بہت ہی کمال کی تھی - جب اس نے جی بھر کے اپنے حسین بدن کا جائزہ لے لیا تو وہ واش روم میں داخل ہوئی اور نیم گرم پانی سے اچھی طرح سے غسل کیا - پھر باہر نکل آئی اور ننگی حالت میں ہی اپنے بیڈ پے لیٹ کر اس نے آنکھیں موند لیں - پھر کچھی لمحوں بعد جیسے اس کی بند آنکھوں کے سامنے فلیش سے چمکنے لگی اب اسے ایک سریلی نسوانی آواز سنائی دی - میرا نام چندرکانتا ہے اور میں سیکس اور محبت کی دیوی ہوں - تم نے مجھے کئی سالوں کی قید سے مکتی دلائی - میں تمہاری شکر گزار ہوں- پہلے میں نے کوشش کی اپنے اصلی روپ میں آ سکوں لیکن نہیں آ پائی ابھی مجھے پتا نہیں کتنے سال اسی سنہری بال کی شکل میں رہنا ہو گا - میں روزانہ کسی نوجوان مرد سے سیکس کے بنا نہیں رہ سکتی - اب مجبور ہو کر میں نے آپ کے خوبصورت جسم پے قبضہ کیا ہے جسم آپ کا اور شکتی میری ھو گئی - کومل آپ آج سے اس ہندوستان کی رانی ھو - کس میں اتنی شکتی ہے کہ وہ چندرا دیوی کے سامنے آ سکے آج سے تم ہی چندرا دیوی ھو - تم سیکس کسے بعد اس نوجوان مرد کا خوں پیو گئی - اب جیسے کومل کے دل اور دماغ نے انکار سا کیا تو وہ آواز کچھ دیر بعد بولی ٹھیک ہے وہ میں خود ہی اپنے طریقے سے پی لوں گئی اب خوش میری جان لیکن یہ کنفرم ہے آپ سے سیکس کرنے والا مرد زندہ نہیں رہے گا میں اس کا خوں پی جاؤں گئیں کیسے پیوں گئیں یہ میں نہیں بتاؤں گئی - کہوں کہ میری غذا ہی جوان مردوں کا خون ہے - میں ہر ہفتے میں دو مردوں کا خون پیوں گئیں - لیکن آپ کو ہر رات جس مرد پے آپ کا دل آئے گا اس سے سیکس کرنا ہو گا - اب کومل کی سوچ نے کہا اگر مجھے پولیس نے پکڑ لیا تو خون کے الزام میں اب اسے ایک سریلا سا قہقہ سنائی دیا وہ بولی میری نادان دوست تم نہیں جانتی اب کتنی شکتی تمہارے بدن میں سرایت کر گئی ہے اور اب تمہاری ابرو کے ایک اشارے سے کسی کی بھی گردن کٹ سکتی ہے تم صرف کسی کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر جو بھی سوچو گئی میری مہان شکتی اسے کر دے گئی - اب کومل کی سوچ نے کہا اگر کوئی میرے دل کو اچھا لگا تو اب اسی چندرا دیوی کی آواز نے جواب دیا جانو میں اپنی دوست کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں - جو آپ کو اچھا لگے گا مجھے خود ہی پتا چل جاۓ گا کیوں کہ میں تو آپ کے سارے جسم میں ہوں اب اسے میں کچھ نہیں کہوں گئیں - اب کومل نے ایک لمبا سانس لیا اور کہا آج کچھ نہیں ہو گا کل سے تو چندرا دیوی نے کہا آج تم سو جاؤ اب تم صرف سوچو گئی میں آپ سے اسی سوچ کے لہجے میں جواب دوں گئیں - اور اب کومل کو نیند آنے لگی اور وہ سو گئی
اگلی صبح میں کافی دیر سے اٹھی - جیسے ہی میں اٹھی میں نے اپنے بیڈ کے ساتھ ہی دیوار سے لگی سوئچ بورڈ پے لگا اکلوتا بٹن پریس کیا کچی دیر میں جمنا میرے لئے بیڈ ٹی لے کر آ گئی - اس نے بیڈ ٹی بیڈ کے ساتھ اٹیچ ٹیبل پے رکھی اور میری طرف دیکھ کر بولی دیدی کیا کھاتی ھو آج کال آج آپ کا رنگ یوں چمک رہا ہے جیسے سونے سے بنا ہوا کوئی بدن ھو - میں نے مسکرا کر کہا وہی کھاتی ہوں جو تو پکاتی ہے - اور وہ اب ہنستے ہوئے باہر نکل گئی میں نے گرما گرم ٹی کو اپنے ہونٹوں سے لگا لیا اور ہلکے ہلکے سپ بڑھنے لگی - ٹی ختم کر کے میں اٹھی اور واش روم کی جانب بڑھی وہاں سے فارغ ہو کر میں نے اب اپنی شرٹ اور ٹرؤزر اتارا - اب میں صرف برازیئر اور پینٹی میں تھی - اپنا تولیہ کندھے پے ڈالا اور کمرے سے باہر نکل آئی وہاں سے سیدھی میں سوئمنگ پول کی جناب بڑھی تولیہ وہاں موجود اسٹینڈ کے ساتھ لٹکا دیا اور خود سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا دی - پانی نیم گرم تھا - یہ سب کمال جمنا کا تھا وہ جانتی تھی میں سردی ہو یا گرمی بلا ناغہ سوئمنگ کرتی ہوں - وہ سردیوں میں میرے اٹھنے سے پہلے ہی پانی نیم گرم کر دیتی تھی - اس مقصد کے لئے کافی ہیوی ہیٹر موجود تھا - جو صرف بیس منٹ میں پانی کو نیم گرم کر دیتا تھا - جمنا میری کوٹھی میں سب ملازموں کی نگران تھی - وہ کوئی پندرہ ملازموں کو کنٹرول کرتی تھی - جن میں دس مرد اور پانچ عورتیں تھیں - میں اب مزے سے پانی میں تیراکی کے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی - میں نے اپنی روٹین کے مطابق ایک گھنٹے تک لگا تار سوئمنگ کی بعد میں باہر آئی اور خود کو تولیے سے اچھی طرح صاف کیا اسی وقت میرے لئے لباس لے کر آ گی جمنا میں نے وہیں پے اپنی شرٹ اور ٹرؤزر پہنا یہ روز کی روٹین تھی - میں جیسے ہی سوئمنگ سے فارغ ہوتی جمنا میرے لئے اندر سے لباس لاتی آج وہ بولی دیدی سچی میں آج آپ کا بدن بلکل گولڈ کی طرح سے چمک رہا ہے - آج آپ پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی ہیں - میں نے اسے باتوں میں ٹال دیا اب وہ بولی دیدی آج سنا ہے ھمارے شہر میں سب سے بڑھی ریس دوڑے گئی - گھوڑوں کی میں نے اب چونک کر پوچھا تم کو کیسے پتا تو جمنا نے بتایا کل سامنے والوں کا سنیل بتا رہا تھا - ھمارے کاکا جی کو کاکا جی میرے گھر میں گیٹ کیپر تھے - میں نے کہا چلو ٹھیک ہے ہونے دو ہم کو کیا - اور اندر اپنے روم میں آ گئی - اسی وقت مجھے اپنے کان میں سرگوشی سنائی دی چندرا دیوی کی وہ بولی کومل جانو آپ آج کی اس ریس میں حصہ لو آج ہم آپ کو اپنی شکتی کے ادنیٰ سے کرشمے دیکھائیں- میں نے کہا ٹھیک ہے دوست اور پھر میں اپنی روز مرہ کی مصروفیت میں مشغول ہو گئی - کچھ دیر میں نے یوگا کی مشقیں کیں اور بعد میں ناشتہ کر کے تیار ہوئی اور اپنی ایک دوست سے ملنے اس کے گھر چلی گئی میری دوست پائل کو کچھ دنوں سے فلو تھا - وہ میری ایک ہی قریبی دوست تھی - میں اس کے گھر گئی تو وہاں کا ماحول دیکھ کر میں چونک اٹھی - وہاں اس کے گھر والی ایک سادھو کی یوں خدمت کر رہے تھے - جیسے وہ کوئی بہت ہی مقدس ہستی ہو - مجھے دیکھ کر پائل نے کہا آو مہاراج کو ڈنڈوت کرو یہ کلکتہ کے بہت ہی بارے پنڈت ہیں - مہاراج چرن جیو میں نے اس مہان پنڈت کی طرف دیکھا - وہ بھی مجھے ہی گھوری جا رہا تھا - چرن جیو کی جسامت کافی بھاری تھی - اور اس کا رنگ توے کی سیاہی کی طرح تھا - اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور لال تھیں- میں نے پائل کے سرے گھر والوں کو اس کے قدموں میں بیٹھے دیکھا تھا - میں نے ابھی تک اسے ڈنڈوت نہیں کیا تھا - اب وہ اپنی گونجیلی آواز میں بولا - پائل لگتا ہے اس سندری کو ابھی ہمارا اصلی پریچے نہیں ہے ورنہ یہ کبھی ھمارے سامنے یوں نہ کھڑی ہوتی - پنڈت کی آنکھیں جیسے میرے بدن کے آر پار جا رہی تھیں- میں نے اب پائل کی طرف دیکھا وہ میری طرف ہی دیکھ کر آنکھ کے اشارے سے بولی میں پرنام کروں میں نے دل ہی دل میں کچھ سوچا اور اسے پرنام کیا ہاتھ جوڑ کر اب میں پائل کے پاس رکھے صوفے پر بیٹھی تو پائل کی ماما نے کہا بیٹا گرو جی کا آشیرواد نہیں لو گئی کیا میں نے کہا میں ایسے ہی ٹھیک ہوں انٹی - اب میری بات نے جیسے اس پنڈت کا دماغ گھما دیا وہ اب اپنے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر بولا کوئی بات نہیں سندری کوئی بات نہیں آج نہیں تو کل تم کو کیول ھمارے پاس ہی آنا ہو گا - میں نے بھی اب ایک طنزیہ سمائل اس کی طرف پھینکی اور پائل سے کہا - آؤ یار اندر چل کر بیٹھتے ہیں - اب میں جیسے ہی پائل کے روم میں اس کے ساتھ داخل ہوئی وہ غصے سے مجھے دیکھ کر بولی - اوہ کومل میں کیا کروں تیرا تم نے آج کتنا برا پاپ کیا ہے تم نہیں جانتی یہ مہاراج کتنے با کمال پنڈت ہیں - آج بھی ان کو بھائی صاحب نے خصوصی طور پر بلایا ہے کیوں کہ آج بمبئی کی تاریخ کی سب سے بڑی ریس ہونے جا رہی ہے جس میں پورے ملک سے لوگ حصہ لے رہے ہیں - بھائی ساگر نے بھی اپنے دوست ٹھاکر وکرم کے لئے ان کو بلوایا ہے - آج دیکھنا صرف وہی گھوڑا جیتے گا جس پے یہ مہاراج اپنا سایہ کریں گے- میں نے ہنس کر کہا یہ سب ڈھوسلے ہیں ان لوگوں کے معصوم جنتا کو لوٹنے کے لیکن پائل کے سر پے تو چرن جیو کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا - وہ میری بات کاٹ کر بولی چلو آج رات کو دیکھ لینا میں نے چونک کر اسے دیکھا اور پوچھا کیا تم بھی جاؤ گئی ریس دیکھنے وہ بولی نہیں یار مجھے بھائی ساگر نے وہاں جانے سے روک دیا ہے میں نے ایک اطمینان کا سانس لیا - پھر میں کافی دیر اس کے ساتھ رہی اور بعد میں اپنے گھر واپس آ گئی- میں زیادہ تر پینٹ اور شرٹ ہی استمال کرتی تھی - لیکن آج میں نے خصوصی طور پرآسمانی رنگ کی قیمتی ساڑھی نکالی اور جب میں ساڑھی میں تیار ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکلی تو جمنا نے مجھے دیکھ کر اپنے دل پے ہاتھ رکھا اور بولی ہائے میں مر جاؤں آج تو دل کر رہا ہے آپ کو جی بھر کے پیار کروں - سچی سیدھی دل میں ہی کھب گئی ہیں دیدی اتنا حسان تو کیسی اپسرا کا بھی نہیں ھو گا جیسا آپ کا ہے - میں نے اسے کہا آج کل خیر ہے نہ باتیں بہت کرنے لگی ہے تو کیا آج کل رامو کچھ زیادہ ہی تو نہیں وقت دینے لگا وہ اب شرما کے بولی ہائے دیدی کس ظالم کا نام لیا ابھی تک جسم ٹوٹ رہا ہے - رامو اس کے پتی کا نام تھا - وہ مجھ سے اپنی ہر بات شئیر کرتی تھی - میں نے کہا جمنا جاؤ رامو سے کہو آج میری مرسڈیز کو باہر نکالے یہ مرسڈیز مجھے پاپا نے گفٹ کی تھی میں کم ہی اسے استعمال کرتی تھی - پھر میں جیسے ہی اپنی نیو ماڈل کی مرسڈیز کو ڈرائیونگ کرتی ہوئی اپنے گھر سے باہر آئی مجھے چندرا دیوی کی آواز سنائی دی وہ بولی کومل آپ کو بہت مزہ آئے گا - کیوں کہ آج سارے ہندوستان سے بڑے ہی کڑیل جوان آ رہے ہیں- میں تمہارے کان میں کہوں گئی جس جوان کا اسے ہی تم نے سب سے زیادہ اہمیت دینی ہے - اور جس گھوڑے کو آپ کہو گئی وہی جیتے گا - میں نے اپنی سوچ میں کہا لیکن سنا ہے آج وہاں بڑے بڑے نامور پنڈت آ رہے ہیں وہ اپنی سریلی آواز میں ایک کھنکتا ہوا قہقہ لگا کر بولی میری جان کومل اس ہندوستان میں ایسا کوئی پنڈت نہیں جو چندرا دیوی کا سامنا کر سکے - ابھی تم کو احساس ہی نہیں ہے تم کو کون سی شکتیاں مل گئی ہیں - ہم یوں ہے آپس میں سوال و جواب کرتے ہوئے ریس کورس پہنچ گئے - میں نے اب وہاں کی وسیح و عریض پارکنگ میں اپنی مرسڈیز پارک کی اب جیسے ہی میں گاری سے نیچے اتری مجھ میں خود ہی ایک شاہانہ پن پیدا ہو گیا میں خود بھی اپنی ایک نخریلی چال پے خود ہی قربان ہوئی جا رہی تھی-
٭٭٭٭٭
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Komal-- urdu font stori

Post by Jemsbond »

٭٭٭٭٭
ٹھاکر وکرم کا تعلق ایک قدیم راجہ فیملی سے تھا - وہ راج نگر کے ارد گرد ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک تھا - اسے خود بھی نہیں پتا تھا اس کے پاس کتنی دولت ہے- وہ ہر وقت تیس چالیس لوگوں کو ساتھ رکھتا تھا - اسے دو ہی شوق تھے ایک گھوڑوں کی ریس کا اور دوسرا کنواری اور کمسن دوشیزاؤں کی سیل توڑنے کا ہر رات اس کی خواب گاہ میں ایک نئی کنواری لڑکی آتی - جس کے جسم سے وہ دن چڑھنے تک اپنی پیاس بجھاتا اور اگلے دن اسے اس کی سوچ سے بھی زیادہ نوازتا - وہ کسی بھی لڑکی کے ساتھ ایک سے دوسری رات نہیں کرتا تھا البتہ اگر کوئی اسے پسند آ جاۓ تو اور بات تھی - اور آج تک اسے کوئی ایسی لڑکی ملی ہی نہیں تھی جو اس کی نظروں میں پسندیدگی کی سند پیدا کر سکے اپنے لئے - وکرم خود بھی مردانہ وجاہت کا منہ بھولتا شاہکار تھا - اس کی پہلی نظر سے سی بڑی بڑی مغرور لڑکیوں کے دل بغاوت کر جاتے تھے - آج بھی جیسے ہی اس کی اور اس کے حواریوں کی گاڑیاں پارکنگ میں رکیں وہ اپنی انتہائی قیمتی رولز رائس میں سے نیچے اترا اور اس نے ایک نظر چاروں طرف دیکھا آج ریس کورس کی پارکنگ میں کم ہی خالی جگہ نظر آ رہی تھی - پھر اس کی نظر ایک شاندار سی مرسڈیز سے ہوتی ہوئی واپس آنا بھول گئی اس گاڑی سے ایک لڑکی جس کے حسن کو لفظوں میں بیان کرنا اس کے حسن کی توہین تھی - آسمانی رنگ کی ساڑھی میں نیچے اتری اور اس کے انگ انگ سے جیسے ہزاروں سال پورانی شراب سے بھی زیادہ نشہ چھلک رہا تھا - اس کی چال میں ایک عجیب سا شاہانہ پن تھا اور اسے جو بھی دیکھتا تھا وہ اپنی جگہ جیسے بت سا ہو جاتا تھا - اس اپسراؤں کی رانی کا ہر اٹھتا ہوا قدم جیسے ہر طرف ایک سحر پھونک رہا تھا - وکرم نے جیسے اپنے ارد گرد سے بیگانہ ہو گیا تھا- اس کے قریبی دوست پریش نے کہا کیا بات ہے وکی کہاں گھم ھو لیکن جواب ندارد اب پریش نے دو تین دفع اسے پکارا اور اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اب پریش نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا تو وکی یوں چونکا جیسے گہری نیند سے جاگا ھو- پریش نے کہا یار آپ کو کب سے پکار رہا ہوں کہاں کھو گئے تھے- اب ٹھاکر وکرم نے خود پہ کنٹرول کیا اور بولا کہیں نہیں یار بس کچھ سوچ رہا تھا - اور ریس کورس کی طرف اپنے قدم بڑھا دئیے- ریس کورس میں ٹھاکر وکرم کے لئے اور اس کے ساتھیوں کے لئے خصوصی نشستوں کا بندوبست تھا - یہاں درجہ بدرجہ سب ہی کا خیال رکھا تھا ریس کورس کی انتظامیہ نے ٹھاکر وکرم نے اب اپنے خاص مصاحبوں سے مشورہ کیا اور پھر ریس شروع ہوئی تھی کہ اس نے اسی پری جمال حسینہ کو اپنے سے کچھ نشستیں چھوڑ کر بیٹھے دیکھا - اب پہلی ریس شروع ہوئی آج کل پانچ ریسیں تھیں اور ہر ریس میں شاندار گھوڑے تھے اب جیسے ہی ریس شروع ہوئی ٹھاکر نے ریس میں دوڑنے والی گھوڑوں کو دیکھا اور پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر کے ایک کالے رنگ کے شاندار سے گھوڑے پے شرط لگا دی - اب ٹھاکر وکرم نے اسی مہ جبیں کی طرف دیکھا اور اچانک اسی وقت اس اپسرا نے بھی نظر گھما کر وکرم کی طرف دیکھا اب دونوں ہی نظریں چار ہوئیں اور وکرم تو جیسے اس کی حسین جھیل سے بھی گہری نیلی آنکھوں میں کھو گیا - اب اس حسن کی ملکہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے نوازا وکرم کو اور وکرم کو یوں لگا جیسے ہر سو پھول سے کھل گئے ہوں- اب بے تابانہ انداز میں اس نے دھیرے سے کہا اے مہ وشوں کی رانی اس سنسار کے سارے رنگ اور پھول حقیر ہیں تمھارے اس ہلکے سے تبسم کے آگے - اب پہلی ریس پورے جوبن پہ تھی - اور ٹھاکر نے جس گھوڑے پے شرط لگائی تھی وہ سب سے آگے تھا - اور زیادہ تر لوگوں نے اسی گھوڑے جس کا نام سکندر تھا اسی پے شرطیں لگا رکھیں تھیں- پھر دیکھنے والوں کی نظروں میں حیرت کے جہاں آباد ہو گئے کیوں کہ اب جیسے ہی ریس اپنے اختمام کے قریب ہوئی تو ایک ایسا گھوڑا جس پے شئیس ایک یا دو لوگوں نے ہی شرط لگائی تھی وہ سب سے پیچھے تھا - اس کا نام بھی عجیب سا تھا جو اس کی جسامت سے بلکل مناسبت نہیں رکھتا تھا طوفان بھلا ان شاندار گھوڑوں میں وہ سب سے حقیر تھا اسے پتہ نہیں کیسے اس ریس میں شامل ہونے کی اجازت ملی ہو گئی- اور پھر تو لوگوں کی سانسیں ہی تھام گیں اب کیوں کہ پہلی ریس طوفان نے ہی جیتی تھی- اب اناؤنس مینٹ کرنے والی نے کہا آج اس ریز کورس کا سب سےحیران کن مقابلہ تھا - جیسے طوفان نے جیتا ہے نامی گرامی گھوڑوں کو شکست دے کر اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے اس گھوڑے پے صرف ایک ہی شخصیت نے بہت بڑی رقم لگائی تھی - اور جیتنے والی شخصیت ہے کومل کماری - آج کی اس ریس کا سب سے اہم جزو یہ تھا کہ آج ام دنوں سے ہٹ کر ایک خاص بندوبست کیا گیا تھا - وہ یہ کہ ہر ریس کے ختم ہونے پر جیتنے والوں کو جیت کی رقم بھی دوسری ریس شروع ہونے سے پہلے ہی ادا کی جا رہی تھی - اور اس کے لئے ایک طرف کافی اونچا ایک سٹیج بنایا گیا تھا - جس پے اس ریس کورس کے منتظم اعلیٰ بیٹھے تھے- اب پھر سے کومل کماری کو سٹیج پے بلوایا گیا - اور پھر ہر آنکھ میں ہی اشتیاق تھا - کون ہے وہ کومل کماری اور جیسے ہی کومل کماری اٹھی اور اپنی مستانی اور شاہانہ چال سے چلتی ہوئی سٹیج کی طرف بڑھی - تو کئی دل تو کئی آنکھوں میں تعریف اور کئی آنکھوں میں حسد تھا - مرد حضرات کے تو جیسے دل ہی بے قابو ہوئے جا رہے تھے - اور صنف نازک بھی حسن کے اس مجسمے کو چلتے دیکھ کر بے ساختہ ہی کہہ اٹھی تھیں - یہ تو کوئی اپسرا ہے جو فلک سے اتری ہے - اور مردوں کی نظریں جیسے ان کی دور بینوں سے ہی چپک گیں تھیں وہ کومل کے بدن کے ہر حصے کو زوم کر کے قریب کرتے کومل کی چھاتیوں کی اٹھان اس کے چلنے سے اس کے کولہوں کی آپس میں جنگ نے جوان تو جوان بوڑھوں کے لن بھی کھڑے کر دیے تھے- ہر ایک اسی بات کا متمنی تھا کہ کاش یہ سنگ مر مر سے تراشا بدن اس کی بانہوں میں آ جائے –
٭٭٭٭٭
ریس کورس کا منتظم اعلیٰ راجہ پریم راج جو اپنی نسل کا آخری راجکمار تھا - جس کے بارے میں کہا جاتا تھا وہ پچیس سالہ کڑیل جوان ہونے کے باوجود کسی لڑکی طرف دیکھنا بھی اپنی توہین سمجھتا تھا - جس سے شادی کرنے کی بمبئی کی کتنی ہی امیر ترین لڑکیوں کی خوائش تھی - وہ دیومالائی حسن کا ملک تھا - وہ اپنی نظریں اٹھا کر کسی لڑکی کو دیکھ لے اور وہ لڑکی اپنی جگہ بھسم نہ ہو جائے - آج تک ایسا ہوا ہی نہیں تھا - اور وہ راجکمار پریم راج جو صنف نازک کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا تھا کہ ایک نظر کے بعد دوبارہ دیکھ ہی لے وہی آج اس اپسرا کو دیکھ کر اپنی جگ پے جیسے بیٹھے بیٹھے ہی جل کے سیاہ ہو گیا تھا رعب حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس کے سٹیج پر آنے سے پہلے ہی کھڑا ہو گیا تھا - اور اس کی اس حرکت نے بہت سوں کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا - جو آج تک کبھی کسی کے احترام کے لئے نہ کھڑا ہونے والا آج یوں کھڑا ہو گیا تھا - جیسے اس نے بیٹھ کر کوئی مہا پاپ کیا ہو - پریم کی نظروں نے کومل کے چہرے کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا - اس نے کومل کی آنکھوں میں دیکھا اور اس کا دل بے اختیارانہ کہ اٹھا اف کیا آنکھیں ہیں - لمبی پلکیں ،متناسب بھنویں ، سبز اور نیلے رنگ کے امتزاج سی آنکھیں جن میں جا بجا لال دوڑے دوڑ رہے تھے - اور آنکھوں میں ایسی چمک اور غرور کہ جیسے ساری دنیا کی وہ اکیلی مالک ھو - نیچے ستواں ناک اور پھر اس کے سائے میں کومل کے یاقوتی ہونٹ یوں تہے جیسے ادھ کھلے گلاب کی پنکھڑیاں ہوں - چھوٹی سی ٹھوڑی اور اس کی قندھاری اناروں سے گال اب پریم کی نظر کچھ نیچے ہوئی اور اس کی صراحی دار گردن جس میں وہ ایک بل ڈالے شان سے اسی کی طرف آ رہی تھی - اور گردن سے نیچے آسمانی بلوز میں قید اس کے پستان جو جب وہ چلتی تو دیکھنے والوں کو ایک دعوت نظارہ دیتے تھے اور اس کی متوالی چال میں ایک چلینج تھا - کومل کا اٹھنے والا ہر قدم ہر سو یہی اعلان کر رہا تھا ہے کوئی اس ریس کورس میں جو میرا من جیت سکے ہے کوئی جو میری انمول جوانی کا رس پی سکے - کون ہے ایسا جوان رعنا جو مجھے اپنی مضبوط بانہوں میں لے کر اتنا زور سے کسے کہ میرا انگ انگ توڑ دے - پریم راج نے تب بھی آنکھوں سے دوڑ بین نہیں ہٹائی جب کومل اس کے بلکل پاس سٹیج پے موجود تھی ٠ اب کومل نے اپنی سریلی آواز میں کہا - اب تو دور بین رکھ دیں راجکمار صاحب - اور پریم کو یوں لگا جیسے ہر طرف جلترنگ سے بج اٹھے ہوں - اب پریم نے خود کو سنبھالا اور پھر کومل دیوی کو جیت کی بھاری رقم کیش میں دو بھاری بریف کیسوں میں دی گئی اب کومل نے ان بریف کیسوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا اور سٹیج پے موجود کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی ہو کر مائیک کو اپنی طرف کیا اور اپنی کھنکتی آواز میں بولی میں اپنی جیت کی تمام رقم ونود آشرم کو دان کرتی ہوں اب یہ راجکمار پریم جی کا فرض ہے ان تک پہنچا دیں - اور سب کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے ہوئے واپس اپنی نشست پے جانے کے لئے پھر سے سٹیج سے اتری- کومل کو پتہ تھا سب ہی اس کی متوالی چال کے دیوانے ہو گئے ہیں - اس کے کانوں میں چندرا دیوی کی سرگوشیاں گونج رہی تھیں - واہ کمال کر دیا میری جان تم نے کون ہے اس ریس کورس میں جو تمہارا دیوانہ نہیں ہو رہا - میں نے تمہارے بدن میں ایسا نسوانی حسن پیدا کر دیا ہے - کہ جو بھی تم کو دیکھے گا وہ اپنی ذات بھول جاۓ گا- تم پہلے ہی کمال تھی میں نے تم کو بیمثال کر دیا ہے - اب جیسے ہی کومل دوبارہ سے نشستوں میں داخل ہوئی اس کی نظر ایک بانکے سجیلے مرد پے پڑی اور جس کے مردانہ حسن میں ایک ساحرانہ کشش تھی - اب چندرا دیوی نے کہا - کومل جسے آپ نے ابھی دیکھا ہے وہ سیٹھ بنسی لعل کا بیٹا سریش ہے اور آج یہی آپ کے اس خوبصورت بدن کو اپنے بدن کی طاقت سے سیراب کرے گا - اور میرا پہلا شکار ہائے کیا تازہ اور مزے کا خون ہے اس کا اب اس کو اپنے قابو میں کر کومل چھوڑوں سب کچھ میں اب جیسے ہی سریش کی کرسی کے پاس سے گزری جان بوجھ کر یوں گرنے لگی جیسے میرے پاؤں کو کوئی ٹھوکر لگی ھو اور میں بے اختیارانہ سریش کے اوپر گر گئی - وہ چونک پر اس بھپتا سے اور گرتے ہی اس نے مجھے سنبھالنا چاہا تو بے ساختہ اس کے ہاتھ میری چھاتی پے آ گئے اور اس کے ہاتھوں کے دباؤں نے مجھے بے اختیارانہ سسکنے پے مجبور کیا میرے منہ سے ہلکی آواز میں ہائے اف نکل گیا - اور میں نے ایک بھر پور نظر سے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور سرگوشی میں بھولی ظالم میری نازک چھاتی کو اب تو چھوڑ دو یہ سارا وقوعہ صرف چند سیکنڈوں میں عمل پذیر ہوا اور پھر میں خود کو سنبھال کر اب اپنی نشست کی طرف بڑھی - اور اپنی نشست پے بیٹھ گئی میرے دائیں طرف ایک تیس سال کی ماڈرن سی لڑکی بیٹھی تھی وہ بولی کومل جی آپ نے اتنی بڑھی رقم ایسے ہی آناتھ آشرم کو دان کر دی میں نے مسکرا کر کہا مجھے اس جیت کی رقم کی کوئی ضرورت نہیں ڈیئر اب وہ بولی پلیز آپ میری مدد کرو نہ میں بھی آج جیتنا چاہتی ہوں میں پچھلے پانچ سال سے ہار ہی رہی ہوں میں نے کہا ایک شرط ہے آپ کو اپنی یہ سیٹ میرے ایک دوست کے لئے خالی کرنا ہو گئی اور خود اس کی سیٹ پے جا کر بیٹھنا ہو گا وہ بولی قبول ہے - اب میں نے دوسری ریس میں اسے کہا وہ اپنی ساری رقم چتکبرے رنگ کے گھوڑے جس کا نام ستارہ ہے اس پے لگا دے اس نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ تو جیسے دور بین سے چپک ہی گئی - میں بھی اپنی دوربین سے دیکھنے لگی مجھے پتہ تھا یہ ریس ستارہ ہی جیتے گا - اور یہی ہوا - پھر جیسے ہی اس لڑکی کا نام آناونس کیا گیا وہ سٹیج پے گئی اور اس نے بھاری رقم لیتے ہوئے یہ کہا دیا کہ یہ صرف اور صرف کومل دیوی کی وجہ سے میں جیتی ہوں انہی کے کہنے پے میں نے اس گھوڑے پے رقم لگائی تھی - ورنہ میں پچھلے پانچ سال سے ہار ہی رہی ہوں - اور وہ اپنی رقم کیش کی بجھائے پریم سے چیک لے کر آ گئی اس نے آتے ہی کہا کمال ہیں آپ بھی کومل جی میں نے اب اسے سریش کے پاس بیجھا اور اس نے سریش کے کان میں کچھ کہا تو وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا میں نے اس کی طرف ایک دل موہ لینے والی مسکراہٹ پھینکی اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے دائیں طرف آ بیٹھا - اب تیسری ریس شروع ہونے سے پہلے ایک طرف سے تین سادھو اٹھے اور سٹیج پے جا کر مائیک سے بولے ہم اب یہ چتاوانی دیتے ہیں - اس شکتی کو جو اس کھیل کی ہار جیت کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر رہی ہے - اب کی بار اس کا کوئی بھی عمل کامیاب نہیں ہو گا - اب تیسری ریس پر میں نے سریش کی طرف جھک کر کہا - سریش اپنی ساری رقم اب کی بار اس سفید گھوڑی رانی پے لگا دو وہ میری طرف میٹھی نظروں سے دیکھ کر بولا جیسے آپ کہو دوست اب اس نے میرا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلانا شروع کر دیا تھا - اور میں اس کے ہاتھوں کا لمس پا کر جیسے ہواؤں میں پرواز کرنے لگی تھی - پھر یوں ہی ہوا تیسری ریس سریش جیتا اور وہی نہیں بعد کی مزید تین ریسیں وہی جیتا اب آخری ریس تھی جی کا سب کو انتظار تھا - اب مجھے کئی طرف سے لوگوں نے آ کر کہا پلیز ہم کو کوئی ٹپ دو میں نے سب سے کہا میں کوئی جوتشی نہیں ہوں - اب میری طرف ایک خوبصورت سا نوجوان آیا اور بولا ہم کو ٹھاکر وکرم چوہان کہتے ہیں - کیا ہم کو آپ کا دوست بننے کا شرف حاصل ہو سکتا ہے - میں نے کہا لیکن میں آپ کو نہیں جانتی وہ بولا ہم تو جنتے ہیں نہ پھر اس کے پیچھے سے پائل کا بھائی ساگر آیا اور بولا کومل کی بچی یہ سب کیا ہو رہا ہے - سب ہی کو جتوا رہی ھو کیا کوئی جنتر منتر سیکھ لئے ہیں کیا وہ مجھ سے کافی فری تھا میں نے کہا ساگر آپ کہاں تھے - وہ بولا میں یہی تھا - اور ان سے ملو میرا قریبی دوست وکی میں اب چونک کر بولی اوہ تو ان کے لئے اس لنگور کو لائے تھے تم کلکتہ سے اسی لمحے وکرم نے کہا پلیز دوست وہ ایک مہان پنڈت ہیں - ان کے بارے میں یوں نہ کہو میں نے اب زیر لب مسکرا کر کہا تو پھر آخری ریس میں حصہ لوں گی اب میں نے آخری ریس میں ایک گھوڑے جس کا نام تو بہت بڑا تھا لیکن وہ خود اپنے ساتھ گھوڑوں میں ایک ٹٹو ہی نظر آتا تھا - آخری ریس میں دس ایسے گھوڑے دور رہے تھے - جنہوں نے پورے ہندوستان کے کونے کونے میں جیت کے ڈنکے بجا رکھے تھے - میں نے اب جیسے ہی ایک خطیر رقم ہٹلر پے لگائی جی ہاں نام ہٹلر تھا لگتا تھا کسی ستم ظریف نے جان بوجھ کر اس کا یہ نام رکھا تھا - اب ریس شروع ہونے سے پہلے ہی مجھے راجکمار پریم کا پیغام ملا کہ پلیز آپ اس گھوڑے پے رقم نہ لگائیں- میں آپ کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور بھی کافی منچلوں نے میرے لئے یہی پیغام دئیے تھے - میں نے اب ساگر سے کہا چلو سٹیج پے وہ بھولا کیا پاگل ہوئی ھو کزن وہ مجھے کبھی کبھی کزن بھی کہتا تھا کیوں کہ اس کی ماما میرے پاپا کی قریبی عزیز تھیں - وہاں کیسے منہ اٹھا کر چلے جایئں یہ راجکمار پریم راج کا انتظام ہے کیوں مجھے مروانا ہے - میں نے اب سریش سے کہا آؤ دوست آج دیکھیں ذرا قریب جا کر اور میں نے پھر ساگر کے ساتھ ہی وکرم چوہان کو بھی آنے کو کہا - وہ بولا نہیں کومل میں اس راجکمار سے کم نہیں ہوں میں کیوں چل کر جاؤں اس کے پاس اب میں نے کہا تو یہ بات ہے اب میں بھی اپنی جگہ بیٹھ گئی اب ھمارے اس پاس کی سیٹوں پے وکرم لوگ بیٹھ گئے اور ان کی سیٹوں پے یہاں پے موجود لوگوں کو بیٹھا دیا گیا - اب جیسے ہی ریس شروع ہوئی میں نے کہا لو سریش اس دفع جیت کی رقم آپ کے ہاتھوں بننے والے ہسپتال کو ڈونیٹ کی جاۓ گئی - سریش ایک ڈاکٹر تھا وہ اپنی ماتا جی کے نام سے ایک میموریل ہسپتال بنوا رکھا تھا - اب میری بات سن کر وکرم نے کہا نہیں کومل جی اس دفع جیت ہماری ہی ہو گئی - اور پھر اسی وقت اس پنڈت کو میں نے اسی طرف آتے دیکھا اسے دیکھ کر وکرم لوگوں نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا وہ سب کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہہ کر میری طرف آیا اور بولا سندری بہت اونچا آڑ رہی ہے - جانتی ہے کیا ہم کون ہیں ہم کالے جادو کے مہا مہان تیج پال ہیں - اور تو کل کی چھوکری اب دیکھنا ہمارا کمال اب میں نے کہا مہاراج ہم سے کیا دوش ہوا ہے جو آپ یوں غصے میں ہیں وہ اب کی بار نرمی سے بولا کچھ نہیں سندری میرا حساب بتا رہا ہے تم ایک عام سی ناری ھو - ہم سمجھے تم بھی کوئی شکتی کی مالک ہو گئی - اس کا مطلب ہے اب تک صرف اتفاق سے ہی تم جیتی ھو - میں نے اب معصومیت سے کہا مہاراج معافی چاھوں گئی - یہی گستاخی آخری بار بھی ہو جاۓ گئی میں ہی جیتوں گئی - وہ میری بات سن کر ہنسا اور کہا نہیں سندری اب کی بار دیوی کو منظور ہوا تو میں وکرم کو ہی جتواؤں گا - میں نے اب کہا جی مہاراج اب وہی ہو گا جو دیوی چاہے گئی - اور دیوی کے میں بہت قریب ہوں - وہ میری بات سن کر پھر سے چونکا اور اب اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ریس شروع ہو گئی - اب سب گھوڑے ہی ایک سے بڑھ کے ایک تھے- سوائے ہٹلر کے لیکن جیسے کے چندرا نے کہا تھا وہی ہوا اور پہلی بار کی طرح آخر میں بھی ہٹلر ہی جیتا اب تو سب ہی حیران تھے - اور میں اب سٹیج پے جانے کی بجھائے وہی سے میں نے پیغام بیجھوایا راجکمار پریم کو کہ اب کی بار کی میری جیت والی رقم ڈاکٹر سریش کو ایک چیک کی صورت میں دے دی جاۓ اس کے لکشمی میموریل ہسپتال کے نام اور اپنی جگہ سے اٹھی آج سب ہی حیران تھے - اگر کسی پنڈت یا سادھو کو کوئی شک تھا بھی تو اب نہیں رہا تھا - کیوں کہ اب کی بار مہاراج چرن جیو نے بھی کہا تھا سندری کیوں کہ تم یہ رقم دیوی کے نام سے ہی دان کے جا رہی ھو اسی لئے آج کا دن تمہارا ہے - پھر سب ہی اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھے مجھیٹھاکر وکرم نے کافی کہا میں اس کے ساتھ آؤں میں نے کہا پھر کبھی ٹھاکر صاحب - اور اپنی گاڑی میں بیٹھی اور وہاں سے باہر نکل آئی کچھی دیر میں مجھے سریش نے کال کی اور کہا میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں ندیا کے کنارے
٭٭٭٭٭٭٭
प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Jemsbond
Super member
Posts: 6659
Joined: 18 Dec 2014 12:09

Re: Komal-- urdu font stori

Post by Jemsbond »

٭٭٭٭٭٭٭
میں نے وہاں سے سریش کو اپنے ساتھ لیا اور ہم شہر سے باہر سی ویو کی طرف جانے لگے پھر وہاں ہم نے مل کر ایک اچھے سے ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا اور پھر ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر وہاں واک کرنے لگے کافی دیر یوں ہی گزر گئی اب ہم چلتے چلتے ایک سنسان سے ساحل پے آ گئے تھے وہاں آ کر سریش نے کہا کومل آو ذرا کچھ دیر سمندر کی لہروں سے باتیں کریں پھر ہم اب کچھ اور سمندر کے پاس ہوئے اب سمندر کی لہروں نے ہم دونوں کو بھگو دیا تھا - سریش نے میرا بیگھا بدن دیکھا تو وہ کچھ مچل اٹھا اس نے کہا کومل کیا سندر بدن ہے آپ کا کاش میں اسے چھو سکتا میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا میرے پریتم کہاں سے چھونا ہے کومل سر سے پاؤں تک آپ کی ہے اور اس کا ہاتھ اپنےچہرے پے رکھا اور بولی یہاں سے وہ بولا ہاں اور میں نے اس کے اور کے بعد سریش کا ہاتھ اپنی گردن پے رگڑا اور بولی یہاں پے اور ساتھ ہی سریش کے دونوں ہاتھوں کو اب اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنی چھاتیوں پے رکھا اور ساتھ ہی ایک ہلکی سی آہہہہ بڑھی اور اس سے کہا یہاں سے لے کر اب اس کا ایک ہاتھ اپنے سڈول پیٹ سے نیچے لے گئی اور اپنی چوت پے رکھا یہاں تک سب آپ کا ہے اب سریش تو جیسے پاگل ہی ہو گیا اس نے میری ساڑھی کا پلو پکڑا اور اتنی زور سے کھینچا کے میں گھوم سی گئی اس نے یوں ہی دیوانوں کی طرح میرے جسم سے ساڑھی کو جدا کیا اب میں اس کے سامنے بلوز اور پیٹی کوٹ میں ہی تھی - سریش نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا اور زور سے اپنے سینے سے لگا کر بولا اوہ میری کومل میں تو دیوانہ ہو گیا ہوں آپ کا میں نے جب دیکھا کہ اب شہوت کا دیوتا اس پے سوار ہو چکا ہے میں نے خود کو اس کے ہاتھوں سے چھڑایا اور اسے پیچھے کو ہلکا سے دھکے دے کر نرم اور گیلی ریت پے آگے کو دوڑی- وہ اب میرے پیچھے آیا اور اس نے مجھے دبوچ لیا اب وہ دیوانہ وار میری گردن پے پیچھے سے کسنگ کر رہا تھا - کچھ دیر تو میں نے اس کی کسنگ سے مزہ لیا اور دوبارہ سے اس سے اپنا آپ چھڑوا کر آگے ریت کے ٹیلوں کی طرف دوڑی وہاں سے ساحل کٹا پھٹا تھا اب اس نے سریش نے مجھے اب کی بار اپنی بانہوں میں لینے کی بجھائے اپنے جسم سےکپڑے جدا کے اب اس کا لمبا اور موٹا لن کھڑا مجھے غصے سے گھور رہا تھا - اس نے اب اپنی بانہیں پھیلا کر کہا آ جاؤ نہ میں نے اب اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کر کے انگوٹھا اس کی طرف کر کے انکار کی صورت میں ہلایا اور وہ اب ایک چھلانگ لگا کر میرے اوپر آیا میں اس سے بچے نو آکے کو دوڑی تو میری ٹانگ اس کے ہاتھ آ گئی اور میں منہ کے بل نرم ریت پے گری میں نے اپنے ہاتھ آگے کر کے اپنا منہ ریت سے لگنے سا بچا لیا اور میں اب کھلکھلا کر ہنس دی اب کی بار سریش نے غصے سے کہا بہت تڑپ رہی ھو جان ابھی بتاتا ہوں یہ کہہ کر اس نے میری بلوز میں ہاتھ ڈالا اور زور سے اسے کھینچ کر پھاڑ دیا جیسے ہی میرا بلوز پھٹا میرے پستان اب صرف ایک بلیو کلر کے برازیئر میں قید تھے - سریش تو میرے پستان دیکھ کر جیسے مدہوش سے ہو گیا وہ ان کو چومنے جیسے ہی میرے اوپر آیا میں نے اسے ایک طرف ڈھاکہ دیا اور ہنستی ہوئی آگے کو بھاگی اب وہ میرا پھٹا ہوا بلوز ہاتھ میں لے کر ہی میرے پیچھے بھاگا اور اکھڑ کار اس نے ریت کے ٹیلوں کی آوڑ میں مجھے قابو کر ہی لیا اب اس نے مجھے نرم ریت پے گرا کر اسی بلوز کے کپڑے سے میرے دونوں ہاتھ باندھ دے اور پھر نیچے آ کر میرا پیٹی کوٹ بھی پھاڑ دیا اور اب میں صرف برازیئر اور پینٹی میں تھی اسی کپڑے سے میری ٹانگیں بھی باندھ کر اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں پیوست کر دئیے سریش اور میں اب ایک دوسرے کو دیوانوں کی طرح کسنگ کرنے لگے سریش کبھی میرا نچلا ہونٹ چوستا کبھی اوپر والا اور میں اس کہ بھر پ[ور ساتھ دے رہی تھی - ساتھ ہی سریش نے اپنے ہاتھوں کو برازیئر کے اوپر سے ہی میری چھاتی کو دبانا شروع کر دیا سریش کی ماہر کی طرح میرے ہونٹوں کو یوں چوس رہا تھا جیسے میرے ہونٹوں سے اسے اب حیات مل رہا ھو اس کی اس کسنگ نے میرے بدن میں آگ لگا دی تھی میری زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جوان مرد نے میرے ہونٹوں کو چھوا تھا - اور ساتھ میں اس کے ہاتھوں کی گردش نے میرے اندر لگنے والی آگ پے پٹرول کا سا کام کیا تھا جب جی بھر کر میرے ہونٹوں سے رس کشید کر لیا سریش نے تو اسنے اپنی زبان کو میرے لبوں پے پھیرنا شروع کیا میں سمجھ گئی وہ زبان میرے منہ میں ڈالنا چاہتا ہے لیکن میں نے شرارت کے موڈ میں اپنے ہونٹ سختی سے اب کی بار بھنچ لئے یہ دیکھ کر سریش نے مجھے ایک دفع غصیلی نظروں سے دیکھا پھر میری آنکھوں میں شرارت دیکھ کر اس نے اپنے ہاتھوں کا دباؤ میری چھاتی پے بڑھا دیا اور ساتھ ہی اب اپنی زبان کی نوک میرے لبوں پے پھیرنے لگا جیسے ہی اس کی زبان کی نوک بار بار میرے نچلے ہونٹ پے جاتی میں خود پے ضبط کھونے لگتی اور وہ میری اس کمزوری کو جانچ گیا اب اس نے اپنی زبان کی نوک کو بار بار میرے نچلے ہونٹ پے ہی پھیرنا شروع کیا اور ساتھ ہی اب کی بار میری چھاتی کی نپلزسے کھیلنے لگا اب اس دوطرفہ حملے کے آگے میں کہاں ٹھہر سکتی تھی مزے سے بے چین ہو کر میں بے ساختہ ہی اپنے لبوں کو واہ سسکی بڑھنے لگی اس کی زبان تیزی سے میرے منہ میں رینگ گئی اور میری سسکی دم توڑ گئی - سریش کی زبان لگتا تھا کافی گھسے میں تھی اس نے بار بار میری زبان پے حملہ کرنا شروع کیا اور میری زبان اپنا بچاؤ کرنے لگی جوں جوں میری زبان مدافعت کرتی گئی سریش کی زبان اور بھی زیادہ غصے میں آتی گئی اب میری زبان کی قوت مدافعت کم ہونے لگی اور آخر وہ وقت بھی آ ہی گیا جب میری زبان نے تھک کر ہار مانی اب تو سریش کی زبان نے فاتحانہ شان سے میری زبان کو اپنے قابو میں کیا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگی کبھی میری زبان کے اوپر والی حصے سے ٹکراتی اور کبھی نیچے اب میری زبان دم سادھ کر سریش کی زبان کی من مانی کرنے کی کھلی اجازت دے چکی تھی - اور سریش کی زبان نے میرے منہ کو جگہ جگہ سے چوما چاٹا اور پھر وہ اپنی زبان باہر نکل کر میری گالوں پے مہر محبت ثبت کرنے لگا - میرے سارے چہرے کو کئی بارچوما سریش نے اور پھر اس کی زبان میرے منہ پے اپنے تھوک کے نشان چھوڑتی ہوئی میرے کانوں کی رینج میں گئی اور میرے دائیں کان کو جی بھر کے چوما اور چاٹنے لگا جیسے ہی میرے کان میں موجود گولڈ کے ٹاپس اس کی زبان کی رینج میں آئے اس نے وہاں سے ہی چومنا شروع کر دیا اور کان کی لو پر میں سریش کی زبان کا لمس پا کر کانپنے لگی میرے جسم میں بار بار مزے کی لہریں سی دوڑنے لگتیں اور جیسے ہی اس نے میرے کان کا نیچے والا حصہ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کیا مزے کی تاب نہ لا کر میری چوت نے قطار در قطار کچھ منی کے قطرے نیچے کو گرا دئیے جن کو بہت انمول سمجھ کر میری پینتی نے اپنے اندر جذب کر لیا - اب سریش کے ہاتھ میرے پیٹ اور چھاتی پے غضب ڈھا رہے تھے - میں اس دو طرفہ مزے سے پاگل ہوئی جا رہی تھی - سریش نے میرے دائیں کان کو چوس چوس کر لال کر دیا اور اب وہ بائیں کان کی طرف بڑھا اس کا حال اس سے بھی برا کرنے کرنے کے بعد سریش نے اپنی زبان سے میری گردن کو چومنے کا عمل جاری کیا اور وہ جگہ جگہ سے میری گردن پے اپنے ہونٹوں سے مہر محبت لگانے کے بعد زبان سے چاٹ کراس مہر کو مزید پکا کرتا اور جیسے ہی اس کی زبان اور ہونٹوں نے میری گردن سے نیچے کا سفر کیا میری جان جیسے نکلنے لگی جو حال میرے ہونٹوں کا اور گردن کا کیا تھا اس نے میں ابھی سے آنے والے مزے کے بارے میں سوچ سوچ کر پگھلی جا رہی تھی - اب میری چھاتی کی لکیر کو سریش نے خوب چوما اور چاٹنے کے بعد اس نے میری ایک طرف والی پستان کو برازیئر سے باہر نکال کر اس نے اس کی نیپل کو دیکھا جو اس کے ہاتھ کی رگڑ اور پکڑ سے ریڈ ہوئی جا رہی تھی اسے سریش نے پیر سے چوما اور پھر اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا وہ میری چھاتی کی نیپل کو اتنے پیر سے چوس رہا تھا میں بتا نہیں سکتی کافی در تک وہ یونہی نرمی سے چوسنے لے بعد اس نے اب کچھ سختی سے میری نیپال کو اپنے ہونٹوں کی گرفت میں دیا اور اپنے زبان سے بار بار اسے چاٹنے لگا - اب اس کے ہونٹوں کی گرفت اور زبان کی بار بار کی رگڑ نے میرے اندر کی دنیا میں ایک ہلچل مچا دی تھی - میرا جسم اب جھٹکے لینے لگا تھا اب میرے منہ سے آہیں نکلی جا رہی تھیں آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف سریش میری جان ہائے اور اس نے اپنی زبان کی رگڑ کو کچھ لمبا کیا اب اس کی زبان کافی دیر دیر تک میرے نپل پے گھومتی رہتی اس کے اس عمل نے مجھے مزے کی وادیوں میں بیجھ دیا کافی دیر تک اس نے ایسے ہی چوما اب وہ ساتھ میں ہلکے سے کاٹ بھی لیتا اور میرے مزے کو دو بالا کرنے لگا پھر کافی دیر تک میری ایک ہی چھاتی پے پیار اور ظلم کرنے کے بعد اس نے دوسری والے پستان کی طرف خود کو متوجہ کیا اور اس کا بھی یہی حال کیا میں اس وقت ہواؤں میں اڑ رہی تھی - پھر سریش نے میری چھاتی سے اب برازیئر بلکل ہی ہٹا دے اور اب وہ میری چھاتی کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ کر کبھی ایک کو چومتا تو کبھی دوسری کو کچی دیر یوں میری چھاتی سے کھیل کر اس نے میری چھاتی کے درمیان والی جگہ کو چاٹنا شروع کیا میری سسکیاں اب بڑھتی ہی جا رہی تھیں میں اس کے ہر فعل پہ دل کھول کر سسکیوں کی صورت میں اسے داد دے رہی تھی - اور وہ داد سے مطمئن ہو کر مزید جوش وخروش کا مظاہرہ کرتا اب سریش کے ہونٹ میری چھاتی کے بلکل نیچے والے حصے کو چوم رہے تھے اور وہاں سے وہ میرے پیٹ کی طرف آیا اب اس نے میرے پیٹ کو ہر طرف سے چومنا اور چاٹنا شروع کیا اور جب اس نے دیکھا اس کی زبان اور ہونٹوں نے ایک انچ جگہ بھی نہیں چھورہی میرے پیٹ کی تو وہ اب می ناف یعنی( بیلی بٹن ) کی طرف متوجہ ہوا اور اس میں اپنی زبان ڈال کر گھومانے لگا میں اس دفع تو اتنا تڑپی کہ میرا خود پر سے کنٹرول ہی ختم ہونے لگا اب میں نے التجا کی میرے محبوب میرے ہاتھ کھول دو اس نے میرے ہاتھ کھولے تو میرے ہاتھ بے تابانہ اس کے لن کی طرف بڑھے اور میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مرد کا لن اتنے پیار سے دیکھا اور اس کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسلنے لگی میں ایک ہاتھ سے اسے آگے پیچھے کرتی اور ایک ہاتھ کی انگلی کی پوروں سے اس کی کیپ کو سہلانے لگی اب میرے اس عمل نے سریش کے منہ سے بھی ایک آہ نکال دی اب وہ میری ناف سے ہوتا ہوا نیچے گیا اب اس نے اپنی دونوں ٹانگیں میرے دائیں بائیں رکھیں اور اس کا لن اب میرے منہ کے پاس آ گیا اب اس نے میری رانوں پے کس کی اور چومتے ہوئے اس نے ہلکے سے میری رانوں پے دانت گڑھے اور میں مزے سے چلا اٹھی سریش نے میری پینتی کو نرمی سے نیچے کیا اور پھر میری ٹانگوں کو اوپر کر کے اسے نکال کر ایک طرف پھینکا اب میری صاف شفاف چوت کوپر سریش نے پہلے تو پیار سے ہاتھ پھیرا اور میں مزید تڑپ اٹھی پھر اس نے اپنے ہونٹ میری چوت کے لبوں میں پیوست کر دے اور میرے منہ سے اب کی بار ایک اونچی آواز میں آہ نکلی اسے سن کر سریش نے اپنی زبان کی ایک بار میری چوت کی پتلی سی لکیر پے پھیرا اور بعد میں اپنے دونوں ہاتھ یوں میری رانوں کے پاس رکھے کہ اس عمل سے میرے چوت کے لب کھل گئے اب سریش نے اپنی زبان کو تیزی سے میری چوت میں گھسیڑ دیا اور میں مزے سے تڑپ کے اوپر کو اٹھی اور میرے ہونٹ سریش کے لن کی کیپ سے ٹچ ہوئے لن کی کیپ پے کچھ ہلکا گاڑھا مواد سا لن سے نکال کر لگا ہوا تھا وہ میرے ہونٹوں پے لگ گیا میں نے اپنی زبان ہونٹوں پے پھیری اور اس مواد کا ذائقہ محسوس کر کے بے ساختہ میں نے سریش کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے یوں چوسنے اور چاٹنے لگی جیسے بچے قلفی چاٹتے ہیں - اور اب میری چوت پے بھی سریش کی زبان برگ برگ کر حملے کر رہی تھی اس کے ان حملوں نے مجھے آدھ مویا کر دیا تھا - اب میرا سارا جسم ہلکے ہلکے جھٹکے کھا رہا تھا - مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے جسم کی ساری جان میری ٹانگوں کے کی طرف جا رہی ھو اور پھر ایک وہ وقت بھی آیا جب میں مزے کی شدت سے پاگل ہو گئی اور میں نے اب سریش کا لن منہ سے نکالا اور زور سے سسکتے ہوئے بولی اوئی آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ سریش میرے جسم سے جان نکل رہی ہے اورسریش نے ابھی تیزی سے اپنی زبان کو میری چوت میں گھمانا شروع کر دیا اب میں زور سے بھرائی ہوئی آواز میں چیخی اور مجھے اپنا کوئی ہوش نہ رہا صرف یہی محسوس ہو رہا تھا میری چوت کے راستے میری جان نکال رہی ہے میں نے سریش کی گانڈ پے زور سے دانت گاڑھ دئیے - اس کے منہ سے ایک آہ نکلی اور میں اب زور زور سے یوں سانس لینے لگی جیسے میں میلوں سے دوڑتی ہوئی اب تھک کر بیٹھی ہوں -
سریش اب اٹھا اور میرے اوپر سیدھا لیٹ گیا میری آنکھیں ابھی تک بند تھیں میں ابھی بھی اسی مزے کی کفیت میں کھوئی ہوئی تھی - جو زندگی میں پہلی بار مجھے ملا تھا - سریش نے پھر سے میرے ہونٹوں کو چومنا شروع کیا تو میں نے آنکھیں کھول کر اسے قربان ہو جانے والی نظروں سے دیکھا اور اپنے ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے ساتھ بھنچ لیا اب اس کی کسنگ مجھے بہت مزہ دے رہی تھی اب کی بار میں نے اسے خود بھی جی بھر کر فرنچ کسنگ کیں جب ہوم دونوں ہی بوس و کنار سے فارغ ہوئے تو اس وقت تک میرے اندر پھر سے شہوت کی آگ جل اٹھی تھی - اب اس نے میری چھاتی کو چومنا شروع کیا اور اس کے اس عمل سے اس کے جسم کے ہلنے کی وجہ سے اس کا لن میری چوت کو ٹچ ہوتا اور میں کانپ جاتی اب میرے چھاتی کو جی بھر کے چومنے کے بعد سریش نے اصل کام کی طرف خود کو متوجہ کیا اور میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پے رکھیں میں آنے والے وقت کو سوچ کر مزے میں مدہوش ہوئی جا رہی تھی - سریش نے لن کو میری چوت پے سیٹ کیا اور خود اپنے گھٹنے فولڈ کر لئے گیلی ریت پر ہی اب شاید سمندر کا پانی اس طرف چڑھنا شروع ہو گیا تھا - کیوں کہ اب کبھی کبھی پانی کی لہریں ہم کو بھگو جاتی تھیں سریش نے اب جیسے ہی میری آنکھوں میں دیکھا اورمیری ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑ کے اس نے آگے کی طرف ایک زور کا دھکا مار دیا اس کے پہلے دھکے نے ہی لوں کو میری گیلی چوت میں گھس کر گہری تک جانے پے مجبور کر دیا اور میرے منہ سے ایک زور دار چیخ خارج ہوئی اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے اس نے خود کو وہی روک لیا اور میری چھاتی کو دبانے لگا میری آنکھوں سے درد کے مارے آنسو نکال آئے مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی تیز دھار خنجر کو میری چوت میں گھسا دیا ہے- میرے ہونٹ اب کپکپانے لگے اس نے نرمی سے کہا جان اب بس مزہ ہی مزہ ہے میں نے کنپٹی آواز میں کہا سریش بہت درد ہوا ہے - پھر جیسے ہی مجھے درد سے کچھ افاقہ ملا میں نے کہا اب ہلکے ہلکے سے کرو اور سریش نے آھستہ سے آگے پیچھے ہونا شروع کر دیا پھر جیسے ہی مجھے مزہ آنے لگا میں نے کہا اب اپنی سپیڈ بڑھا دو جان اور وہ تیزی سے دھکے مارنے لگا کچھ دیر یوں ہی دھکے مارنے کے بعد اس نے پوزیشن بدلی اور اب میری ایک ٹانگ نیچے زمین پے رکھی اور اس پے اپنی گھٹنے کا ہلکا سا وزن ڈالا - اور دوسری کو ویسے ہی اپنے کندھے پے رکھا اب اس کا ہر دھکا مجھے مزے سے دوچار کر رہا تھا جیسے جیسے وہ دھکے مر رہا تھا مزہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور میں بھی اب دل کھول کر سسکی سے اس کو داد دے رہی تھی - اب سریش نے میری اس تانگ کو جو اس کے کندھے پے تھی اسے چومنے لگا ساتھ ساتھ اور اب اس نے دوبارہ سے پوزیشن بدلی میری دونوں ٹانگیں اس نے فولڈ کر کے میرے گھٹنے میری چھاتی سے لگا دئیے اور پاؤں اپنے پیٹ پے رکھ کر میری طرف زور سے اپنی کمر کو کر کے لن کو میری شہوت کے اندر باہر کرنے لگا اب کی بار تو ایسا مزہ مجھے مل رہا تہ میری بے ساختہ ہی آییں نکلنے لگیں آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م کچھ در یوں ہی چودنے کے بعد سریش نے میری ایک ٹانگ کو سیدھا اور اسے اپنی کمر کے پاس سے پیچھے کر دیا اپنے اب میری دوسری ٹانگ ویسے ہی فولڈ تھی اور اس کا پاؤں سریش کی چھاتی سے لگا تھا اب سریش نے اپنے کولہے ہلا کر زور سے دھکے مارے اور میں نے درد اور مزے کی ملی جلی کفیت سے چلا اٹھی میری ان چیخوں نے سریش کے جوش میں اضافہ کر دیا اور وہ مزید زور سے دھکے مارنے لگا اب وہ دوبارہ سے پوزیشن بدل کر میرے اوپر ہی لیٹ گیا اب میری ٹانگیں اس کے دائیں بائیں تھیں میں نے اب اپنی ٹانگوں کو سریش کی کمر گرد لپیٹ لیا اور اپنی ٹانگوں کی گرفت مظبوط کر دی اب سریش نے بھی اپنے پورے زور سے میری چوت پے اپنے لن سے چوٹیں لگانے لگا - میں اس کی ان ضربوں کو بردشت نہ کر پی اور درد سے چیخنے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ او وہ اف ف ف یاہ یاہ سریش میری جان اب میرے ہاتھوں نے سریش کی کمر کو مساج کرنا شروع کر دیا تھا میں اسے خوب داد دے رہے تھی اس کی ان بھر پور ضربوں پے میرے منہ سے نکلنے والی ہر سسکی اس کا لطف دو بالا کر رہی تھی - پھر مجھے ایک بار پھر سے جھٹکے لگنے لگے میں نے تڑپ کر کہا میں پھر سے آ رہی ہوں وہ بولا جانو اب میں بھی آ رہا ہوں پھر جیسے ہی میری چوت نے پانی چھوڑا ساتھ ہی سریش کے لن نے بھی میری چوت میں پانی کی برسات کر دی تھی - اب ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو دیوانوں کی طرح چوم چاٹ رہے تھے - سریش کا لن ابھی تک میری چوت میں ہی تھا - اور میں اسے اور وہ مجھے پیار سے چوم رہا تھا - ہم دونوں کو اب کافی دیر ہو گئی تھی یوں کسنگ میں مشغول ان کسنگ نے جیسے ہم دونوں کے اندر پھر سے شہوت کا جوش پیدا کر دیا تھا اب میری چوت میں ہی سرش کا لن جو پہلے ڈھیلی حالت میں تھا اب ہلکے ہلکے انگڑائی لے رہا تھا - پھر جیسے ہی اس کے لن نے بھر پور انگڑائی لی اب سریش نے مجھے کروٹ لے کر اپنے اوپر کر دیا اور خود نیچے آ گیا اب گویا میں اپنی مرضی سے سیکس کر سکتی تھی - اور میں نے اپنے دونوں گھٹنے اکٹھے کئے اور اپنی پاؤں سریش کی رانوں پر رکھے اور میری گاند اوپر نیچے ہو کر سریش کا لن اپنے اندر لینے لگی جیسے ہی سارا لن اندر گیا میں زور زور سے آگے پیچھے ہونے لگی ساتھ ہی نیچے سے بھی سریش ہلکا ہلکا سا دھکا مار دیتا اور میں مزے سے اپنی چھاتی کو مسلنے لگی اب سریش نے اپنے ہاتھوں میں میری چھاتی کو دبوچا اور دبانے لگا میں اب اپنے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کبھی آگے پیچھے اور کبھی اوپر نیچے ہونے لگتی مجھے بہت ،مزہ مل رہا تھا کچھ دیر بعد میں نے اپنے پاؤں زمیں پے رکھے اور اپنے ہاتھ سریش کی ناف سے اوپر رکھ کر زور زور سے اوپر نیچے ہونے لگی اور آھستہ سے میری سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی اور جوں جوں میری سپیڈ بڑھتی گی میری سسکیاں بھی بڑھنے لگیںآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ سریش میری سسکوں میں ہی کھویا ہوا تھا- کافی ددر بعد مجھے لگا میں آنے لگی ہوں لیکن میں نہیں رکی اور یوں ہی زور زور سے اچھل کر اوپر نیچے ہوتی رہی -اور جیسے ہی میری چوت میں سیلاب آیا میں زور سے چیخنے لگی لیکن رکی نہیں میں نے ویسے ہی اپنی سپیڈ جاری رکھی پھر کچھ دیر بعد میں نے اب پوزیشن پھر سے بدلی اور اب میں نے اپنا منہ سریش کے پاؤں کی طرف کیا اور اپنی چوت میں لن لے کر زور سے آگے پیچھے ہونے لگی میں اب ساتھ ساتھ اپنی چھاتی کو بھی مسل رہے تھی - میری اب کی بار آہیں اور سسکیاں نان سٹاپ طریقے سے نکل رہی تھیں کچھ دیر بعد میں نے اپنے ہاتھ سریش کے گھٹنوں پے رکھے اور خود زور زور سے آگے پیچھے ہونے لگی اب مجھے لگا ایک بار پھر سے میرا پانی نکلنے والا ہے اب کی بار سریش بھی مزے سے آہیں بھر رہا تھا پھر ہم دونوں کا ایک ساتھ ہی پانی نکلا لیکن میں رکی نہیں اب سریش نے کہا جانو کچھ دیر سانس لے لو میں نے کہا نہیں آج میں آپ جان سریش کا سارا زور دیکھ کر رہو گئیں اب فارغ ہونے کے بعد سریش کا لن سکڑ گیا لیکن میں نے اپنے ہاتھ سے آگے سے اسے سہارا دے رکھا اور اب میں آگے پیچھے ہونے لگی تھی - پھر جیسے ہی میں نے دیکھا اب اس کا لن میری چوت کی گرمی سے دوبارہ سے کھڑا ہو رہا ہے میں نے دوبارہ سے آگے پیچھے ہونے کے ساتھ اوپر نیچے بھی ہونے لگی اب کچی دیر بعد مجھے پیچھے سے پکڑا سریش نے اور اپنے اوپر گرا لیا اب میرے گھٹنے فولڈ تھے اور لن میری چوت میں میں الٹا لیتی تھی اب سریش کے سینے پر اب اس نے ساتھ نیچے سے اوپر کی طرف زور سے دھکے سٹارٹ کر دیئے پھر مجھے اسی پوزیشن میں ہی سریش نے الٹا کیا اور اب لن میری چوت سے نکالا اور میری گانڈ کے سوراخ پر رگڑنے لگا پھر کچھ دیر رگڑ کر اس نے لن میری گانڈ میں زور سے ایک ہی دھکے میں داخل کیا میں اب اپنے آپ میں کہاں تھی - اب میں نے بجائے چیخنے کے مزے سے سسک کر کہا بس اتنا ہی زور تھا اور یہ سنتے ہی سریش نے پاگلوں کی طرح مجھے آگے کو پھینکا اور میں اب ڈوگی اسٹائل میں تھی - اب کی بار پیچھے سے سریش اپنے جسم کا سارا زور لگا کر میری گانڈ پے اپنے لن سے ضربیں لگانے لگا - میں مزے سے بھر پور آوازیں نکالنے لگی - اور سریش کے اب دھکوں میں آھستہ سے تیزی آنے لگی تھی - اور میں مزے سے سسک کر اس کا ساتھ دینے لگی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ایسے ہی جانو اور زور سے واہ کیا ضربیں لگاتا ہے میری جان کا لن اف ہائے میں مر گئی ایسے ہی لگی رہو اور سریش نے اسی سپیڈ سے دھکے جاری رکھے اب سریش مختلف پوزیشنوں میں میری گانڈ پر اپنے لن سے طوفانی انداز کی ضربیں لگانے لگا - اس کی ہر ضرب مجھے ایک نئے مزے سے روشناس کرا رہی تھی اب جیسے ہی میری چوت نے پانی چھوڑا اور مجھے سیدھا کیا سریش نے اب میں نے کروٹ بدل کر اس کے اوپر آ گئی اب میں نے اس کا لن اپنی چوت میں ڈالا اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر زور سے لن کو اپنی چوت میں لینے کے لئے آگے پیچھے ہونے لگی - اب میری سپیڈ میں اتنا اضافہ ہوتا جا رہا تھا کہ اب کی بار سریش کا لن تھکنے لگا تھا اب سریش کے چہرے پے کچھ پریشانی کے آثار نظر آنے لگے تھے میں نے اب اس پے جھک کر اپنے ہونٹ سریش کے ہونٹوں سے جوڑ دئیے اور اسی لمحے میں اپنے آپ سے بیگانہ ہو گئی - اب میرے اوپر چندرا دیوی قابض ہوئی اب میری چوت میں سرسراہٹ سی ہوئی اور ساتھ ہی میرے نیچے سریش یوں تڑپ جیسے اسے ذبح کیا جا رہا ھو لیکن اب کی بار میں نے اس کے بالوں کو سختی سے اپنے ہاتھوں میں دبا کر اس کی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے جوڑ رہا تھا - اس کی آنکھوں میں کبھی حیرانی کبھی درد اور کبھی خوف کے آثار پیدا ہوئی جا رہے تھے وہ تڑپی جا رہا تھا اب اس کے چہرے پے جو پہلے خون کی لالی تھی وہ کم ہوئی جا رہی تھی - میری اب صرف گانڈ ہی دائیں بائیں ہل رہی تھی - اور نیچے سریش تڑپی جا رہا تھا میں کچھ کچھ حیران تھی کہ ایسا کیا ہو رہا ہے اس کے ساتھ لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا - میری اس حیرانی کو دیکھ کر مجھے چندرا دیوی کی آواز سنی دی وہ بولی جانو میں اس سنہری بال کی شکل میں ہوں اور وہ آپ کی چوت سے آپ کے اندر چلا گیا تھا آپ کو یاد ہے نہ میں نے سوچ میں کہا ہاں وہ بولی اب میں نے خود کو آدھے سے بھی زیادہ سریش کے لن کی کیپ میں جو سوراخ ہے نہ اسی کے راستے اس کے لن میں داخل ہو چکی ہوں اور اس کے جسم کا سارا خون اب اسی سوراخ کی طرف آ رہا ہے اور میں پیتی جا رہی ہوں واؤ آج کتنی صدیوں بعد کس کڑیل جوان کا خون ملا ہے - اب میری گانڈ کی حرکت تیز ہوتی جا رہی تھی اور پھر مجھے ایک دم سے یوں لگا جیسے میرے نیچے موجود سریش میں اب سانسوں کی رمک نہیں رہی میں نے اس کے ہونٹوں کو آزاد چھوڑ دیا اس کا جسم اب زردی مائل ہو گیا تھا . جسے اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ ہو صرف اس کے لن کی کیپ کا سوراخ کچھ زیادہ ہی کھلا ہوا تھا - اب چندرا کی سرگوشی سنائی دی چلو جانو اب گھر چلو میں نے خوفزدہ آواز میں کہا جن لوگوں نے مجھے اس کے ساتھ دیکھا تھا وہ ہنس کے بولی جانو آج یہ بات اپنے ذھن میں بیٹھا دینا جس وقت بھی تم میرے شکار سے سیکس کرو گئی اسے تمہاری اصل شکل ہی دکھائی دے گئی لیکن دوسروں کو تمہاری شکل ہر دفع بدلی ہی دکھائی دے گئی - اور آج بھی ایسا ہی ہوا ہے کسی نے آپ کو اس کے ساتھ نہیں دیکھا اور اب آپ اپنی آنکھیں بند کر کے ایک قدم آگے بڑھو میں نے ویسے ہی کیا اب اس نے کہا آنکھیں کھولو تو میں اب اپنے ارد گرد دیکھ کر چونک اٹھی میں اسی ندیا کے کنارے اپنی اپنی مرسڈیز کے پاس کھڑی تھی اور میرے جسم پر میری آسمانی رنگ کی ساڑھی اصلی حالت میں موجود تھی
اے سی پی سورج بھان سنگھ اپنے آفس میں سر ہاتھوں پے رکھے کسی گہری سوچ میں گم تھا - اسی وقت اس کے آفس کے دروازے پے ایک ہلکی سی دستک ہوئی اور پھر انسپکٹر پونم اندر داخل ہوئی - اینی پرابلم سر اس نے آتے ہی سلام کر کے میز کے دوسری طرف رکھیں کرسیوں میں سے ایک پے بیٹھ گئی - اب اسے گھورتے ہوئے سورج نے کہا - میں اسی کیس میں ڈوبا ہوا ہوں آج دو دن گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک مجھے سریش کے قتل کی سمجھ نہیں آ رہی - ایک تو اس کے جسم سے خود بخود خون کا غائب ہونا اوپر سے میڈیکل روپورٹ یہ دونوں ہی حیران کن ہیں - اور مجھے سب سے بڑی پریشانی کمیشنر صاحب نے ڈالی ہوئی ہے ہر دو گھنٹوں بعد ان کی کال آ جاتی ہے یس سورج کیا بنا اس کیس کا یار مجھ پے اوپر سے بہت پریشر ہے حکمران پارٹی کا سیٹھ لکشمی لعل ان کا سب سے بڑا انویسٹر ہے جو اپنے لاڈلے بیٹے کی موت سے پاگل ہوا جا رہا ہے - کچھ کرو مائی سن کچھ کرو - سورج نے کمیشنر صاحب کی نکل اتارتے ہوئے کہا - اور پونم کھلکھلا کر ہنس دی سورج کو یوں لگا جیسے آفس میں کسی مندر کی گھنٹیاں ایک ساتھ بج اٹھی ہوں - پونم تھی بھی کافی خوبصورت دراز بدن اڑتیس سائز کی ٹائٹ چھاتی ، نیچے سے پیٹ نہ ہونے کے برابر اور پیچھے کو نکلی گانڈ جو دیکھنے والے کو مست کر دے - وہ ایک حسین ترین پچیس سالہ لڑکی تھی - جسے حوادث نے پولیس کو جوائن کرنے پہ مجبور کر دیا - اس کے ڈیڈی کو بمبئی کے بے تاج بادشاہ پرتھوی راج چوہان نے ان کے خاص آدمی کو گرفتار کرنے پہ موت کی سزا دی تھی اور اسے بیدردی سے قتل کر دیا تھا - ان دنوں پونم اسٹڈی کر رہی تھی اسے خوائش تھی ایک لائیر(وکیل ) بننے کی لیکن وقت اسے پولیس کے محکمے میں لے آیا تین سال ہو گئے تھے وہ اس وقت ایس آئی بھرتی ہوئی تھی -آج وہ فل انسپکٹر تھی - لیکن آج تک وہ اپنے ڈیڈی کے قتل کو پکڑنا تو دور کی بات ہے - اس سٹی میں نہیں جا سکی تھی - اور اب وہ تین سال بعد اپنے سٹی بمبئی میں آئی تھی - اس کی انسپکٹر کی حثیت سے یہ پہلی پوسٹنگ تھی - اور اس کی یہ گڈ لک ہی تھی کہ اسے وہی تھانہ ملا جہاں اس کے باپ کی ہتیا کی گئی تھی - اور اس کے مقدر نے مزید اس کا ساتھ دیا اور اس کا اے سی پی سورج بھان آ کر لگا جو کسی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا تھا - اور وہ جہاں جاتا تھا وہاں کے مجرم وہ علاقہ ہی چھوڑ دیتے- کیوں کہ سورج کی ہسٹری میں صرف اور صرف اینکونٹر ہی زیادہ تھے - وہ کسی بھی عادی مجرم کو پکڑنے کی بجھائے موقع پہ ہی مار دیتا تھا - اسے ہر بار اس کے سینئر نے سمجھایا لیکن وہ اپنی مرضی کا ملک تھا - اس کا تعلق ایک پولیٹکل فیملی سے تھا - اس کا بڑا بھائی اس وقت اپوزیشن کی ناک کا بال سمجھا جاتا تھا - اس لئے وہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا - اس کے علاوہ بھی اس کی فیملی کے لوگ سب ہی تقریباً بیورو کریٹ تھے - لہٰذا اس کے خلاف سب ہی کچھ نہیں کر پاتے تھے - اس کی زندگی میں کوئی پہلا ایسا کیس آیا تھا جسے لے کر وہ پریشان ہو گیا کیوں کہ ابھی تک اس کیس کا کوئی سر اس کے ہاتھ نہیں آیا تھا - ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق سریش کے جسم سے سارا خوں نکال لیا گیا تھا لیکن کیسے اس کےجسم پے نہ ہی کسی زخم کا نشان تھا اور نہ ہی کوئی ایسا نشان جس سے یہ پتا چلے کہ یہاں سے خوں خارج ہوا ہے - پورے بدن پے صرف اس کے لن کی کیپ کا سوراخ ہی کچھ زیادہ کھلا تھا - لیکن ڈاکٹرز کا خیال تھا یہاں سے کبھی بھی یوں خون نہیں نکال سکتا اور اکثر لوگوں کا یہ سوراخ کچھ کھلا ہوتا ہے-
٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کومل سو کر اٹھی تو اس کا جسم ٹوٹ رہا تھا - دو دن ہو گئے تھے اسے سیکس کے آج پھر اس کا بدن سیکس مانگ رہا تھا - وہ اپنی روٹین کے مطابق تیار ہوئی اور آج اس نے سوچا کیوں نہ آج وکرم ٹھاکر سے ملا جاۓ اسی وقت اس کے کان میں چندرا دیوی نے سرگوشی کی آج وکرم کا شکار کھیلا جاۓ گا - اب اس نے خصوصی تیاری کی آج اس نے ایک ایسی ساڑھی کو چنا جس کے بلاوز کا گلہ کافی کھلا تھا آج وہ ایک کلی ساڑھی میں غضب ڈھا رہی تھی پھر وہ اپنی مرسڈیز میں بیٹھی اور اس نے شہر کے سب سے بارے کلب کی طرف اپنی گاڑی کا رخ کیا اسے پتہ تھا اس وقت وہاں فل رونق ہوتی ہے اور جوں جوں شام قریب آتی جاۓ گئی وہاں کی رونق میں اضافہ ہی ہوتا جاۓ گا - اس نے اپنی کار گولڈن کلب کی پارکنگ میں کھڑی کی اور اندر کو چل دی ابھی وہ مین دروازے سے پیچھے ہی تھی اسی وقت اس نے وکرم کو باہر نکلتے دیکھا وہ اپنے سامنے کومل کو دیکھ کر چونک گیا اور بولا دیکھ لیں جی آپ نے وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک ہم شرف ملاقات نہیں بخشا آپ نے اب کومل نے ادا سے اپنے لمبے بالوں کو جھٹکا دے کر کہا میں اوٹ آف سٹی تھی آج ہی واپس آئی ہوں - وکرم نے پوچھا کیا آپ اس کلب کی ممبر ہیں - کومل نے کہا نہیں آج پہلی دفع ہی آئی ہوں کافی دھوم سنی ہے اس کلب کی اب وکرم بولا آئیں پھاڑ آپ کا سب سے ہی تعارف کروا دوں کومل نے جواب دے ارے میں خود ہی مل لوں گئی سب سے آپ شاید کہیں جا رہے تھے - وکرم ٹھاکر نے عاشقانہ انداز میں کہا چھوڑیں جی ایک کاروباری میٹنگ تھی آپ کی چند لمحوں کی ملاقات سے یہ دل سیراب نہیں ہوا - اب کومل نے کہا چلیں آپ بھی کیا یاد کریں گے آج کی شام آپ کے نام یہ سن کر وکرم نے کہا تھینکس آپ کی یہ مہربانی ہے آپ نے ہم کو اس قابل سمجھا اب کومل نے اپنا خوبصورت ہاتھ ٹھاکر وکرم کی طرف بڑھا کر کہا آئیں وکرم جی وکرم نے کہا جی نہیں صرف وکی پیر سے سب مجھے وکی بولتے ہیں - اب کومل نے اپنی اداؤں کا ایک اور تیر چھوڑا اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر اپنی آنکھیں تیکھی کر کے کہا پیار سے وکی اور غصے سے تو آگے سے اس کی اداؤں سے گھائل ہو کر وکی نے جواب دیا آپ کو ہم پے غصہ آتا ہے تو جو مرضی کہہ لیں - اب وہ دونوں ایک دوسرے کی ہمنوائی میں اندر داخل ہوئے - اور کومل کو لئے وکی اپنی مخصوس میز کی طرف بڑھا اسے یوں دیکھ کر وہاں کی اس پاس ہی کیا سارے کلب کے مردوں کی نظریں جیسے چپک سی گیں تھیں - کومل کے وجود کے ساتھ کومل جانتی تھی اس کا یہ کافرانہ حسن بہت سوں کو گائل کیے جا رہا ہے اب وکی نے سب کی طرف دیکھ کر کہا ان سے ملیں میری نئی دوست کومل دیوی - اب ایک طرف سے کسی کی آواز آئی اوہ یہ تو وہی ہیں ریس کورس والی کومل جس نے اس دفع سارا ہندوستان ہی لوٹ لیا ہے - اب سب ہی کومل کو ہیلو ہائے کر رہے تھے اور کومل خندہ پیشانی سے سب کو جواب دے رہی تھی - پھر وکی نے کومل سے پوچھا جی کومل آپ کیا پئیں گئیں- کومل نے کہا صرف کولڈ ڈرنک اس کی بات سن کر پاس والی میز سے ایک دل جلا بولا آپ کو برا نہ لگی تو میرا ایک مشورہ ہے کومل جی آپ اس کلب کی مشہور زمانہ کاک ٹیل پی کر دیکھیں اس کی بات سن کر کومل نے کہا میں ڈرنک نہیں کرتی اب کوئی اور بولا ہائے ظالم آپ کو کون سا نشہ ہونا ہے- اب کومل نے ہنس کر کہا وہ کیوں جی تو اب کی بار کسی اور نے جواب دیا آج تک میں نے شراب کو شراب کا نشہ ہوتے نہیں دیکھا - اور آپ تو خود ہزاروں سال پورانی شراب سے بھی زیادہ نشیلی ہیں - اس کی بات سن کر سب ہی ہنس دئیے وکی نے کہا پلیز مائنڈ نہ کرنا یہ سب دوست ہیں میں نے جواب دیا نو پرابلم ڈیئر آج سے میں بھی ان کو دوست ہی سمجھوں گئی - اب یوں ہی باتوں ہی باتوں میں وقت گزارنے کا پتہ ہی نہ چلا اور شام ہو گئی - شام کے بعد وہاں کا میوزک پروگرام شروع ہوا تو سب ہی جوڑوں کی شکل میں ڈانس کرنے لگے اب ہماری میز کے آس پاس سے وکی کے سب دوست اٹھے اور کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ ڈانس کرنے لگے وکی نے اب میری طرف ہاتھ بڑھا کر کہا - کومل اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں آپ کے ساتھ ڈانس کرنا چاہتا ہوں - میں اسے یہ کہنے ہی والی تھی کہ مجھے ڈانس نہیں آتا اسی لمحے میں میرے کانوں میں چندرا دیوی کی سرگوشی گونجی - کومل ڈیئر آپ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ آپ اب چندرا دیوی کا عکس ہیں - ایسا کونسا کام ہے دنیا کو جس میں آپ ماہر نہیں ہیں - یہ سن کر میں اعتماد سے اٹھی اور پھر میں اور وکی سب کے ساتھ وہاں ڈانس کرنے لگے - وکی میری قربت میں مدہوش ہوئی جا رہا تھا - پھر میں نے کیا دکھانے تھے یہ سب چندرا دیوی کا ہی کمال تھا - میں نے اب ڈانس کے ایسے ایسے کمالات دکھانے شروع کے کہ سب ہی حیران راہ گئے - جیسے ہی ڈانس پروگرام ختم ہوا سب کی زبانوں پے میرا ہی نام تھا - وکی تو میرا ساتھ پا کر پھولا نہیں سما رہا تھا پھر ہم لوگ کافی دیر وہاں بیٹھے اب کافی رات ہو گئی تو میں اٹھی اور آنکھ سے اشارہ کیا وکی کو اٹھنے کا وہ کسی غلام کی طرح اٹھا اور میری طرف بڑھا میں نے کہا میں اب سے تیس منٹ بعد آپ کا ویٹ کروں گئی اس کلب سے دوسری طرف موجود ہوٹل میں اور وہاں سے اٹھ کر باہر آ گئی - ابھی میں نے اپنی کار وہاں سے نکال کر روڈ کراس کر کے سمے دوسرے روڈ پے موجود ہالیڈے ان ہوٹل کی پارکنگ میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ میں نے دیکھا وکی اپنی کار میں بیٹھ رہا ہے وہ اکیلا ہی تھا میں نے اب اپنی کار وہی روک لی اور وکی کے آنے کا انتظار کرنے لگی پھر میں نے اس کے آنے پر اپنی کار ہوٹل کی پارکنگ میں کھڑی کی اور خود وکی کی گاڑی میں بیٹھ گئی - وکی تو کومل کا ساتھ پا کر خود کو جیسے راجہ اندر سمجھ رہا تھا- اس نے کومل کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ کر کہا کومل آج میں بہت خوش ہوں- میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا - آپ جیسی لڑکی جس کا حسن اپسراؤں کے حسن کو مات دے رہا ہے - کبھی یوں میری ہمراہ ھو گی- مجھے ابھی تک yaqeeن ہی نہیں ہو رہا - میں نے جس دن سے آپ کو دیکھا ہے میرا تو دن کا سکون اور رات کی نیند ہی اڑ گئی ہے- میں دل کو بہلانے کوکسی اور لڑکی کی طرف نظر اٹھاتا بھی تھا تو میرا دل کسی ضدی بچے کی طرح مچل کر ایک ہی بات کہتا اگرکومل نہیں تو کوئی بھی نہیں- وکرم kے میٹھے لہجے سے جیسے پیار کی پھواریں نکل رہی ہوں - کومل نے اپنی نظروں میں پیار اور لہجے میں شہد سی مٹھاس پیدا کرتے ہوئے جواب دیا ٹھاکر وکرم آپ خود بھی کسی سے کم نہیں ہیں - آپ مردانہ وجاہت کا شاہکار ہیں جب سے آپ سے ریس کورس میں بات ہوئی ہے مجھے بھی آپ kے خواب دکھائی دئیے ہیں لیکن آپ بڑے بدمعاش ہیں- آپ نے مجھے خوابوں میں کافی تنگ کیا ہے - اس کی بات سن کر وکی کا تو جیسے دل ہے کنپٹیوں میں دھڑکنے لگا تھا - وہ شریر سے لہجے میں بولا بتاو نہ ہم سے کیا گھستاخی ہوئی ملکہ حسن کے حضور اب کومل نے اپنے چہرے پے کسی پہلی رات کی دلہن جیسی شرم سجا کر کہا آپ بڑے وہ ہیں - مجھے شرم آتی ہے میں نہیں بتاؤں گئی اس کے یوں شرما کر چھوئی موئی کی مانند سمٹ جانے کی ادا نے وکی کو اپنے ہوشوں سے بیگانہ کر دیا اس نے اپنا ایک ہاتھ کومل کے حسین بازو پے رکھا اور بولا کومل بتاؤ نہ آپ کو میری قسم اب جذبوں کی فیلنگ واضح ہو رہی تھی - اس کے چہرے پر لیکن کومل نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنا سر جھکا کر اپنی گود میں دیکھنے لگی - اب وکی نے بہت پیار سے شرابور لہجے میں کہا اگر آپ نے ہم کو نہ بتایا تو آپ میرا مرا منہ دیکھیں گئی- جیسے ہی وکی کے ہونٹوں سے آخری لفظ نکلا کومل نے تڑپ کے اپنی جھکی ہوئی پلکوں کی جھالر اٹھائی اور اپنا ہاتھ وکرم ٹھاکر کے منہ پے رکھ دیا ساتھ ہی بھرائی ہوئی آواز میں بولی کبھی ایسی بات دوبارہ مت اپنے منہ سے نکالنا نہیں تو آپ کی کومل کی جان نکل جاۓ گئی - اور iس جملے نے وکی کو جیسے فضاؤں میں پہنچا دیا وہ بولا سوری یار میں مذاق کر رہا تھا- اب کومل نے روٹھے لہجے میں جواب دیا ہونہہ بڑے آئے مذاق کرنے والے کسی کی جان گئی اور جناب کی ادا ٹھہری مجھ سے اب بات مت کریں آپ کومل نے اپنا منہ پھلا لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی- وکی کی تو جیسے جان پے بن گئی وہ کومل کو منانے کی کوشش کر رہا تھا کبھی ہاتھ جوڑتا کبھی کان پکڑتا لیکن کومل نہ مانی اب گاڑی ایک شاندار سی عمارت کے سامنے رکی اور وکی نے اپنی گاڑی کی ڈیش بورڈ پے رکھا ہوا ایک چھوٹا سا ریموٹ پکڑا اور اسے سیاہ رنگ کے جہازی سائز کے گیٹ کی طرف کر کے اس کا کوی بٹن پریس کیا اب وہ گیٹ بے آواز طریقے سے ایک طرف کھسکتا چلا گیا اور جیسے ہی گاڑی اندر داخل ہوئی پیچھے سے وہ گیٹ خود ہی بند بھی ہو گیا - اب وکی نے کومل کی طرف دیکھا جو منہ پھیلائے باہر ہی دیکھ رہی تھی - وکی نے کومل کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ہونٹوں سے لگا کر اس پے کس کی ساتھ ہی وہ بولا پلیز کومل مجھ سے یوں منہ نہ پھیروں آج کے بعد ایسا کبھی نہیں کہوں گا - اس نے اب کی بار کچھ ہمت کر کے کومل کی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھا اور کومل کا منہ اپنی طرف کیا اب وکے کے ہاتھ کی رگڑ سے کومل کی ساڑھی کا پلو اس کی چھاتی سے ہٹ کر نیچے گر گیا جیسے ہی وکی کی نظر ساڑھی کے بلوز کے ڈیپ سے گلے پے گئی وہ ایک دم سے چونک اٹھا کومل کے بے داغ جسم نے اسے مست کر دے کومل کی چھاتی آدھی سے زیادہ نظر آ رہی تھی - وکی نے اب کومل سے کہا معاف نہیں کرو گئی - کومل نے اب اس کی نظر اپنی چھاتی پے محسوس کر لی وہ ادا سے سر انکار میں ہلا کر بولی نہیں وکی جو اب اپنے ہوش و حواس پر قابو کھو رہا تھا اس نے اب کی بار کومل کو بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کھینچا اور کومل تڑپ کے اس کے بازؤں میں سما گئی وکی نے اپنے جلتے ہوئے ہونٹ کومل کے شہد سےمیٹھے ہونٹوں پہ رکھ دئیے ساتھ ہے اس نے کومل کی چھاتی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسل ڈالا کومل نے سسک کر کہا ہائے ظالم خواب میں بھی یوں ہی ظلم کرتے ھو- وکی نے اب کی بار ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ شراب کی کئی بوتلیں ایک ساتھ چڑھا گیا ھو جب تک معاف نہیں کرو گئی یوں ہی ظلم کروں گا جان اب کی بار کومل نے ایک لمبی آہ کے ساتھ کہا جاؤ معاف کیا اب وکی نے کومل کو اپنی طرف کھینچا اور خود ڈرائیونگ سیٹ والا دروازہ کھولا اور نیچے اتر گیا اب وہ دوسری طرف گیا اور کومل کی طرف جا کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا کومل کو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا اور اس کے ہونٹ چوستے ہوئے ایک طرف چل دیا اب وہ کومل کو لئے ایک شاندار سی خواب گاہ میں آیا اور کومل کو اپنی گود میں لے کر ہی صوفے پہ بیٹھ گیا وکی کے ہونٹ اب کومل کے لبوں سے جیسے مہ کو کشید کرنے لگے تھے - وہ اتنی شدت سے کومل کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا کہ اس کی ان کسنگ نے ہی کومل کے اندر جیسے شہوت کا طوفان کھڑا کر دیا تھا - اب جوں جوں وکی کی کس لمبی ہو رہی تھی کومل کے وجود میں ایک آگ سی بڑھکنے لگی تھی اور اس آگ نے اب کومل کو اندر سے جلانا شروع کیا تو کومل کے اندر سے جیسے کچھ موم کی طرح پگھل کر منی کے قطروں کی صورت میں اس کی چوت سے ٹپک گیا اور کومل نے ایک جھرجھری لی اب اس نے وکی کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک شہوت کا جہاں آباد ہو گیا تھا - اب وکی نے کومل کی حالت کو دیکھ کر جیسے ہی اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے جدا کئے کومل مزے سے بے اختیار سسک کر بولی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م مر گئی ہائے وکی میری جان ہی نکال دی آپ نے تو وکی نے اب کومل کو اپنے سینے میں بھنچ لیا اور کومل کے ریشمی بالوں کو چومنے لگا کافی دیر دونوں یوں ہی ایک دوسرے میں کھوئے رہے کبھی کومل وکی کا منہ سر اور گردن پے کس کرتی کبھی وکی کومل کے منہ اور گردن پہ بوسوں کی بچھاڑ کر دیتا وہ دونوں ہی ایک دوسرے میں ہی مگن تھے اچانک باہر سے زور دار آواز کے ساتھ بادل گرجے اور ان کی گرج سن کے کومل نے کہا کاش ابھی ساتھ ہی بارش بھی شروع ہو جاۓ ابھی اس کی بات اس کے منہ میں ہی تھی کہ اسی وقت ایک دم سے تیزہوا کے ساتھ بارش شروع ہو گئی - اب وکی نے کومل کا منہ چوم کر کہا لگتا ہے بارش کی دیوی میری جان سے بہت خوش ہے - کومل کو تو بارش میں بھیگنے کا جنون تھا - وہ بولی آو وکی بارش میں بھیگتے ہیں - وکی نے کہا جیسے میری جان کہے اب کومل وکی کی گود سے اتری اور باہر جا کر بارش میں بھیگنے لگی وکی نے ایک طرف رکھا ڈی وی ڈی پلیئر آن کیا اور ایک تیز لیکن رومانٹک ڈانس والا سانگ چل پڑا وکی اس کی آواز بڑھا کر باہر نکل آیا اب اس نے جو سین دیکھا اس نے بلکل ہی وکی سے ہوش چھین لئے - کومل اب اس سانگ پے تھرک تھرک کر ڈانس کر رہی تھی اور وکی اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا - وکی کا دل چیخ کر کہہ رہا تھا اس سانگ میں ایسا ڈانس تو سری دیوی نے بھی نہیں کیا جیسا میری جان کر رہی ہے - ڈانس کرتے ہوئے جیسے کومل کا انگ انگ ناچ رہا تھا - وکی ایک ٹرانس کی حالت میں ہی کومل کی طرف بڑھا اور اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا بارش نے کومل کی ساڑھی کو بلکل بھگو دیا تھا اور بھیگا ہوا حسن وکی کی جان نکل رہا تھا -اسی لمحے پتا نہیں وکی کے دل میں کیا بات آئی وہ آگے بڑھا اور اس نے کومل کی ساڑھی کا پلو پکڑ کر کومل کے گرد چکر کاٹنے لگا ہر چکر سے کومل کے حسین وجود کی رعنائیاں ظاہر ہونے لگیں اور ساڑھی آخر کار سری ہی وکی کے ہاتھ میں آ گئی اب وکی نے کچھ دیر اس حالت میں بھی کومل کے ڈانس کا نظارہ لیا پھر وہ کومل کو اپنے بازوؤں میں لے کر اس نے اپنے سینے سے لگا لیا اب دونوں ہی ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے بارش میں بھیگ رہے تھے - کچھی دیر بعد وکی کے ہاتھوں کی گردش محسوس کی کومل نے اپنی کمر پے بندھی ہوئی بلوز کی ڈوریوں پہ اور وکی نے اب ایک ڈوری کو کھینچا تو سب ہی کھلتی چلی گئیں اب وکی نے سب کے ڈھیلا ہونے پہ سب کو ہی کھولا اور بلوز کو کومل کے جسم سے جدا کر دیا اب کومل کی ٹائٹ چھاتی صرف بلیک برازیئر کے پیچھے چھپی تھی لیکن وکی کو یہ چھوٹا سا کپڑا بھی برداشت نہ ہوا اس نے برازیئر کا ہُک بھی کھول دیا اور جیسے ہی کومل کی مست اور خوبصورت چھاتی ننگی حالت میں اس کی وکی کے سامنے آئی وہ ان کو دیکھ کراپنے ہونٹوں پہ زبان پھیرنے لگا - اب اس نے نیچے کی طرف دیکھا اور ساڑھی کے نیچے والا پاجامہ اسے جیسے زھر لگنے لگا وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا اور ایک ہی جھٹکے سے اس پاجامے کا انارا کھول دیا - کومل ایک جگہ کھڑی تھی اس نے وکی کو اپنی من مانی کرنے کی اجازت دے دی تھی گویا اب وکی نے کومل کی پینٹی بھی نیچے کھینچ دی اور اسے کومل نے خود ہی پاؤں اٹھا کر نکل دیا - اب کومل کے ننگے بدن کو سر سے پاؤں تک دیکھا وکی نے اور مدہوش سی آواز میں بولا کومل جانو اب ڈانس کرو- اور کومل نے اب ننگی حالت میں بھی ڈانس شروع کر دیا اب کی بار جو سانگ پلے ہوا تھا- اس پہ کومل سٹیپ بائی سٹیپ ڈانس کرنے لگی - ہر فقرے سے مطابق اس کا جسم تھرکتا تھا - وکی کی تو جیسے اب جان پہ بن گئی تھی - اور جیسے ہی یہ سانگ ختم ہوا - کومل دوڑ کر وکی کے سینے سے چمٹ گئی اور وکی نے کوملکے مہ سے بھرے ہوئے ہونٹوں کو اپنے منہ میں بھر لیا اور ان کو یوں چوسنے لگا جیسے ان سے امرت ٹپک رہا ہے کومل نے بھی وکی کے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کیں اب وکی کی شرٹ کے بٹن کومل کی نازک چھاتی پہ چُب رہے تھے اس نے ایک ایک کر کے شرٹ کے بٹن کھولے اوروکی نے ہاتھ اوپر کر کے خود ہی اپنی شرٹ اتار دی پھر وکی نے اتنی نرمی سے اپنے ہاتھوں سے کومل کی سندر کمر کو مساج کرنا شروع کیا جیسے ذرا سا بھی سخت ہاتھ لگا تو کومل دکھ جائے گئی اس کے نرم ہاتھوں کی حرکت نے کومل کی سانسیں تیز کر دیں تھیں - وکی کے ہاتھوں نے جب کافی دیر تک کومل کی کمر کو اپنے ہاتھوں کے بوسے دے لئے تو اس نے اپنے ہاتھوں کو نیچے کومل کے پیچھے کو ابھرے ہوئے کولہوں کو اپنی رینج میں لیا اور کومل نے جسے ہی اپنی گانڈ پہ وکی کے ہاتھوں کی سرسراہٹ محسوس کی وہ مچل اٹھی کچھ دیر کولہوں کو نرمی سے مسلنے کے بعد وکی نے اپنے ہاتھوں کا دباؤ کچھ سخت کیا اور ایک ایک طرف والا کولہا اپنے ایک ایک ہاتھ میں لے کر اسے دبانے لگا اور یوں دبانے سے وکی کی انگلیاں کولہوں کے سنٹر تک بھی جا پہنچی اور جیسے ہی وکی کے ہاتھوں کے انگوٹھوں نے باری باری کومل کی گانڈ کے سوراخ کو ٹچ کیا کومل تڑپ کے آگے کو ہوئی اور اس نے اپنی ٹانگ وکی کی ٹانگوں میں پھنسا کر اپنی گانڈ کو کچھ کھلا کیا یہ وکی کے لئے اشارہ تھا کہ وہ گانڈ کے ساتھ جی بھر کے کھیل سکتا ہے - اور وکی تواسی اشارے کا منتظر ہو جیسے اب اس نے اپنے ہاتھوں سے کومل کے چتروں کو اچھے سے دبا کر دونوں طرف کچھ کھینچا اور کومل کی گانڈ کا سوراخ کچھ اور کھل کے سامنے آیا اس کے ہاتھوں کے اب وکی کا ایک ہاتھ کومل کی گانڈ کے سوراخ سے کھیلنے لگا اور وہاں سے ہوتا ہوا وہ کومل کی گرم چوت کی طرف آیا اور اسے ہاتھ لگاتے ہی وکی کو یوں محسوس ہوا جسے اس طوفانی بارش میں میں بھی جیسے کومل کی چوت میں آگ لگی ھو اور اب وکی نے کومل کی چوت پے ہاتھ کو رگڑانا سٹارٹ کیا اور کومل کی تو جان پہ بن آئی اوپر سے اس کے ہونٹوں کو وکی دیوانوں کی طرح چوس رہا تھا - اس کسنگ نے ہی کومل کے شریر میں شہوت کی آگ بڑھکا رکھی تھی اب نیچے سے اس کی چوت کے ساتھ وکی کے ہاتھوں کی ان گستاخیوں نے تو جیسے اس کے اندر ان دیکھی بھڑکتی ہوئی آگ پہ پٹرول کا کام کیا اور کومل بے سدھ ہو کر اب اپنے ہاتھوں سے وکی کی پینٹ کی بیلٹ کو کھول کر اس کی پینٹ نیچے پھینک کر انڈر ویرمیں اپنے ہاتھ ڈال کر لن سے کھیلنے لگی - اب وکی نے کومل کے ہونٹوں کو آزادی دی اور کومل کی چھاتی کی طرف متوجہ ہوا پھر اس کے ہونٹوں نے کومل کی چھاتی میں خود کو گم کر لیا اب کومل کی مست چھاتی تھی اور وکی کے پیاسے ہونٹ وہ خوب دل کھول کر اپنی پیاس بجھانے لگا لیکن یہ تو ایسی طلسمی پیاس تھی جو کم ہونے کی بجھائے بڑھتی ہی جا رہی تھی
''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" شاید یہ بول اسی موقع کے لئے کہا گیا تھا کیوں کہ جیسے جیسے وکی اپنے اندر لگی آگ کی دوا سمجھ کر اپنے ہونٹوں سے کومل کے مموں کو چوس رہا تھا اس اس کی آگ کم ہونے جگہ بڑھتی جا رہی تھی- اور اب وکی نے اس آگ میں جل کرراکھ ہونے سے بچنے کے لئے کومل کے پستانوں کو مزید جوش پ خروش سے چوسنا شروع کیا اس کے ہونٹ کومل کی چھاتی پہ جگہ جگہ پہنچ رہے تھے - لیکن وکی کو شاید ہونٹوں کی پہنچ پہ یقین نہ آیا اس نے اب اپنی زبان سے کومل کی چھاتی کو چاٹنا شروع کر دیا اور اس کی زبان نے کومل کی چھاتی کو یوں چاٹا کہ اب کی بار کوئی ایسا گوشہ نہیں تھا جو زبان کی رینج سے بچا ھو - کومل تو اپنی چھاتی پہ ہونٹوں کا لمس ہی نہ برداشت کر پا رہی تھی - اب اس زبان کی رگڑ نے اسے سسکنے پہ مجبور کر دیا اور کومل نے بے اختیارانہ زور زور سے مزے کی شدت میں بے تاب ہو کر سسکنے کے ساتھ چلانا شروع کر دیا اب اس کی ان چیخوں نے وکی کی شہوت کو مزید بڑھا دیا اور اس نے بھی اب کومل کی چوت میں اپنی ایک ساتھ اکٹھی دو انگلیاں ڈال دیں اور کومل اب کی بار مزے سے تڑپ اٹھی- ابھی وہ یہ مزہ ہی نہیں بھولی ہو گئی کہ وکی نے دوسرے ہاتھ کا انگوٹھا کومل کی گانڈ کے سوراخ میں ڈال دیا اب اس سہ طرفہ مزے نے کومل کے منہ سے چیخیں نکلوا دیں آہ آہ آہ آہ آہ اوہ او وہ اف ف ف ی یاہ اوہ وکی میں مر گئی اب کومل نے وکی کا لن باہر نکل کر مضبوطی سے پکڑا اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں اور اسے آگے پیچھے کرنے لگی جوں جوں کومل اپنے مزے میں شدت محسوس کر رہی تھی اس کے ہاتھوں کی حرکت میں تیزی آتی جا رہی تھی - پھر آخر وہ وقت آیا جب کومل زور سے کانپی اور اس کے منہ سے تیز چیخ نکلیآہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ اور اس کی چوت نے منی کی برسات کر دی - اب اسے کچھ سکون آیا ابھی کومل نے ایک لمبی سانس لی ہی تھی کہ اسی وقت وکی نے تیزی سے کومل کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پہ رکھی اور اپنا لن کومل کی چوت پہ تک کر ایک زور دار دھکا مارا اور لن جو کومل کے ہاتھوں کی سختی سے فل غصے میں تھا اس نے کومل کی نازک چوت کی گہرائی میں جا کر سانس لیا اور کومل ایک مزے کی آواز کے ساتھ تڑپی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ وکی ہائے کیا دھکا مارا ہے پہلے دھکے نے ہی مجھے پاگل کر دیا ہے اب وکی اپنی گانڈ پیچھے کر کے لن سارا باہر نکلتا اور پھر ایک زور دار سٹروک لگا کر لن کومل کی چوت میں جڑہ تک گھسا دیتا اور اس کے ہر دھکے کی داد کومل مزے سے سسک کر دینے لگی کچھ دیر بعد وکی نے پوزیشن بدلی اور کومل سے کہا اپنے دونوں ہاتھ میری گردن میں ڈال لو کومل نے ایسا ہی کیا اب وکی نے کومل کی دوسری ٹانگ بھی اٹھا لی زمین سے اور کومل کی گانڈ کے نیچے دونوں ہاتھ رکھے جیسے ہی اس نے دونوں ہاتھوں پہ گانڈ کا وزن اٹھایا کومل نے اپنی دونوں ٹانگوں کو وکی کی کمر کے گرد لپیٹ لیا - اب وکی نے لن کو چوت میں ڈالا اور ساتھ ہی ایک دھکے سے لن اندر کیا اب کومل مزے سے تڑپ اٹھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ وکی میں صدقے جاؤں اپنے یار کے اب وکی نے ساتھ میں قدم قدم چلنا شروع کیا اور اس کے چلنے سے لن جو کومل کی چوت میں تھا اسے خوب رگڑ لگتی اب کومل نے سختی سے اپنی چوت کو بھنچ لیا اور ساتھ ہے وکی کے ہونٹوں پے کس کرنے لگی وکی اسے یوں ہی گود میں اٹھائے اسی کمرے میں آیا جس میں میوزک چل رہا تھا اب اس نے میوزک کی آواز کم کی اور کومل سمیت باد پے گر گیا اس کے یوں گرنے سے کومل کو یوں محسوس ہوا اس کی چوت میں لن یوں گھوما جیسے کوئی لٹو ھواور وہ مزے کی شدت سے تڑپ کے بولی ہائے وکی کیا آج جان ہی نکالو گے میری اب وکی نے زور سے دھکے مرنے شروع کئے اور کومل کی چیخیں میوزک کے ساتھ مل کر ایک عجیب سا سماں پیدا کر رہی تھیں وکی نے پھر سے پوزیشن بدلی اور کومل کے ساتھ لیٹ گیا اس کی ایک ٹانگ اپنی رانوں پے رکھی اور اپنا لن کومل کی چوت میں ڈال کر آگے کو دھکے مارنے لگا ہر دھکے سے کومل کی چھاتی ایک لمبا بونس لیتی اور کومل تیز سانسوں کے ساتھ اب سسکنے لگی - کچھی دیر بعد دوبارہ سے پوزیشن بدلی وکی نے اب اس نے کومل کو الٹا کیا اور پیچھے سے لن اس کی چوت میں ڈال کر اپنے جسم کے فل زور کے ساتھ دھکے مارنے لگا اب کی بار اس کے ہر دھکے نے کومل کے جسم میں ہلچل مچا دی اور وہ مزے اور درد سے تڑپ کر چلانے لگی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ یوں ہی مارتے جاؤ دھکے اور تیز آہ اوہ یاہ اوہ یاہ وکی پلیز مور ہارڈ اور وکی پے تو جیسے کوئی جنوں سوار ہو گیا اس نے اب کی بار اپنا لن اپنے کولہے گھما کر اندر ڈالنے لگا اور کومل اب کی بار مزہ بردشت نہ کر پائی اور اس کی چوت برس گئی جیسے ہی چوت نے پانی چھوڑا وکی نے لن چوت سے نکالا اور گانڈ میں داخل کر دیا اب کومل ابھی فراغ ہونے کا مزہ بھی نہ لے پائی تھی کہ گانڈ میں لگنے والی ضربوں نے اسے درد سے دو چار کر دیا اور وہ درد سے چلانے لگی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف وکی ہائے میں مر گئی اور وکی کو تو ویسے بھی چوت سے زیادہ گانڈ میں مزہ آتا تھا لڑکیوں کی وہ دیوانہ وار اپنے زبردست لن سے کومل کی گانڈ پہ ضربیں لگانے لگا ساتھ میں وکی نے بیڈ کی دراز میں سے ایک ڈبیا نکالی اس میں سے ایک کالی گلی جو ایک بنتے جتنی تھی وہ اپنے منہ میں ڈال کر اپنی زبان کی نیچے کر کی یہ افیم تھی - پھر سے اپنے دھکوں میں شدت پیدا کرتا جا رہا تھا وہ اور اب مزے سے زیادہ کومل درد سے چیخ رہی تھی - پھر کوئی پانچ منٹ یوں ہی گزر گئے اور کومل کی جان پے بن آئی اب وکی نے کومل کو ڈوگی اسٹائل میں ہونے کو کہا جیسے ہی اپنے گھٹنے فولڈ کر کے کومل اس اسٹائل میں آئی تب تک وکی اس کی گند میں لن دوبارہ سے ایڈجسٹ کر چکا تھا اب پہلے دھکے نے ہی کومل کی زوروں کی چیخیں نکلوا دیں وہ تڑپ کے آگے کو گری اب وکی کے منہ میں اس کے لعاب دھن سے افیم گھل رہی تھی اور کچھ تھوڑی تھوڑی مقدار میں اس کے حلق سے نیچے جا رہی تھی - وکی افیم کھانے کا عادی تھا - اور آج اس نے کومل کا بدن دیکھا تو اپنے ہوش حواس کھو بیٹھا تھا آج اس نے عام دنوں سے تین گنا زیادہ افیم کھا لی تھی - جیسے جیسے افیم وکی کے خوں میں سرایت کر رہی تھی اس کے لن میں جیسے ایک نئی طاقت پیدا ہوتی جا رہی تھی - اور اس کے دھکوں کی سپیڈ بھی اب انتہا کو چھو رہی تھی اور پھر ایک زور کی چیخ کے ساتھ ہی وکی کے لن نے گانڈ میں ہی اپنی چھوڑ دیا لیکن پانی چھوڑنے کے باوجود لن ابھی تک تنا ہوا تھا اب دوبارہ سے اپنے لن سے دھکے مارنے لگا وکی گانڈ میں - جیسے جیسے وہ دھکوں میں سپیڈ بڑھا رہا تھا کومل کے چیخنے کی سپیڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ وکی اتنا درد اپنی جان کو ہائے لیکن وکی تو اب یہ بھول ہی چکا تھا کہ وہ اس کا دیوانہ ہوا جا رہا تھا - اب اس پہ جیسے کوئی شیطان سوار تھا جو اسے یہی بتا رہا تھا کہ اس کے لن کی زد میں دنیا کی حسین ترین لڑکی ہے جی کی سسکیوں کی آواز میں اتنا نشہ ہے جو کسی بھی شراب میں نہیں اور وہ اس نشے کو پانے کے لئے بے تاب ہوا جا رہا تھا - اب تو درد کی انتہا ہو گئی تھی جب سے وکی کومل کی گانڈ کو چود رہا تھا کومل کی چوت دو دفع گیلی ہوئی تھی منی سے اب یہ درد اس کی برداشت سے باہر ہوا جا رہا تھا - اسے یوں لگ رہا تھا اب ہر دھکا اس کی روح پہ ضرب لگا رہا ہے اور اس کی روح بھی درد سے چٹخ رہی تھی اسی وقت اس کے کان میں چندرا دیوی کی سرگوشی سنائی دی جان بولو اب میں اپنا کام شروع کروں یا اور مزہ لینا ہے تو کومل کی سوچ نے کہا کرو اپنا کام شروع یہ کمینہ تو اس کی جان ہی نکال رہا ہے اب کومل نے کہا وکی پلیز مجھے اوپر آنے دو یا خود مجھے سیدھا کر دو تو وکی نے اسے جھٹ پٹ سیدھا کیا اور اس کی گانڈ میں لن ڈالنے لگا تو کومل نے کہا نہیں اب پلیز آگے والی سوراخ میں ڈالو تو وکی نے کہا چپ رہو اب میں اپنی مرضی سے ڈالوں گا اس نے کومل کی دونوں ٹانگیں اپنے کندھے پہ رکھ لیں اور اپنا لن دوبارہ سے گانڈ میں ڈال کر طوفانی انداز کے جھٹکے مارنے لگاآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف اب جیسے کومل کی جان ہی نکال گئی ھو وہ زور سے چلانے لگی اور وکی صاحب آنے والے وقت سے بے پروا ہو کر اپنے دھکوں میں تیزی لانے لگے اسی وقت کومل کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی چیز اس کی کمر سے رینگ کر گانڈ میں گھسی ھو پھر اسی وقت کومل کی ٹانگوں نے اپنا دباؤ بڑھا دیا وکی کی گردن کے گرد یہ دیکھ کر وکی نے ہنس کر کہا کیا ایسے تمہاری جان چھوٹ جاے گئی جان جی اور مزید زور کا دھکا مارا کومل نے ایک زور کی چیخ ماری آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف اور اس کی چیخ کو سن کر وکی نے مزید جوش میں آ کر دھکا مارا لیکن اس بار کومل نہیں چیخ وکی کے منہ سے نکلی اور پھر تو وہ مسلسل چیخنے لگا اب اس نے کوشش کی کہ اپنا لن باہر نکال لے کومل کی گانڈ سے لیکن نہیں وہ اب زور سے چیختے ہوئے بولا یہ کیا گھس رہا ہے میرے لن میں آ میں مر گیا اور ساتھ ہی اس کے جسم کا رنگ تیزی سے ہلدی مائل ہوتا جا رہا تھا پھر وہ درد سے چیختا ہوا کومل کے اوپر ہی گرا گیا اور ڈوبتی آواز میں بولا مجھے چھوڑ دو میں ہائے میں مر رہا ہوں پلیز مجھے معاف کر دو میرے جسم سے جیسے لہو ختم ہوتا جا رہا ہے وہ سامنے لگے آئینے میں اپنا زرد ہوتا چہرہ دیکھ کر ڈر گیا اور اب وہ زور سے رونے لگا تھا - اور پھر اس کی آخری ہچکی نکلی اور وکی بھی دم توڑ گیا - اب اس کو ایک طرف پھینکا کومل نے اس اٹھی اس نے اب ایک کمر توڑ انگڑائی لی اور کومل کی تنی ہوئی چھاتیاں اور بھی تن گئیں - اسی وقت چندرا نے سرگوشی کی لو یو کومل جان کومل نے کہا لو یو ٹو میری چندر کانتا اور اب بنا کہے ہی کومل نے آنکھیں بند کر کے آگے کو قدم بڑھایا اور وہ اپنی مرسڈیز کے پاس ہالیڈے ان ہوٹل کی پارکنگ میں موجود تھی- اور اس کے جسم پے لباس جو اس نے پہنا تھا وہ موجود تھا -
٭٭٭٭٭٭٭
کہاں گئی وہ آپ کی ساری پھرتیاں مسٹر کمیشنر آپ کو پتہ ہے ٹھاکر وکرم سے میرا کیا رشتہ تھا - وہ داماد تھا میرا اور آپ نے تین دن گزر جانے کے بعد بھی اس کے قاتلوں کو پکڑنا تو دور کی بات ہے - ابھی تک یہ ہی پتہ نہیں چلا سکے کہ اس کے ساتھ اس رات وہ لڑکی کون تھی - جسے مہتا صاحب نے دیکھا تھا - آپ نے اس کے سکیچ بنوا کر سرے بمبئی کے تھانوں میں بجھوا دئیے یہاں تک کہ ٹی وی پر نیوز چینل پے بھی اسے چلوا دیا لیکن رزلٹ کیا رہا بتاؤ مجھے یو نانسنس ہوم منسٹر نے اپنے آفس میں بمبئی کے پولیس کمیشنر کی اچھی خاصی کلاس لینے کے بعد اب گالیوں پہ اتر آیا تو پولیس کمیشنر کیلاش ناتھ نے نرمی سے کہا سر مجھے صرف ایک ویک کا ٹائم دیا جاۓ- لیکن ہوم منسٹر صاحب نے اسی وقت فون کا رسیور اٹھا کر پھاڑ کھانے والے لہجے میں اپنی سیکرٹری سے کہا میری آئی جی پولیس سے بات کرواؤ - اب چند لمحوں بعد دوسری طرف سے آئی جی صاحب کی مودبانہ آواز سنائی دی یس سر - تو ہوم منسٹر نے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا یار آپ نے کن بیوقوفوں کو بمبئی پولیس کی کمان سونپ دی ہے - مجھے کل تک بمبئی میں اس کمیشنرکی جگہ شیروز خان چاہئیے . اب کمیشنر کیلاش ناتھ نے ہونٹ بہنچ لئے وہ اب دل ہی دل میں ہوم منسٹر کو کوس رہا تھا - دوسری طرف سے سن کر ہوم منسٹر نے سختی سی کہا اٹس مائی آرڈر مجھے چوبیس گھنٹوں میں مہارشٹر کا پولیس کمشنر شیروز خان بمبئی پولیس کا انچارج چائیے- اور پٹک سے رسیور پھینکا فون پے اور کیلاش ناتھ کی طرف دیکھ کر کہا آپ ابھی تک یہی ہیں دفع ہو جایئں - اور کیلاش ناتھ کی ساری زندگی میں ایسی انسلٹ نہیں ہوئی ہو گئی - وہ جیسے ہی اپنے آفس میں پہنچا اسی وقت اسے آئی جی آفس سے معطلی کے آرڈر آگئے اور وہ خاموشی سے اسی وقت اپنے آفس کو چھوڑ کر چلا گیاایک لمحے میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سے پھیل گئی اور ساتھ ہی رات کو آنے والے اخباروں میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ لگی تھی - بمبئی پولیس کمیشنر کیلاش ناتھ کو معطل کر دیا گیا - اور بمبئی پولیس کا چارج اب خطروں کے کھلاڑی اور ایک نڈر، جانباز کمیشنر کو سونپا جا رہا ہے - جس کا نام ہی دہشت کی علامت ہے - جی ہاں شیروز خان ایک دفع پھر سے بمبئی میں آ رہا ہے اور اس خبر نے پولیس کے علاوہ بمبئی کے انڈر ورلڈ میں تہلکہ مچا دیا – -



प्यास बुझाई नौकर से Running....कीमत वसूल Running....3-महाकाली ....1-- जथूराcomplete ....2-पोतेबाबाcomplete
बन्धन
*****************
दिल से दिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
तुफानो में साहिल बड़ी मुश्किल से मिलते हैं!
यूँ तो मिल जाता है हर कोई!
मगर आप जैसे दोस्त नसीब वालों को मिलते हैं!
*****************
Post Reply