وطن کا سپاہی

Post Reply
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


کرنل نیہا کے مموں پر چھوٹے چھوٹے ہلکے گلابی رنگ کے نپلز کو چیری سمجھ کر کھانے لگا اور نیہا کی سسکیاں اب آہ آہ سے آوچ آوچ میں تبدیل ہوگئی تھیں، نیہا کے نپلز سے نکلنے والا رس کرنل کے لیے آبِ حیات ہی تھا، جسکو وہ بہت شوق سے پی رہا تھا، تھوڑی دیر نیہا کے نپلز کو دانتوں سے کاٹنے کے بعد کرنل نے نیہا کے ممے اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی مگر 36 سائز کے ممے اسکے منہ کے سائز سے کافی بڑے تھے اور کرنل آدھا مما ہی اپنے منہ میں لے سکا اس سے زیادہ نہیں۔ نیہا کی کمر پتلی تھی اور سینا بھی زیادہ چوڑا نہیں تھا مگر سینے پر موجود ممے علیحدہ ہی اوپر اٹھے ہوئے نظر آرہے تھے۔ نیہا کے برا کا سائز یقینا 36 ڈی ہوگا۔ نیہا کے مموں سے پیٹ بھرا تو کرنل آہستہ آہستہ نیچے رینگنے لگا اور نیہا کے پیٹی کوٹ سے کچھ اوپر زیرِ ناف حصے پر اپنی زبان پھیرنے لگا

پھر کرنل نے نیہا کی ایک ٹانگ اوپر اٹھائی اور اپنے کندھے پر رکھ لی، نیہا کی ساڑھی اب ٹانگ سے سرکتی ہوئی اسکی تھائیز تک جا پہنچی تھی ، کرنل نے ایک بار نیہا کی بالوں سے پاک صاف ستھری ٹانگ پر پاوں سے لیکر گوشت سے بھری ہوئی تھائیز تک اپنا ہاتھ پھیرا اور اسکے بعداپنی زبان سے نیہا کے پاوں کی انگلیاں چوسنے لگا۔ نیہا کے لیے یہ بالکل نیا تجربہ تھا آج تک کسی نے اسکو اس طرح سے پیار نہیں کیا تھا۔ نیہا دل ہی دل میں کرنل کے سیکس سٹائل کی عاشق ہوگئی تھی۔ کرنل نیہا کے پاوں کی انگلی کو اپنے منہ میں لیتا اور ہونٹوں سے چوستا ہوا انگلی باہر نکالتا، پھر اس نے نیہا کے پاوں کے نچلے حصے پر اپنی زبان کی نوک پھیرنا شروع کی تو نیہا کو مزے کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی گد گدی بھی ہونے لگی، اور وہ مزے کی شدت میں اپنا سر دائیں بائیں گھمانے لگی، نیہا کے خوبصورت لبوں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ تھی اسکو کرنل کا یہ انداز بہت اچھا لگا تھا۔ پھر کرنل نے اپنی زبان نیہا کے پاوں پر رکھی اور رگڑتا ہوا نیہا کی پنڈلی سے گھٹنوں تک اور وہاں سے نیہا کی تھائیز تک لے آیا۔ 2،تین بار یہ حرکت کرنے کے بعد اس نے بالکل اسی طرح سے نیہا کی دوسری ٹانگ اور پاوں کی انگلیوں پر بھی پیار کیا۔

کرنل کے اس عمل نے نیہا کی چوت میں آگ لگا دی تھی اور پیٹی کوٹ سے نیچے نیہا کی پینٹی جو پہلے اسکے بدن پر موجود پانی سے گیلی تھی اب نیہا کی چوت سے نکلنے والے پانی سے جو فائنل آرگزم سے پہلے نکلا ہے اسکی وجہ سے گیلی ہو چکی تھی۔ دونوں ٹانگوں پر اسی طرح پیار کرنے کے بعد کرنل نے نیہا کو صوفے سے اٹھا کر نیچے کھرا کر دیا، اور خود صوف پر بیٹھا رہا ۔ کرنل نے اب نیہا کا پیٹی کوٹ کھولا اور ایک ہی لمحے میں اسکی ساڑھی اسکے بدن سے ہوتی ہوئی اسکے پاوں میں جا گری۔ ساڑھی کے نیچے نیہا نے سیکسی بلیک رنگ کی پینٹی پہن رکھی تھی۔ پینٹی کا اگلا حصہ انہتائی باریک تھا جو بمشکل نیہا کی چوت کے لبوں کو اور چوت کی لائن کو چھپانے کا کام کر رہا تھا جبکہ اسکے علاوہ آس پاس کا سارا حصہ ننگا تھا، جبکہ پینٹی کو کولہوں کے سائڈ پر ڈوری باندھ کر سہارا دیا گیا تھا۔ نیہا کے خوبصورت گورے بے داغ جسم پر کالے رنگ کی یہ سیکسی پینٹی بہت ہی خوبصور لگ رہی تھی۔

کرنل نے نیہا کو چوتڑوں سے پکڑا اور اپنے قریب کر لیا، پھر اپنا منہ نیہا کی پینٹی کے قریب لیجا کر اسکی پینٹی پر لگے پانی کی خوشبو سونگھنے لگا۔ کرنل کے لیے چوت کے پانی کی خوشبو کسی بیش قیمت پرفیوم سے کم نہ تھی اس نے پہلے پہل تو نیہا کی پینٹی پر ہی اپنی زبان رکھ دی اور اسکو چوسنے لگا، مگر پھر کرنل نے نوٹ کیا کہ نیہا کی چوت آس پاس کا سارا حصہ بالوں سے ایسے پاک ہے جیسے وہ چند منٹ پہلے ہی اپنی چوت کے بال صاف کر کے آئی ہو۔ پھر کرنل کو یاد آیا کہ کمرے میں آتے ہی نیہا نے کہا تھا میں نے نہا لیا ہے آج رات مزے کریں گے۔۔۔ اس سے کرنل نے اندازہ لگایا کہ نیہا کو آج ماہواری ختم ہوئی ہوگی اور اسنے نہانے کے ساتھ ساتھ اپنی چوت کو بھی صاف کیا تھا اور تمام بال اتار دیے تھے تاکہ وہ اپنے پتی سریش کے ساتھ آج رات مزے کر سکے ، مگر اسے کیا معلوم تھا کہ اسکے پتی کے لن کی جگہ اسکو آج کرنل کا لن ملے گا اور کرنل ہی اسکی بالوں سے پاک صاف شفاف چوت کو چاٹ کر اسکا رس پیے گا۔

کرنل نے اب نیہا کے کولہوں پر موجود پینٹی کی ایک سائیڈ کی ڈوری کو کھولا تو پینٹی ایک سائیڈ سے نیچے ڈھلک گئی مگر ابھی بھی نیہا کی چوت کے لب پینٹی نے چھپا رکھے تھے، پھر کرنل نے نیہا کو مزید اپنی طرف کھینچا اور اسکی پینٹی کی دوسری سائیڈ کی ڈوری کو اپنے منہ سے پکڑ کر آہستہ آہستہ کھینااور کھینچتے کھینچتے پیچھے صوفے سے ٹیک لگا لی، نیہا کی پیننٹی کرنل کے منہ کے ساتھ ساتھ پیچھے آگئی تھی جبکہ نیہا اب مکمل طور پر کرنل کے سامنے ننگی کھڑی تھی اور اسکی چوت پر پانی ایسے چمک رہا تھا جیسے صبح صبح گھاس پر شبنم کے قطرے چمکتے ہیں۔

کرنل ایک بار پھر آگے بڑھا اور نیہا کی چوت سے شبنم کے ان قطروں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگا۔ نیہا نے اپنی دونوں ٹانگیں تھوڑی سی کھول لیں اوراپنے دونوں ہاتھ کرنل کے سر پر رکھ کر اسکو اپنی چوت کی طرف دھکیلنے لگی۔ چوت سے شبنم کے قطرے چاٹنے کے بعد اب کرنل نے نیہا کی ٹائٹ چوت کو اپنے انگوٹھوں سے تھوڑا سا کھولا اور چوت کے لبوں کے بیچ میں جگہ بناتا ہوا اپنی زبان کو چوت کے اندر لے گیا۔ نیہا ایک ہفتے سے لن کی پیاسی تھی ماہواری کی وجہ سے وہ اپنی پیاس نہیں بجھا سکی تھی، آج ہفتے بعد اسکی چوت کو کرنل کی زبان نے چھوا تو اسکے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی، اور اسکی ٹانگیں ہولے ہولے کانپنے لگیں تھیں۔ کرنل وشال نیہا کی باپ کی عمر کا تھا اور یہ سوچ سوچ کر نیہا مزید خوار ہورہی تھی کہ آج وہ اپنے باپ کی عمر کے شخص سے چدائی کروائے گی۔ جب کے کرنل تو پہلے سے ہی جوان لڑکیوں کی چوت مارنے کا عادی تھا۔ اسکے لیے اگر کوئی نئی بات تھی تو وہ اتنے خوبصورت جسم کا ہونا اور لن کی اتنی شدید طلب ہونا تھا جو کہ عموما لڑکیوں میں ہو بھی صحیح تو وہ اسکا اظہار نہیں کرتیں۔ جبکہ نیہا کسی سیکسی بلی کی طرح کرنل کو اپنے جسم سے کھیلنے دے رہی تھی۔ کرنل کی زبان مسلسل نیہا کی چوت کے لبوں میں جاکر اسکی گرمی کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر کار نیہا کے جسم میں تھوڑا تناو پیدا ہونے لگا،اور پھر یہ تناو اچانک ہی ختم ہوگیا جب نیہا کے جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور اس نے اپنی چوت کا پانی کرنل کے منہ پر ہی چھوڑ دیا۔

نیہا نے چوت کا پانی نکلتے ہی کرنل کا منہ اپنی چوت سے ہٹا دیا اور نیچے بیٹھ کر کرنل کی پینٹ اتارنے لگی، کرنل نے پہلے اپنی بیلٹ کھولی اور پھر بٹن اور ذپ کھول کر اپنے چوتڑوں کو صوفے سے اوپر اٹھایا اور پینٹ آدھی اتار دی، باقی آدھی نیہا نے خود اپنے ہاتھوں سے اتاری۔ اور کرنل کے 9 انچ موٹے لن کو ہوس بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ اتنا بڑا لن دیکھ کر نیہا کو اپنے محلے کا درزی یاد آگیا جس سے وہ اکثر اپنی چدائی کرواتی تھی، جب بھی نیہا کو کوئی ساڑھی یا اور کپڑے سلوانے ہوتے اور وہ سائز دینے کے لیے درزی کے پاس جاتی تو اپنا سائز دینے کے ساتھ ساتھ اسکے لن کا سائز بھی ضرور چیک کرتی اور ہر بار اس کے لن کو اپنی چوت میں داخل ہونے کی اجازت دیتی۔ مگر پھر نیہا کی شادی ہوگئی تو وہ شوہر کے گھر آگئی اور اس درزی سے تعلق ختم ہوگیا۔ آج بہت عرصے کے بعد نیہا نے اتنا بڑا لن دوبارہ سے دیکھا تھا اور اسکی چوت نے نیہاکو مزید تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ جلد سے جلد اس موٹے اور لمبے لن کو اپنی چوت میں سمانا چاہتی تھی۔

لیکن اتنے بڑے لن کو چوت میں لینے سے پہلے اسکو چکنا کرنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ چوت کا برا حال ہوجاتا ہے ایسے لن سے ، اسی لیے نیہا نے فوا ہی کرنل کا لن ہاتھ میں پکڑا اور اسکی مٹھ مارنے لگی، چند جھٹکوں کے بعد ہی کرنل کے لن کی ٹوپی پر مذی کے قطرے چمکنے لگے اور نیہا اسکو دیکھ کر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی، وہ مسلسل دونوں ہاتھ سے لن پکڑے اسکی مٹھ مار رہی تھی، مذی زیادہ ہوتی ہوتی ٹوپی کے اوپر پھیل گئی تو نیہا نے اپنا ایک ہاتھ کرنل کی ٹوپی پر مسلا اور اسکی مذی کو پورے لن پر مسلنے لگی، اسکے بعد دوبارہ سے کرنل کی مٹھ مارنے لگی اور دوبارہ سے مذی کے قطرے نکلنے لگے اور قطرے زیادہ ہونے پر نیہا نے ایک بار پھر اسکو کرنل کے لن پر اچھی طرح مسل دیا۔ پھر نیہا نے اپنی زبان کرنل کے لن کی ٹوپی پر رکھ اور گول گول گھمانے لگی۔ کرنل کے لن پر گرم گرم زبان لگی تو مذی کے مزید قطرے نکلنے لگے جو نیہا اپنی زبان سے ہی چاٹتی رہی اور پھر اپنی زبان کو کرنل کے لن سے نیچے تک پھیرنے لگی۔ کچھ دیر اپنی زبان کرنل کے لن پر پھیرنے کے بعد نیہا نے اپنا منہ کھولا اور کرنل کے لن کی ٹوپی اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی ۔ نیہا کبھی لن کی ٹوپی پر اپنے دانت ہولے سے گاڑھ دیتی تو کبھی اسکو اپنے ہونٹوں میں پھنسا کر گول گول گھماتی اور پھر نیہا نے کرنل کا لوڑا اپنے منہ میں ڈال لیا۔ بمشکل آدھا لن نیہا کے منہ میں گیا جسکو وہ قلفی کی طرح چوسنے لگی، نیہا کے منہ کی گرمی اور اسکا لعاب کرنل کے لن پر لگا تو اسکے لن کی رگیں اور بھی پھولنے لگیں اور اسکی سختی پہلے کی نسبت بڑھ گئی۔

نیہا جیسی گرم لڑکی سے چوپے لگوانے کا کرنل کو بہت مزہ آرہا تھا اس نے 10 منٹ تک نیہا سے چوپے لگوائے اور نیہا بھی پورے شوق سے اور مزے لے لیکر کرنل کے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔ جب کرنل کا چوپوں سے دل بھر گیا تو اس نے نیہا کو اٹھنے کا بولا اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ صوفے پر بیٹھنے کے بعد کرنل نے نیہا کو گھوڑی بننے کو بولا تو نیہا فورا صوفے کی بیک سائیڈ پر ہاتھ اور چہرہ رکھ گھوڑی بن گئی اور اپنی گانڈ کرنل کی طرف کردی۔ کرنل نے نیہا کے گوشت کے پہاڑ جیسے چوتڑ دیکھے تو اسکا دل خوش ہوگیا اور اس نے نیہا کے چوتڑوں پر 2 چماٹیں ماریں جس سے اسکے چوتڑوں پر کرنل کی انگلیوں کے ہلکے نشان بھی پڑ گئے اور نیہا کے منہ سے آوچ آوچ کی آوازیں نکلنے لگی، پھر کرنل نے اپنے ہاتھ سے نیہا کی چوت کو سہلانا شروع کیا، اور انگلی پھیل کر اسکی چوت کے گیلے پن کا اندازہ کرنے لگا، انگلی لگا کر کرنل سمجھ گیا کہ نیہا کی چوت لن لینے کے لیے کس قدر بے تاب ہے۔ اس نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر اوپر کیا اور اسکی ٹوپی پر اپنے منہ سے ایک تھوک کا گولا بنا کر پھینکا جو سیدھا ٹوپی کے اوپر جا کر گرا ۔ کرنل نے اپنے ہاتھ سے تھوک کو لن کی ٹوپی پر اچھی طرح مسل دیا اور پھر ٹوپی نیہا کی چوت پر رکھ کر آہستہ آہستہ اپنا دباو بڑھانے لگا۔ چونکہ نییہا ایک شادی شدہ اور لن کی شوقین لڑکی تھی لہذا کرنل کا موٹا لوڑا آہستہ آہستہ اسکی چوت میں اترنے لگا۔ لوڑے کی چمڑی نے جب نیہا کی چوت کی دیواروں کو سائیڈ پر کرتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کیا تو نیہا کو اپنی چوت کے اندر مرچیں لگتی محسوس ہوئیں کافی عرصے کے بعد اتنا موٹا لوڑا اسکی چوت میں جا رہا تھا۔ نیہا کے منہ سے لمبی لمبی آہ- - - - - آہ- - - - - آہ-- - - - -- کی آوازیں نکل رہی تھیں۔

آدھے سے زیادہ لوڑا نیہا کی چوت میں گیا تو کرنل نے ایک بار لن باہر نکالا، اور لن کو دیکھا تو وہ نیہا کی چوت میں موجود گاڑھے پانی سے چمک رہا تھا۔ اب کی بار کرنل نے آہستہ سے دباو ڈالنے کی بجائے ایک جھٹکا مارا اور نیہا کا پورا جسم ہل کر رہ گیا، اور اسکے منہ سے ایک چیخ نکلی مگر اس نے کرنل کو رکنے کا نہیں کہا کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ کرنل آج اسکی جم کر چودائی کرے۔ کرنل نے ایک بار پھر لن باہر نکالا مگر ٹوپی اندر ہی رہنے دی اور پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ دھکا مارا تو کرنل کا لن سارے کا سارا نیہا کی چوت میں گھس گیا اور اسکے منہ سے آہ، آہ کی آوازیں نکلنے لگیں۔ اب کرنل رکا نہیں اور مسلسل نیہا کو چودنے لگا۔ 5 منٹ مسلسل بغیر رکے ڈاگی سٹائل میں نیہا کی چودائی ہوئی تو اسکی چوت نے کرنل کے لن پر پانی کی برسات کر کے خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاگی سٹائل میں نیہا کو چودتے ہوئے کرنل نے اسکے چوتڑوں کو لال کر دیا تھا وہ بار بار نیہا کے 34 سائز کے بھرے ہوئے چوتڑوں پر تھپڑ مار مار کر نیہا کی خواری میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ چوت نے ایک بار برسات کی تو کرنل نے اپنا لن نیہا کی چوت سے باہر نکال لیا اور پاس پڑی نیہا کی ساڑھی سے لن صاف کرنے لگا۔

اب کرنل صوفے پر بیٹھ گیا اور نیہا کو اپنی گود میں آنے کو کہا۔ نیہا فورا ہی کرنل کی گود میں آگئی اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر کرنل کے لن کے اوپر آگئی، نیہا گھٹنوں کے بل کرنل کی گود میں بیٹھی تھی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ کرنل کی گردن کے گرد لپیٹ لیے تھے۔ کرنل کا لوڑا جو اوپر کی طرف کھڑا تھا اور کرنل کے پیٹ کے ساتھ لگ رہا تھا اسکو نیہا نے اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اس پر موجود اپنی چوت کے پانی کو اچھی طرح اپنے ہاتھ سے لن پر مسلنے کے بعد لن کی ٹوپی کو اپنی چوت کے سوراخ پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں لن کے اوپر بیٹھ گئی اور خود ہی لن پر اپنی بساط کے مطابق چھلانگیں لگا لگا کر اپنی چوت چودنے لگ گئی۔ جیسے جیسے نیہا کرنل کے لن پر اچھل رہی تھی ویسے ویسے نیہا کے 36 سائز کے گول سڈول اور کسے ہوئے ممے کرنل کے چہرے کے سامنے اچھل رہے تھے اور کبھی کبھی کرنل کے چہرے کو بھی چھوتے۔ ۔ کچھ دیر بعد جب نیہا چھلانگیں مار مار کر تھک گئی تو وہ آگے کی طرف جھک کر بیٹھ گئی اور اپنا پورا جسم کرنلے کے جس سے لگا دیا، اس کی کمر اندر کی طرف دھنس گئی اور گانڈ باہر کی طرف نکل گئی۔ اب نیہا نے چھلانگیں مارنے کی بجائے محض اپنی گانڈ ہلانا شروع کی جس سے کرنل کا لن پھر سے نیہا کی چوت کی چودائی کرنے لگا۔ ابھی کرنل نے نیچے سے دھکے لگانا شروع نہیں کیے تھے نیہا خود ہی اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔

کرنل کو چودائی کا یہ انداز بہت پیار لگا، وہ اپنا چہرہ سائیڈ پر نکال کر نیہا کی گانڈ کو دیکھنے لگا۔ 34 سائز کے گوشت کسے بھرے ہوئے چوتڑ اوپر نیچے ہلتا دیکھ کر کرنل کو بہت مزہ آرہا تھا اور حیرت انگیز طور پر نیہا کے جسم کے اور حصے نہیں ہل رہے تھے بس اسکی گانڈ ہی اوپر نیچے ہورہی تھی اور کرنل کا لن نیہا کی چوت کے اندر رگڑائی کرنے میں مصروف تھا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کرنل نے پمپ ایکشن سٹارٹ کرنے کا ارادہ کیا اور نیہا کو مموں سے پکڑ کر اپنے سے تھوڑا دور کر دیا اور نیہا کو کہا کو گھٹنو ں کے بل تھوڑا سا اوپر ہو کر اسطرح بیٹھ جائے کہ محض کرنل کی ٹوپی ہی چوت کے اندر رہے باقی لن باہر نکل آئے۔ نیہا نے کرنل کی گردن کے گرد اپنے بازو ڈالے اور اونچا ہوکر بیٹھ گئی سارا لن باہر نکل آیا محض ٹوپی ہی چوت کے اندر رہ گئی۔ پھر کرنل نے نیہا کو چوتڑوں سے پکڑا اور نیچے سے اپنے 9 انچ کے لن کا استعمال کرتے ہوئے پمپ ایکشن شروع کر دیا۔ ایک بار پھر نیہا کی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں ۔۔۔

مزے کی شدت سے نیہا بار بار اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی اور اب فک می کرنل، فک می ہارڈ، مور، مور، فک می لائک اے بِچ۔ آہ آہ۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ یس۔۔۔۔۔ یس۔۔۔۔۔ لائک دس بے بی۔۔۔۔ فک می ، فک می۔۔۔ فک می ہارڈ بے بی کی آوازیں لگا کر کرنے کے جوش کو اور بڑھا رہی تھی، فک می فک می ہارڈ کی آوازیں لگاتے ہوئے نیہا نے اپنے ہاتھ کرنل کی گردن سے نکال لیے تھے اور اب اپنی گردن پر اور گردن کی بیک سائیڈ پر زور زور سے مسل رہی تھی ، اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر اپنے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے اور اپنے ہاتھ اپنی ہی گردن پر شدتِ جذبات سے پھیرتے ہوئے ساتھ میں فک می بے بی کی آوازیں لگاتے ہوئے نیہا اس وقت وحشیہ لگ رہی تھی جو لن کے لے نجانے کب سے بے تاب ہو اور آج لن ملا تو جی بھر کر اپنی چودائی کروا لینا چاہتی ہو۔

نیہا کی یہ بے تابی دیکھ کر کرنل کو بھی جوش چڑھا اور وہ اسی طرح نیہا کی چودائی کرتے کرتے صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا مگر لن چوت سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ جیسے ہی کرنل اٹھا نیہا نے اپنی ٹانگیں کرنل کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اپنا ایک ہاتھ اسکی گردن کے گرد لپیٹ کر سہارا لیا جبکہ دوسرا ہاتھ پہلے کی طرح ہی اپنی گردن پر اور مموں پر پھیرنے لگی، ساتھ ہی ہونٹوں میں دبا ہوا ہونٹ اسکی بے چینی کو واضح کرنے لگا۔ کرنل نے بھی اب کی بار نیہا کو گود میں اٹھائے خوب جم کر دھکے لگائے اور ایک بار پھر نیہا کی چوت کا پانی نکلوا دیا۔ اس بار جب نیہا کی چوت نے پانی نکالا تو اس نے جنگلی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوب زور زور کی سسکیاں لیں، سسکیاں کم اور چیخیں زیادہ لگ رہی تھیں یہ ۔ چوت کا پانی نکلتے ہی نیہا کسی کرنل کے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑی اور اپنی زبان کرنل کے منہ میں داخل کر کے اسکی زبان کے ساتھ زبان لڑانے لگی، کرنل نے بھی نیہا کی اس بے تاب اور جذبات سے بھرپور کسنگ کا جواب دیا اور اسکو بے تحاشہ چومنے لگا۔ کرنل کا لن ابھی تک نیہا کی چوت میں تھا اور پہلے جیسے سختی کے ساتھ ہی اکڑا ہوا تھا۔

کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد نیہا نے کرنل کو اشارہ کیا کہ اسے نیچے اتاردے تو کرنل نے پہلے اسے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنے لن سے اوپر اٹھایا، اپنا لن باہر نکالا اور پھر نیہا کو نیچے اتار دیا۔ نیہا نیچے اتری اور دوبارہ سے میجر کا تنا ہوا لن منہ میں لیکر اسے چوسنے لگی۔ کچھ دیر لن چوسنے کے بعد نیہا اب اپنی گانڈ کو لچکاتی ہوئی دیوار کے پاس گئی اور دیوار کی طرف منہ کر کے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور گانڈ باہر نکال کر کرنل کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا، کرنل نیہا کے پاس گیا اور ایک بار پھر اسکی چوت پر انگلی پھیری اور پھر اپنے لن کی ٹوپی پر ہاتھ پھیر کر نیہا کی چوت پر رکھ دی اور ایک ہی جھٹکے میں کرنل کا لن نیہا کے اندر چلا گیا۔ اب کرنل نے نیہا کو دھکے پے دھکا مارنا شروع کیا اور نیہا نے بھی کرنل کا جوش بڑھانے کے لیے خوب سسکیاں لینا شروع کیں، کبھی آوچ آوچ کی آوازیں تو کبھی اوئی ماں میری چوت گئی، کبھی آہ آہ کی آوازیں تو کبھی فک میر ہارڈ بے بی، فک می لائک اے بِچ کی آوازیں کرنل کا جوش بڑھانے لگیں۔

اس پوزیشن میں عورت کے لیے کھڑے ہوکر چدائی کروانا تھوڑی مشکل ہوتی ہے تبھی نیہا جلد ہی تھک گئی اور اس نے کرنل کو لن باہر نکلانے کا کہا۔ کرنل نے لن باہر نکالا تو نیہا نے فرمائش کی کہ مجھے میرے بیڈروم میں لیجا کر میرے ہی بیڈ پر چودو۔ کرنل نے نیہا کو گود میں اٹھایا اور اساسکو کسنگ کرتا ہوا بیڈروم تک لے گیا۔ بیڈ روم میں لیجا کر بیڈ پر لٹا دیا۔ کرنل نیہا کی ٹانگیں کھول کر اس کی چوت میں لن ڈالنے لگا تو نیہا نے منع کر دیا اور کرنل کو نیچے لیٹںے کو کہا، کرنل نیچے لیٹ گیا تو نیہا نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی چوت کو کرنل کے لن کے اوپر سیٹ کیا آہستہ آہستہ لن کے اوپر بیٹھ کر پورا لن اندر لے لیا۔ اب نیہا اپنے پاوں کے بل بیٹھی تھی اور کرنل کے سینے پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیا اور اپنی گانڈ اچھال اچھال کر خود ہی اپنی چودائی کرنے لگی۔ نیہا جب اوپر اٹھتی تو اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیتی اور نیچے بیٹھتے ہوئے چوت کی دیواروں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتی جس سے چوت مکمل ٹائٹ ہوجاتی اور کرنل کی ٹوپی چوت کی دیواروں سے رگڑ کھاتی ہوئی نیہا کی چوت کی گہرائیوں میں اتر جاتی۔

کیپٹں سریش جو کافی دیر سے باہر تھا اور اب ایک گھنٹہ ہو چکا تھا اس نے سوچا کہ اب تک نیہا کرنل کو منا چکی ہوگی اور کرنل بھی خوش ہوگیا ہوگا، اگر بات چدائی تک پہنچی ہوگی تو وہ بھی اب تک ہو چکی ہوگی، وہ کھانا لیکر گھر میں داخل ہوگیا اور جیسے ہی اس کمرے میں پہنچا جہاں وہ اپنی پتنی اور کرنل کو چھوڑ کر گیا تھا تو اسکی نظر کرنل کے یونیفارم پر پڑی، ایک سائیڈ پر نیہا کا چھوٹا سا بلاوز پڑا تھا جب کہ ایک طرف نیہا کی بلیک رنگ کی پینٹی پڑی تھی۔ یہ دیکھ کر سریش سمجھ گیا کہ کرنل آسانی سے راضی نہیں ہوا آخر کار اسکی پتنی کو اپنے پتی کی خاطر اپنی عزت کی قربانی دینی پڑی ہے، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی پتنی بہت عرصے سے ایسے ہی کسی لن کے لیے بےتاب تھی جو آج سریش کی وجہ سے اسے مل گیا تھا۔

ابھی سریش یہی سوچ رہا تھا کہ اسے اپنی پتی کی آواز آئی جو کہ رہی تھی اور زور سے چودو مجھے وشال، میری چوت پھاڑ دو آج۔ پلیز اور تیز دھکے لگاو۔۔۔۔ سریش کی نظر اب اپنے بیڈ روپ پر پڑی جو اس کمرے کے ساتھ ہی تھا اور بیچ میں ایک دروازہ تھا۔ سریش آہستہ آہستہ دبے قدموں چلتا ہوا بیڈروم کی طرف گیا ، روم کا دروازہ آدھا کھلا تھا، سامنے ہی سریش کا بیڈ تھا جس پر اس نے 3 ماہ قبل اپنی سہاگ رات منائی تھی اور اپنے 6 انچ کے لن سے نیہا کی چدائی کی تھی۔ گو کہ سریش کا سٹیمنا اچھا تھا اوراس نے اپنی پتی کی خوب جم کر چودائی کی تھی مگر اسکے لن میں وہ بات نہیں تھی جو نیہا کے درزی کے لن میں تھی یا پھر آج کرنل کے لن میں تھی۔ اب سریش کی نظر بیڈ پر پڑی جہاں کرنل وشال لیٹا ہوا تھا ، اسکا سر باہر دروازے کی طرف تھا جسکی وجہ سے وہ سریش کو دیکھ نا پایا، مگر اسکے اوپر نیہا بیٹھی تھی جو خود ہی جمپ لگا لگا کر اپنی چودائی کر رہی تھی۔

کرنل کے لن پر اچھلتے ہوئے جیسے ہی نیہا کی نظر باہر دروازے پر پڑی وہ ایک دم اپنے پتی کو دیکھ کر رک گئی۔ کرنل نے کہا کیہا ہوا جانِ من تھک گئی ہو کیا؟ نیہا نے کرنل کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر کرنل کے لن پر اچھل کود شروع کر دی، سریش نے جب نیہا کی چوت کی طرف دیکھا اور اسمیں اندر جاتا اور باہر نکلتا لن نظر آیا تو اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کرنل وشال جو اب اسکی نطر میں بوڑھا تھا اسکا لن اتنا تگڑا ہوگا۔ اب اسکو اپنی پتنی پر ترس آنے لگا کہ اپنی پروموشن کی خاطر اتنے بڑے لن سے اپنی پتی کی چودائی کروا دی اسکو کتنی تکلیف ہورہی ہوگی، مگر یہ تو نیہا ہی جانتی تھی کہ وہ اس وقت کتنے مزے میں تھی۔ خاص طور پر سریش کو دیکھ کر اسکو مزید جوش چڑھ گیا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ طاقت سے نہ صرف اچھل رہی تھی بلکہ اسکی سسکیاں بھی پہلے سے زیادہ بلند تھی۔ ۔

اب نیہا نے اچھلنا بند کر دیا اور کرنل کے اوپر جھک گئی اور اپنے گھٹنے اب اس نے بیڈ پر لگا دیے تھے، کرنل نے گردن تھوڑِ سی اوپر اٹھائی اور نیہا کا مما اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگا اور دوبارہ سے نیہا کی چوت میں دھکے لگانے شروع کردیے۔ نیہا کی نظریں سریش پر ہی تھیں جو ابھی تک نیہا کو کرنل کے لن سے چدائی کرواتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ نیہا اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا کر اپنے پتی کو نشیلی نظروں سے دیکھ رہی تھی، نیہا نے اپنی انگلی کے اشارے سے سریش کو اندر بلایا کہ وہ بھی آکر جوائن کرے مگر اسنے انکار میں سر ہلا دیا۔ وہ واپس جانا چاہ رہا تھا مگر نجانے ایسی کیا بات تھی جو اسکو اپنے قدم اٹھانے سے روک رہی تھی، اپنی پتی کو کسی اور کے لن پر چڑھ کر اس خوبصورت انداز سے چدائی کرواتے ہوئے سریش کو اچھا لگ رہا تھا اور وہ جی بھر کر دیکھنا چاہتا تھا اس سین کو۔

اب کرنل نے نیہا کا مما اپنے منہ سے نکالا اور اپنی گردن دوبارہ سے بیڈ پر رکھ کر نیچے سے لن کو پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ نیہا کرنل کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسکے 36 سائز کے خوبصورت ممے ہوا میں ہچکولے کھا رہے تھے۔ نیہا مزید نیچے جھکی اور کرنل کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور انکو اچھی طرح چوسنے کے بعد اوپر اٹھی اور بولی وشال میری جان، میری چدائی کر کے مزہ آیا کیا تمہیں؟ کرنل نے نیہا کو اسی سپیڈ سے چودتے ہوئے کہا ہاں میری جان بہت مزہ آیا، تمہاری چوت بہت چکنی اور ٹائٹ ہے تمہیں تو میں بار بار چودنا چاہتا ہوں۔ نیہا نے کہا جان آج سے یہ چوت تمہاری ہے، تمہارا جب دل کرے تم اپنے 9 انچ کے لن سے اس چوت کو چود سکتے ہو، مگر میرے پتنی کی پروموشن بھی اب تمہارے زمے ہے۔ اس پر کرنل نے کہا تمہارے پتی کی پروموشن ہی نہیں اسکی ٹرانسفر بھی ممبئی کروا دوں گا تاکہ میرا جب بھی دل کرے میں تمہاری اس چکنی چوت کا مزہ لے سکوں۔

یہ سن کر باہر کھڑا سریش جو اپنی پتی کی چودائی دیکھ کر مزے لے رہا تھا اور اسکی پینٹ میں اسکا لن کھڑا ہوچکا تھا بہت خوش ہوا۔ اور نیہا نے بھی خوشی سے کرنلے کے ہونٹ چوسے اور پھر بولی میں جھڑنے والی ہوں، کرنل نے کہا بس میری جان میرا لن بھی تمہاری چوت کے اندر اپنی منی نکالنے والا ہے۔ یہ کہ کر کرنل کے گھسے طوفانی رفتار سے نیہا کی چوت میں لگنے لگے اور کچھ ہی دیر کے بعد دونوں کے جسموں کو جھٹکے لگے اور دونوں نے اکٹھے ہی اپنی اپنی منی نکال دی۔ جب ساری منی نکل گئی تو نیہا کرنل کے اوپر لیٹ کر ہانپنے لگی اور جب کہ کرنل کا لن منی چھوڑںے کے باوجود ابھی بھی نیہا کی چوت کے اندر ہی تھی اور اسکی سختی پہلے جیسی تو نہ تھی مگر کچھ نہ کچھ سختی ابھی بھی تھی جو نیہا کو اپنی چوت میں محسوس ہورہی تھی۔

کافی دیر دونوں ایسے ہی ایک دوسرے سے لپٹ کر لیٹے رہے۔ کرنل کو آج کافی عرصے بعد اتنے گرم بدن والی لڑکی کو چودنے کا موقع ملا تھا۔ اسکی ساری ٹینشن ختم ہوگئی تھی اور اب وہ بالکل ذہنی طور پر ریلیکس تھا۔ سریش اب واپس باہر چکا تھا جبکہ کرنل نے نیہا کو سائیڈ پر کیا اور دوسرے کمرے میں جاکر اپنے کپڑے پہنے۔ نیہا نے بھی پہلے والی ساڑھی لگانے کی بجائے اپنی الماری سے ایک اور بلاوز نکال کر پہن لیا اور اسکے نیچے ایک گھاگھرا پہن لیا۔ دونوں واپس اسی کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ سریش چند منٹ گزرنے کے بعد پھر اندر آیا اور دونوں کو اکٹھا بیٹھا دیکر کر کرنل سے بولا سوری سر مجھے تھوڑی دیر ہوگئی کھانا لانے میں۔ یہ کہ کر اس نے نیہا کو کھانا دیا اور کہا جاو کھانا گرم کر لاو وشال صاحب کے لیے۔

نیہا کھانا لیکر اندر کچن میں چلی گئی جبکہ سریش کرنل کے ساتھ بیٹھ گیا، کرنل اب بالکل ریلیکس بیٹھا تھا، سریش جو اپنی پروموشن کا پوچھنا چاہتا تھا اس نے بات شروع کرنے کے لیے پروموشن کی بجائے نیہا کے بارے میں پوچھا ، سر وہ نیہا کیسی لگی آپکو؟ کرنل وشال نے سریش کی طرف گہری نظروں سے دیکھا اور پھر بولو خوش قسمت ہو تم بھائی جو تمہیں اتنی سندر پتنی ملی ہے۔ سیرش یہ سن کر خوش ہوا اور بولا بس سر بھگوان کی دین ہے۔ پھر بولا سر وہ میری پروموشن؟؟؟ کرنل نے سریش کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور بولا جسکی اتنی خوبصورت اور گرم پتنی ہو اسکی پروموشن کو بھلا کون روک سکتا ہے، فکر نہیں کرو تمہاری پروموشن بھی ہوجائے گی اور تمہاری ممبئی ٹرانسفر بھی ہوجائے گی۔ آخر ہمیں بھی تو کوئی فائدہ ہونا چاہیے تمہاری اس جوان ، خوبصورت اور گرم پتنی کا۔ یہ کہتے ہوئے کرنل وشال کی آنکھوں میں ہوس کے واضح آثار دیکھے جا سکتے تھے جبکہ کیپٹن سریش کی آنکھوں میں شرم نام کی کوئی چیز نہیں تھی، وہ کسی دلے کی طرح مسکرا رہا تھا، اسکے چہرے پر واضح طور پر لکھا تھا ہاں میں بے غیرت ہوں۔

User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


شام چھ بجے کے قریب کیپٹن مکیش کی آنکھ کھلی تو اسنے اپنے آپ کو نائٹ کلب کے ایک کمرے میں بغیر شرٹ کے سوتے ہوئے پایا۔ جیسے ہی آنکھ کھلی اسکو رات والی سیکسی ڈانسر تانیہ یاد آئی جس کے ساتھ اس نے خوب سیکس کیا تھا۔ وہ تانیہ کے جسم کے بارے میں سوچ کر خوش ہونے لگا کہ آج اس نے خوبصورت لڑکی کو چودا ہے، مگر اسے یہ یاد نہیں تھا کہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا، تانیہ کے مموں کو چوستے ہوئے وہ بے ہوش ہوگیا تھا اور اسکے بعد وہ کچھ نہیں کر سکا تھا۔ اب کیپٹن مکیش اٹھا اور اپنی شرٹ پہن کر بیڈ پر اپنا موبائل دیکھنے لگا۔ مگر موبائل کمرے میں موجود نہیں تھا۔ پھر اس نے ادھر ادھر موبائل دیکھنا شروع کیا، اپنی شرٹ چیک کی، پینٹ کی جیب چیک کی کمرے میں موجود دراز چیک کیے مگر اسے کہیں اپنا موبائل نہ ملا۔ اسکے ذہن میں ایک جھماکا ہوا کہ رات والی ڈانسر اسکا موبائل لے اڑی ہے۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنے ڈاکومنٹس، پیسے ٹکٹ وغیرہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ بھی نہ ملے تو اسنے اک بڑی ساری گالی تانیہ کی نظر کی اور اپنے کپڑے پہن کر باہر نکل آیا۔ باہر نکل کرجب وہ روشنی میں آیا تو شام کے چھ بچ رہے تھے اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔

مکیش کو لگا کہ صبح کا ٹائم ہے مگر فوری ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ صبح نہیں بلکہ شام کا ٹائم ہورہا ہے۔ وہ حیران ہوگیا کہ آخر اتنی دیر تک وہ کیسے سوتا رہا؟ پھر اسے یاد آیا کہ آج صبح 9 بجے کی اسکی فلائٹ تھی۔ وہ ڈانس کلب کی پارکنگ کی طرف بھاگا مگر وہاں اسکی جیپ بھی موجود نہیں تھی۔ واپس کمرے میں آکر اس نے اپنی گاڑی کی چابی ڈھونڈنے کی کوشش کی وہ بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ اب اسے احساس ہوا کہ اس نے لڑکی کو نہیں چودا بلکہ وہ لڑکی اسے چود گئی ہے۔ اب کیپٹن مکیش غصے میں نائٹ کلب کے مینیجر کے پاس گیا اور اس سے اپنی چیزوں کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے لا پرواہی سے جواب دیا کہ صاحب اپنی چیزوں کی حفاظت خود کیا کرو، پہلے پی کر ٹُن ہوجاتے ہو پھر ہمیں تنگ کرنے چلے آتے ہو۔ مینیجر کی اس بات نے کیپٹن کو طیش دلا دیا، اس نے مینیجر کو گریبان سے پکڑتے ہوئے اپنا نام کیپٹن مکیش بتایا ، کیپٹن کا لفظ سنتے ہی مینیجر کی گانڈ پھٹ گئی اور وہ معافی مانگنے لگا۔ مگر چیزیں وہ کہاں سے واپس لا کر دیتا؟

کیپٹن نے کہا مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتاو جو رات مجھے اپنے کمرے میں لیکر گئی تھی؟؟؟ مینیجر نے لاعلمی کا اظہار کیا تو مکیش نے بتایا جس نے عربی سٹائل کا ڈانس کیا تھا، اناونسر نے کچھ تو اسکا نام لیا تھا مجھے نام یاد نہیں اب اسکا، مینیجر نے کہا سر تانیہ ہی ہے ہمارے کلب میں جو عربی گانوں پر ڈانس کرتی ہے۔ کیپٹن مکیش نے کہا ہاں ہاں وہی، اسکا پتہ دو مجھے کہاں ملے گی وہ۔ مینیجر نے کہا سر ہمارے پاس کسی ڈانس کا پتہ نہیں ہوتا، وہ بس آتی ہیں جب انہیں پیسوں کی ضرورت ہو، پرفارم کرتی ہیں اور پیسے لیکر چلی جاتی ہیں۔ البتہ جیسے ہی وہ لڑکی یہاں دوبارہ آئے گی میں آپکو ضرور اطلاع دوں گا۔

کیپٹن مکیش نے مینیجر کے پاس اپنا موبائل نمبر چھوڑا اور اسکو 2، 3 دھمکیاں بھی دیں کہ اگر ایک ہفتے کے اندر اندر اس لڑکی کا نہ پتا لگا تو تمہاری خیر نہیں۔ یہ کہ کر کیپٹن پیدل ہی ڈانس کلب سے مین روڈ کی طرف جانے لگا اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ گھر جا کر اپنی بیوی سے اس نے پیسے لیکر ٹیکسی والے کو کرایہ ادا کیا، بیوی نے فورا ہی کیپٹن پر چڑھائی شروع کر دی، کہاں رہے ساری رات؟ گھر کی کوئی ہوش نہیں تمہیں تو، فلائٹ بھی مس ہوگئی ہماری۔ کیپٹن اب اپنی بیوی کو کیا بتاتا کہ ایک ڈانسر اسے چونا لگا گئی۔ وہ غصے میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا، تو بیوی دوبارہ بولی اور یہ تمہارا موبائل بھی صبح سے آف ہے، کب سے ٹرائی کر رہی ہوں میں کیوں آف کر رکھا ہے؟؟ کیپٹن جو پہلے ہی غصے میں تھا بیوی کی بات سن کر اور طیش میں آگیا اور بولا لٹ گیا ہو ں میں میری ماں۔ گن پوائنٹ پر کسی نے میرا موبائل پیسے ، ٹکٹ اور گاڑی چھین لی ہے۔ اب سکون لینے دے گی مجھے؟؟؟

کیپٹن کی بات سن کر بیوی تھوڑی ٹھنڈی ہوئی اور مکیش کو حوصلہ دینے لگی۔ کچھ دیر کے بعد کیپٹن کی بیوی نے کہا پولیس میں رپورٹ درج کرواو، کیپٹن نے کھا جانے والی نظروں سے بیوی کو دیکھا اوربولا میں کوئی راہ چلتا لا وارث شخص نہیں ہوں جو پولیس کے سامنے جاکر مدد کی بھیک مانگوں، کیپٹن مکیش نام ہے میرا، اس کتیا کو تو میں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا۔ لفظ کتیا سنتے ہی کیپٹں کی بیوی کے کان کھڑے ہوگئے اور کیپٹن کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا، بیوی نے فوری پوچھا کونسی کتیا؟؟ کیپٹن نے بھی فوری بہانا سوچا اور بولا 3 آدمی تھے اور ایک لڑکی تھی۔ واپس گھر ہی آرہا تھا تو لڑکی نے لفت مانگی، اسکی ٹانگ زخمی تھی ، میں نے انسانی ہمدردی میں لفٹ دے دی مگر تھوڑی دور جا کر ہی اس نے بہانے سے گاڑی رکوائی اور اسکے 3 یار گاڑ میں آگئے اور میرے سر پر پستول تان دی، پھر مجھے دور گھر میں لیجار کر بند کردیا اور میری ساری چیزیں لیکر غائب ہوگئے۔ بڑی مشکل سے رسیاں کھول کر اب گھر پہنچا ہوں۔

دوسری بات جو کیپٹن مکیش کے ذہن میں تھی، وہ یہ کہ اگر پولیس میں جاکر رپورٹ لکھوائے بھی تو کیا لکھوائے؟؟ کہ ایک لڑکی ڈانس کلب سے اسکو چکمہ دیکر اسکی گاڑی اور دوسری چیزیں لے اڑی۔ یہ تو سراسر بدنامی ہے۔ کیپٹن نے تہیہ کر لیا کو وہ اس لڑکی کو ضرور ڈھونڈے گا۔ کچھ دیر بعد کیپٹن نے بیوی سے کھانے کی فرمائش کی تو اسکی بیوی نے کھانا لگا دیا، کیپٹن کا دماغ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو اس نے سب سے پہلے تو ممبئی جانے کی سوچی جہاں اس نے رپورٹ کرنا تھا۔ کیپٹن نے سوچا کہ ائیر لائن کال کر کے اگلی فلائٹ کے بارے میں معلومات لی جائیں اور بکنگ کروائی جائے۔ کیپٹن کو اگلی فلائٹ اگلی رات کی ملی اور کیپٹن نے فوری اس میں بکنگ کروا دی۔ اب کیپٹن آرام سے لیٹ کر تانیہ کے بارے میں سوچنے لگا کہ شکل سے کتنی معصوم لگتی تھی مگر بہت بڑا ہاتھ مار گئی ہے سالی۔ کیپٹن انہی سوچوں میں گم تھا کہ اسکی بیوی نے اسے اپنا فون لاکر دیا اور بولی تھانے سے آپکے لیے فون ہے۔ کیپٹن نے فون پکڑا اور ہیلو کہا تو آگے سے ایک شخس کی آواز سنائی دی، ارے مکیش جی کیا کرتے ہیں آپ بھی اپنا موبائل تو آن رکھا کریں، میں ائیر پورٹ پولیس سے بات کر رہا ہوں برائے مہربانی اپنی گاڑی آپ پارکنگ سے کسی کو بھجوا کر نکلوا لیں۔ خود تو آپ ممبئی چلے گئے مگر اپنی گاڑی یہیں چھوڑ گئے ہیں۔

یہ سن کر کیپٹن مکیش کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ فوری بولا، کیا مطلب کہاں ہے میری گاڑی؟؟؟ آگے سے آواز آئی ارے صاحب ائیر پورٹ کی پارکنگ میں ہی کھڑی ہے۔ کیپٹن نے کہا وہاں کون لایا میری گاڑی؟؟؟ آگے سے پھر آواز آئی، کمال ہے کیپٹن صاحب آپ خود ہی تو اپنی پتنی کے ساتھ گاڑی پر آئے تھے صبح کی فلائٹ کے لیے۔ مگر شاید آپکو چھوڑںے کوئی نہیں آیا آپ تو چلے گئے آپکی گاڑی جامنگر ائیر پورٹ پر ہی کھڑی ہے۔

اب کیپٹن کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا ، اور اس نے فوری بہانہ کیا، اچھا اچھا میں سمجھا آپ ممبئی ائیر پورٹ سے بول رہے ہیں، میں ابھی کسی کو جامنگر ائیر پورٹ بھجوا کر اپنی گاڑی منگوا لیتا ہوں۔ فون بند کرکے کیپٹن نے سب سے پہلے اپنے ایک جونئیر کو فون کیا اور اسے فورا ائیر پورٹ سے اپنی گاڑی لانے کو کہا۔ فون کرنے کے بعد کرنل نے فورا جامنگر ائیر پورٹ کا نمبر ملایا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد پوچھا کہ مجھے آج صبح ممبئی جانے والی فلائٹ کا ریکارڈ چاہیے کہ اس میں کون کون شخص موجود تھے۔ آگے سے ریسیپشنسٹ نے کہا سر میں کچھ ہی دیر میں آپکو لسٹ ای میل کرتی ہوں۔ میں امید کرتی ہوں آپکی آج کی فلائٹ اور سفر آرام دہ رہا ہوگا۔ کیپٹن نے کہا ہاں ہاں آرام دہ تھا بس مجھے جلدی تفصیل بتاو۔ کچھ ہی دیر میں کیپٹن کو ای میل آگئی جس میں مسٹر اینڈ مسز کیپٹن مکیش نے بھی چیک اِن کیا تھا۔

جامنگر سے ممبئی جانے والے پیسنجرز کی لسٹ میں اپنا اور اپنی پتنی کا دیکھ کر کیپٹن کو دھچکا لگا اور وہ سوچ میں پڑگیا کہ اسکی جگہ کون سفر کر سکتا ہے۔ پھر اسکے ذہن میں فورا ہی تانیہ آئی کہ رات تو وہی تھی اسکے ساتھ۔ مگر پھر اس نے تانیہ کو ذہن سے نکالا کہ وہ اتنی چالاک بھی نہیں ہوسکتی۔۔ یہ کوئی اور ہے۔ اب کیپٹن مکیش نے جامنگر ائیر پورٹ پر موجود اپنے ایک خاص آدمی کو کال کی اور اس سے بولا کہ اسے آج صبح کی فلائٹ میں چیک اِن کرنے والوں کی ویڈیو ریکارڈنگ چاہیے فوری طور پر اور یہ ٹاپ سیکریٹ ہے کسی کو پتہ نہیں لگنا چاہیے ۔ ایک گھنٹے کے بعد کیپٹن چیک اِن کرنے والوں کی ویڈیو دیکھ رہا تھا، اس نے ویڈیو آن کرنے سے پہلے اپنا کمرہ بند کر لیا اور اپنی بیوی کو بھی ویڈیو نہیں دکھائی۔ کچھ ہی دیر بعد اسے ایک لڑکی نظر آئی اور وہ کچھ دیر کو ویڈیو روک کر اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔

اس یہ لڑکی جانی پہچانی لگ رہی تھی مگر یاد نہیں آرہا تھا کہ اسے کہاں دیکھا ہے۔ تانیہ کے نئے ہئیر کٹ، میک اپ اور بالکل مختلف ڈریسنگ نے اسکی شخصیت کو بالکل بدل دیا تھا اسی لیے کیپٹن کو پہچاننے میں مشکل ہورہی تھی۔ پھر اچانک کیپٹن نے دیکھا کہ اس لڑکی کے پیچھے سے ایک شخص لڑکی کے ساتھ آیا اور دونوں اکٹھے ہی جہاز کی طرف چلے گئے۔ اس شخص کو دیکھ کر مکیش کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، یہ کوئی اور نہیں بلکہ کیپٹن مکیش خود تھا۔ مکیش کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ کیپٹن نے ویڈیو کو زوم کر کے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ یہ آدمی کیپٹن مکیش کا ہمشکل ہے۔ کافی مماثلت تھی دونوں کی شکل میں۔ مگر پھر کیپٹن کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور اسکا دماغ ماوف ہونے لگا۔ کیپٹن کو ساری کہانی کی سمجھ لگ گئی تھی ، یہ کیپٹن مکیش کا ہمشکل نہیں بلکہ میجر دانش تھا جس نے سپیشل میک اپ کے ذریعے کیپٹن مکیش کی مشابہت اختیار کی ہوئی تھی۔

گو کہ کیپٹن کو سو فیصد یقین نہیں تھا مگر کہیں نہ کہیں اسکے دل میں یہ بات تھی کہ میجر دانش کے علاوہ یہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ لڑکی ہوسکتا ہے وہی رات والی ڈانسر ہو جس نے کیپٹن کو کمرے میں لیجا کر اسکا سب کچھ چرا لیا تھا۔ کیپٹن مکیش نے فورا کرنل وشال کو فون کیا جو کچھ ہی دیر پہلے کیپٹن سریش کے گھر سے کھانا کھا کر نکلا تھا اور اپنی گاڑی میں جونا گڑھ آرمی ہیڈ کوارٹر جا رہا تھا۔ کیپٹن نے سوچا کہ فورا کرنل وشال کو اطلاع دی جائے کہ میجر دانش ممبئی جا چکا ہے۔ کرنل وشال نے فون اٹینڈ کیا تو کیپٹن مکیش نے اپنا تعارف کروایا اور بولا سر وہ پاکیشا کا ایجینٹ میجر دانش ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہ کر کیپٹن ایک دم رک گیا۔ کرنل نے کہا ہاں بولو کیا تمہارے پاس کوئی خبر ہے اسکے بارے میں؟؟ کیپٹن نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا نہیں سر، میں آپ سے جاننا چاہ رہا تھا کہ مجر دانش پکڑا گیا یا نہیں؟؟ کرنل نے بھی بجھے ہوئے لہجے میں کہا نہیں ابھی تک ہمیں خاص کامیابی نہیں ہوئی مگر وہ زیادہ دیر تک ہم سے چھپ نہیں سکتا۔ جلد ہی اسکو ڈھونڈ نکالیں گے ہم۔ یہ کہ کر کرنل نے فون بند کر دیا جبکہ کیپٹن مکیش اپنا سا منہ لیکر بیٹھ گیا۔

عین وقت پر کیپٹن کو خیال آیا کہ اگر یہ سب کچھ کرنل وشال کو بتا دیا تو کیپٹن کی خیر نہیں۔ اسکو آرمی سے نکال دیا جائے گا اور اسکا کورٹ مارشل ہوگا کہ کیسے اسکی لا پرواہی کی وجہ سے ایک ڈانس کلب میں اسکا موبائل چوری ہوا جس میں خفیہ معلومات بھی تھیں اسکے ساتھ ساتھ دشمن ملک کا ایجینٹ ایک ڈانسر کی مدد سے ہندوستان کے کیپٹن کو لوٹ کر اسی کی جگہ انڈیا کی ایک ائیر لائن میں سفر کرتے ہوئے ممبئی جیسے شہر میں پہنچ گیا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ خبر کرنل وشال کو دینے کا مطلب تھا کہ کیپٹن مکیش کی آرمی سے چھٹی ۔ تبھی عین ٹائم پر کیپٹن مکیش نے کرنل کو انفارم کرنے کا ارادہ کینسل کر دیا اور اب وہ خود تہیہ کر بیٹھا تھا کہ ممبئی جا کر اب وہ خود میجر دانش کو پکڑَے گا اور انڈین آرمی کے سامنے پیش کرے گا۔ تاکہ اسکو کوئی نہ کوئی تمغہ دیا جائے اور اسکی آرمی میں پروموشن بھی ہوجائے۔


میجر دانش کا فون بند ہونے کے بعد اب امجد نے اپنے نیٹ ورک میں موجود مزید لوگوں سے رابطے شروع کیے اور ان سے کچھ اسلحہ و بارود وغیرہ اور ایک گاڑی کا مطالبہ کیا۔ کچھ ہی دیر میں امجد کو یہ چیزیں مہیا کر دی گئیں تھیں۔ میجر دانش کے فون کرنے کا مقصد یہی تھا کہ کرنل وشال اور اسکی ٹیم کو جونا گڑھ اور جامنگر میں ہی مصروف رکھا جائے اور دانش با آسانی ممبئی میں اپنا کام کر سکے۔ مطلوبہ چیزیں ملنے کے بعد رانا کاشف، سرمد اور امجد سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور آگے کیا کرنا ہے، کسطرح کرنا ہے یہ پلان کرنے لگے۔ بالآخر یہ طے پایا کہ ہم نے جو بھی کاروائی کرنی ہے اس میں کسی معصوم اور نہتے شہری کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا، بلکہ جو بھی حملہ ہوگا وہ انڈین پولیس یا انڈین آرمی پر ہوگا۔ یہیں پر ایک میک اپ آرٹسٹ کو بھی بلا لیا گیا، رانا کاشف جو جسامت میں میجر دانش کے برابر ہی تھا اس کا سپیشل میک اپ کر کے اسے وہی لُک دی گئی جو میجر دانش کو میک اپ کے ذریعے دی گئی تھی جب وہ ریلائنس گیس پمپ پر فیول ڈلوا کر وہاں موجود ٹک شاپ والے کا موبائل اٹھا کر بھاگ گیا تھا۔ امجد نے اپنا سکھوں والا حلیہ تبدیل کر لیا تھا ، سر سے پگڑی اتاری ، درمیان سے مانگ نکالی، شلوار کےپائنچے ٹخنوں سے اوپر کر لیے، اب وہ کسی سردار کی بجائے کوئی مسلم مولوی اور دینی شخصیت لگ رہا تھا۔

ایک نئی ہنڈا سِٹی میں امجد اور رانا کاشف جونا گڑھ سے جامنگر کی طرف چلے گئے اور کچھ ہی دیر میں جونا گڑھ شہر سے نکل چکے تھے جب کہ جونا گڑھ میں انڈین آرمی نے سردار سنجیت سنگھ کی تلاش شروع کر دی تھی۔ سرمد جونا گڑھ میں ہی رک گیا اور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ایک وین میں راکٹ لانچر اور کچھ دوسرا اسلحہ چھپا کر آرمی ہیڈ کوارٹ کی طرف نکل گئے۔ آرمی ہیڈ کوارٹرز سے بہت پہلے ایک روڈ پر سرمد کو آرمی کی ایک جیب نظر آئی جو آرمی ہیڈ کوارٹر سے نکل کر شہر کی طرف جا رہی تھی۔ سرمد نے اپنی وین اس جیب کے پیچھے لگا لی اور کچھ ہی دور جا کر جب یہ جیب آبادی سے کچھ دور گئی تو سرمد نے وین کی روف کھول دی اور راکٹ لانچر لیکر جیب کا نشانہ لینے لگا۔

جیب کا ڈرائیور بھی کچھ دیر سے نوٹ کر رہا تھا کہ یہ وین شہر سے انکےپیچھے پیچھے آرہی ہے اور اب اسکی نظر پڑی تو وین کی روف سے ایک شخص راکٹ لانچر تھامے جیپ کو نشانہ بنائے کھڑا تھا، راکٹ لانچر پر نظر پڑتے ہی ڈرائیور کے اوسان خطا ہوگئے اور اسے اپنی موت سامنے نظر آنے لگی، ادھر سرمد نے جیپ کا نشانہ لیا اور راکٹ لانچر فائر کر دیا، راکٹ اپنے لانچر سے نکلا اور سیدھا آرمی جیپ کی طرف بڑھنے لگا، راکٹ فائر کرتے ہی سرمد کی وین کے ڈرائیور نے وین دائیں طرف موڑ لی اور شارپ ٹرن لیتے ہوئے واپسی کی طرف جانے لگا، اتنے میں ایک دھماکا ہوا اور آرمی کی جیپ ہوا میں اڑتی ہوئی 10 فٹ اوپر جا کر واپس سڑک پر آن گری ۔ سڑک پر پڑی جیپ کا ملبہ اب آگ کی لپیٹ میں تھا جبکہ جیپ سے کچھ ہی دور ایک آرمی ڈرائیور لڑھکتا ہوا سڑکی کی سائڈ پر گرین بیلٹ کی طرف جا رہا تھا۔ راکٹ فائر ہوتے ہی جیپ کے ڈرائیور نے دروازہ کھول کر نیچے چھلانگ لگا دی تھی۔

سرمد کی وین اب تیزی سے شہر سے مزید دور جا رہی تھی، وہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ انڈین آرمی کے ہاتھوں پکڑا جائے اور اسے معلوم تھا کہ میجر دانش کی تلاش میں سادہ کپڑوں میں بھی سی آئی ڈی اور آرمی کے اہلکار شہر میں موجود ہیں۔ اور اس واقعے کے بعد تو وہ اور بھی زیادہ ایکٹیو ہوجائیں گے ، کچھ ہی دیر میں شہر سے باہر غیر آباد علاقے میں جا کر سرمد اور ڈرائیور وین سے اتر گئے، وین انہوں نے سڑک سے دور موجود جنگل میں درختوں کے بیچ چھوڑی راکٹ لانچر ایک ڈبے میں رکھا جسکی بناوٹ ایسی تھی جیسے کسی بڑے پروفیشنل گٹار کا کور ہوتا ہے اسکے بعد اپنا تھوڑا سا حلیہ تبدیل کیا اور پینٹ شرٹ میں ملبوس گلے میں چین ڈالے ہاتھ میں گٹار کا باکس لیےروڈ پر موجود ایک پبلک بس میں بیٹھے اور دوبارہ سے جونا گڑھ کی طرف جانے لگے۔

یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور 2 منٹ بعد ہی کرنل وشال تک یہ خبر پہنچ گئی کہ آرمی کی ایک جیپ پر راکٹ لانچر سے حملہ کیا گیا ہے۔ اس خبر سے پورے آرمی کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔ تینوں کرنل اور انکے نیچے باقی کا سٹاف فوری طور پر شہر میں پھیل گیا اسکے ساتھ ساتھ سی آئی ڈی کے افسران بھی شہر کی ہر سڑک، ہر گلی محلے میں پھیل گئے ۔ کرنل وشال کو اب یقین تھا کہ یہ کام میجر دانش کا ہی ہے اب وہ پاگلوں کی طرح جونا گڑھ کی سڑکوں پر میجر دانش کی تلاش کر رہا تھا۔ عام طور پر کرنل کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ مجرموں کی تلاش کرے، آرمی یہ کام اپنے جاسوسوں کے ذریعے کرتی ہے مگر اس معاملے میں کرنل وشال کو دانش پر اصل غصہ یہ تھا کہ اس نے انتہائی چالاکی سے کرنل کے ہی ہاتھوں اسکے اپنے اتحادی گروپ کا خاتمہ کروا دیا تھا اور اوپر سے اسکی قید سے نکل بھاگا تھا۔ اس لیے کرنل وشال بذاتِ خود اس مشن میں سپاہیوں کی طرح ہی میجر کی تلاش کر رہا تھا۔

دوسری طرف امجد جونا گڑھ سے نکل کر اب جامنگر شہر میں داخل ہونے والا تھا۔ مگر یہاں بھی اسکا مقصد کرنل وشال کو پریشان کرنا تھا۔ جونا گڑھ پہنچ کر اس نے دوبارہ سے سردار سنجیت سنگھ والا حلیہ اپنا لیا ، گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی سر پر پگڑی باندھی اور اپنی شلوار کا سٹائل چینج کرتے ہوئے سرداروں والا سٹائل اپنا لیا۔ جامنگر بائی پاس روڈ سے امجد اب ہائی وے نمبر 6 پر جا رہا تھا، امجد سردار سنجیت سنگھ کے حلیے میں جبکہ اسکے ساتھ موجود رانا کاشف میجر دانش کے اس حلیے میں موجود تھا جو اس نے ایک دن پہلے اپنایا تھا۔ ہائی وے نمبر 6 پر ریلائنس گیس پمپ پر پہنچ کر امجد نے گاڑی روکی اور رانا کاشف کو ساتھ لیکر ٹک شاپ میں اینٹر ہوگیا، اپنا سر جھکا کر دونو پہلے شاپ کے اندر گھومتے رہے اور ایک سی سی ٹی وی کیمرے کے سامنے جاکر اپنا چہر اوپر کیا تاکہ کیمرہ انکے چہروں کی ریکارڈنگ کر سکے، مگر کیمرے سے اپنا فاصلہ زیادہ رکھا تاکہ واضح طور پر پہچانا نہ جا سکے کہ رانا کاشف نے میک اپ کر رکھا ہے۔ اسکے بعد دونوں واپس ٹک شاپ پر بیٹھے شخص کی طرف گئے اور اب اپنا چہرہ اوپر رکھتے ہوئے اسکے پاس جا کر کھڑے ہوگئے اور امجد نے اسے ست سری اکال کہا۔

دوکاندار نے بھی اسکو جواب دیا اور پوچھا جی سردار جی کی چاہیدا اے تھوانو؟؟؟ ساتھ ہی اسکی پیشانی پر بل آئے اس نے امجد کو پہچان لیا تھا، اور ساتھ موجود رانا کاشف کے چہرے پر اسکی لمبی مونچھوں پر نظر پڑی تو وہ ایک دم اچھل پڑا اور ایک بڑی گالی دیتے ہوئے بولا کھڑ جاو ایتھے ای دونوں تھوانوں میں دساں چور ی کر دے او تسی۔۔۔ یہ کہ کر وہ امجد اور رانا کاشف کو پکڑنے کے لیے کاونٹر سے باہر آیا مگر ان دونوں نے اب باہر کی طرف دوڑ لگا دی اور اپنی گاڑی کی طرف جانے لگے۔ پیچھے سے دکاندار بھی چلایا پھڑلو اینہا دونا نوں۔ پھڑو پھڑو نس نا جان اے کتی دے بچے۔۔۔۔۔ اسکی یہ آوازیں سن کر پٹرول پمپ پر موجود ملازم بھی ان دونوں کی طرف لپکے مگر وہ فوری گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گئے اور جامنگر شہر میں داخل ہوگئے۔

جیسے ہی دونوں کی گاڑی پٹرول پمپ سے نکل گئی اور انکو پکڑنا ممکن نہ رہا، ٹک شاپ کا مالک دوبارہ سے اپنے کیبن میں آیا اور فوری سی آئی ڈی کے اے سی پی کو کال ملا کر بتایا کہ وہ کل والے دونوں چور آج پھر اسکی دکان پر آئے ہیں اور شہر کی طرف ایک کالی گاڑی میں بیٹھ کر بھاگ گئے ہیں۔ اے سی پی نے پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جو کل بھی آئے تھے؟؟؟ تو دوکاندار نے پورے اعتماد سے کہا کہ اسکو پورا یقین ہے وہ سردار بھی موجود تھا اور اسکے ساتھ وہ مونچھوں والا شخص بھی موجود تھا۔

ادھر کرنل نے جونا گڑھ میں وجود ایک بس کی تلاشی لینا شروع کی جو ایک بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔ ایک ایک کر کے تمام لوگ بس سے اترنے لگے، انہی میں ایک لوکل سنگر بھی موجود تھا جس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور ہاتھ میں گٹار کا باکس تھا۔ وہ بھی چپ چاپ بس سے نیچے اتر آیا، اسکا ساتھی سمجھ گیا تھا کہ آج ہماری خیر نہیں۔ اور بھاگنے کی سوچ رہا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ یہاں سے بھاگنا بھی موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ جبکہ وہ سنگر جو اصل میں سرمد تھا بڑے اعتماد سے نیچے اتر آیا، سامنے کھڑے کرنل وشال کو اس نے نمستے کیا اور باقی لوگوں کی لائن میں کھڑا ہوگیا اور اپنا گٹار والا باکس نیچے زمین پر رکھ دیا۔ کرنل وشال ایک ایک شخص سے اسکا نام پوچھنے لگا، سرمد کے قریب آکر اس نے اسکا نام پوچھا تو سرمد نے اپنا نام وِجے ڈی سوزا بتایا اور بتایا کہ وہ ایک چھوٹا موٹا سنگر ہے جونا گڑھ میں موجود ایک سکول میں پرفارمنس کرنے کے لیے آیا ہے، کرنل نے اسکے گٹار باکس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا اس میں کیا ہے؟؟؟ سرمد نے مسکراتے ہوئے کہا سر سنگر ہوں تو گٹار ہی ہوگا نا گٹار باکس میں۔۔۔

کرنل وشال نے سرمد کو شکی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کھول کے دکھاو۔۔۔ اب سرمد کی جان پر بن آئی اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نیچے کی طرف جھکنے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا یہاں سے بھاگتے ہیں تو ان پولیس اہلکاروں کی گولیوں سے بچ نہیں سکیں گے اور اگر باکس کھول کر دکھا دیا تو اس میں موجود گٹار کی بجائے راکٹ لانچر دیکھ کر ہمیں فوری دھر لیا جائے گا۔ سرمد اب روڈ پر بیٹھ چکا تھا اور فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔ اگر کرنل وشال نے اسکو پکڑ لیا تو وہ اسکو بہت اذیت دے گا اور آخر میں مار ڈالے گا، اسکے بر عکس اگر وہ بھاگتا ہے تو بغیر کسی اذیت کے محض ایک گولی آئے گی اور سرمد کا خاتمہ کر دے گی۔ سرمد نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب وہ یہاں سے بھاگے گا اور گٹار باکس یہیں چھوڑ دے گا۔ آزادی کی موت مرنا دشمن کی قید میں مرنے سے بہتر ہے۔

اس سے پہلے کہ سرمد بھاگتا، کرنل وشال کے موبائل پر ایک کال آگئی، موبائل کی بیل سن کر سرمد نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو کرنل وشال کال اٹینڈ کر چکا تھا، کال اٹینڈ کرتے ہی کرنل بولا ہاں بولو اے سی پی کیسے فون کیا؟؟ آگے سے اے سی پی نے کوئی خاص خبر دی تو کرنل وشال کے چہرے پر پریشانی کے آثار واضح ہونے لگے اس نے پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ دانش ہی تھا؟؟؟؟ دانش کا نام سنتے ہی سرمد کی جان میں جان آئی، وہ سمجھ گیا تھا کہ رانا کاشف اور امجد اپنا کام کر چکے ہیں۔ فون پر کرنل کو آگے سے یقین دلایا گیا تو وہ اپنے بندوں کو فورا گاڑیوں میں بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے خود بھی اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا اور بس والوں کو ایسے ہی کھڑا چھوڑ دیا۔ اے سی پی نے کرنل کو بتایا تھا کہ میجر دانش اور وہ سردار ریلائنس گیس پمپ پر دوبارہ دیکھے گئے ہیں اور اس دوکاندار نے انہیں پہچان کر پکڑنے کی کوشش کی مگر وہ دونوں بھاگ نکلے۔ کرنل اس خبر سے خاصا جھنجلا گیا تھا، لیکن دوسری طرف اب اسکو سمجھ لگ گئی تھی کہ انہیں میجر دانش کیوں نہیں ملا ابھی تک۔ اصل میں میجر دانش جامنگر سے نکلا ہی نہیں تھا۔ سردار سنجیت سنگھ اسی کا ساتھی تھا ، دانش جامنگر میں رکا اور سردار سنجیت سنگھ اکیلا ہی جونا گڑھ کی طرف روانہ ہوا، تاکہ کرنل کو چکمہ دے سکے کہ میجر دانش جونا گڑھ کی طرف گیا ہے۔ اور کرنل وشال کی سمجھ کے مطابق ابھی کچھ دیر پہلے ہونے والا راکٹ لانچر اٹیک بھی کرنل کو بہکانے کے لیے تھا کہ وہ سمجھے میجر دانش جونا گڑھ میں موجود ہے جبکہ وہ خود جامنگر پھر رہا ہے اور یہ اٹیک اس نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے کروایا ہے۔

اب کرنل وشال اپنی ٹیم کو لیکر دوبارہ سے جامنگر جا رہا تھا جبکہ وہ آرمی ہیڈ کوارٹر فون کر کے بتا چکا تھا کہ میجر دانش جونا گڑھ میں نہیں بلکہ جامنگر میں موجود ہے اور سردار سنجیت سنگھ اسکا ساتھی ہے۔ جبکہ میجر کے باقی ساتھی جونا گڑھ میں ہیں۔ اس نے آرمی ہیڈ کوارٹ میں ہدایات دیں کہ یہاں کی تمام فورس کو دانش کے ساتھیوں کو پکڑنے کے لیے الڑٹ کیا جائے جبکہ وہ خود دانش کو پکڑنے جامنگر جا رہا ہے۔

سرمد دوبارہ بس میں بیٹھ چکا تھا اپنے گٹار باکس کے ساتھ۔ شہر میں بس سے اتر کر وہ اپنے پرانے ٹھکانے گیا جہاں اسکے کچھ ساتھی موجود تھے۔ موت کے منہ سے بچ کر آنے والا سرمد اپنے ساتھیوں سے ملا اور وہ گٹار باکس انکے حوالے کیا، جسے لیکر وہ فوری گھر سے نکل گئے اور اپنے کسی اور خفیہ ٹھکانے کی طرف چلے گئے جہاں وہ اس گٹار باکس کو ٹھکانے لگا سکیں گے۔


کرنل وشال کا چھوٹا سا قافلہ دوبارہ سے جامنگر کی جانب جا رہا تھا۔ جامنگر ہائی وے نمر 6 پر پہنچ کر کرنل وشال اب کی بار خود اس ٹک شاپ والے سے ملا اور اسکے پاس موجود سی سی ٹیوی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی اس میں واقعی سردار سنجیت سنگھ اور میجر دانش میک کیے ہوئے نظر آیا اسے۔ اب اسے یقین ہوگیا کہ میجر دانش نے کل سے آج تک کرنل وشال کو بہکایا ہی ہے اور وہ اپنی چالاکی اور مکاری سے کرنل جیسے شخص کو دھوکا دینے میں کامیاب رہا۔ مگر ایک غلطی وہ کر گیا کہ دوبارہ سے اسی پمپ پر آگیا اور پہچان میں آگیا، اب وہ کسی بھی صورت کرنل کے ہاتھوں سے بچ نہیں پائے گا۔ کرنل نے جامنگر کی ساری پولیس فورس اور وہاں موجود آرمی آفیسرز کو فوری طور پر پورے شہر میں پھیل جانے کو کہ دیا تھا اور ایک سردار اور بڑی مونچھوں والے آدمی کی تلاش کا حکم دیا تھا۔

رات کے قریب 2 بچ رہے تھے اور تمام پولیس والوں کی چھٹی کینسل کر کے انہیں فوری ڈیوٹی پر پہنچنے کا حکم دے دیا تھا۔ جامنگر کے شہر کے عین وسط میں کرنل وشال پولیس والوں کو ہدایات دے رہا تھا کہ ایک بار پھر سے اسکے موبائل پر گھنٹی بجی۔ کرنل نے موبائل کی طرف دیکھا تو ایک انجان نمبر سے کال تھی ۔ کرنل نے کال ریسیو نہیں کی اور ریجیکٹ کر کے دوبارہ سے پولیس والوں سے بات کرنے لگا۔ مگر ایک بار پھر اسے اسی نمبر سے کال موصول ہوئی تو اب کی بار کرنل نے کال ریسیو کر لی۔ آگے اجے کی آواز تھی، اجے کانپتی ہوئی آواز میں کرنل کو بتانے لگا انکل میں اجے بول رہا ہوں، ٹینا اور میں آج نائٹ کلب سے باہر آرہے تھے تو 4 غنڈوں نے ٹینا کو اغوا کر لیا ہے آپ پلیز فوری گھر آجائیں۔ ٹینا کے اغوا کا سنتےہی کرنل کا دماغ ماوف ہونے لگا۔ ایک طرف جونا گڑھ میں آرمی جیپ پر حملہ جس سے کرنل نے سوچا کہ دانش جونا گڑھ میں ہی موجود ہے، مگر پھر دانش کا جامنگر میں موجود ہونا اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے اسکا ثبوت ملنا، اور اب کرنل کی بیٹی کو اغوا کیا جانا، شاید اسکے پیچھے بھی میجر دانش کا ہی ہاتھ ہو۔ کرنل کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وہ بالکل بے بس نظر آرہا تھا اور اسکے چہرے پر بے چارگی کے آثار واضح دیکھے جا سکتے تھے۔


User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


نائٹ کلب سے دور نکل جانے کے بعد میجر دانش نے بیک ویو مرر میں دیکھا کہ کوئی انکا پیچھا تو نہیں کرر ہا؟؟؟ مگر وہاں کوئی موجود نیں تھا، پورا روڈ سنسان تھا۔ میجر نے ساتھ بیٹھی ٹینا کی طرف دیکھا جو خاصی ڈری ہوئی تھی اور اس نے گاڑی کی روف بھی بند کر دی تھی جو پہلے فولڈ تھی۔ میجر نے ٹینا سے پوچھا مِس آپکا گھر کہاں ہے میں آپکو گھڑ چھوڑ آتا ہوں؟؟ ٹینا نے ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے چہرے کے ساتھ دانش کی طرف دیکھا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی آرمی ریذیڈینشل کالونی۔ اس پر میجر نے حیران ہوتے ہوئے کہا اوئے باپ رے۔۔۔۔ کہیں واقعی میں آپکے پاپا آرمی میں کرنل تو نہیں؟؟؟ ٹینا نے میجر کی طرف دیکھا اور بولی ہاں وہ کرنل ہی ہیں۔ میجر دانش اب کی بار کانپتی ہوئی آواز میں بولا ارے م۔ ۔ ۔ میں تو۔ ۔ ۔ میں تو مذاق سمجھ رہا تھا۔۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپکے پاپا واقعی کرنل ہونگے۔ آپکو میں یہیں اتار دیتا ہوں آپ پلیز خود ہی اپنے گھر چلی جائیں۔

یہ سنتے ہی ٹینا ایک بار پھر سے خوفزدہ ہوگئی، اسکے ذہن میں ابھی تک غنڈوں کا خوف موجود تھا، اگر دانش وہاں نہ ہوتا تو اجے تو اسے اکیلا چھوڑ کر اپنی جان بچا کر جا چکا تھا۔ دانش نے گاڑی کی سپیڈ کم کرنا شروع کی تو ٹینا نے ایک دم سے میجرکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی نہیں پلیز ایسے مت کرو میں ابھی گاڑی ڈرائیو کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں اور مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز مجھے میرے گھر تک چھوڑ دو۔ ۔۔۔ دانش نے کہا نہیں میڈیم آپکے پاپا تو مجھے پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے کہ میری بیٹی کو اغوا کروانے میں یہ بھی شامل ہوگا اور وہ میرے سے غنڈوں کے بارے میں تفتیش بھی کریں گے، ویسے بھی میں چھوٹے موٹے جرائم کرتا رہتا ہوں جیسے کبھی کسی کی جیب کاٹ لی تو کبھی کسی کا موبائل چرا لیا۔ آپکے پاپا مجھے کچھ نہ بھی کہیں تو پولیس کے حوالے تو ضرور کریں گے۔

اس پر ٹینا نے اسے تسلی دی کہ ڈرو نہیں میں پاپا کو کچھ نہیں بتاوں گی تمہارے بارے میں اور ویسے بھی وہ شہر میں نہیں ہیں کسی پاکیشا کے ایجنٹ کو پکڑنے کے لیے جامنگر گئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر دانش نے سکھ کا سانس لیا۔ دانش دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یار میں تو کمال کا ایکٹر ہوں ، پھر دانش نے اس سے گھر میں موجود اور لوگوں کے بارے میں پوچھا تو ٹینا نے بتایا کہ اسکی ماما کی ڈیتھ ہوچکی ہے اور وہ اپنے پاپا کی اکلوتی بیٹی ہے۔ گھر میں صرف چند ملازم ہونگے اور سیکیورٹی گارڈز ہونگے۔یہ سن کر دانش کو تھوڑا اطمینان ہوا کہ اسکی معلومات ٹھیک تھیں کہ کرنل کے گھر میں اسکی بیٹی اور ملازموں کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا۔

کچھ ہی دیر میں دانش گاڑی لیے اسی گلی میں مڑ گیا جہاں ٹینا کا گھر تھا، یہاں ٹینا دانش کو گائیڈ کررہی تھی اور اپنے گھر کے سامنے پہنچ کر ٹینا نے بریک لگانے کو کہا تو دانش نے گاڑی روک دی۔ اور بولا لو جی میڈیم آپکا گھر آگیا، اب آپ جانو اور آپکا کام میں تو چلا یہاں سے۔ ٹینا بولی ارے آپ کیسے جائیں گے واپس، رکیں میں اپنے کسی ملازم کو بھیجتی ہوں وہ آپکو چھوڑ آئے گا، یہ کہ کر ٹینا نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر گئی، دانش نے بھی فوری گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے اتر آیا، نیچے اترتے ہی دانش نے ہلکی چی چیخ مار ی اور سڑک پر گر گیا۔ ٹینا نے مڑ کر دیکھا تو دانش سڑک پر اپنی ٹانگ کی پچھلی سائڈ پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ کراہ رہا تھا۔ ٹینا بھاگتی ہوئی دانش کے پاس آئی اور بولی کیا ہوا؟؟؟ تو دانش نے کہا کچھ نہیں بس وہ آپکو بچاتے ہوئے ایک خبیث انسان نے خنجر مار دیا تھا ٹانگ میں ، اب اچانک ٹانگ پر وزن آیا تو اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور گر گیا۔ آپ فکر نہ کریں میں چلا جاوں گا۔

ٹینا بولی ارے نہیں ایسے کیسے۔ آپ نے میری جان بچائی اور میں آپکو ایسی حالت میں کیسے جانے دوں، آپ اٹھیں اور اندر آئیں میں آپکو ابتدائی طبی امداد دیتی ہوں اور کسی اچھے سے ڈاکٹر سے چیک اپ بھی کرواتے ہیں۔ یہی تو دانش چاہتا تھا کہ کسی طرح ٹینا کے ساتھ اسکے گھر میں داخل ہوجائے۔ مگر اسکے لیے اسے یہ ڈرامہ کرنا پڑا۔ گو کہ اسکی ٹانگ میں شدید درد تھی مگر اتنی بھی نہیں تھی کہ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور گر جائے۔ یہاں بھی دانش نے ایکٹنگ کی اور ٹِنا کو اپنے زخم کے بارے میں بتا دیا ۔ اس سے پہلے اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ دانش کو کوئی خنجر بھی لگا ہے۔ اسکے ذہن میں تو بس یہی تھا کو وہ غنڈے بہت خطرناک تھے اور اس شخص نے ٹینا کو عین وقت پر بچا لیا ہے آکر۔ ٹینا نے میجر دانش کو سہارا دیا اور میجر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنا وزن کسی حد تک ٹینا کے نازک جسم پر ڈال کر لڑکھڑاتے ہوئے ٹینا کے گھر میں جانے لگا۔ چوکیدار گیٹ پہلے ہی کھول چکا تھا، ٹینا اندر داخل ہوئی تو وہاں موجود ایک سیکورٹی گارڈ بھاگتا ہوا ٹینا کے قریب آیا اور بولا رکو رکو، تلاشی دو اپنی۔ میجر دانش اسکے لیے اجنبی تھا۔ اس لیے یہاں کسی بھی انجان آدمی کا آنا ممکن نہیں تھا۔ مگر یہ سیکیورٹی گارڈ جیسے ہی دانش کے قریب آیا ٹینا نے گھورتے ہوئے اسکو دیکھا اور بولی اندھے ہو کیا، دیکھتے نہیں وہ زخمی ہے۔ دفع ہوجاو ادھر سے۔ وہ سیکورٹی گارڈ ادب کے ساتھ پیچھے ہٹ گیا اور بولا بی بی جی معافی چاہتا ہوں مگر صاحب کا حکم ہے کوئی بھی انجان شخص بغیر تلاشی کیے اندر نہیں جانا چاہیے۔ یہ سن کر دانش بولا آجاو یار لے لو تلاشی ۔ مگر ٹینا نے ایک بار پھر سیکورٹی گارڈ کو ڈانٹ پلا دی کہ یہ انجان نہیں میرے دوست ہیں۔ روڈ پر ایکسیڈ ینٹ میں زخمی ہوگئے ہیں اس لیے میرے ساتھ آئے ہیں جاو تم میں خود پاپا سے بات کر لوں گی۔ یہ کہ کر وہ دانش کو سہارا دیے مزید آگے بڑھ گئی اور گھر کا مین دروازہ بند کر کے اب دانش کو اپنے کمرے میں لیجا کر اپنے بیڈ پر لٹا دیا۔

دانش نے کراہتے ہوئے اپنی ٹانگ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور بیڈ پر رکھ لیا۔ وہ یہ ظاہر کروا رہا تھا کہ اسکی تکلیف اب برداشت سے باہر ہے۔ دانش کی ٹانگ سے کافی خون بھی نکلا تھا جو ٹینا کی گاڑی کو خراب کر چکا تھا اور اب بھی اسکی ٹانگ پر اور کپڑوں پر خون جما ہوا تھا۔ دانش کو بیڈ پر لٹا کر ٹینا فوری اپنی الماری کی طرف بڑھی اور اس میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکال لائی۔ اس نے ایک قینچی سے دانش کی پینٹ کا نچلا حصہ کاٹ دیا اور دانش کو الٹا ہونے کو کہا۔ دانش الٹا ہوکر لیٹ گیا تو ٹینا نے پہلے دانش کی ٹانگ سے کپڑا سائیڈ پر ہٹا کر وہاں سپڑت لگا ئی اور جما ہوا خون صاف کیا، دانش نے سپرٹ لگنے پر ایک چیخ ماری اور پھر منہ بھینچ کر تکلیف کوبرداشت کرنے لگا۔ پھر ٹینا نے دانش کی مرہم پٹی کی اور ڈاکٹر کو فون کر دیا۔ یہ ڈاکٹر بھی آرمی کا ہی تھا اور کالونی میں اسکی رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ دانش نے ٹینا کو کہا کہ پلیز کسی کو میرے بارے میں کچھ مت بتائے میں کوئی بڑا مجرم نہیں بس چھوٹی موٹی چوری ہی کرتا ہوں جس سے پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوں۔ ٹینا نے دانش کو تسلی دی کہ تم فکر نہیں کرو تمہیں کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔

ابھی ٹینا دانش کو تسلی ہی دے رہی تھی کہ ٹینا کے موبائل پر بیل بجنے لگی۔ ٹینا نے اپنے پرس سے موبائل نکالا اور دانش کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اس وقت پاپا کا فون؟؟؟ یہ کہ کر ٹینا نے فون اٹینڈ کیا اور نمستے پاپا بولی تو آگے سے کرنل وشال کی گھبرائی ہوئی آواز آئی بیٹا تم ٹھیک تو ہو نا؟ کہاں ہو تم اسوقت ؟؟ ٹینا نے کہا کیا ہوا پاپا میں بالکل ٹھیک ہوں گھر پر ہوں۔ کرنل وشال نے پھر کہا بیٹا وہ اجے کا فون آیا تھا وہ کہ رہا تھا کہ کچھ سڑک چھاپ غنڈوں نے تمہیں اغوا کر لیا ہے ۔ اجے کا نام سنتے ہی ٹینا کے چہرے پر نفرت کے آثار نظر آںے لگے مگر پھر مسکراتے ہوئے بولی ارے پاپا کسی میں اتنی ہمت ہے بھلا کہ آپکی بیٹی کو اغوا کر سکے؟؟؟ کرنل بولا مگر بیٹا وہ اجے۔۔۔۔۔۔ ٹینا نے کہا پاپا آپ پریشان نہ ہوں، میں بالکل ٹھیک ہوں، ںائٹ کلب سے واپسی پر کچھ غنڈوں نے کوشش ضرور کی تھی مجھے اغوا کرنے کی انکے ہاتھ میں چاقو تھے، اور اجے نے چاقو دیکھ کر وہاں سے دوڑ لگا دی، مگر پھر وہاں موجود ایک بھلے انسان نے میری مدد کی اور مجھے ان غنڈوں سے چھڑوا کر مجھے گھر تک پہنچا دیا۔

یہ سن کر کرنل نے سکھ کا سانس لیا اور بولا بیٹا کون تھا وہ؟؟ ٹینا نے بتایا کہ وہ اسے جانتی نہیں مگر اس نے آپکی بیٹی کی جان بچائی ہے، اور اس کوشش میں وہ خود زخمی ہوگیا ہے، اسکو چاقو بھی لگا ہے اور اسکی ٹانگ سے بہت زیادہ خون بھی بہا ہے، اب وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا۔ میں اسے گھر ہی لے آئی ہوں اور اس وقت اسے فرسٹ ایڈ دینے کے بعد ڈاکٹر سکسینا کو فون کر دیا ہے۔ وہ کچھ ہی دیر میں آکر اسکا معائنہ کر لیں گے۔ کرنل نے کہا بیٹا اس سے میری بات تو کرواو زرا۔ ٹینا نے فون دانش کی طرف بڑھا دیا۔ پہلے اس نے سوچا کہ بات نہ کرے۔ مگر پھر سوچا کہیں کرنل کو شک نہ ہوجائے کہ آخر وہ ٹینا کے باپ سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتا تو اس نے فورا ٹینا سے فون پکڑ لیا اور نمستے سر کہا۔ کرنل کی گرجتی ہوئی آواز آئی کون ہو تم اور تم وہاں غنڈوں کے بیچ کیا کر رہے تھے؟؟؟

میجر نے فوری کہا کہ سر میں بے روزگار انسان ہوں ساری ساری رات آوارہ پھرتا ہوں، نائٹ کلب میں میرا ایک دوست ویلے ہے تو میں کبھی کبھی اس سے ملنے چلا جاتا ہوں، آج بھی اسی سے ملنے گیا اور جب باہر نکلا تو دیکھا 4 غنڈے ایک معصوم لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جیسے ہی ایک غنڈہ میرے قریب سے گزرا میں نے اس سے چاقو چھین کر دوسرے غنڈے پر حملہ کر دیا جس نے ٹینا جی کو پکڑ رکھا تھا اور پھر انہیں بچا کر گھر پہنچا دیا۔ میں تو واپس جانا چاہتا تھا مگر ٹینا جی نے اصرار کیا کہ تم ایسے واپس نہیں جا سکتے پہلے ڈاکٹر سے معائنہ کرواو پھر میرا ڈرائیور تمہیں چھوڑ آئے گا۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں ابھی واپس چلا جاتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ کرنل صاحب کی بیٹی ہیں۔

اب کی بار کرنل وشال ذرا دھیمی آواز میں بولا نہیں تم واپس نہیں جاو گے۔ بلکہ ادھر ہی رکو گے میرے آنے تک ۔ اور ٹینا کو کہیں باہر نہیں جانے دو گے۔ اور خود بھی بھاگنے کی کوشش نہ کرنا، میرے گھر میں اب چاروں طرف آرمی کے جوان الرٹ کھڑے ہیں کوئی بھی غنڈہ ادھر پر نہیں مار سکتا۔ تم ٹینا کے ساتھ رہ کر اسکی حفاظت کرو بدلے میں تمہیں منہ مانگا انعام دیا جائے گا اور تمہیں نوکری بھی دی جائے گی، لیکن اگر ٹینا کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تمہاری سات نسلیں یاد رکھیں گی۔ یہ کہ کر کرنل نے فون بند کر دیا۔ دانش نے ٹینا کی طرف دیکھا تو وہ اسے گھور رہی تھی، دانش نے پوچھا کیا ہوا؟؟ تو ٹینا بولی تمہیں میرے نام کا کیسے پتا ہے؟ میں نے تو تمہیں اپنا نام نہیں بتایا۔۔۔۔ یہ سن کر دانش ہلکا سا مسکرایا اور بولا آپ تو ایسے پوچھ رہی ہو جیسے میں ان غنڈوں کا ساتھی ہوں اور کسی سازش کے ذریعے آپکے گھر تک پہنچا ہوں۔ ٹینا نے پھر کرخت لہجے میں پوچھا کہ یہ میرے سوال کا جواب نہیں تم بتاو کہی تمہیں میرا نام کیسے پتا ہے جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے تمہیں اپنا نام نہیں بتایا۔

اس پر میجر دانش بولا بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ایک مدد کرو کسی کی اور پھر خود ہی مجرم بھی بن جاو، یہ کہ کر دانش بولا میڈیم جی جب آپ ڈانس کلب میں ڈنس کر رہی تھیں اور اس اجے میاں کے ساتھ وہسکی کے سپ لے رہی تھیں تو میں اپنے دوست کے ساتھ وہیں موجود تھا اجے صاحب آپکو بار بار ٹینا ڈارلنگ ٹینا ڈالنگ کہ کر بلا رہے تھے، اور جب میں نے آپکو باہر غنڈوں کے نرغے میں دیکھا تو میں نے آپکو پہچان لیا کہ آپ وہی ہو جو کچھ دیر پہلے نائٹ کلب میں تھیں آپ مجھے اچھی لگی تھیں اور ویسے بھی ایک معصوم لڑکی کو 4 ہٹے کٹے غنڈے پکڑ کے کھڑے ہوں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوا اس لیے آپکی مدد کی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا آپ مجھ پر ہی شک کرو گی۔ ایسی بات ہے تو میں چلتا ہوں یہاں سے اور آپکو ڈرائیور بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں جیسے تیسے کر کے میں خود ہی چلا جاوں گا۔ اب ٹینا شرمندہ ہوئی اور بولی نہیں نہیں آپ مت جائیں، آئی ایم سو سوری۔۔۔۔ اصل میں کرنل کی بیٹی ہوں نا تو انکی وجہ سے ہر کسی پر شک کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے، پلیز مجھے معاف کر دیں اور آرام سے بیڈ پر لیٹ جائیں۔ یہ کہ کر وہ دانش کے قریب آچکی تھی اور اسکی ٹانگ پکڑ کر دوبارہ آرام سے بیڈ پر رکھنے میں مدد کی۔ اندھا کیا مانگے 2 آنکھیں، دانش پہلے ہی اسکے گھر سے کب جانا چاہتا تھا یہ تو اس نے ایکٹنگ کی تھی، اور اجے کا ٹینا ڈارلنگ کہنا اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا جو ٹھیک نشانے پر جا کر لگا۔۔

کچھ دیر میں ڈاکٹر سکسینا آگئے انہوں نے دانش کا زخم دیکھا اور پھر انہیں اس زخم سے اوپر ایک اور زخم بھی نظر آیا جہاں دانش کو چاقو لگا تھا۔ یہ معمولی زخم تھا مگر بحرحال ایک خنجر کا زخم تھا، ٹینا کی نظر نہیں پڑی تھی اس پر، ڈاکٹ سکسینا نے مزید اوپر تک دانش کی پینٹ کو کاٹ دیا اور وہاں بھی مرہم پٹی کر دی، اسکے بعد دانش کو کچھ پین کلر گولیاں دین اور انفیکشن سے بچنے کےلیے اینٹی بائیوٹک گولیاں بھی دیں اور آرام کرنے کا مشورہ دیکر چلا گیا جبکہ ٹینا اور دانش اب بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے، دانش بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا اور ٹینا اپنے اور اپنے پاپا کرنل وشال کے بارے میں دانش کو بتا رہی تھی۔ دانش نے ٹینا کے پاپا کی پیشہ وارانہ مصروفیات کے بارے میں پوچھنا شروع کیا کیونکہ دانش کا اصل مقصد تو کرنل وشال کے پلان کے بارے میں پتہ لگا نا تھا۔ ٹینا نے بتایا کہ میرے پاپا نے دشمن ملک پاکیشا کی خفیہ ایجنسیوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ آج تک پاپا کو پکڑ نہیں سکے پاپا پاکیشا بھی جاتے ہیں ، وہاں کے پرانے دارالخلافہ میں ایک سیاسی جماعت پاپا کو ہمیشہ ویلکم کرتی ہے اور پاپا سے بھاری مراعات لیکر اپنے ہی ملک پاکیشا میں دہشت گردی کی واردادتیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاپا وہاں کے لوگوں کو آپس میں لڑواتے ہیں اور پاکیشا کی سیکورٹی فورسز کچھ نہیں کر سکتیں، نہ انہیں کبھی پاپا کے خلاف کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ ہی وہ کبھی اس بات کا پتہ لگا سکی ہیں کہ پاپا آخر پاکیشا کیا کرنے جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ پاپا وہاں پاکیشا کے ایٹمی اثاثوں کی معلومات کے لیے جاتے ہیں مگر وہ ہمارے دیش کے لیے خطرہ نہیں اس لیے ہمیں انکی معلومات کی بھی ضرورت نہیں مگر پاپا کا اصل مقصد تو کچھ اور ہی ہے اسکے بارے میں پاکیشا آج تک پتا نہیں لگا پایا؟

میجر دانش نے حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ٹینا کے پاپا کی صلاحیتوں سے متاثر ہوتے ہوئے پوچھا کہ اور وہ اصل مشن ہے کیا؟؟؟ تو ٹینا نے کہا وہ تو مجھے بھی نہیں پتا بس اتنا پتا ہے کہ پاکیشا اپنے ایٹمی اثاثے پاپا سے بچانے میں لگی رہیتی ہے مگر پاپا وہاں جا کر اپنا کام کر کے آرام سے واپس آجاتے ہیں اور انہیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ آخر پاپا وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ پھر ٹینا نے میجر دانش کو اپنے پاپا کی بہادری کے کچھ قصے سنائے اور ہر قصّے پر میجر دانش متاثر ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا اور دل میں سوچنے لگا کہ اب زیادہ دیر تک کرنل وشال پاکیشا کی ایجینسیوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکے گا، عنقریب پاکیشا کی خفیہ ایجنسی اس کرنل وشال جیسے چوہے کو اپنے پاوں تلے روند دے گی جسے اتنا بھی نہیں معلوم کہ جس شخص کو وہ جونا گڑھ اور جام نگر میں تلاش کر رہا ہے وہ اسکے اپنے گھر میں اسکی اکلوتی بیٹی کے بیڈ روم میں موجود ہے۔



میجر دانش کے کہنے پر تانیہ نے ٹینا کے قریب جا کر اسے ہلکا سا کندھا مارا تو اسکے ہاتھ میں موجود جام چھلکا اور وہسکی ٹینا کے کپڑوں پر گر گئی، ٹینا نے غصے سے دھکا دینے والے کو دیکھا مگر اسکی نظر تانیہ پر پڑی تو اسکا غصہ ٹھنڈا ہوگیا کیونکہ وہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے تانیہ کا دھماکے دار ڈانس دیکھ کر اسے داد دے چکی تھی، تانیہ نے بھی معذرت کرتے ہوئے مسکین سی شکل بنا لی، ٹینا کے ساتھ موجود اجے نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے تانیہ کو ڈانٹنا شروع کیا تو ٹینا نے روک دیا اور اِٹس اوکے کہتی ہوئی اجے کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگئی۔

تانیہ اب نائٹ کلب میں ہی موجود تھی اور سبھاش واش روم میں اپنے کپڑوں پر گری وہسکی صاف کرنے کے لیے گیا ہوا تھا، تانیہ کے لیے اب فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ وہ یہیں رہ کر سبھاش کا انتظار کرے یا پھر اسے باہر نکل کر ٹینا کے اغوا کی کوشش اور میجر دانش کا اسکو بچانے کے لیے میدان میں کودنے کے لائیو مناظر دیکھنے چاہیے۔ بالآخر تانیہ نے سوچا کہ آج میجر دانش کو ایکشن میں دیکھنا چاہیے اور وہ سبھاش کا انتظار کیے بغیر ہی نائٹ کلب سے نکل گئی۔ نائٹ کلب سے نکلتے ہی تانیہ کو اسکی گاڑی سامنے ہی مل گئی اور ایک ویلے نے اپنے دانت چمکاتے ہوئے تانیہ کی طرف گاڑی کی چابی بڑھائی، تانیہ نے ویلے کو پرس سے کچھ پیسے نکال کر ٹِپ کے طور پر دیے اور گاڑی ڈرائیو کرتی ہوئی ہجوم سے تھوڑا دور لے جا کر پارک کر دی، یہاں سے وہ واضح طور پر دیکھ سکتی تھی کہ ٹینا کو کچھ غنڈوں پکڑ رکھا ہے اور وہاں موجود ہجوم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ایک لڑکی کی مدد کر سکے۔ تانیہ کو میجر دانش بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ معلوم نہیں دانش نے اس سے سچ بولا تھا یا وہ واقعی میں ٹینا کو اغوا کروانا چاہتا ہے۔

لیکن پھر اسکی یہ کنفیوژن دور ہوگئی جب اس ہجوم کے درمیان سے میجر دانش آتا دکھائی دیا جو غنڈوں کو کہ رہا تھا کہ لڑکی کو چھوڑ دو اس بیچاری کا کیا قصور ہے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میجر دانش نے کسطرح سے ان چار غنڈوں پر حملہ کیا اور بغیر کسی ہتھیار کے ان چار غنڈوں سے ٹینا کو چھڑوا کر لے گیا، یہ سب کچھ تانیہ کے لیے حیرت انگیز تھا۔ اس سے پہلے اس نے امجد کو اور دوسرے ساتھیوں کو لڑتے دیکھا تھا مگر اتنی مہارت کسی میں نہیں تھی ، سب سے زیادہ جس چیز نے تانیہ کو متاثر کیا وہ میجر کا اپنے اوپر کنٹرول تھا، اس نے تب تک کوئی حملہ نہیں کیا جب تک اس غنڈے نے ٹینا کے گلے سے اپنا خنجر نہیں ہٹا لیا، اگر اس سے پہلے میجر دانش کسی بھی قسم کا ایکشن لیتا تو شدید خطرہ تھا کہ ٹینا کو نقصان پہنچتا میجر دانش کی احتیاط اور صبر کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا، اس نے صحیح موقع کا انتظار کیا اور موقع ملتے ہی بجلی کی سی تیزی سے چاروں غنڈوں کو بے بس کر دیا۔ اس دوران تانیہ نے دیکھا کہ میجر دانش کی ٹانگ میں چاقو بھی لگا ہے، یہ منظر دیکھ کر تانیہ کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا، وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح بھاگ کر میجر کے پاس جائے اور اسکی مرہم پٹی کرے اسکی خدمت کرے، مگر ایسے موقع پر اسکو اپنے اوپر کنٹرول رکھنا تھا ورنہ میجر اور ٹینا کے ساتھ ساتھ خود تانیہ بھی مشکل میں پھنس سکتی تھی۔

جب میجر ٹینا کی گاڑی میں ٹینا کو وہاں سے لے گیا تو وہاں موجود لوگوں کی مردانگی بھی جاگنے لگی اور انہوں نے ان غنڈوں پر تھپڑوں اور لاتوں کی بارش کر دی، ہر کسی نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا اور ان غنڈوں کو برا بھلا کہتے ہوئے اور میجر دانش جو انکے لیے انجان تھا اسکی بہادری اور جرات مندی کی تعریف کرتے ہوئے وہاں سے کھسکنے لگے۔ چاروں غنڈے اپنی اپنی جگہ موجود کراہ رہے تھے ان میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی تانیہ نے بھی گاڑی کو گئیر میں ڈالا اور تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گئی جبکہ سبھاش تانیہ کو نائٹ کلب میں ڈھونڈنے کے بعد باہر آچکا تھا وہ اتنی سیکسی اور چکنی لڑکی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا اسکا ارادہ تھا کہ وہ آج کی رات انجلی کے حسین بدن کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزارے گا مگر یہ چڑیا اسکے ہاتھ سے نکل گئی، اس نے بس تانیہ کو گاڑی میں بیٹھے وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا، ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ وہ تانیہ کے پیچھے جائے مگر جتنی دیر میں اسکو وہاں سے گاڑی نکالنے میں لگتی تب تک تانیہ بہت دور نکل چکی ہوتی، اس لیے سبھاش نے یہ پروگرام کینسل کیا اور اپنا سا منہ بنا کر واپس اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

امجد اور کاشف ریلائنس گیس پمپ سے نکلنے کے بعد سیدھے جامنگر شہر میں داخل ہوگئے۔ اس دوران امجد نے دوبارہ سے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا تھا، پگڑی اتار کر اس نے راستے میں آنے والے ایک گندے نالے میں پھینک دی تھی اور اپنے بالوں میں دوبارہ سے کنگھا کر لیا تھا جبکہ کاشف کا بھی حلیہ درست کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی اسے میجر دانش سمجھ کر پکڑ ہی نہ لے۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد امجد کا رخ ایک تھانے کی طرف تھا ، یہ ایک چھوٹا سا تھانہ تھا جہاں پر عام طور پر زیادہ نفری موجود نہیں ہوتی تھی۔ امجد کا ارادہ اب یہاں حملہ کرنے کا تھا، تھانے سے کوئی 2 کلومیٹر پہلے امجد ایک ویران جگہ پر گاڑی روک کر کھڑا ہوگیا اور کسی کو فون پر اپنی لوکیشن کے بارے میں بتانے لگا۔ کافی دیر کے انتظار کے بعد وہاں امجد کو ایک ہائی روف آتی دکھائی دی۔ جب وین قریب آگئی توامجد گاڑی سے اتر کر وین کی طرف چلنے لگا، وین سے بھی 2 آدمی اترے، انہوں نے امجد کو سلام کیا اور امجد سے گاڑی کی چابیاں لیکر امجد کی گاڑی میں بیٹھ گئے جبکہ کاشف اور امجد اب ہائی روف میں بیٹھے تھے جس میں پیچھے 2 لوگ اور بھی تھے، امجد اور کاشف کو ان دونوں نے سلام کیا اور امجد گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس تھانے کی طرف بڑھنے لگا۔

تھانے سے 500 میٹر پہلے پولیس کی چیک پوسٹ پر امجد کو رکنے کا اشارہ کیا گیا جہاں ہندوستانی پولیس کے 2 اہلکار موجود تھے۔ گاڑی رکوا کر ان میں سے ایک اہلکار گاڑی کی طرف آنے لگا تو امجد اپنی ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اتر آیا اور آنے والے اہلکار سے ہاتھ ملا کر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے گجراتی زبان میں بولنے لگا کہ سنتری صاحب میرے پاس لائسنس نہیں ہے کچھ لے دے کر معاملہ رفع دفع کرو۔ ویسے تو پولیس اہلکار گاڑی کی چیکنگ کرنے آیا تھا مگر امجد نے اس پر ایسا زبردست وار کیا کہ وہ گاڑی کو چیک کرنا بھول گیا اور امجد کو لائسنس کی اہمیت پر لیکچر دینے لگ گیا۔ امجد بھی شرمندہ شرمندہ منہ بنا کر ہاں جی ہاں جی کرتا رہا، وہ بھی جانتا تھا کہ یہ لیکچر تو بہانہ ہے اصل میں سنتری صاحب کو پتہ لگ گیا کہ انکے پاس لائسنس نہیں تو اب وہ پیسے کمانے کے چکروں میں ہے۔

امجد نے بھی لیکچر کے دوران ہی اسکی بات کاٹی اور جیب میں ہاتھ ڈال کر 200 کا نوٹ نکالا اور پولیس والے سے ہاتھ تھماتے ہوئے بولا آئندہ احتیاط کروں گا جی بس ابھی ذرا جلدی میں ہیں مہربانی کریں۔ پولیس اہلکار نے 200 روپیہ دیکھا اور امجد کو گالی دیتے ہوئے بولا ایک تو تیرے پاس لائسنس نہیں اوپر سے ہمیں 200 پے ٹرخا رہا ہے، ہمارے بھی بال بچے ہیں ہم نے بھی انکو پالنا ہے چل جلدی سے جیب ڈھیلی کر، 1000 کا چالان ہوتا ہے 500 دے اور چلتا بن ادھر سے۔ امجد نے جیب سے 100 کا نوٹ اور نکالا اور اسے دیتے ہوئے بولا کہ پورا دن کوئی سواری ہی نہیں ملی بس یہی کچھ ہے گزرا کر لو۔ سنتری صاحب نے 100، 100 کے تین نوٹ جیب میں ڈالے اور امجد کو کھسکنے کا اشارہ کیا، امجد نے فوری گاڑی چلائی اور تھانے کی طرف چل دیا جب کہ دوسرا پولیس اہلکار دوڑ کر اپنے ساتھی کے پاس گیا اور ان رشوت کے پیسوں میں سے اپنا حصہ لیکر اگلے شکار کا انتظار کرنے لگا۔
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »



تھانے کے قریب پہنچ کر اسکے گیٹ پر امجد کو ایک بار پھر رکنے کا اشارہ ہوا مگر اس بار ہائی روف کا شیشہ کھلا اور اس میں سے ایک اے کے 47 نکلی اور سامنے موجود پولیس والوں پر تڑ تڑ کی آواز کے ساتھ گولیوں کی بوچھار ہوگئی۔ امجد سامنے موجود رکاوٹوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑی کو تھانے کے اندر لے گیا جہاں موجود ایک تھانیدار اور 2 سپاہی اس حملے سے بے خبر خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ امجد اور اسکے ساتھیوں نے ان پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، کچھ ہی لمحے بعد پولیس اہلکاروں کی لاشیں تھانے کی حدود میں خون میں لت پت پڑی تھیں۔ امجد نے فوری کنٹرول روم سے چابیاں لیں اور وہاں موجود ایک لاکر سے اپنے کچھ ساتھیوں کو چھڑا کر ہائی روف میں بٹھایا اور فوری طور پر گاڑی ریورس کرتے ہوئے تھانے سے نکلے اور دوسری جانب چل دیے جہاں پر چیک پوسٹ پر موجود پولیس اہلکار گولیوں کی آوازیں سن کر اپنی گن اٹھائے تھانے سے دور بھاگ رہا تھا وہ جان گیا تھا کہ تھانے پر حملہ ہوا ہے ایسے میں بہادری کا ثبوت دینے کی بجائے اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور چیک پوسٹ چھوڑ کر وہاں سے دور بھاگنے لگا۔ امجد بھاگتے پولیس والے کو دیکھ کر مسکرایا اور گاڑی سپیڈ سے چلاتا ہوا شہر سے باہر جانے لگا۔

شہر سے باہر نکلتے ہوئے امجد کو آرمی کی گاڑیوں کا ایک چھوٹا قافلہ شہر میں داخل ہوتا ہوا نظر آیا، امجد سمجھ گیا تھا کہ میجر دانش کے جامنگر میں موجود ہونے کی اطلاع کرنل وشال تک پہنچ چکی ہے اور اب وہ اپنے لاو لشکر کے ساتھ جامنگر پہنچ گیا ہے، جہاں وہ یقینا اسی گیس سٹیشن پر بھی گیا ہوگا جہاں پر جامنگر داخل ہونے سے پہلے امجد اور کاشف رکے تھے اور سردار کو اپنا دیدار کروایا تھا تاکہ میجر دانش کے جامنگر میں موجود ہونے کی جھوٹی خبر سچی خبر بن کر کرنل وشال تک پہنچے۔ امجد کا یہ پلان کامیاب ہوگیا تھا اور اب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میجر دانش اصل میں ممبئی میں کرنل کے گھر موجود ہے۔ امجد نے اس تھانے پر حملہ کرنے کا منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر بنایا تھا، یہاں کی پولیس کے بارے میں امجد کے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ یہ اپنے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں اور بہت سے بے گناہ مسلمانوں کو تھانے میں بند کر رکھا ہے جبکہ مسلمان خواتین کے ساتھ بھی عصمت دری کے واقعات زبان زدِ عام تھے، اسکے علاوہ یہاں کا ایس ایچ او کسی زمانے میں سری نگر میں بھی تعینات رہا تھا جہاں اس نے بہت سے کشمیری شہریوں کو پاکیشا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے الزام میں سخت سزائیں دیں تھیں اور انکے پورے پورے خاندانوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ مناسب موقع دیکھ کر امجد نے ایک تیر سے دو شکار کیے تھے، اس نے اپنے کشمیری بھائیوں پر ظلم کرنے والے درندے کا بھی خاتمہ کر دیا تھا اور کرنل وشال کا دھیان بھی بٹا دیا تھا جو اب جامنگر میں میجر دانش کو ڈھونڈنے کے لیے دوبارہ سے جونا گڑھ سے جامنگر پہنچ چکا تھا۔ شہر سے کچھ دور نکل کر امجد کو دوبارہ سے اپنی وہی ہنڈا سٹی نظر آئی جو اس نے تھانے پر حملہ کرنے سے پہلے چھوڑی تھی۔ امجد نے اسکے قریب جا کر اپنی گاڑی روکی اور دوبارہ سے سواریاں تبدیل ہوئیں اور اب امجد اور کاشف اپنی کار میں بیٹھ کر دوبارہ سے جامنگر جا رہے تھے۔

رات کے 2 بجے امجد اور کاشف اسی ڈانس کلب میں موجود تھے جہاں کل رات تانیہ نے اپنے حسن کا جلوہ دکھایا تھا اور کیپٹن مکیش اس جلوے کے ہاتھوں لُٹ گیا تھا۔ امجد کے پاس کوئی اور ٹھکانہ نہیں تھا اسکا پرانہ ٹھکانہ تباہ ہوچکا تھا اور وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں تھا جبکہ اپنے دوسرے ساتھیوں کے پاس جانا بھی انکو خطرے میں ڈالنے کے برابر تھا کیونکہ اگر یہ دونوں کسی اور ساتھی کے ساتھ پکڑے جاتے تو وہ بھی بلا سبب پھنس سکتے تھے، اسی لیے امجد نے اسی ڈانس کلب کا رخ کیا جہاں کا مینیجر اس سے واقف تھا مگر وہ امجد کو صرف ایک تماش بین کی حیثیت سے ہی جانتا تھا جو تانیہ کے ساتھ کبھی کبھار اس ڈانس کلب کا رخ کرتا تھا۔

امجد کاشف کو ساتھ لیے اسی ڈانس کلب میں چلا گیا اور مینیجر سے ملنے کے بعد ڈانس ہال میں جولی کا گرما گرم ڈانس کرنے کے بعد دونوں ہی مینیجر کے دیے گئے ایک کمرے میں جا کر سوگئے۔ 2، 3 دن کی تھکاوٹ اور اعصابی تناو کی وجہ سے دونوں کو جلد ہی نیند آگئی اور انکی اگلے دن ہی آنکھ کھلی۔

گو کہ کیپٹن مکیش کی فلائٹ اگلی رات کی تھی مگر صبح ہوتے ہی اسے کرنل وشال کا فون آیا، کرنل نے پہلے تو کیپٹن سے پوچھا کہ اسکا نمبر کیوں آف جا رہا ہے جس پر کیپٹن مکیش نے بڑی ڈھٹائی سے فون خراب ہونے کا بہانہ بنا دیا، اسکے فورا بعد کرنل وشال نے کیپٹن مکیش کو کل رات ہونے والے واقع کے بارے میں اطلا دی اور کیپٹن مکیش کو کہا کہ وہ فوری کرنل کے گھر جا کر اسکی بیٹی کی خیریت جان کر کرنل وشال کو دوبارہ رپورٹ کرے۔ کرنل نے کیپٹن کو ٹینا کے اغوا کی کوشش اور پھر کسی انجان شخص کا اسکو بچا کر گھر پہنچانے کا پورا واقعہ سنا دیا تھا۔ کرنل وشال کے نزدیک کیپٹن اس وقت ممبئی میں ہی موجود تھا کیونکہ ایک دن پہلے صبح کے ٹائم اس کی ممبئی واپسی تھی مگر اس فلائٹ میں کیپٹن کی بجائے میجر دانش اور تانیہ گئے تھے اور کیپٹن مکیش ڈانس کلب میں بے ہوش پڑا تھا۔ کرنل وشال کے فون پر کیپٹن نے بجائے اسے یہ بتانے کے کہ وہ ابھی تک جامنگر میں ہی ہے فوری کہ دیا کہ اسکے ہاں مہمان آئے ہیں وہ کچھ ہی دیر میں انکو کھانا کھلا کر ٹینا کی خیریت معلوم کرتا ہے۔

فون بند کرنے کے بعد کیپٹن مکیش نے فوری اپنی پتنی کو تیاری کرنے کا کہا اور کچھ ہی دیر بعد ایک پرائیویٹ جیٹ کے زریعے وہ ممبئی کی طرف جا رہا تھا۔ ممبئی پہنچتے ہی سب سے پہلے وہ کرنل وشال کے گھر گیا اور وہاں جا کر گارڈ سے ٹینا کے بارے میں پوچھا تو گارڈ نے انٹر کام پر ٹینا سے بات کی اور مکیش کے آنے کی اطلاع دی۔ ٹینا نے گارڈ سے کہا کہ مکیش کو گیسٹ روم میں بٹھائے وہ وہیں آتی ہے۔ گارڈ نے ٹینا کی بات سن کر کیپٹن مکیش کو گیسٹ روم میں بٹھا دیا جہاں کیپٹن مکیش ٹینا کا انتظار کرنے لگا۔ وہ ٹینا کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھا، شادی شدہ ہونے کے باوجود کیپٹن مکیش ٹینا کو پسند کرتا تھا اسکی ابھرتی جوانی کا حسن ہمیشہ اسکی پینٹ میں موجود لن کو کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتا تھا مگر کرنل کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اس نے کبھی ٹینا پر لائن مارنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

محض 3 منٹ کے انتظار کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور ٹینا اپنے مخصوس سلیپنگ ڈریس میں کمرے میں آگئی، کالے اور سرخ رنگ کا ڈھیلا ڈھالا سلکی سلیپنگ گاون ٹینا کے جسم کے ابھاروں کو کافی واضح کر رہا تھا ، ٹینا کے اندر آتے ہی کیپٹن مکیش اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور ٹینا کو پرنام کیا۔ ٹینا نے بھی ہاتھ جوڑ کر مکیش کو پرنام کیا اور مکیش کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ ٹینا کے بیٹھتے ہی مکیش نے ٹینا سے رات والے واقع کے بارے میں دریافت کیا اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے ٹینا کی خیریت دریافت کی۔ ٹینا نے ایک لمبی جمائی لی ، اسکی آنکھوں میں ابھی تک نیند کا خمار تھا۔ مکیش کے سوال پر ٹینا نے بتایا کہ ایسا کوئی خاص واقع نہیں تھا کچھ اناڑی لوگوں کی طرف سے یہ حرکت کی گئی تھی مگر وہاں موجود ایک نوجوان نے عین ٹائم پر مداخلت کر کے ان غنڈوں کو ڈھیر کر دیا اور ٹینا کو بچا کر خیریت سے گھر پہنچا دیا۔

مکیش نے مزید کچھ کریدنے کے لیے ٹینا سے سوال پوچھنا شروع کیے تو ٹینا نے بے زاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کہا کہ چھوڑو آپ ان باتوں کو آپکا یہاں کیسے آنا ہوا؟ مکیش نے بتایا کہ اسکو ٹینا کے پاپا نے بھیجا ہے تاکہ وہ ٹینا کی خیریت معلوم کر سکے اور اس نوجوان سے بھی مل سکے جس نے ٹینا کو غنڈوں سے بچایا ہے۔ اسکی بات سن کر ٹینا نے کہا عمران تو ابھی سو رہا ہے، کافی زخمی ہوگیا تھا ساری رات درد سے کراہتا رہا ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسکی آنکھ لگی ہے ابھی اسے سونے دو شام میں آکر مل لینا ، اور یہ بتاو پاپا کیسے ہیں؟ انکو ابھی تک وہ پاکیشا کا ایجنٹ ملا یا نہیں؟ اس پر کیپٹن مکیش نے کہا چلیں جیسے آپکی مرضی میں شام میں آکر اس سے مل لوں گا، اور کرنل صاحب بالکل ٹھیک ہیں۔ امید ہے جلد ہی اس ایجنٹ کی گردن آپکے پاپا کے ہاتھ میں ہوگی۔ اب ٹینا اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور بولی چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں مجھے بھی ابھی بہت نیند آرہی ہے، میں ملازم کو کہتی ہوں وہ آپکے سیوا کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر دے گا۔ اس پر کیپٹن مکیش بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور بولا نہیں اسکی ضرورت نہیں میں بھی چلتا ہوں، کرنل صاحب نے میرے ذمے کچھ ضروری کام لگائے ہیں وہ کرنے ہیں۔ میں پھر شام کو چکر لگاوں گا۔ اسکے بعد کیپٹن نے ٹینا کو اپنا خیال رکھنے کو کہا اور وہاں سے چلا گیا۔

باہر نکل کر کیپٹن فوری طور پر اپنے آفس گیا اور وہاں جاتے ہی سب سے پہلے اپنے گم شدہ فون کو ٹریس کرنے کی کوشش کی۔ کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد کیپٹن کو اپنے فون کی موجودہ لوکیشن اور اسمیں استعمال ہونے والی سم کے بارے میں معلومات مل گئیں۔ اور پھر سم کے ذریعے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس وقت یہ موبائل کہاں پر استعمال ہورہا ہے۔ کیپٹن نے فوری طور پر اپنے 2 با اعتماد لوگوں کو مطلوبہ ایڈریس پر بھجوا دیا اور انکو سم کے مالک کی معلومات دیکر کہا کہ اس آدمی کو فوری اٹھا لاو۔ کیپٹن کے حکم پر اسکے 2 فوجی جوان فوری مطلوبہ جگہ روانہ ہوگئے جبکہ کیپٹن مزید ان نمبرز کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے لگا۔ اپنے موبائل کے گم ہونے کو بعد اب تک اس میں 2 مختلف نمبرز استعمال کیے گئے تھے۔ اور یہ دونوں نمبرز ممبئ کے ہی تھے۔ اور اسکا موبائل بھی ممبئی میں ہی موجود تھا۔

اس سے کیپٹن کو اتنا تو یقین ہو ہی گیا تھا کہ اس نے میجر دانش کو صحیح پہچانا ہے ائیر پورٹ پر اسکے حلیے میں جانے والا شخص کوئی اور نہیں میجر دانش ہی تھا اور اسکے ساتھ وہ لڑکی تانیہ ہی تھی جو اسکو ڈانس کلب میں ملی تھی۔ اب کیپٹن نے پچھلی صبح کے وقت موبائل میں استعمال ہونے والی سم کی معلومات بھی نکال لیں اور اس سم کے مالک کو بھی اٹھانے کے لیے اپنی ایک ٹیم روانہ کر دی۔ موبائل میں فی الوقت موجود سم سے کوئی کال نہیں کی گئی تھی جبکہ اس سے پہلے والی سے سم کچھ کالز کی گئی تھیں۔ کیپٹن نے ان کالز کو ٹریس کرنا شروع کیا تو یہ سب کے سب نمبرز ممبئی کے انڈر ورلڈ گینگ کے تھے۔ یقینا انہی میں سے کوئی گینگ ہوگا جسکے ذریعے میجر دانش نے کرنل وشال کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ کیپٹن نے تمام کالز کا ریکارڈ چیک کیا توجس وقت ٹینا کو اغوا کیا گیا اس سے کچھ دیر پہلے ایک مخصوص نمبر سے کالز موصول بھی ہوئی تھیں اس نمبر پر اور کال کی بھی گئی تھی۔ کیپٹن نے ان نمبرز کو بھی ٹریس کر لیا اور فوری طور پر اپنی 10 فوجی جوانوں کی ٹیم کو سی آئی ڈی کے ہمراہ اس انڈر ورلڈ گینگ کے بڑے بڑے ناموں کو گرفتار کرنے کے لیے بھجوا دیا۔

اس کام سے فارغ ہوا تو کیپٹں کے بھیجے ہوئے پہلے دو آدمی ایک نوجوان کو پکڑ کر لا چکے تھے۔ یہ ایک 18 سالا نوجوان تھا شکل سے کسی غریب آبادی میں رہنے والا غریب شخص معلوم ہوتا تھا۔ یہ شکل سے کسی بھی طرح کوئی بڑا جرائم پیشہ یا پاکیشا کا ایجنٹ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ کیپٹن نے اس لڑکے سے اسکا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام انیل شرما بتایا۔ اسکی آواز کانپ رہی تھی اور وہ نام بتاتے ہی کیپٹن کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا صاحب میں نے کچھ نہیں کیا مجھے تو یہ موبائل سڑک پر پڑا ملا تھا میں نے اٹھا لیا میں نے چور نہیں کیا۔ کیپٹن نے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنا آدھا کلو کا ہاتھ اسکے منہ پر جڑ دیا۔ کیپٹن کے ایک ہی تھپڑ سے وہ دبلا پتلا لڑکا گھومتا ہوا دور جا گرا اور اسکے منہ سے خون نکلنے لگا۔ شاید اسکے کچھ دانت ٹوٹ گئے تھے۔ کیپٹن نے پھر اسکو کھڑا کیا اور گالی دیتے ہوئے بولا بول سالے کہاں سے ملا تجھے یہ موبائل۔۔۔ اس بار لڑکے کی آواز میں پہلے سے زیادہ خوف اور کپکپاہٹ تھی اسنے بتایا کہ وہ ممبئی کے ایک کچے علاقے کا رہائشی ہے اور صبح صبح سڑکوں سے کوڑا اٹھانے کا کام کرتا ہے۔ آج بھی جب صبح کے 5 بجے وہ ایک سڑک سے کوڑا اکٹھا کر رہا تھا تو سڑک کی ایک سائیڈ پر اسے یہ موبائل ملا ۔ اس نے موبائل اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔ کچھ دیر بعد اس پر کالز آنے لگ گئیں تو اس نے وہ سم نکال کر پھینک دی اور اپنی سم اس میں ڈال لی۔

کرنل نے اس لڑکے کو ایک اور جھانپڑ رسید کیا اور بولا اور بھی بتا تجھے کیا معلوم ہے ان غنڈوں کے بارے میں جنہوں نے کرنل صاحب کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی؟؟؟ اب وہ لڑکا گڑگڑانے لگا اور کیپٹں کے قدموں میں گر کر معافیاں مانگنے لگا، اسکی زبان پر ایک ہی بات تھی صاحب میں کچھ نہیں جانتا، میں نے کسی کرنل صاحب کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش نہیں کی نہ ہی میرا تعلق غنڈوں سے ہے میں تو ایک غریب انسان ہوں محنت مزدوری کر کے اور سڑکوں سے کوڑا اٹھا کر اپنا گزر بسر کرتا ہوں۔ میں نے کچھ نہیں کیا صاحب۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ ۔ ۔ ۔

کیپٹن کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ لڑکا بے گناہ ہے ۔ اور اسکی بتائی گئی جگہ بالکل علیبی نائٹ کلب کے سامنے والی جگہ تھی جہاں کل رات ٹینا کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ اگر یہ موبائل دانش کے پاس تھا تو وہ بھی ٹینا کو اغوا کرنے کی کوشش میں شامل تھا اور تبھی اسکی جیب سے یہ موبائل سڑک پر گر گیا ہوگا، اور ایک بھلے شخص کی مداخلت کے باعث اسکو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ کیپٹن نے اس لڑکے کو دو چار گالیاں اور سنائیں اور اپنے جوانوں سے کہا کہ اسکو تب تک قید رکھو جب تک ہمیں میجر دانش کا کوئی سراغ نہیں مل جاتا۔ دونوں فوجی اس لڑکے کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور وہ گڑگڑاتا رہا، معافیاں مانگتا رہا مگر کیپٹن نے اسکی ایک نہ سنی۔

اسکے جانے کے بعد کیپٹن نے ٹھنڈے پانی کے 2 گلاس پیے تاکہ اسکا غصہ کچھ کم ہوسکے مگر کچھ ہی دیر میں دوسری ٹیم اس شخص کو پکڑ لائی جسکی سم پچھلی صبح کو موبائل میں استعمال ہوئی اور اسکے ذریعے غنڈوں سے رابطہ بھی کیا گیا تھا۔ جیسے ہی کیپٹن مکیش کی نظر اس شخص پر پڑی وہ اپنے آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے فوری طور پر اس شخص پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ کیپٹن مکیش اصل میں تانیہ کا غصہ ان لوگوں پر نکال رہا تھا۔ وہ شخص چلاتا رہا اور معافیاں مانگتا رہا مگر کیپٹن مکیش کو بالکل بھی ترس نہ آیا۔ جب اسکی خوب درگت بن چکی اور کیپٹن مکیش بھی مار مار کر نڈھال ہوگیا تو وہ اپنی کرسی پر واپس جا کر بیٹھ گیا۔ آنے والا شخص اب نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا، اتنی مار کھا کر اس میں بولنے کی اور ہلنے جلنے کی سکت نہیں تھی بس وہ ہولے ہولے سانس لے رہا تھا۔ کیپٹن نے ایک فوجی جوان کو کہا کہ بھڑوے کو پانی پلاو جلدی تاکہ یہ میرے سوالوں کے جواب دے سکے۔ کیپٹن کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور اسے پانی پلایا گیا۔ کوئی 10 منٹ بعد اس شخص کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو کیپٹن نے پوچھا کہ بتاو کون ہو تم اور میجر دانش کو کیسے جانتے ہو؟ اس پر اس شخص نے اپنا نام اور پتا بتایا اور کہا کہ وہ کسی میجر دانش کو نہیں جانتا، یہ نام وہ پہلی بار سن رہا ہے۔

پھر کیپٹن نے پوچھا کہ میرا موبائل تمہارے پاس کیسے آیا؟ اس پر اس شخص نے بتایا کہ اسکے پاس کوئی موبائل نہیں وہ تو محض اپنا ہی ایک سستا سا موبائل استعمال کرتا ہے اس موبائل کے علاوہ اور کوئی موبائل اسکے پاس نہیں۔ کیپٹن نے ایک دو تھپڑ مزید رسید کیے اور بولا کہ جو پوچھ رہا ہوں سچ سچ بتا ورنہ تیری بوٹیاں نوچ کر کتوں کے آگے پھینک دوں گا۔ اس پر اس شخص نے ہاتھ جوڑ کر اور روتے ہوئے کیپٹن مکیش کو بتایا کہ صاحب میں بھگوان کی سوگند کھا کر کہتا ہوں میں کسی میجر دانش کو نہیں جانتا اور نہ ہی آپکا کوئی موبائل میرے پاس رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس شخص کی بات مکمل ہوتی 2 تھپڑ مزید اسکے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ گئے۔ اب کی بار کیپٹن مکیش نے دھاڑتے ہوئے اسے اسکا موبائل نمبر بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ تمہارے اس نمبر سے ایک اتنگ وادی نے کرائے کے غنڈوں کے ذریعے ہمارے کرنل صاحب کی بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ہے جسکو ہم نے ناکام بنا دیا ، مگر وہ اتنگ وادی ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، اسکے ساتھیوں کے ذریعے ہم اسکو ڈھونڈ لیں گے، اب جلدی بولو کیسے جانتے ہو تم میجر دانش کو اور وہ کہاں ملے گا۔

کیپٹن کی بات سن کر اس شخص نے کچھ گہرے سانس لیے اور بولا صاحب میں آپکو پوری بات بتاتا ہوں، مجھے کچھ پانی پلا دیں پہلے۔ اسکی یہ بات سن کر کیپٹن مکیش نے اسکے منہ پر تھوک دیا اور بولا چل پی لے یہ پانی۔۔۔۔ وہ شخص اپنا سا منہ لیکر زمین کی طرف دیکھنے لگا، اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اسکو اتنی زلت اٹھانا پڑے گی۔ اب کیپٹن نے ایک فوجی کو اشارہ کیا اور اس نے پانی کا ایک گلاس اس شخص کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پانی دیکھا اور ایک ایک گھونٹ کر کے پینے لگا۔ وہ اپنا سانس بحال کر رہا تھا تاکہ کیپٹن کو سب کچھ بتا کر اس مصیبت اور زلت سے نجات حاصل کر سکے۔ پانی پینے کے بعد اس نے کیپٹن کو بتایا کہ صاحب یہ نمبر میرا ہی ہے۔ مگر میں نے کل صبح اپنا یہ نمبر ایک بھلے شخص کو بیچ دیا تھا۔ میں کل صبح بس سٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا تھا تو میرے نزدیک ایک ٹیکسی آ کر رکی۔ اس میں سے ایک شخص نیچے اترا اور میری طرف آیا اس نے بتایا کہ وہ باہر کے ملک سے ابھی ابھی انڈیا پہنچا ہے تو اسکو ایک کال کرنی ہے۔ اسکے پاس ایک اچھا سا موبائل تھا مگر سم نہیں تھی تو اس نے میرے موبائل سے کال کری تھی۔ فِر اس نے کال کرنے کے بعد مجھ سے میری سِم مانگی تو میں نے انکار کر دیا، اس نے کہا کہ وہ مجھے 1000 روپیہ دے گا۔ مگر میں نے فِر بھی سیم نہیں دی اسے۔ فِر اس نے مجھے 1500 کا اور فِر 2000 کا کہا۔ میں نے سوچا کہ بے چارہ مجبور ہے اسکو جلدی سم چاہیے اور میری بھی بیٹی کی طبیعت خراب تھی اسکے علاج کے لیے کچھ پیسے چاہیے تھے تو میں نے سوچا دونوں کا فائدہ ہے میں نے اپنی وہ سِم 2000 میں اس شخص کو دے دی۔ اسکے بعد وہ شخص واپس ٹیکسی میں بیٹھ کر چلا گیا۔

اسکے بعد اس شخص نے کس کس کو کال کری میں نہیں جانتا میں تو اپنی بیٹی کو لیکر اسپتال چلا گیا تھا۔ تاکہ اسکا علاج کرا سکوں۔ میرے کو کیا پتا تھا کہ میری سِم کا وہ غلط استعمال کرے گا۔ اسکی بات مکمل ہونے پر کیپٹں مکیش نے غراتے ہوئے اس سے پوچھا اس شخص نے اپنا نام کیا بتایا تھا؟؟؟ اور جس ٹیکسی میں وہ گیا اسکا نمبر کیا تھا۔؟؟ کیپٹن کے سوال کے جواب میں وہ پھر سے بولا صاحب ٹیکسی کا نمبر تو ہمارے کو نہیں پتا مگر اس ٹیکسی میں اسکے ساتھ ایک میم صاحب بھی موجود تھیں جو کافی ماڈرن تھی اور اس صاحب نے اپنا کوئی نام نہیں بتایا تھا۔ اب کی بار کیپٹن مکیش نے پوچھا وہ دکھنے میں کیسا لگتا تھا۔ کیپٹن کا سوال سن کر وہ شخص سوچ میں پڑ گیا کہ کیسے بتائے پھر اس نے کیپٹن کے چہرے کو غور سے دیکھا اور اسکی حیرانی بڑھتی گئی۔ اب کی بار وہ ہکلاتے ہوئے بولا ار ۔۔۔۔ اررےےے صاا۔۔۔۔۔۔ صاحب۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔ ایک دم آپ ۔۔۔ آپ جیسا دکھتا تھا۔ یہ سننا تھا کہ کیپٹن نے اسکو پھر سے ایک تھپڑ رسید کیا اور بولا سالے جھوٹ بولتا ہے پاگل بناتا ہے مجھے۔ 10 منٹ تجھے قید خانے میں سزا ملے گی تو سب کچھ پانی کی طرح اگلے گا تو۔ یہ کہ کر کیپٹن مکیش نے اپنے ساتھیوں کو کہا اسے بھی اسی کوڑا اٹھانے والے کے ساتھ قید کر دو اور جب تک یہ میجر دانش کے بارے میں مزید معلومات نہ دے اسکو چھوڑنا نہیں۔

وہ شخص تو چلا گیا مگر کیپٹن مکیش سمجھ گیا تھا کہ یہ سچ بول رہا ہے۔ کیونکہ اسے یاد تھا ائیر پورٹ والی ویڈیو دیکھ کر ایک بار تو کیپٹن مکیش بھی اپنے آپ کو ائیر پورٹ پر دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ مگر پھر اسے احساس ہوا تھا کہ یہ میجر دانش ہی ہوسکتا ہے جو اسکے حلیے میں ائیر پورٹ سے ممبئی چلا آیا تھا۔ اب کیپٹن کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ بالکل صحیح سمت میں جا رہا ہے اور جلد ہی اسکے ہاتھ میجر دانش کی گردن پر ہونگے۔ اس شخص کے جاتے ہی کیپٹن مکیش نے ممبئی ائیر پورٹ کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج منگوا لی اور سپیشل ہدایت کی کہ ائیر پورٹ سے باہر جہاں ٹیکسی میسر ہوتی ہے ان تمام کیمروں کی ویڈیوز جلد سے جلد مہیا کی جائیں۔ ایک گھنٹے میں کیپٹن کو وہ ویڈیوز مل چکی تھی اور اس فلائیٹ کے ٹائم کے مطابق کیپٹن نے وہ ویڈیوز دیکھنا شروع کیں۔ محض 5 منٹ کی محنت کے بعد ایک کیمرے کی ویڈیو میں کیپٹن کو میجر دانش اور تانیہ نظر آئے۔ کیپٹن مکیش ایک لمحے کے لیے پھر سے اپنے آپکو دیکھ کر حیران ہوا مگر پھر اسے فورا ہی احساس ہوگیا کہ یہ میجر دانش ہے اسکے حلیے میں ۔

کیپٹن مکیش نے اپنی آئی ٹی ٹیم کی مدد سے ویڈیو کے اس حصے کے جس میں میجر دانش اور تانیہ ٹیکسی میں بیٹھ رہے تھے مختلف فریمز بنوائے اور پھر ایک ایک کر کے ان فریمز کو دیکھنے لگے۔ جلد ہی ایک فریم میں انہیں ٹیکسی کا نمبر مل گیا۔ ٹکیسی کا نمبر ملتے ہی کیپٹن مکیش نے ممبئی شہر کی پولیس کو ہدایات پہنچا دیں کہ یہ ٹیکسی جہاں بھی ملے اسکے ڈرائیور کو گرفتار کر کے فورا آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا جائے۔ اتنی دیر میں آرمی کی ٹیم ممبئی کے ایک چھوٹے مگر با اثر گینگ کے کچھ غنڈوں کو پکڑ کر کیپٹں مکیش کے سامنے پیش کر چکے تھے۔ ان میں 1 غنڈے زخمی تھی جبکہ باقی ٹھیک تھے۔ کیپٹن نے ان سے بھی تفتیش کی میجر دانش کے بارے میں، مگر انہیں بس اتنا ہی پتا تھا کہ ہمارے باس کی طرف سے آرڈر آیا تھا کہ علیبی نائٹ کلب کے باہر سے ایک لڑکی کو اغوا کرنا ہے اور اس کی تصویر ہمیں دے دی گئی تھی اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ زخمی غنڈوں نے بتایا کہ وہ بھی اس اغوا کی کوشش میں شامل تھے مگر پھر اچانک مجمع میں سے ایک شخص نکلا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہم پر حملہ کر دیا اور اس لڑکی کو بچا کر وہاں سے نکل گیا۔ ان غنڈوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ انکے ساتھ 2 لوگ اور بھی تھے اغوا کرنے میں جنکو وہ نہیں جانتے، بس وہ انکے باس کی طرف سے ہی آئے تھے، ایک شخص گاڑی کی سیٹ پر ہی بیٹھا رہا جبکہ ایک گاڑی کے پاس کھڑا رہا اور ہم دونوں نے آگے جا کر اس لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر پھر بعد میں مجمعے سے نکلنے والے شخص نے ہم چاروں کو زخمی کر دیا، وہ 2 لوگ تو گاڑی میں بیٹھ کر بھاگ گئے مگر ہم کافی دیر وہیں سڑک پر ہی بے یارو مددگار پڑے رہے پھر خود ہی ہمت کر کے ایک رکشہ روکا اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔

کیپٹن مکیش نے ان غنڈوں کی بھی خوب دھلائی کی اور انہیں بھی قید خانے بھجوا دیا۔ اب کیپٹن مکیش سوچ رہا تھا کہ ہو نہ ہو دوسرے 2 غنڈے جو انکے ساتھ تو تھے مگر یہ انہیں جانتے نہیں وہ میجر دانش ہی ہو سکتا ہے۔ تبھی وہ اکیلا ہی اپنی جان بچا کر بھاگ گیا۔ اور تبھی اسکی جیب سے وہیں موبائل بھی گرا ہوگا جو اس کوڑے والے کے ہاتھ لگ گیا۔ ایک لمحے کو کیپٹن مکیش کا ماتھا ٹھنکا اور اس نے سوچا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اکیلا نہتا شخص 4 غنڈوں کے چنگل سے ایک لڑکی کو چھڑوا کر اس طرح لے جائے کے لڑکی کو آنچ تک نہ آئے اور خاص طور پر جب ان چار غنڈوں میں سے ایک پاکیشا کا پیشہ ور آئی ڈی آئی کا ایجنٹ ہو۔ اس طرح کے ٹرینڈ ایجینٹ تو اکیلے ہی 10 لوگوں پر بھاری ہوتے ہیں مگر یہاں ایک اکیلے شخص نے 3 غنڈوں اور ایک پاکیشا کے ایجنٹ کو بری طرح بے بس کر دیا اور انکے چنگل سے لڑکی کو چھڑوا کر لے گیا۔


کہیں ایسا تو نہیں کہ ٹینا کو ان غنڈوں سے چھڑوانے والا شخص ہی میجر دانش ہو؟؟؟؟ یہ خیال آتے ہی کیپٹن مکیش کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ اس خیال نے کیپٹن کی روج کو اندر تک تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ کیونکہ وہ ٹینا کے گھر سے ہو آیا تھا اور اس نے واپس آکر کرنل وشال کو اطلاع دی تھی کہ ٹینا میم بالکل صحیح ہیں اور وہ لڑکا بھی بہتر ہے۔ اس نے کرنل کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ ٹینا میم کو اس لڑکے سے کوئی خطرہ نہیں وہ ایک سیدھا سادھا لڑکا ہے ۔۔۔ اب جب کرنل کو پتا لگے گا کہ اصل میں وہ لڑکا کوئی عام شخص نہیں بلکہ میجر دانش تھا تو کیپٹن مکیش کے ساتھ کیسا سلوک ہوگا؟؟؟ یہ سوچ کر ہی اسکی روح کانپ اٹھی تھی۔ مگر پھر اس نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ اگر وہ میجر دانش ہی ہوتا تو وہ یوں آرام سے ٹینا کے گھر سو نہ رہا ہوتا بلکہ وہ ٹینا کو کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر کرنل وشال سے سودے بازی کرتا، اتنگ وادیوں کی رہائی کے لیے یا اپنی پاکیشا واپسی کے لیے کوئی ڈیل کرتا۔ بھلا میجر دانش کو کیا ضرورت ہے کہ خود ہی ٹینا کو اغوا کروانے کے لیے کالز کرے اور خود ہی اسکو چھڑوا کر اسکے گھر آرام سے جا کر سوجائے۔ یہ سوچ کر کیپٹن نے خود کو تسلی دی مگر دل میں یہ ارادہ بھی کیا کہ شام کو وہ لازمی اس لڑکے سے ملکر اپنی تسلی کر لے گا۔

کیپٹن مکیش ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک فوجی نے آکر بتایا سر وہ ٹیکسی ڈرائیور پکڑا گیا ہے اسکو اندر لاوں کیا؟؟ یہ سن کر کیپٹن مکیش جلدی سے بغیر کوئی جواب دیے باہر نکل گیا، باہر سامنے ہی 2 فوجیوں کے ساتھ ایک شخص کھڑا تھا جسکی عمر لگ بھگ 50 سال ہوگی اور اسکے ہاتھ میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ کیپٹن مکیش نے اسکے پاس جاتے ہی اپنی جیب سے تانیہ اور میجر دانش کی تصویریں نکالیں جو اس نے سی سی ٹی وی فوٹِج میں سے نکال کر کے موبائل میں محفوظ کر لی تھیں ، تصویریں دکھا کر کیپٹں مکیش نے پوچھا کیا ان کو جانتے ہو؟؟ ٹیکسی ڈرائیور نے کچھ لمحوں کے لیے تصویریوں کو غور سے دیکھا اور فوری بولا جی صاحب کل صبح ہی یہ میری ٹیکسی میں بیٹھے تھے، مگر پھر اس نے کیپٹن مکیش کو غور سے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے وہ بھی حیران رہ گیا، کیپٹن اسکی حیرانگی کو سمجھ گیا اور فوری بولا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ ایک اتنگ وادی ہے جو میرے حلیے میں شہر میں پھر رہا ہے اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم نے ان لوگوں کو کہاں اتارا تھا؟؟؟ ٹیکسی والے نے پوری بات سمجھتے ہوئے فوری ہاں میں سر ہلایا اور بولا کیوں نہیں صاحب، ان لوگوں نے تو مجھے 500 روپے ٹپ بھی دی تھی۔ یہ کہ کر ٹیکسی ڈرائیور نے نہرو نگر کا پورا ایڈریس اور مکان نمبر کیپٹن مکیش کو بتا دیا جہاں اس نے تانیہ اور میجر دانش کو اتارا تھا۔

میجر دانش نے فوری ایک گاڑی نکلوائی اور اس ٹیکسی ڈرائیور کو اپنے ساتھ بٹھا کر اس گھر کی طرف چل دیا، اسکے پیچھے آرمی کی ایک اور جیپ بھی چلی آئی جس میں انڈین آرمی کے ٹرینڈ سپاہی موجود تھے۔ کیپٹن اپنی گاڑی کا ہوٹر بجاتے ہوئے بہت تیزی کے ساتھ نہرو نگر کی طرف جا رہا تھا، اسے یقین تھا کہ اب وہ میجر دانش اور تانیہ کو بہت جلد پکڑ لے گا اور جب وہ کرنل وشال کو اپنی اس کامیابی کی اطلاع دے گا تو اسکی پروموشن یقینی ہوگی۔ 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد کیپٹن نے اس گھر کے سامنے اپنی گاڑی روک لی جہاں ٹیکسی ڈرائیور نے میجر دانش کو اتارا تھا۔ اور ٹینا کے اغوا کے بعد تانیہ سیدھی واپس اسی گھر میں آئی تھی اور آتے ہی گہری نیند سوگئی تھی۔

کیپٹن مکیش اپنی گاڑی سے اترا اور اس نے پیچھے موجود جیپ میں اپنے فوجی جوانوں کو حکم دیا کہ وہ اس گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیں کہیں سے بھی کوئی شخص بچ کر نہ جانے پائے، اور اگر کوئی فرار ہونے کی کوشش کرے تو بے دھڑک اسکو گولی مار دی جائے۔ یہ حکم دیکر کیپٹن مکیش نے ٹیکسی ڈرائیور کو گاڑی میں ہی رکنے کا کہا اور خود اپنے ہاتھ میں پستول لیے دبے قدموں کے ساتھ اس گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے کے باہر پہنچ کر کیپٹن مکیش نے دروازے کے ساتھ کان لگا کر اندر سے آوازیں سننے کی کوشش کی مگر اندر مکمل سناٹا تھا اور کوئی آواز باہر نہیں آئی، کیپٹن مکیش نے پیچھے ہٹ کر ایک بار گھر کا جائزہ لیا، اسکی چھت پر کیپٹن کے فوجی پہنچ چکے تھے اور ساتھ والے گھروں کی چھتوں پر بھی فوجی جوان چوکنے کھڑے تھے ، اب کی بار کیپٹن مکیش نے دروازے پر ہلکا سا دباو ڈالا تو دروازہ ہلکی سے گر گراہٹ کے ساتھ کھلتا چلا گیا، کیپٹن صحن میں داخل ہوا تو سامنے ایک دروازہ اور تھا جو کی بند تھا۔ کیپٹن نے کچھ دیر سانس روکے ادھر ادھر کا جائزہ لیا اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا، کیپٹن کو کھانے کی سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی، کیپٹن نے اس خوشبو سے اندازہ لگایا کہ اندر چاول بن رہے ہیں، یہ سوچ کر کیپٹن نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ میجر دانش پیٹ پوجا کرے وہ یا تو کیپٹن مکیش کے شکنجے میں ہوگا یا پھر وہ کیپٹن کی گولیوں کا نشاہ بن چکا ہوگا۔ کیپٹن نے کچھ دیر بغیر سانس لیے دروازے کے باہر کھڑے ہوکر ہمت جمع کی اور پھر ایک زور دار ٹھوکر دروازے پر ماری جس سے دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ کھلتا چلا گیا، اور کیپٹن مکیش کمانڈو ایکشن میں قلابازی کھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔


ٹینا جب میجر دانش کو قصے سنا سنا کر تھک گئی تو اسکو یاد آیا کہ جس شخص نے اسکی جان بچائی ہے اسکے بارے میں تو اسنے کچھ معلوم ہی نہیں کیا۔ اب ٹینا نے میجر دانش سے پوچھا کہ ارے میں بھی کن باتوں کو لیکر بیٹھ گئی باتوں باتوں میں تمہارا نام ہی نہیں پوچھا میں نے تو۔ میجر دانش نے ٹینا کو اپنا نام عمران بتایا اور مزید پوچھنے پر عمران یعنی کے میجر دانش نے ٹینا کو بتایا کہ اس نے معمولی تعلیم حاصل کی ہے، بچپن میں وہ ایک کراٹے اکیڈمی میں بھی جاتا تھا جہاں سے اس نے لڑنے کی تربیت حاصل کی اور اسکے علاوہ وہ کمپیوٹر کی کافی معلومات رکھتا ہے، مگر ابھی تک اسکو کوئی اچھی نوکری نہیں مل پائی۔ غلط دوستوں کی صحبت کا اثر ہے کہ اس نے چھوٹی موٹی چوریاں بھی شروع کردی ۔ عمران نے مزید اپنے بارے میں کچھ جھوٹی کہانیاں ٹینا کو سنائیں جس سے ٹینا کو عمران سے ہمدردی ہونے لگی، اب ٹینا کو ایسے لگنے لگا کہ عمران ایک اچھا اور بھلا انسان ہے مگر زمانے کی سنگدلی اور نا انصافی کا شکار ہے۔ ٹینا نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے پاپا سے کہلوا کر عمران کو کسی اچھی سی فرم میں نوکری دلوائے گی اور اسکو معاشرے میں ایک اچھے انسان کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔

مگر میجر دانش زیادہ سے زیادہ ٹینا کی باتیں سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح کوئی کام کی بات ٹینا سے اگلوائی جا سکے، بجائے اپنے بارے میں کہانیاں سنانے کہ وہ چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ٹینا کو بات کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ تبھی میجر نے دوبارہ سے ٹینا کو مخاطب کیا اور اسکے پاپا کرنل وشال کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ ٹینا نے بھی اپنے پاپا کی بہادری کے قصے سنانا شروع کیے اور بتانے لگی کہ کیسے اسکے پاپا نے دشمن ملک پاکیشا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بار بار انکو نقصان پہنچایا ہے۔ اور ہر بار وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر کے واپس آجاتے ہیں مگر پاکیشا کی سیکورٹی ایجینسیز کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ پھر ٹینا نے اپنی الماری سے اپنا لیپ ٹاپ نکال لیا اور اسکو آن کر کے اپنے پاپا کی تصویریں دکھانے لگی عمران کو۔ عمران نے بھی ان تصویروں میں انٹرسٹ لینا شروع کر دیا اور کرنل وشال جس کسی تصویر میں بھی نظر آتا وہیں عمران کرنل کے ساتھ موجود لوگوں کے بارے میں ٹینا سے پوچھتا کہ یہ کون ہیں؟ تو ٹینا انکا تعارف کرواتی۔

آگے کہانی میں جہاں جہاں میجر دانش کا تذکرہ ٹینا کے ساتھ آئے گا اسکا نام میجر دانش کی بجائے عمران کے طور پر لیا جائے گ اور اسکے علاوہ ہر جگہ پر میجر دانش کے طور پر ہی لیا جائے گا۔

ایسی ہی تصویریں دیکھتے دیکھتے ایک تصویر پر عمران کا ماتھا ٹھنکا۔ اس تصویر میں کرنل وشال کے ساتھ جو شخص کھڑا تھا عمران اسکو اچھی طرح سے جانتا تھا، مگر اس نے ٹینا کو نہیں بتایا کہ وہ اس شخصیت کو جانتا ہے، عمران نے اب کی بار نارمل رہتے ہوئ مگر تھوڑے تجسس کے ساتھ ٹینا سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے؟؟؟ تو ٹینا نے بتایا کہ یہ پاکیشا کے ایک صوبے کا مکھیہ منتری یعنی وزیرِ اعلی ہے۔ اور یہ اپنے صوبے میں ہندوستانی وچاروں کو پھیلانے میں ہمارا پورا پورا ساتھ دیتا ہے۔ پاپا کی انکے ساتھ بہت اچھی دوستی ہے اور پاپا کہ کہنے پر ہی انہوں نے اپنے صوبے میں پاکیشا سے علیحدہ ہونے کی تحریک کا بھی آغاز کر رکھا ہے، بظاہر تو یہ پاکیشا زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں مگر انہوں نے اپنے قبیلے اور پورے صوبے میں عوام کو تعلیم سے دور رکھا ہے اور وہاں پاکیشا کی بجائے ہندوستان کے پرچم لہرائے جاتے ہیں اسکے علاوہ وہاں گاندھی جی کے وچار بھی عام کیے جارہے ہیں اور وہاں کے لوگ پاکیشا کے قائد کی بجائے گاندھی جی کی تصویریں اپنے کمروں میں لگانا پسند کرتے ہیں۔ ٹینا باتوں باتوں میں جانے انجانے میں عمران کو بہت زیادہ ہی باتیں بتا گئی تھی، کچھ تو عمران کو پہلے سے ہی شک تھا کہ اسکے ملک میں ہونے والی ان تحریکوں میں منگول قبائل کے سرداروں کی بجائے ان سیاستدانوں کا ہی ہاتھ ہے جو اس صوبے کو پاکیشا سے علیحدہ کر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، مگر یہ سیاستدان انہتائی مکاری کے ساتھ ان تحریکوں کا ملبہ منگول قبائل کے سرداروں پر ڈال دیتے ہیں اور اس سے عوام میں مزید نفرت بڑھتی ہے۔ عمران کو اب ساری گیم سمجھ آگئی تھی، گو کہ ٹینا کود بھی نہیں جانتی تھی کہ اسکے پاپا کا اصل مشن کیا ہے، مگر اس وقت ٹینا نے جو کچھ عمران کو بتایا تھا عمران کے لیے یہ سب کرنل وشال کے مشن کو سمجھنے کے لیے کافی تھا۔

اصل میں کرنل وشال پاکیشا کے صوبے ہولستان میں علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دینے کا کام کرنے میں مصروف تھا۔ وہ ان قبائل کے لوگوں میں اندھا دھند پیسے تقسیم کرواتا تھا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ ذہنی طور پر پاکیشا کے خلاف اور ہندوستان کے ساتھ ہونے لگے تھے اور کرنل کا مقصد ان تحریکوں کو بامِ عروج پر پہنچا کر پاکیشا کو اپنے ایک مظبوط بازور سے علیحدہ کرنا تھا۔ اور انہی مقاصد کے لیے کرنل وشال پاکیشا کا دورہ کرتا تھا۔ اور تو اور اس وقت ہولستان کے وزیرِ اعلی ہندوستان کے دورے پر تھا ، عمران یہ بات پہلے سے جانتا تھا کیونکہ پاکیشا سے روانہ ہونے سے پہلے اس نے خبروں میں ہی سنا تھا کہ ہولستان کے وزیرِ اعلی اگلے ہفتے ہندوستان کا دورہ کریں گے جہاں ملکی سلامتی اور ہولستان میں ہندوستانی مداخلت کو رکوانے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
User avatar
sexi munda
Novice User
Posts: 1305
Joined: 12 Jun 2016 12:43

Re: وطن کا سپاہی

Post by sexi munda »


لیکن اصل میں اس دورے کا مقصد مداخلت رکوانا نہیں بلکہ مداخلت کو بڑھانا تھا اور یہ غدارِ وطن ہندوستان کے دورے سے مالی فوائد بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ سب جان کر عمران کے اندر ایک آگ لگ گئی تھی اور اسکا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی جا کر اس غدارِ وطن کا سر تن سے جدا کر دے۔ مگر وہ ایک تربیت یافتہ ایجنٹ تھا جو اپنے غصے پر قابو پانا جانتا تھا، ٹینا کی دی گئی معلومات کو ذہن نشین کرنے کے بعد عمران نے مزید تصاویر دیکھنا شروع کر دیں اور چند تصاویر دیکھنے کے بعد عمران نے ٹینا سے پوچھا کہ کبھی تمہیں تجسس نہیں ہوا کہ تمہارے پاپا کا اصل مقصد کیا ہے؟ وہ پاکیشا کو کس طرح نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟

عمران کی بات سن کر ٹینا نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بولی دل تو بڑا کرتا ہے مگر پاپا کچھ بتاتے ہی نہیں ، ان سے جب بھی پوچھو وہ کہتے ہیں ابھی پڑھائی مکمل کرو، پھر پڑھائی مکمل کر کے آرمی جوائن کرنا تب تمہیں سب کچھ پتا چل جائے گا۔ اب کی بار عمران نے ایک رسک لینے کا فیصلہ کیا اورٹینا سے ایک سوال پوچھ ڈالا، اس سوال سے ٹینا کو عمران پر شک بھی ہو سکتا تھا مگر عمران نے سوچ لیا تھا کہ اب یہی موقع ہے اس غدار وزیرِ اعلی کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کا اور اس موقع کو عمران کسی طور ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ عمران نے ٹینا سے پوچھ لیا کہ کبھی آپ نے اپنے پاپا کا لیپٹ ٹاپ استعمال نہیں کیا؟ اس میں تو معلومات ہونگی انکے مشن کے بارے میں؟ اس پر ٹینا بولی کہ پاپا کا لیپ ٹاپ صرف پاپا ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ انکے لیپ ٹاپ پر بہت زیادہ سیکورٹی ہے، اور کوئی انکے پاسورڈ کو توڑ نہیں سکتا۔

عمران نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر میں انکا پاسورڈ توڑ دوں تو کیا انعام ملے گا مجھے؟؟؟ ٹینا نے بھی مسکراتے ہوئے عمران کی طرف دیکھا اور بولی یہ بچوں کا کام نہیں۔ بھول جاو پاپا کے لیپ ٹاپ کو۔ عمران نے ضد کرتے ہوئے کہا نہیں تم مجھے بتاو اگر تمہارے پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ بریک کر دیا میں نے تو کیا انعام ملے گا۔ ٹینا نے عمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا جو تم مانگو گے۔ عمران نے فوری کہا ٹھیک ہے اگر میں نے تمہارے پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ توڑ دیا تو تم مجھے آرمی میں نوکری دلواو گی اپنے پاپا سے کہ کر۔ تاکہ میں بھی اپنی دیش کی کچھ سیوا کر سکوں ۔ عمران کی بات سن کر ٹینا فوری طور پر راضی ہوگئی اور عمران کو لیکر اپنے پاپا کے کمرے میں لے گئی۔ وہاں جا کر ایک الماری سے ٹینا نے اپنے پاپا کا لیپ ٹاپ نکالا اور عمران کے سامنے ٹیبل پر رکھ دیا، عمران ٹیبل کے سامنے موجود کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹینا کو کہا کے اسے ایک فلیش ڈرائیو یو ایس بی چاہیے۔ ٹینا دوسرے کمرے میں گئی اور 2 منٹ میں ہی ایک یو ایس بی لے آئی۔ عمران نے ٹینا سے یو ایس بی لیکر لیپ ٹاپ کے ساتھ لگائی اور لیپ ٹاپ کو کمانڈ پرامپٹ میں چلا دیا، اسکے بعد عمران نے تیزی کے ساتھ کچھ کمانڈز دینا شروع کیں اور بلیک سکرین پر تیزی کے ساتھ کچھ عبارتیں اوپر کی طرف چلنے لگیں۔ ٹینا اب عمران کی کرسی کے پیچھے کھڑی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سکرین کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ عمران کی انگلیاں تیزی کے ساتھ کی بورڈ پر چل رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد کالی سکرین پر بڑا سارا ایکسیس ڈینائڈ لکھا آگیا۔ ٹینا نے یہ دیکھا تو ہلکی آواز کے ساتھ قہقہ لگایا اور بولی میں نے کہا تھا نہ کہ یہ بچوں کا کام نہیں، مگر عمران نے ٹینا کی بات کا جواب دیے بغیر دوبارہ سے کی بورڈ پر انگلیاں چلانا شروع ہوگیا، مگر دوسری بار پھر سے ایکسیس ڈینائڈ لکھا آیا تو اب کی بار ٹینا تھوڑا زور سے ہنسی اور عمران چھوڑ دو تمہارے بس کا روگ نہیں ہے یہ۔ یہ انڈین آرمی کے کرنل کا لیپ ٹاپ ہے اتنی آسانی سے پاسورڈ بریک ہوجائیں اسکے تو پاکیشا والے ہماری بینڈ نا بجا دیں۔ ابھی ٹینا کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ ٹینا کو لیپ ٹاپ کی سکرین پر لکھا نظر آیا یور پاسورڈ از سیوڈ ان ریموو ایبل ڈیوائس۔ اب کی بار عمران نے مڑ کی ٹینا کی طرف دیکھا، اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی جیسے کہ رہا ہو میں کامیاب ہوگیا اور پاکیشا تم لوگوں کی بینڈ بجا کر ہی رہے گا۔

ٹینا نے غیر یقینی لہجے میں عمران سے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟؟ تو عمران نے کہا تمہارے پاپا کا پاسورڈ اس یو ایس بی میں محفوظ ہوگیا ہے، اب اپنا لیپ ٹاپ لاو، اسمیں لگا و یہی یو ایس بی۔ ٹِنا بھاگ کر گئی اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لائی، عمران نے وہ یو ایس بی ٹینا کے لیپ ٹاپ میں لگائی اور اسمیں موجود ایک فائل کو اوپن کیا جس میں کچھ عجیب سے الفاظ دکھ رہے تھے، ان الفاظ کو نہ تو ٹینا پڑھ سکتی تھی اور نہ ہی عمران۔ عمران نے ان الفاظ کو کاپی کیا اور ایک آن لائن ڈی کوڈنگ کی ویب سائٹ کھول کر ان میں یہ الفاظ پیسٹ کر دیے۔ نیچے ڈی کوڈ کا بٹن تھا عمران نے اس پر کلک کیا تو نیچے بنے ایک باکس میں 1947 پاکیشا ڈیوائڈ 2020 لکھا آگیا۔ عمران نے ٹینا کی طرف دیکھا اور بولا یہ ہے تمہارے پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ۔۔ ٹینا نے ابھی بھی بے یقینی کی کیفیت میں عمران کی طرف دیکھا اور دھیمی آواز میں بولی میں کیسے مان لوں کہ یہ پاسورڈ ہے؟؟؟ عمران نے کرنل وشال کا لیپ ٹاپ آن کیا اور جیسے ہی ونڈوز نے پاسورڈ مانگا عمران نے وہی پاسورڈ جو ڈی کوڈ کیا تھا وہاں درج کر دیا اور اینٹر کا بٹن دبایا تو کرنل وشال کا لیپ ٹان آن ہوگیا۔

ٹینا پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی عمران کو اور کبھی لیپ ٹاپ کو دیکھ رہی تھی، اب عمران نے کرنل کا لیپ ٹاپ بند کیا اور ٹِنا کو پکڑاتے ہوئے بولا یہ واپس رکھ دو، اور کبھی اسکو کھولنے کی کوشش نہ کرنا۔ اسے اپنے پاپا کا لیپ ٹاپ مت سمجھنا یہ ہمارے دیش کا لیپ ٹاپ ہے اور اسمیں ہمارے دیش کے بہت سے راز محفوظ ہونگے اسی طرح دشمن کے بارے میں بھی کچھ ایسی معلومات ہونگی جو کرنل صاحب کبھی نہیں چاہیں گے کہ انکے علاوہ کوئی اور جان سکے۔ اور کیا معلوم تمہیں یا مجھے ان معلومات کا پتہ چل جائے تو ہم اسکو راز رکھ بھی سکیں گے یا نہیں۔ لہذا اسکو وہیں پر رکھ دو اور اس پاسورڈ کو بھی بھول جاو۔ لیکن اپنا وعدہ یاد رکھنا کہ اب تم نے مجھے انڈین آرمی میں نوکری دلوانی ہے۔۔۔ عمران کی بات سن کر ٹینا نے اثبات میں سر ہلایا اور بولی ہاں تم صحیح کہ رہے ہو، میں اس لیپ ٹاپ میں موجود معلومات سے دور ہی رہوں تو بہتر ہے۔ یہ کہتے ہوئے ٹینا نے لیپ ٹاپ واپس الماری میں رکھ دیا اور اپنی فلیش ڈرائیو سے وہ فائل بھی ڈیلیٹ کر دی جس میں کوڈڈ پاسورڈ موجود تھا۔

اسکے بعد ٹینا نے عمران سے ہاتھ ملایا اور بولی تمہاری نوکری انڈین آرمی میں پکی سمجھو، تم انڈین آرمی جوائن کر کے پاکیشا کے سیکورٹی کوڈز کو با آسانی بریک کر سکتے ہو، جب پاپا کو پتا لگے گا کہ تم نے انکا پاسورڈ بریک کر دیا تو وہ تمہیں ضرور نوکری دلوائیں گے۔ ٹینا کی بات سن کر عمران بولا اگر تمہارے پاپا کو یہ پتا چلا تو وہ مجھے نوکری نہیں دلوائیں گے یمراج کے پاس بھجوا دیں گے مجھے گردن کٹوا کر۔ بھول کر بھی انہیں یہ نا بتانا۔ میں خود ہی انہیں اپنی آئ ٹی معلومات کے متعلق بتاوں گا تو انکو میرے انٹرویو سے اندازہ ہوجائے گا کہ میں کس قابل ہوں۔ پھر وہ مجھے انڈین آرمی کی خفیہ ایجنسی میں بھی نوکری دلوادیں گے بس مجھے کوئی ایسا شخص چاہیے جو میری مدد کر سکے۔ میرے پاس کوئی ڈگری نہیں اس لیے کہیں جاب نہیں لے سکتا، مگر مجھے آئی ٹی کا شوق ہے او رمیں نے خود سے ہی بہت سی چیزیں سیکھی ہیں جو بہت سے ڈگری والوں کو بھی نہیں پتا ہونگی۔ اب تم اگر چاہو تو میری زندگی سنور سکتی ہے۔

عمران کی چکنی چپڑی باتوں میں ٹینا کو سچائی نظر آرہی تھی۔ ٹینا کی جان بچانے کا احسان ٹینا کو اب مجبور کر رہا تھا کہ وہ بھی عمران کی مدد کر کے اس احسان کو اتار سکے، اور عمران کے اس کارنامے کے بعد تو اس نے مسمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہ لازمی عمران کی مدد کرے گی۔ اب عمران اور ٹینا کرنل وشال کے کمرے سے نکلے اور واپس ٹینا کے کمرے میں چلے گئے۔ عمران کی چال میں ابھی بھی ہلکی ہکی تکلیف تھی وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا، ٹینا نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور عمران کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ ٹینا نے عمران کو گرم دودھ کا ایک بڑا گلاس لا کر دیا اور کہا یہ پی لو تمہاری طبیعت بہتر ہوجائے گی اس سے۔ عمران نے غٹا غٹ پورا دودھ کا گلاس خالی کر دیا، اسکو اس وقت خوراک کی شدید ضرورت تھی بھوک بھی تھی اور خون بہنے کی وجہ سے تھوڑی کمزوری بھی فیل ہورہی تھی۔ عمران نے بلا جھجک ٹینا کو اپنی بھوک کے بارے میں بتایا تو ٹینا کچن میں سے کچھ پھل لے آئی اور کاٹ کاٹ کر عمران کو کھلانے لگی۔ عمران کو بھی اتنی خوبصورت لڑکی سے اپنی خدمت کروانے کا مزہ آرہا تھا وہ بھی آرام سے اپنی خدمت کرواتا رہا۔

پھل کھانے کے بعد ٹینا نے عمران سے پوچھا اور کچھ چاہیے؟؟؟ تو عمران نے کہا میرے پورے جسم میں بہت درد ہورہی ہے، اگر باہر سے کسی گارڈ کو یا ملازم کو بلا دو تھوڑا تیل لگا کر میری مالش کر دے گا تو مجھے سکون مل جائے گا۔ یہ سن کر ٹینا بولی اس میں ایسی کونسی بات ہے میں کر دیتی ہوں۔ عمران نے کہا نہیں نہیں ٹینا جی آپ رہنے دیں، مجھے اچھا نہیں لگے گا آپ کسی ملازم کو کہ دیں۔ ٹینا نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اب آپ تم غیر نہیں ہو، تم نے میری جان بھی بچائی ہے اور تم ایک قابل شخص ہو تو مجھے بھی تھوڑا موقع دو اپنی خدمت کا۔ یہ کہ کر ٹینا اپنے کمرے میں اٹیچ باتھ روم میں تیل لینے چلی گئی جبکہ عمران کے دل میں خوشی سے لڈو پھوٹنے لگے۔

ٹینا باتھ روم سے تیل کی شیشی لے آئی اور عمران کے ساتھ ہی بیڈ پربیٹھ گئی اور عمران کو الٹا لیٹنے کو کہا۔ عمران نے مروت کے طور پر ایک بار پھر سے ٹینا کو کہا کہ وہ رہنے دے مگر ٹینا تو اب دل سے عمران کی خدمت کرنا چاہتی تھی اس نے خود عمران کی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے اور ایک ایک کر کے سارے بٹن کھول دیے۔ پھر اس نے عمران کو شرٹ اتارنے کا کہا تو عمران اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنی شرٹ اتار دی، شرٹ اتار کر اس نے اپنی بنیان بھی اتار دی اور الٹا ہوکر لیٹ گیا جب کہ ٹینا عمران کا سینہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ عمران کی سِکس پیک باڈی کسی بھی لڑکی کو اپنی جانب کھینچنے کے لیے کافی تھی اور ٹینا بھی پہلی ہی نظر میں اسکی باڈی دیکھ کر دیوانی ہوگئی تھی۔ ٹینا کی اجے کے ساتھ اچھی دوستی تھی اور وہ اسکے ساتھ بہت بار سیکس بھی کر چکی تھی مگر اسکی باڈی عمران کے مقابلے میں ایسے ہی تھی جیسے پہاڑ کے سامنے ایک پتھر۔

عمران جب الٹا ہوکر لیٹ گیا تو ٹینا اسکے برابر گھٹوں کے بل بیٹھ گئی اور اسکی کمر پر شیشی سے تیل گرانے لگی۔ کندھوں سے لیکر کمر کے نچلے حصے تک تیل گرانے کے بعد ٹینا نے شیشی ایک سائیڈ پر رکھ دی اور اپنے نرم نرم ہاتھوں سے تیل کو عمران کی پیٹھ پر مسلنے لگی۔ ٹینا کے ہاتھوں کے لمس سے عمران کو سرور ملنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ اتنی خوبصورت اور جوان لڑکی سے مساج کروانے کا موقع مل رہا ہے۔

ٹینا نے تیل عمران کی کمر پر مسلنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے عمران کی کمر پر مساج شروع کیا، وہ عمران کے کندھوں سے اپنی انگلیوں کے پنجوں کو دباتی اور رگڑتی ہوئی کمر کے نچلے حصے تک لے آتی، پھر نچلے حصے پر ہتھیلی کا نچلہ حصہ رکھتی اور رگڑتی ہوئی اوپر کندھوں تک رکھتی۔ ٹینا کے نرم نرم ہاتھوں کا لمس پا کر عمران کو اپنے جسم میں گد گدی ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ گو کہ ٹینا مساج کرنے میں مہارت نہیں رکھتی تھی مگر پھر بھی وہ کوشش کر رہی تھی کہ وہ اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے عمران کو سکون پہنچا سکے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی تھی۔ البتہ عمران کی پینٹ میں موجود لن کی بے چینی بڑھنے لگی تھی۔ گو کہ عمران کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر جب اتنی خوبصورت اور گرم لڑکی آپکی کمر کا مساج کر رہی ہو تو لن کہاں سکون سے بیٹھ سکتا ہے۔ عمران کا لن بھی اب اسے مجبور کرنے لگا تھا کہ وہ ٹینا کے جسم سے اپنی گرمی کو مٹائے مگر وہ اپنے اوپر کنٹرول کر رہا تھا، البتہ اسکی لذت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد ٹینا اپنی جگہ سے اٹھی اور عمران کے کولہوں سے کچھ نیچے اسکے اوپر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئی۔ ٹینا کا اپنا دل بھی عمران سے سیکس کرنے کے لیے مچل رہا تھا، وہ کوئی دودھ پیتی بچی تو نہ تھی کہ ایک جوان مرد کے ساتھ اکیلی ہو اور اسکی اتنی سیکسی باڈی دیکھ کر اسکا دل نا مچلے۔ ٹینا کا دل کر رہا تھا کہ عمران اسکو اپنی بانہوں میں بھر کر اپنے مضبوط سینے سے لگا لے جہاں ٹینا کو تحفظ کا احساس ہو اور اسکی جسمانی ضرورت بھی پوری ہو سکے۔ مگر وہ کھل کر اسکا اظہار نہیں کر پا رہی تھی، ٹینا عمران کے اوپر بیٹھی تو عمران کو ایک جھٹکا لگا اس نے اپنی گرند گھما کر ٹینا کی طرف دیکھا اور ذرا شرماتے ہوئے بولا ارے ٹینا جی یہ آپ کیا۔۔۔۔۔۔ ٹینا نے کہا فکر نہیں کرو تمہیں مزہ آئے گا، یہ کہ کر ایک بار پھر ٹینا عمران کی کمر کا مساج کرنے لگی اب کی بار ٹینا کے ہاتھوں میں پہلے سے زیادہ مزہ تھا، وہ بہت نرمی کے ساتھ عمران کی کمر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ اب ٹینا کا انداز مساج کرنے کا کم اور اسکو جنسی سکون پہنچانے کی نیت زیادہ تھی۔

عمران نے بھی ٹینا کے ہاتھوں سے ملنے والے سرور کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا ساتھ ساتھ اسکا ذہن اسکو بتا رہا تھا کہ ٹینا اس وقت کس موڈ میں ہے۔ اسکے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ایسے ہی ہونے دے اور ٹینا کو مزید آگے بڑھنے دے یا اسے یہیں پر روک دے۔ ایک طرف اسے کرنل وشال کے گھر میں داخل ہونے کا مقصد کہ رہا تھا کہ ٹائم ضائع کیے بغیر اپنا کام کرے دوسری طرف ایک گرم اور جوان لڑکی کی جنسی کشش تھی جو عمران کے لن کے ذریعے عمران کو مجبور کر رہی تھی کہ اپنا فرض بھلا کر اس لڑکی کے جسم سے کچھ دیر کھیلا جائے اور سکون حاصل کیا جائے۔ ٹینا اب بہت زیادہ گرم ہوتی جا رہی تھی۔ وہ نا صرف عمران کی کمر کا مساج کر رہی تھی بلکہ اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں دبا کر ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکال رہی تھی جسکا مقصد عمران کو اپنی طلب کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔ عمران نے محسوس کر لیا تھا کہ ٹینا اب رکنے والی نہیں اس لیے اس نے ٹینا کو روکنے کے لیے ٹینا کو اپنے اوپر سے نیچے اترنے کا کہا۔

ٹینا نے کہا نہیں ابھی مزید مساج کروا لو، مگر عمران نے کراہتے ہوئے کہا ٹینا جی آپ میری ٹانگ کے زخم پر بیٹھی ہیں مجھے وہاں درد محسوس ہورہا ہے۔ عمران کی بات سن کر ٹینا کو احساس ہوا کہ واقعی وہ اس وقت عمران کے زخم کے اوپر بیٹھی تھی، وہ فورا اچھل کر عمران کے اوپر سے اتر گئی اور عمران نے موقع غنیمت جانا اور سیدھا ہوکر لیٹ گیا تاکہ دوبار ٹینا عمران کے اوپر آکر اسکو ورغلانے کی کوشش نہ کر سکے۔ مگر عمران کی یہ حرکت اسکے خلاف ہی چلی گئی۔ عمران جیسے ہی سیدھا ہوا ٹینا کی نظریں عمران کے مضبوط اور کشادہ سینے سے ہوتی ہوئیں اسکی پینٹ تک چلی گئیں جہاں عمران کا لن کافی حد تک کھڑا ہو چکا تھا ٹینا کے ہاتھ کا ہلکا سا لمس اب اسکو پوری طرح کھڑا کر سکتا تھا۔ ٹینا کی نظریں عمران کی پینٹ پر جا کر رک گئیں تھیں۔ عمران نے فوری محسوس کر لیا کہ یہ تو معاملہ الٹ ہوگیا۔

اب عمران نے اپنا ایک بازو پکڑا اور اسکو پکڑ کر کراہنے لگا۔ ٹینا کی نظریں اب عمران کے ادھ کھڑے لن سے ہٹیں اور اس نے عمران سے پوچھا کیا ہوا تو عمران نے کہا بس بازو میں بھی درد محسوس ہورہا ہے۔ ٹینا نے اب کی بار عمران کا بازو پکڑا اور دبانے لگی۔ عمران نے منع کیا مگر ٹینا نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسکو خاموش ہونے کا اشارہ کیا، ٹینا کی آنکھوں میں ایک عجیب سا نشہ تھا اور وہ عمران کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ محبت سے زیادہ ٹینا کی نظروں میں ہوس تھی تو غلط نہ ہوگا۔ عمران مجبورا ایک بار پھر خاموش ہوکر لیٹا رہا۔ ٹینا نے عمران کا بازو اٹھایا اور اسکا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ دیا اور اسکے بازو کی ہاتھ سے لیکر کندھے تک ہلکی ہلکی مالش کرنے لگی۔

عمران کے بازو کی مالش کرتے ہوئے ٹینا نے ایک بار اپنا دایاں ہاتھ عمران کے سینے پر رکھا اور سینے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکی ناف تک لے آئی اور عمران کی طرف دیکھتی ہوئی نشیلی آواز میں بولی تمہاری باڈی تو بہت خوبصورت ہے۔ کونسے جم میں جاتے ہو؟؟ عمران نے کہا ٹینا نے ہم جیسے غریب لوگوں کے نصیب میں جِم نہیں ہوتے، یہ تو محنت مزدوری ہے جو باڈی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ٹینا نے ایک بار پھر عمران کو نشیلی نظروں سے دیکھا اور اپنا نچلا ہونٹ اپنے دانتوں میں لیکر دبانے لگی، یہ عمران کے لیے واضح اشارہ تھا کہ ٹینا کی چوت عمران کے لن کے لیے بے تاب ہورہی ہے۔ مگر عمران ابھی تک اپنے آپ کو روکے ہوئے تھا کیونکہ اسکا اصل مقصد کچھ اور تھا جسکے لیے وہ کرنل وشال کے گھر میں آنے کا خطرناک پلان بنا چکا تھا اور اس پر عمل بھی شروع تھا، اب جب منزل قریب تھی تو ٹینا عمران کو اسکے مقصد سے دور لے جارہی تھی۔

ٹینا نے اب عمران کے بازو کو دوبارہ سے دبانا شروع کیا، مگر اس بار اس نے عمران کا ہاتھ اپنے کندھے سے اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور خود ہی اسکے ہاتھ کو سینے سے پھیرتی ہوئی اپنی کلیویج پر لیجا کر روک لیا اور دوبارہ سے عمران کے بازو کو ہلکے ہلکے دبانے لگی۔ عمران کی انگلیاں ٹینا کے گرم گرم سینے پر تھیں جبکہ اسکی ہتھیلی ٹینا کی کلیویج پر تھی، ٹینا کے مموں کا ابھار اور بیچ میں بننے والی لائن تو شروع سے ہی عمران کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی مگر اب اسکا ہاتھ ٹِنا نے خود اپنی کلیویج پر رکھا تو عمران کی پینٹ میں موجود لن بھی ہمت ہار گیا اور پوری طرح کھڑا ہوکر دعوتِ نظارہ دینے لگا۔ ٹینا کی نظریں بھی عمران کی پینٹ میں ہونے والی حرکات کو دیکھ چکی تھی اور اسکی چوت اب گیلی ہوچکی تھی ٹینا جانتی تھی کہ اب عمران مزید انکار نہیں کر سکتا اور ابھی کچھ ہی دیر میں ٹینا اپنی چوت عمران کےلن پر رکھ کر اسکے مضبوط لن پر سواری کر رہی ہوگی۔

مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ پاکیشا کے فرزند اور آئی ڈی آئی کے ایجینٹس کے لیے سب سے مقدم اپنے فرض کی تکمیل ہوتی ہے، کسی بھی لڑکی کا جسم یا کوئی اور لالچ پاکیشا کے ایجنٹس کو اپنے فرض سے نہیں روک سکتی۔ عمران نے اب فیصلہ کر لیا تھا کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کرنا ہے بعد میں موقع ملا تو وہ اس گرم حسینہ کی گرمی بھی نکال دے گا۔ عمران اب اٹھ کر بیٹھ گیا اور ٹینا کو اپنے قریب آنے کا کہا۔ ٹینا فوری اپنی جگہ سے آگے بڑھی اور ایک بار پھر عمران کے اوپر اسکی گود میں آکر بیٹھ گئی۔ جیسی ہی ٹینا عمران کی گود میں بیٹھی اسکو اپنی چوت کے اوپر عمران کے لن کی سختی محسوس ہونے لگی۔ ٹینا اس سختی کو محسوس کرتے ہوئے اپنا پورا وزن لن کے اوپر دے کر اسکے لن پر بیٹھ گئی۔ جس سے ٹینا کی چوت پر عمران کے لن کا پریشر بڑھنے لگا اور ایک بار پھر عمران اپنے اصل ارادوں میں کمزوری محسوس کرنے لگا۔ جب اتنی گرم چوت لن کے اوپر ہو تو بڑے بڑے اپنے فرض سے غفلت برت جاتے ہیں۔

ٹینا اب عمران کے اوپر جھک گئی اور اپنے ہونٹ عمران کے ہونٹوں پر رکھ کر انکو چوسنے لگی۔ عمران نے بھی اپنے ہاتھ ٹینا کے چوتڑوں پر رکھے اور اسکے نرم نرم گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں کو ہاتھ میں لیکر دبانے لگا۔ ٹینا اب عمران کے لن سے اوپر اٹھی اور عمران کے اوپر جھک گئی اسکے چوتڑ اب ہوا میں ہل رہے تھے جن پر عمران اپنے ہاتھوں سے تھپڑ مار رہا تھا اور ٹینا اپنی زبان عمران کے منہ میں داخل کر کے اسکی زبان کو چوس رہی تھی۔ ٹینا کی یہ گرمی عمران کو بھی گرم کیے جا رہی تھی اور وہ مکمل طور پر بہک رہا تھا۔ مگر وطن کی محبت ایک بار پھر سے جاگی اور اس نے ایک لمحے میں ٹینا سے چھٹکارا پانے کا سوچا۔ عمران نے اپنا ہاتھ ٹِنا کے چوتڑوں پر رکھ کر انکو زور سے دبایا اور پھر اپنا ہاتھ ٹینا کی کمر پر پھیرتا ہوا اسکی گردن تک لے آیا، دونوں ہاتھ سے ٹینا کی گردن پکڑ کر عمران نے ٹینا کے ٹینا کے گلاب جیسے رسیلے ہونٹوں پر ایک محبت بھری پرزور کس کی اور ٹینا کی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا جس سے ٹینا کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا اور وہ چند سیکنڈ میں ہی عمران کے اوپر ڈھے گئی۔

ٹینا بے ہوش ہو چکی تھی، عمران نے بے ہوش ٹینا کے لبوں پار ایک بار پھر زور سے کس کی اور اسکے مموں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اسکے مموں کا سائز ناپا اور پھر اسکو ایک سائڈ پر لٹا کر بیڈ سے نیچے اتر آیا۔ بیڈ سے نیچے اتر کر اس نے ٹینا کے بیڈ کے نیچے ہاتھ کیا اور وہاں سے ایک چھوٹی سی یو ایس بی نکال لی۔ یہ یو ایس بی عمران اپنی پینٹ کی جیب میں رکھ کر آیا تھا جسکا سائز بہت ہی چھوٹا تھا، اور جب ٹینا نے عمران کو ابتدائی طبی امداد دی تھی تب عمران نے ٹینا سے نظریں بچا کر یہ یو ایس بی بیڈ کے نیچے پھینک دی تھی۔ عمران نے یہ یو ایس بی اٹھائی اور جلد ہی کرنل وشال کے کمرے میں پہنچ کر اسکا لیپ ٹاپ آن کر لیا۔ پاسورڈ تو وہ پہلے ہی معلوم کر چکا تھا اب وہ اسکے لیپ ٹاپ کی تلاشی لینے لگا۔ کچھ ہی دیر میں عمران کو بہت سے راز ملنے لگے، بہت سی فائلز تھیں جن میں پاکیشا کے خلاف ہونے والی سازش کا ذکر موجود تھا کہ کیسے پاکیشا کو 2 حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ کرنل کا یہ منصوبہ سن 2020 میں پاکیشا کو اپنے صوبے ہولستان سے علیحدہ کرنے کا تھا جسکے لیے وہ زور و شور سے کام کر رہا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ اس میں پاکیشا کی کچھ بڑی شخصیات کا بھی ذکر تھا جو مختلف شہروں اور صوبوں میں طاقت رکھتے تھے۔ پاکیشا کے ہر صوبے میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت موجود تھی جو کرنل وشال کو خفیہ معلومات فراہم کرتی تھیں اور کرنل وشال کے مقاصد کو پورا کرنے میں اسکی مدد کرتی تھیں۔ اسکے ساتھ ہی کچھ ایسی فائلز بھی موجود تھیں جن میں پاکیشا کی ان با اثر شخصیات کے کچھ اہم راز موجود تھے۔ ان میں بہت سی شخصیات کی تصاویر بالی ووڈ کی مشہور اداکاراوں کے ساتھ تھیں۔

پاکیشا کی کچھ با اثر شخصیات بالی ووڈ حسیناوں کے جسم سے لطف اندوز وہ رہی تھیں اور انکے جسم کے بدلے اپنے وطنِ عزیز کی عزت و آبرو بیچنے پر بھی راضی تھیں۔ عمران سمجھ گیا تھا کہ ان شخصیات کو پہلے بالی ووڈ کی حسیناوں کے جسم پیش کیے گئے ہونگے اور جب وہ ان حسیناوں کے جسم کی گرمی سے لطف اندوز ہورہے تھے تو انکی تصاویر کھینچ لی گئی ہونگی اور انہی تصاویر اور کچھ دوسرے کرپشن کے کیسیز کی مدد سے ان کو بلیک میل کیا جاتا ہوگا تاکہ وہ کرنل وشال کے منصوبے پر عمل کرنے میں اسکا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائیں۔

عمران نے یہ سارا ڈیٹا اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا اور ساتھ ہی اس منصوبے میں شریک ہندوستانی شخصیات اور آرمی کے آفیسرز کی لسٹ بھی محفوظ کر لی تھی۔ اس منصوبے کی تمام تر تفصیلات محفوظ کرنے کے بعد عمران نے مزید سرچنگ کی تو اسے ہولستان کے مکھیہ منتری کے ہندوستان میں شیڈیول کے بارے میں بھی پتہ لگ گیا کرنل وشال نے اسکا پورا ٹور اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کر رکھا تھا جسکے مطابق کل صبح مکھیہ منتری نے انڈیا کے مشہور شہر گوا جانا تھا۔ یہ شہر اپنے ساحلِ سمندر کے حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ ساحلِ سمندر پر قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ یہاں بہت سی خوبصورت حسینائیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ مکھیہ منتری کے گوا جانے کے بارے میں جا ن کر عمران سمجھ گیا کہ اسکا وہاں پھر کسی حسینہ کے ساتھ عیاشی کا پروگرام ہے۔

عمران نے فوری فیصلہ کیا کو وہ بھی گوا جائے گا اور اپنے وطنِ عزیز کے اس غدار کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرے گا۔ لیپ ٹاپ سے مزید ڈیٹا محفوظ کرنے کے بعد عمران نے لیپ ٹاپ دوبارہ سے بند کر دیا اور دوبارہ اسی جگہ پر رکھ دیا جہاں سے اس نے اٹھایا تھا۔ اس ساری کاروائی میں عمران نے کسی بھی چیز کو اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوا بلکہ اس نے ایک کپڑا ہاتھوں میں پکڑ رکھا تھا جس کی مدد سے وہ الماری بھی کھول رہا تھا اور لیپ ٹاپ بھی استعمال کر رہا تھا۔ اس کاروائی کے بعد عمران نے احتیاط کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے وہ کپڑا الماری پر اور لیپ ٹاپ پر پھیرا تاکہ کمرے سے اپنے فنگر پرنٹس مٹائے جا سکیں۔

یہ سارا کام کرنے کے بعد عمران واپس ٹینا کے کمرے میں آیا جہاں ٹِنا بے سدھ لیٹی ہوئی تھی، عمران نے ایک نظر ٹینا پر ڈالی جو اس وقت ایک حسین پری کی طرح لگ رہی تھی، عمران نے ٹِنا کو تھوڑا سا سائیڈ پر کیا ، اپنے لیٹنے کے لیے جگہ بنائی اور اسکے بعد ٹینا کے سینے پر ہاتھ رکھ کر لیٹ گیا۔ عمران جانتا تھا کہ اب ٹینا جلدی ہوش میں نہیں ائے گی کم سے کم 2 گھنٹے وہ بے ہوش رہے گی۔ عمران نے سونے سے پہلے اپنی یو ایس بی بیڈ کے میٹریس کے نیچے چھپا دی اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں عمران کو بھی نیند آگئی تھی۔

صبح 11 بجے کے قریب انٹر کام کی گھنٹی بجی تو ٹینا کی آنکھ کھلی ، ٹینا نے ریسیور اٹھا کر ہیلو کہا تو آگے سے گارڈ نے بتایا کہ باہر کیپٹن مکیش صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ ٹینا نے کہا انکو مہمانوں والے کمرے میں بٹھاو میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔ یہ کہ کر ٹینا نے فون بند کر دیا اور اپنے ساتھ لیٹے عمران کو پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگی، اسکے جسم پر ابھی تک قمیص نہیں تھی۔ ٹینا نے اسکے سینے پر اپنا ہاتھ پھیرا اور جھک کر اپنے لب اسکے سینے پر رکھ دیے۔ ٹینا رات ہونے والے مختصر سے سیکس کو یاد کر رہی تھی۔ اسکو جب ہوش آیا تو اس نے دیکھا تھا کہ عمران اسکے سینے پر ہاتھ رکھے سورہا تھا، تب ٹینا سوچنے لگی تھی کہ رات سیکس کرتے کرتے اچانک اسکو نیند کیوں آگئی تھی، شاید رات بھر کی تھکن اور اغوا ہونے کے خوف نے ٹینا کو نڈھال کر دیا تھا یہی وجہ تھی کہ ٹینا کو فوری نیند آگئی۔ تب ٹینا بستر سے اٹھی اور اسنے اپنے کپڑے اتار کر نائٹ گاون پہن لیا تھا اور دوبارہ سے عمران کے پہلو میں آکر لیٹ گئی تھی۔ گوکہ اسکا جسم ابھی بھی عمران کے لن کی طلب کر رہا تھا مگر وہ عمران کو تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لی وہ چپ چاپ عمران کے پہلے میں لیٹ گئی اور اپنی ایک ٹانگ عمران کے اوپر رکھ کر سوگئی تھی۔

اب صبح ہونے پر انٹر کام کی آواز سے آنکھ کھلی تو اسکو ایک بار پھر عمران پر پیار آرہا تھا۔ جب ٹینا نے عمران کے سینے پر کس کی تو عمران کی بھی آنکھ کھل گئی تھی۔ اس نے جواب میں ٹینا کے لبوں پر ایک کس کی اور دوبارہ سے آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا، وہ شاید ابھی مزید سونا چاہتا تھا۔ یہ دیکھ کر ٹینا اٹھی اور کیپٹن مکیش سے ملنے چلی گئی۔ مکیش کرنل وشال کے کہنے پر ٹینا کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا اور ساتھ ہی وہ اس لڑکے سے بھی ملنا چاہتا تھا جس نے ٹینا کی جان بچائی ۔ ٹِنا نے اپنی خیریت کے بارے میں کیپٹن کو آگاہ کیا اور عمران کے بارے میں بتا دیا کہ وہ ابھی سو رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ کیپٹن کو فارغ کر کے واپس کمرے میں آئی تو اب عمران بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ٹینا کا انتظار کر رہا تھا۔ ٹینا کی غیر موجودگی میں وہ گوا جانے کا پلان بنا چکا تھا مگر اس پلان میں تانیہ کا ساتھ ہونا بھی ضروری تھا۔ اور اس وقت عمران کے پاس موبائل نہیں تھا، کیپٹن مکیش کا موبائل ٹینا کو بچاتے ہوئے وہیں گر گیا تھا ، عمران کو اس وقت جلدی میں پتا نہیں لگا مگر ٹینا کے گھر آکر اسکی غیر موجودگی میں جب اس نے موبائل نکالنا چاہا تو اسکی جیب میں موبائل نہیں تھا، تب اس نے سوچا کہ شاید موبائل کہیں گرگیا ہوگا ان غنڈوں سے لڑتے ہوئے۔

عمران نے سوچا کہ تانیہ سے رابطہ کے لیے ٹینا کا موبائل استعمال کیا جائے مگر پھر یہ سوچ کر اپنا ارادہ ترک کر دیا کہ اس میں خطرہ ہو سکتا ہے ۔ ٹینا واپس آئی تو عمران نے بانہیں پھیلا کر ٹینا کو اپنے پاس بلایا۔ وہ بھی بلا جھجک عمران کے بانہوں میں چلی گئی اور اسکے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔ عمران نے ٹینا کے بالوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور بولا رات تمہیں کیا ہوگیا تھا؟؟؟ تم نے تو میری بری حالت کر دی تھی۔ ٹینا نے عمران کی طرف سر اٹھا کر شرمیلی نظروں سے دیکھا اور بولی بس تمہارا جسم دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے ہمیشہ ایسے ہی جیون ساتھی کی خواہش کی تھی جو نہ صرف قابل شخص ہو بلکہ ایک بہترین مرد بھی ہو جو مجھے تحفظ بھی دے سکے اور میری ضروریات کو بھی پورا کر سکے۔ اور تمہارے اندر یہ تمام خوبیاں موجود ہیں، رات تم نے مجھے غنڈوں سے بچایا، مجھے میرے گھر تک پہنچایا، پھر تم نے جس طرح پاپا کے لیپ ٹاپ کا پاسورڈ بریک کیا وہ ہمارے بڑے بڑے ائی ٹی ماہرین بھی نہیں کر سکتے، تم اس قابل ہو کہ تمہیں آرمی میں جاب دی جائے اور مجھے امید ہے کہ تم میری ضروریات کا بھی خیال رکھ سکتے ہو۔
Post Reply