Sarfaroshi سرفروس کی تمنا

User avatar
rajsharma
Super member
Posts: 15829
Joined: 10 Oct 2014 07:07

Re: Sarfaroshi سرفروس کی تمنا

Post by rajsharma »


باہر آ کر میں نے بائک اسٹارٹ کی اور عاصم کے گھر کی طرف چلا ۔۔اسپیڈ تیز تھی ۔۔دس منٹ میں گھر کے سامنے تھا ۔۔۔بائک باہر روک کر اندر گھس گیا ۔۔عاصم اب تک نہیں آیا ۔۔۔۔رات جس کمرے میں سویا تھا ۔۔اسے چھوڑ کر باقی کمروں کی تلاشی لینے لگا۔۔۔اور حسب توقع ایک خفیہ خانہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا ۔۔میری مرضی کے مطابق سامان بھی موجود تھا ۔۔۔میں نےجلدی سے سامان اٹھا کر ایک بیگ میں بھرا ۔۔۔ہتھیار کے نام پر ایک شکاری چاقو ملا اسے بھی ٹانگ سے باندھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔بھاگتا ہوا باہر آیا ۔۔۔اور بائک لے کر مندر کی طرف چل پڑا۔۔۔بائک مندر سے کچھ دور چھوڑ کر پیدل آگے بڑھ گیا۔۔اور تیز قدموں سے چلتا ہوا مندر کے پیچھے پہنچ گیا ۔۔ایک بڑا درخت یہاں موجود تھا ۔۔میں نے دائیں بائیں دیکھا اور تیزی سے اوپر چڑھتا گیا ۔۔۔۔بیگ میری پشت سے بندھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں درخت کی آخری اونچائی پر پہنچ گیاتھا ۔۔مندر کی تیسری منزل تھی ۔۔جب میں کود کر مندر کی چھت پر پہنچا تھا ۔۔۔لیٹے لیٹے میں آگے بڑھنے لگا۔۔یہ سرخی مال ٹائل ٹائلوں سے بنی ہوئی چھت تھی ۔۔جو دو سائیڈوں ترچھی بنی ہوئی تھی ۔۔۔جلد ہی میں حصے پر پہنچ چکا تھا جہاں لالچی پجاری نے مجھے اشارہ کیا تھا ۔۔۔میں لیٹے لیٹے اس چھت کا جائزہ لینے لگا۔۔ایک ٹائل مجھے کچھ اکھڑی ہوئی لگی تھی ۔۔۔۔میں کھسکتا ہوا قریب گیا ۔اور اسے آہستگی سے اٹھانے لگا۔۔میں نے ٹائل آہستہ سے اٹھا کر اندر آنکھ لگانے کی کوشش کی ۔۔۔اور کامیاب بھی ہوا ۔۔۔اندر بڑا پجاری ایک ٹانگ پر کھڑا پوجا میں مصروف تھا ۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭

پجاری کا ایک پاؤں بیڈ پر تھا ۔۔دوسرا زمیں پر ٹکا ہوا تھا ۔۔اگلے حصےمیں دھوتی کھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور بیڈ پر گھوڑی بنی ایک لڑکی آہیں بھر رہی تھی ۔۔۔اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔۔چوتڑ خوب نمایاں اور گول تھے ۔۔۔۔میں کچھ دیر دیکھتا رہا پھر ٹائل کے نیچے ایک پتھر رکھ کر سیدھ ہو گیا ۔۔اب یہ لڑکی کوئی داسی تھی یا عقید ت مندوں میں سےتھی ۔۔۔۔پجاری کی تصویر دیکھ جس جسم کا میں نے اندازہ لگایا تھا۔۔۔یہ پجاری ویسا ہی تھا۔۔۔میں آدھے گھنٹےتک ایسے ہی لیٹا رہا تھا ۔۔۔کہ مجھے دروازہ کھلنے بند ہونے کی آواز آئی ۔۔۔ٹائل کھلی ہوئی تھی۔۔۔میں نے دو تین ٹائلیں اسی طرح اور اکھاڑی اور پہلے بیگ پھینکا ۔۔ساتھ ہی خود ہی کود پڑا۔۔۔12 سے 15 فیٹ کی یہ اونچائی زیادہ نہیں تھی ۔۔۔جمپ کے ساتھ ہی میں قلابازی کھاتا ہوا پجاری کے بیڈ کی طرف گیا تھا ۔۔جو حیرانگی سے بیگ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔قلابازی کھاتے ہوئے میں چاقو نکال چکا تھا ۔۔اور اب یہ چاقو پجاری کے گلے پر رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔کوئی آواز نہیں ۔۔۔۔میری سرد آواز نکلی تھی ۔۔نام کیا ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔۔

وشنو سرکار ۔پجاری گھگیارا تھا ۔۔۔اب پتا نہیں سرکار نام کا حصہ تھا یامجھے کہ رہا تھا۔۔

خاموش رہو گے تو جان بچی رہے گی ۔۔۔ورنہ اسی چاقو سے گلہ کاٹ کر تمہار ی بھینٹ چڑھاؤں گا۔۔۔میں نےجلدی سےساتھ رکھا پرانا کپڑا اٹھا یا ۔۔جس سے پجاری نے گند صاف کیا تھا ۔۔اور اس کے منہ میں ٹھونس دیا ۔۔۔بیگ سے رسی لے کر میں اسے باندھنے لگا۔۔۔اور بیگ لئے آئینہ کے سامنے آ بیٹھا ۔۔۔۔۔میک اپ کا سامان میرے سامنے تھا ۔چہرے کے ساتھ میں نے پیڈنگ کی مد د سے اپنے جسم کے مختلف حصوں کو بھی بھاری بنایا ۔۔۔یہ سب مجھے عاصم کے گھر سے سامان ملا تھا ۔۔۔۔۔ ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے چل رہے تھے ۔۔۔میک اپ سے فارغ ہو کر پجاری کے کپڑے اتارنے لگا۔۔۔اس کا رخ دیوار کی طرف کر کے میں نے اس کے کپڑے پہن لئے ۔۔۔دھوتی کے اوپر ایک گیروے رنگ کی چادر تھی ۔ ۔۔منکے اور مالائیں اتار کر پہنی ۔۔۔ہاتھ میں بڑی بڑی انگوٹھی پہن کر میں ویسا ہی دکھ رہا تھا ۔۔آنکھوں میں گہرے سرمے کی تہہ جمائی ۔۔۔۔۔۔اور آئینہ کی طرف بڑھا ۔۔۔۔میک اپ مکمل تھا ۔۔۔۔اس کے بعد ایک بڑے اسٹول کو گھسیٹا۔۔۔الماری کو قریب لا کر ٹائل کے نیچے کیا ۔۔۔اور ٹائلز برابر کر کے رکھ دیں ۔۔۔۔وشنو سرکار سے مزید معلومات لینے کے بعد اسے بیڈ کے نیچے شفٹ کر دیا ۔۔۔۔۔اس کا آئی فون برابر میں رکھا تھا ۔۔۔جس میں مختلف بلیو پرنٹ مویز کے ساتھ بھجن اور اشلوک کی ریکارڈنگز تھی ۔۔۔میں نے وہ سنی اور بھاری آواز بنا کر پریکٹس کرنے لگا۔۔۔۔اتنے میں دروازے پر دستک دی ۔۔میں نے موبائل سائیڈ پر رکھا اورزور سے کھنکارا ۔۔۔۔۔میری آنکھیں بند تھیں اور میں مراقبہ کے انداز میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔

دروازہ کھلا اور وی آئی پی والا پجاری داخل ہوا۔۔یہی شاید میرا اسٹنٹ تھا یہاں پر ۔۔۔۔سرکار آج کی جتنی بھینٹ جمع ہوئی ہے وہ تجوری میں ڈال دی ہے ۔۔۔یہ چابی ہے ۔۔اور وہ جیوتی دیوی پھر سے آئی ہوئی ہے ۔۔۔آپ سے ملنے کو بے تاب ہے ۔۔۔پچھلے ایک مہینےسے ٹالا جار ہا ہے ۔۔۔۔ایسا نہ ہو کہ کہیں اور چلی جائیں ۔۔۔آج تو وہ اپنے سارے زیور بھی لے آئیں ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا ۔۔سمجھ تو میں گیا تھا کہ یہ اسی عورت کی بات ہو رہی ہے ۔۔۔۔

میں نے وشنو کی آواز بناتے ہوئے کہا کہ آج رات اسے یہیں رکنے کا کہو اور بولو کہ پجاری اس کی وجہ سے اپنی پوجا کو روک رہے ہیں ۔۔اور آج اس سے ملاقات کریں گے۔۔۔میں نے آنکھیں کھول دی تھیں ۔۔۔چھوٹا پجاری بھی مسکرانے لگا۔۔۔مجھے اندازہ ہو ا کہ اسے بھی سارے کھیل کا پتا ہے ۔۔۔۔۔۔سرکار ٹھیک ہے میں رات ہوتے ہی انہیں بھجوادیتا ہوں ۔۔۔۔اور دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا ۔۔۔۔

میں نے پجاری کا موبائل اٹھا لیا ۔۔۔اس میں کافی ساری اس کی اپنی ویڈیوز بھی تھی ۔۔جن کو وہ شاید بلیک میلنگ کے لئے استعمال کررہا تھا ۔۔۔میں نے تجوی کی چابی اٹھائی اور کمرے میں سرچ کرنے لگا۔۔۔دیوار میں لگی ایک الماری کے اندر ہی تجوری تھی ۔۔جس کا ایک رخ دوسری طرف سے بھی تھا ۔۔۔سونے کے بسکٹ اور زیورات سے لیکر نوٹوں کی گڈیاں۔۔سب اوپر تک بھری ہوئی تھی ۔۔۔میں نے الماری بند کی اوربیڈ پر لیٹ کر سوچنے لگا۔۔۔عاصم کو میں نے میسج کیا تھا کہ میں باہر ہوں ۔۔۔۔رات باہر ہی رکوں گا ۔۔اس نے بھی زیادہ نہیں پوچھا تھا۔۔۔۔پجاری کا موبائل دوبارہ سے چیک کرنے لگا ۔۔مندر میں لگے کیمروں کا کنٹرول بھی اسی میں تھا ۔۔۔پورے مندر میں 30 سے زائد کیمرے لگے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں سب کیمروں کا جائزہ لیتا رہا ۔۔ایک کیمرہ پچھلی سائیڈ پر بھی تھا ۔۔میں چونک پڑا ۔۔اگرپجاری اس داسی کے ساتھ مصروف نہیں ہوتا تو وہ مجھے پہلے ہی چیک کر چکاہوتا ۔۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔اسی غلطی نے اسے بیڈ کے نیچے پہنچا دیا تھا ۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں رات سر پر آگئی تھی ۔۔

میں نے اوپر ی منزل کی طرف کا کیمرہ کھولا تو چھوٹا پجاری جیوتی کے ساتھ اوپر آ رہا تھا ۔۔۔اسے داسی والا سفید لباس دیا گیا تھا۔۔۔اور کھانے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں تھی ۔۔میں دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ دروازے پر پہنچے اور دستک دی۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

میں نے موبائل سائیڈ پر رکھ کر پھر سے کھنکھا را ۔۔۔۔۔۔دروازہ کھلا اورجیوتی اندر داخل ہوئی ۔۔پیچھے سے چھوٹے پجاری کی آواز آئی تھی ۔۔جاؤ بالک۔۔سرکار کی خدمت کرو ۔۔۔اگر یہ خوش ہو گئے تو تمہاری درگھٹنادور ہو جائے گی۔۔اور دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
جیوتی جھجکتی ہوئی میرے سامنے آئی تھی ۔۔۔۔۔سفید لباس میں اس کا شادابی رنگ۔۔۔۔خوبصورت چہرہ ۔۔۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ۔۔۔سرخ ہونٹ ۔۔۔بھرے بھرے گال۔۔۔۔بلاؤز سے نکلتے ہوئے گورے گورے بازو ۔۔۔۔۔ایک مرتبہ تو میرا دل بھی دھڑک گیا ۔۔۔۔جتنا صحت مند سینہ تھا ۔۔۔۔۔اتنا ہی اندر اس کا پیٹ تھا ۔۔سپاٹ سا پیٹ جس پر گول ناف کا گھیرا ۔۔۔کمرپر مناسب بھرا ہواگوشت اور نیچے کی طرف کَرو بناتے ہوئے اس کے چوتڑ ۔۔۔۔۔۔لمبے قد کی جیوتی میرے بیڈ کے قریب نیچے جا بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔سفید بلاؤز چھوٹا تھا ۔۔ یا پھر جیوتی ہی صحت مند تھی ۔۔۔بلاؤز سے اس کے گورے گورے ممے پھنسے باہر نکلنے کو بے تاب تھے ۔۔ٹرے سائیڈ پر رکھ کر وہ میری ٹانگوں پر جھکی اور ماتھا ٹیکنے لگی ۔۔۔۔۔میں آلتی پالتی مارے ہوئے بیڈ پر بیٹھا تھا ۔۔۔اور میرے سامنے جیوتی جھکی میرے پیروں پرپہلےہاتھ رکھ کر اس کے درمیاں ماتھا ٹیک رہی تھی ۔۔۔۔اس کے ہاتھوں کا لمس میرے اندر سنسنی جگانے کو کافی تھا ۔۔میں نیم وا آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔منکے میرے ہاتھوں میں گردش کر رہے تھے ۔۔ کمرے میں صرف ایک کارنر والی لائٹ آن تھی ۔۔جو میرے پاس پہنچتے پہنچتے کم ہوتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔ایک طرف خوشبودار لکڑی جلتے ہوئے اپنی خوشبو بکھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔یہ سب آنے والے کو خود بخود ٹرانس میں لے آیا تھا ۔۔۔جب میری بھاری آواز گونجی تھی ۔۔۔۔

کیا کھٹنا تھی اے سندر ناری جو اس پجاری کو اپنی تپیسا روکنے پر مجبور کیا ۔۔

مہاراج آپ تو سب جانتے ہیں ۔۔۔۔میری زندگی میں اب کوئی خوشی باقی نہیں رہی ۔۔۔میں جنم دینے کی صلاحیت سے محروم ہوں ۔۔پتی دیو بھی اس لئے دور جا چکے ہیں ۔۔۔۔مہاراج میری سہائتا کرو ۔۔۔۔

بس اولاد کی منوکامنا ہے ۔۔۔وہ پوری کر دو ۔۔۔جیوتی جھکے ہوئےسسکتی جار ہی تھی ۔۔۔۔۔۔

کنیا ۔۔اپنے پتی دیو کے بارے میں کچھ بتاؤ ۔۔میں نے اس کا سر اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔اس کے بعد اس نے جوبتایا اس کا خلاصہ یہ تھا ۔۔میجر راجیش انٹیلی جنس کا قابل آفیسر تھا ۔۔اور جیوتی اس کی پتنی ۔۔شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے ۔۔۔مگر راجیش گھر میں رہنے کے بجائے ڈیوٹی پر ہی رہتا تھا ۔۔۔ایک دوسال تو راجیش گھر رہا ۔۔اولاد کی کچھ امید تھی ۔۔مگر دو سال کی بعد بعد یہ امید ختم ہوتی گئی ۔۔۔۔مگر اس کے بعد راجیش نے گھر آنا بھی کم کر دیا تھا ۔۔۔میں مسئلہ سمجھ چکا تھا ۔۔۔

اور میرا تیر بھی نشانے پر لگ چکا تھا ۔۔کل ٹھیلے والے کے ساتھ پیٹ پوجا کرتے ہوئے میں نے جیوتی کے ساتھ جو گارڈ دیکھی تھی ۔۔۔وہ کوئی عام نہیں بلکہ بلیک کیٹ کمانڈوز تھے ۔۔۔۔اور جس شخصیت کو و ہ پروٹیکٹ کر رہے تھے وہ یہاں کے لوکل انٹیلی جنس چیف کی بیوی تھی ۔۔۔اور اسی پر ہاتھ ڈالنے کےلئے مجھے اتنی تیزی دکھانا پڑی ۔۔۔اب بیڈ کے نیچے پڑا ہوا پجاری اس کا کیا حل نکالتا ۔مجھے پتا نہیں تھا ۔۔مگر میرا حل تو وہی تھا ۔۔۔جو آپ لوگ بھی جانتے ہیں ۔۔۔۔

اور میں اسی کی طرف جا رہا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے نرم ملائم بازو میں نے پکڑے اور اپنے قریب بٹھادیا ۔۔۔۔پراتھنا اور جاپ کرنے کے بہانے کپڑے اتارنے کے بہت سے طریقے میرے ذہن میں آ رہے تھے ۔۔۔مگر ایک تو میری ہندی اتنی رواں نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔اور دوسر ی جیوتی کی آنکھوں میں دکھنے والی پیاس مجھے جلدی پر مجبور کر رہی تھی ۔زیادہ دیرمناسب نہیں تھی ۔۔۔۔اس کے جسم سے نکلنے والی لہروں نے مجھے جکڑنا شروع کر دیا تھا ۔۔

میں نے پھر بھاری انداز میں کہا ۔تم جانتی ہو یہ کام کتنا کٹھن ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہےتمہیں اپنی قیمتی چیز سے محروم بھی ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔مگر جیوتی ہر بھینٹ دینے کو تیار تھی ۔۔۔میں نے اسے علاج کے مرحلے بتا دیے ۔۔کل رات یہاں سے جانے کے بعد اسے تین مہینے تک انتظار کرنا تھا ۔۔۔اتنے ٹائم تک میں ہر رات اس کے لئے خصوصی جاپ کروں گا۔۔۔۔اور پھر چیک اپ میں میری محنت سامنے آنی تھی ۔۔۔وہ تیار ہو گئ ۔۔۔میں نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے تھوڑا اور قریب کیا تھا ۔۔۔۔خوبصورت کالی آنکھوں میں کچھ حیرت آئی تھی ۔۔۔۔وہ سمٹی تھی ۔۔۔اورساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے ہوئے وہ منمنائی تھی ۔۔مہاراج میری خواہش پوری تو ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اس کا جواب دینے کے لئے مجھے حرکت میں آنا پڑا تھا۔۔۔آلتی پالتی کا انداز ختم کر کے میں نے ٹانگیں سیدھی کیں اور بیڈ سے لٹکا دی۔۔ہتھیار ابھی سے تننے لگا ۔۔۔۔اور میں اسے سمبھالنے میں ناکام ہو رہا تھا ۔۔۔۔میں اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔چھوٹے پجاری نے تو آنا نہیں تھا ۔۔۔مگر لائٹ ہمارے درمیاں پردہ تھی ۔۔۔جیوتی اگر تھوڑی سی بھی عقل مند ہوتی تو ہتھیار دیکھ کر سمجھ جاتی کہ پجاری تو کیا میں ہندو بھی نہیں ہوں ۔۔قریب ہی ایک چراغ پڑا تھا ۔۔نجانے مہاراج اس سے کیا کام لیتے تھے ۔۔میں نے چراغ جلایا اور لائٹ بند کرتے ہوئے واپس آیا ۔۔بیڈ اچھا خاصا بڑے سائز کا تھا ۔۔۔۔۔میں نے چراغ تھوڑے فاصلے پر رکھا تھا ۔۔۔۔روشنی بیڈ پر پڑ رہی تھی ۔۔۔اور ہمارے سائے سائیڈ کی دیوار پر بننے لگےتھے ۔۔۔۔میں ویسے ہی بیڈ کی سائیڈ پر آ کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے چہرے پر سرخی بڑھ گئی تھی یا پھر چراغ کی روشنی کااثر تھا ۔۔میرے پاؤں بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے ۔۔۔میں نے جیوتی کی بغل میں ہاتھ ڈال کر اسے خود پر لے آیا ۔۔۔۔میرے دائیں بائیں ٹانگ رکھتی ہوئی اس نے پاؤں پچھلی سائیڈ پر نکال دیئے ۔۔اب وہ میری رانوں پر بیٹھی تھی ۔۔نرم اور گرم چوتڑوں کا وزن میری رانوں پر پڑا تو سنسنی اور بڑھ گئی ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے بدن کی دلکش مہک مجھے سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔تنگ بلاؤز میں پھنسے ہوئے ممے میرے سینے سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھے ۔۔۔۔سانس کے زیرو بم مموں کو میرے قریب اور دور کر رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے ایک نظرا ن گہری گھاٹیوں پر ڈالی اور گلابی ہونٹوں کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ہلکے سے لرزتے ہوئے یہ ہونٹ ۔بڑی سی غزال آنکھیں جھکی جھکی سی تھیں۔۔۔لمبی گھنیر پلکیں ۔۔۔۔۔میں بازو سہلاتے ہوئے کمر پر ہاتھ لے جانے لگا۔۔۔۔۔۔جیوتی کا گورا بدن ریشم کی طرح ملائم تھا۔۔۔اور میرے لمس سے گرمی پکڑ رہا تھا ۔۔۔میں بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نیچے ہاتھ تک آیا ۔۔۔نرم ناز ک ہاتھ کی پہلی دو انگلیوں کو پکڑتے ہوئے میں نے اپنے منہ میں ڈالا تھا ۔۔۔۔۔اور ہونٹوں میں دباتے ہوئے چوسنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔جیوتی کچھ ہلی تھی ۔۔۔میرا دوسرا ہاتھ ابھی بھی اس کی کمر کو پر گردش کر رہا تھا ۔۔۔۔جو کندھوں کے درمیان سے ہوتا ہوا نیچے کمرتک پہنچتا۔۔ساتھ ہی میں کمر کی سائیڈ کے نرم گوشت کو ہلکا سا دباتا ۔میں نے جیوتی کا ہاتھ اپنے منہ سے نکالا اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے اپنے کندھے پر رکھ دیئے ۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر رکھتے ہوئے اسے تھوڑا آگے دھکیلا تھا ۔۔۔۔۔۔۔نیچے سے وہ پھسلتی ہوئی آگے کھسک آئی تھی ۔۔۔دونوں بدن کے لمس کی چنگاری نے آگ سی بھڑکائی تھی ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے زور مارا تھا ۔۔۔۔جیوتی کو بھی شاید محسوس ہوا تھا ۔۔۔وہ ہلکی سی اٹھی تھی ۔۔۔۔پھسلتی ہوئی جیوتی آگے آئی تو میرے ہونٹ اس کے انتظار میں تھے ۔۔۔۔میں نے لب سے لب ٹکرائے تھے ۔۔وہ ہلکی سی پھر ہلی ۔۔میں نے ہونٹ چھوڑ کر پورے چہرے کو چوما ۔۔۔۔بند آنکھوں کے اوپر ہونٹ رکھے ۔۔۔۔۔اور پھر ٹھوڑی کو چومتے ہوئے واپس لبوں پر آیا ۔۔۔

اب کی بار لب قدرے کھلے اور میرے ہونٹوں نے گرفت میں لے لیا۔۔نرم نرم پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر لگی تھی ۔۔۔میں نے ہلکے سے دباتے ہوئے کھینچا تھا ۔۔۔اور پھر واپس ہونٹ پکڑے ۔۔۔۔۔وہ اسی طرح بند آنکھوں بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ پیچھے بالوں میں لےجا کر بالوں میں گھمانے لگا۔۔۔ساتھ بال کھینچتے ہوئے تھوڑا سر پیچھے اٹھایا ۔۔۔۔۔اور ہونٹو ں کو ہونٹ سے تھام کر چوسنے لگا۔۔۔۔میرا تھوک نکل کر اس کے ہونٹوں پر چمکنے لگاتھا۔۔۔جیوتی اب تک ایسے ہی بیٹھی تھی ۔۔۔بس اس کے ہونٹوں سے گرماہٹ مجھ میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ہونٹ چوستے ہوئے شدت بڑھائی تھی ۔۔۔۔۔۔میرے کندھے پر رکھے اس کے ہاتھوں کے دباؤ بڑھا یاتھا۔۔۔۔۔میں نے ہونٹ چوستے ہوئے زبان اندر گھسانے کی کوشش کی ۔۔تھوڑی سی مزاحمت ہوئی مگر پھر اجازت مل گئی ۔۔ اور میں نے من مانی شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔۔اپنا تھوک میں اس کے منہ میں گرا تا جا رہا تھا ۔۔۔جو منہ سے بہتا ہواگردن سے نیچے جانے لگا۔۔۔ایک مرتبہ جیوتی نے آنکھ کھول کر مجھے دیکھا۔۔۔لال ہوئی آنکھیں شراب کی طرح مدہوش تھیں ۔۔۔۔اور پھر آنکھیں بند کردی ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار نے بھرپور انگڑائی لے کر اپنی موجودگی کا احساس دلا یا تھا ۔۔۔۔۔اور تھی بھی دھوتی ۔۔۔۔۔میں نے جیوتی کی ساڑھی کا پلو کھینچ کر اتارا تھا ۔۔۔۔۔ایک تراشا ہوا بھرپور جسم میرے سامنے تھے ۔۔۔۔جو تنگ سے بلاؤز سے پھٹا پڑ رہا تھا۔۔۔نیچے بھی ایسا ہی حال تھا ۔۔۔۔۔پیٹی کوٹ اس کے چوتڑ پر فکس ہوتے ہوئےابھار کو اور واضح کر رہا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے بالوں میں گردش کر تا ہوا ہاتھ نیچے اترا تھا ۔۔۔۔۔اور بلاؤز کی ڈوریاں کھلنے لگا۔۔۔۔۔جیوتی کے جسم میں لرزش بڑھنے لگی ۔۔۔جیسے کوئی قیمتی چیز ظاہر ہونے جا رہی ہو۔۔۔اور جو سامنےآیا تھا وہ شاید انمول ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلاؤز کسی بیکار چیز کی طرح میری گود میں گرا تھا ۔۔۔۔۔۔اور شان سے اٹھے ہوئے دود ھ کے دو جام میرے منتظر تھے ۔۔۔۔میں نے جیوتی کو دیکھا ۔۔۔آنکھیں اب بھی بند تھیں ۔۔۔۔۔۔مجھے لگا جیسے بند آنکھوں سے چیلنج کیا جارہا ہے ۔۔۔فتح کرنے کا ۔۔۔تسخیر کرنے کا ۔۔اور اپنے جھنڈا گاڑنے کا ۔۔۔۔۔۔میں اپنے ہاتھ نیچے لے کر اس کے چوتڑ پر رکھتے ہوئے اسے اوپر اٹھا دیا ۔۔۔دودھ کے جام اچھل کر سامنے آئے تھے ۔۔۔۔۔وہ میرے اوپر بیٹھنے کے بجائے گھٹنے پر کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔پینے کی دعوت دی گئی تھی اور جام ساقی نےسجائے رکھے تھے ۔۔۔۔میں نے ہاتھ چوتڑ پر ہی رکھے ۔۔اور ہونٹ جام پر رکھ دئیے ۔۔۔۔۔اپنے پورے ہونٹ کھول کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ۔۔اوروہ دائیں بائیں اوپر نیچے گھوم کر کہتے کہ پکڑ کر دکھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بھی آگے کی طرف زور دے کر قابو کرنے لگا ۔۔۔اور ایک دودھ کے جام کے نپلز کو پکڑ ہی لیا ۔۔۔ہونٹوں میں دبوچ کر کھینچا تھا ۔۔۔۔تھوڑے سے کھینچ کر منہ سے چھوٹ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اب دوسرے جام پر زور آزمائی کی تھی ۔۔۔۔اس کے نپل بھی کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔سختی سے تنے ہوئے دونوں اپنی جگہ پر ہی باؤنس ہوتے اور میں کوشش کر کے ہونٹوں سے نپلز دبوچنے کی کوشش کرتا ۔۔۔ہاتھ لگانے کی اجازت شاید نہیں ملی تھی ۔۔۔ کچھ دیر ایسے ہی میری کوشش جاری رہی تھی ۔۔ دودھ کے جام شاید لبالب بھرے ہوئے تھے ۔۔گرنے کا خطرہ تھا ۔۔جبھی جیوتی آگے کو زور دیتی ہوئی اسے میرے منہ سے لگانے لگی ۔۔۔۔۔۔میں نے بھی خالی نہیں لوٹایا ۔۔۔اور پوری دلجمعی سے پینے لگا۔۔۔وہ اپنی مرضی سے باری باری دونوں جام میرے منہ سے لگاتی ۔۔۔۔اور میں اپنی پیاس بجھانے لگا۔۔۔میرے صبر کا جام بھی لبریز ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔سکون رخصت ہو کر وحشت کو دعوت دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے جیوتی کے چوتڑ پر زوردے کر اسے خود سے چپکا دیا ۔۔اور کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔نیچے سے دھوتی بھی آگے کو نکلی ہوئی تھی ۔۔۔سامنے کی طرف تمبو کھڑا ہوا تھا ۔۔۔جیوتی کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے میں اوپر جھک گیا ۔۔۔۔۔۔دودھ کے پیالے ہاتھوں میں تھامے تھے۔۔کیا گول مٹول سے تھے ۔۔۔۔۔سخت اور تنے ہوئے ۔۔۔۔ہلکے سے براؤن نپل ۔۔۔جن کے برابر میں چھوٹا سا تل ۔۔۔۔میں دوبارہ سے جھک گیا ۔۔۔اور جی بھر کے دودھ پینےلگا۔۔۔۔دونوں ہاتھ جیوتی کے پیٹ پر پھرتے ہوئے ناف کے اندر گھومنے لگے ۔۔۔اور پھر نیچے کا راستہ ملتے ہی نیچے لپکے ۔۔۔۔۔پیٹی کوٹ کو سامنے سے اٹھاتے ہوئے نیچے اترے ۔۔۔۔۔۔جہاں مخملی سی سیپی اپنے لب کھولے انتظار میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ نے بے اختیار اسے دبوچتے ہوئے پکڑا تھا ۔۔۔سیپی غصے ہو کر پانی چھوڑنے لگی ۔۔۔۔۔دباؤ کا سلسلہ جاری تھا ۔۔۔۔۔۔۔انگلی پھرتے ہوئے اندر چلی گئی تھی ۔۔۔۔جہاں گرم گرم دیواریں انگلی پر اپنازور لگانے لگیں ۔۔۔۔انگلی نے آگے پیچھے ہو کر غصہ ٹھنڈا کرنے کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔کچھ اور پانی نکلا تھا ۔۔۔۔مگر سیپی کو کچھ اور چاہیئے تھا ۔۔۔میں نے پیٹی کوٹ اتار کر راستہ آسان کیا۔
Read my all running stories

(वापसी : गुलशन नंदा) ......(विधवा माँ के अनौखे लाल) ......(हसीनों का मेला वासना का रेला ) ......(ये प्यास है कि बुझती ही नही ) ...... (Thriller एक ही अंजाम ) ......(फरेब ) ......(लव स्टोरी / राजवंश running) ...... (दस जनवरी की रात ) ...... ( गदरायी लड़कियाँ Running)...... (ओह माय फ़किंग गॉड running) ...... (कुमकुम complete)......


साधू सा आलाप कर लेता हूँ ,
मंदिर जाकर जाप भी कर लेता हूँ ..
मानव से देव ना बन जाऊं कहीं,,,,
बस यही सोचकर थोडा सा पाप भी कर लेता हूँ
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- raj sharma
User avatar
rajsharma
Super member
Posts: 15829
Joined: 10 Oct 2014 07:07

Re: Sarfaroshi سرفروس کی تمنا

Post by rajsharma »


ادھر ہتھیار اکڑ کر دھوتی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈے لگا۔۔۔۔۔میں نے دھوتی کے بل کھول دیئے تھے ۔۔۔۔گرم سخت راڈ باہر اچھلتا ہوا آیا تھا ۔۔۔۔جیوتی کے جسم کی لرزش اور بڑھنے لگی ۔۔۔اس کی خوبصورت رانیں پھیل سکڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے نیچے ہو کر جیوتی کی ٹانگیں اٹھا کر اوپر کر دیں ۔۔۔۔اس نے ایک نظراٹھا کر مجھے دیکھا اور دوبارہ سے آنکھیں بند کردیں ۔۔۔ٹانگیں اٹھا کر اس کے سینے سے لگائی ۔۔۔اور بیچ میں آ کر پوزیشن لے لی ۔پاؤں کے بل بیٹھتا ہوا میرے ہاتھ میں ہتھیار لہرا رہا تھا ۔۔۔۔۔ٹوپا چوت کے لبوں پر مسلا ۔۔۔اور پھر اوپر رکھتے ہوئے دباؤ دیا ۔۔۔گیلی چوت نے راستہ دیا تھا۔۔۔ٹوپا اندر جا پھنسا تھا ۔۔۔۔۔جیوتی کا منہ ایکدم سے کھلا تھا ۔۔۔۔گرم سسکاری نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔میں دباؤ بڑھاتے ہوئے آدھے ہتھیار کو اندر لیتا گیا ۔۔۔اب کی بار خاموشی سے کام نہیں چلا تھا ۔۔۔جیوتی گرم سسکاری کے ساتھ بلند آواز پکاری تھی ۔۔۔آہ ہ ۔۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔۔۔سس۔۔ میں نے ہتھیار کو باہر کھینچے ہوئے دوبارہ اندر بڑھایا تھا ۔۔۔۔۔پہلے جیسی ہی آواز تھی ۔۔۔آ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔اوہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔سس ۔۔۔منہ پورا کھل کر دوبارہ بند ہوا تھا ۔۔۔۔آنکھ کے کنارے پر ایک آنسو چمکا تھا ۔۔میں کچھ دیر آہستگی سے ہلاتا رہا ۔۔۔چوت پانی چھوڑے جا رہی تھی ۔۔مگر ہتھیار اندر چاروں طرف سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔۔جیوتی کی گر م گرم سسکاری نکلی جا رہی تھی ۔۔۔۔آنکھیں اور بہہ نکلی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک قد م پیچھے ہٹ کر گھٹنے ٹیکے تھے ۔۔۔اور پھر اس کے اوپر لیٹتا چلا گیا ۔۔۔۔جیوتی کی ٹانگیں پہلے ہی اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔ان کے درمیان اپنی جگہ بناتے ہوئے میں اس کے چہر ے تک پہنچا تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے شاید ہتھیار بھی اپنی پوری لمبائی کے ساتھ اندر سما گیا ۔۔۔۔جیوتی کی آنکھیں ایک جھٹکے سے کھلی تھی ۔۔پورا جسم ایک دم لرز گیا تھا۔۔۔۔۔میں نے درد کو جیوتی کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے صاف دیکھا ۔۔۔ہونٹوں کے لب کھلےتھے ۔۔۔۔مگر میرے ہونٹوں نے بروقت سمبھال لیا ۔۔۔میں نے اس کے ہونٹوں کو بند کرتے ہوئے دائیں بائیں ہاتھ رکھے تھے ۔۔۔پھر بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے میں نے صاف دیکھے تھے ۔۔۔میں نے کمر کو تھوڑا سا پیچھے ہٹایا ۔۔اور ایک بھرپور جھٹکا دے مارا ۔۔۔۔جیوتی پھر ہلی تھی ۔۔۔کانپی تھی ۔۔۔لرزی تھی ۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر دودھ کے پیالوں پر رکھے اور اپنے پورے وزن سے اس کے اوپر لیٹا تھا ۔۔۔۔ٹانگیں اس کی ابھی بھی اوپر ہی تھی ۔۔۔جس کا درد بھی وہ برداشت کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔کھلی آنکھوں میں شکوے بھی تھے ۔۔۔شکایت بھی ۔۔۔۔اسے لگا تھا کہ میں نے بے قدری کی ہے ۔۔مگر یہ بے قدری تھی یا نہیں ؟۔۔اس کا فیصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں ۔۔۔
کچھ دیرمیں اس کےاوپر سوار رہا تھا۔۔ابھی ہلنے جلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ جیوتی کا جسم ایک مرتبہ پھر کانپا ۔۔۔۔اور چوت میں پانی بہنے لگا۔۔۔۔جیوتی کی چوت ہار مان چکی تھی ۔۔۔میں نے ہتھیار باہر کھینچا اور ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔۔جیوتی میرےساتھ ہی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔آنکھیں پھر بند ہو گئی تھی ۔۔۔مگر اب گہر ا سکون تھا ۔۔۔سالوں کی پیاس بجھ چکی تھی ۔۔۔۔

ابھی لیٹے ہوئے ایک منٹ ہی گذرا تھا کہ جیوتی کے بدن میں حرکت ہوئی ۔۔۔وہ کروٹ بدل کر مجھ پر جھکی تھی ۔۔۔سیاہ گھٹاؤں جیسے بال مجھ پر گرے تھے ۔۔۔ان سب کے درمیان جیوتی کا چہرہ میرے چہرے پرتھا ۔۔اس کے آنسو اب بھی گر رہے تھے ۔۔۔مگر یہ خوشی کے آنسو تھے ۔۔۔وہ روتی ہوئی مجھے چوم رہی تھی ۔۔۔میرے چہرے کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچا جو اس نے نہ چوما ہو ۔۔۔اس کی شرم چلی گئی تھی ۔۔۔۔اور احسان مندی آ چکی تھی ۔۔۔وہ اپنا برہنہ پن بھول چکی تھی ۔۔۔اور اب مجھے میں سمانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔میں نے بھی موقع دیا۔۔۔اور اسے خود میں سمیٹ لیا ۔۔۔۔اس کے سختی سے تنے ہوئے ممے پہلی مرتبہ میرے سینے سے ٹکرائے تھے ۔۔میرے اوپر وہ سوار تھی ۔۔۔۔میں نے ٹانگوں موڑ کر اسے قابو کیا تھا۔۔۔نیچے سے ہتھیار بھی ہم دونوں کے درمیان تھا ۔۔۔مگر اس کاخیال ہم دونوں کو نہیں تھا ۔۔ابھی وحشتوں کاٹکراؤ ہو رہا تھا ۔۔۔میں نے اسے دبوچے ہوئے کئی کروٹ لی تھی ۔۔۔وہ مجھے سے چمٹی ہوئے چومے جا رہی تھی ۔۔۔میں کروٹ لیتے ہوئے اس کے اوپر آیا تھا ۔۔۔اس کے اوپر لیٹے ہوئے اس کے چہرہ پر جھکا ااور تمام آنسوؤں کوچومنے لگا۔۔۔۔۔وہ یک ٹک مجھے دیکھے جا رہی تھی ۔۔جیسے مجھ میں موجود اصل کو ڈھونڈنے کی کوشش ہو ۔۔۔۔۔میں نے اس کے سارے آنسو چوم لئے تھے ۔۔۔جیوتی مجھ سائیڈ پر دھکیلتے ہوئی اٹھی ۔۔۔اور مجھے پر سوار ہو گئی ۔۔۔اب کی بار پہلے سے زیادہ شدت اور گرم بوسے تھے ۔۔۔۔گیلے گیلے یہ بوسے میرے چہرے کو بھی گیلا کرتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔چومتے ہوئے جیوتی مجھے پر لیٹی آگے پیچھے ہل بھی رہی تھی ۔۔۔۔اوپر کی طرف ممے بھی رگڑ کھا رہے تھے ۔۔۔اور نیچے کی طرف ہتھیار ہم دونوں کے درمیاں تھا ۔۔۔جیوتی اس پر رگڑ کھا رہی تھی ۔۔۔۔ وہ میرا چہر ہ چومتی ہوئی نیچے کو آئی ۔۔۔سینے پر بوسے دئے ۔اور نیچے جانے لگی مگر میں نے روک دیا ۔۔جیوتی ایک سیکنڈ کے لئے رکی۔۔۔اور پھر میرے سینے پر سر رکھے کر لیٹ گئی ۔۔۔میں اس کا یہ رنگ و روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔میرے سینے پر سر رکھے وہ کچھ دیر لیٹی رہی ۔۔۔۔کشادہ سینہ اس کے کالے بالوں سے بھر گیا تھا ۔۔۔جو میرے پورے سینے پر بکھرا ہوا تھا ۔۔۔نیچے ہتھیار پتا نہیں اس کے جسم کے کس کس حصے سے ٹکر کھا رہا تھا۔۔۔۔۔پہلے وہ الٹی لیٹی ہوئی تھی ۔۔پھر نہ جانے کیا ہوا کہ میرے اوپر سیدھی لیٹنے لگی۔۔۔۔تھوڑا سا اوپر کھینچا تھا خود کو ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میرے چہرے کے پاس آ کرچہرے سے چہرہ ملا لیا۔۔۔نیچے اس کا نرم گداز بدن میرے اوپر ہی تھا ۔۔۔نرم گرم چوتڑ میرے پیٹ پر تھے ۔۔۔۔میں حیرانگی سے اس کی حرکتیں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔میرا جسم بھی گرمی کھا رہا تھا۔۔۔اس کی محبت بھری یہ حرکتیں مجھے بھی پگھلائے جارہی تھی ۔۔۔۔اس کا اگلا قدم اور حیران کن تھا ۔۔۔سینےسے کھسکتی ہوئی وہ نیچے اتری اور الٹی لیٹ گئی تھی ۔۔۔۔پیچھے سےگورے گورے چوتڑ اپنی پوری گولائی کے ساتھ باہر کو ابھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس نے جس انداز سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ۔۔میرے ہوش سے اڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔وہ مجھے لپٹنے کا کہ رہی تھی ۔۔۔۔میں بھی کروٹ لے کر اس کے اوپر سوار ہو گیا ۔۔۔۔سر میری طرف کئے وہ مجھے دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔تبھی میں نے نیچے سے ہتھیار کو پکڑا تھا ۔اور اس کے اوپر سوار ہوتے ہوئے چوتڑ پر بیٹھ گیا ۔۔نر م نرم چوتڑ میرا وزن اٹھانے کو تیار تھے ۔۔۔۔مگر میں نے دائیں بائیں گھٹنے رکھتے ہوئے وزن اس پر منتقل کیا ۔۔۔۔ٹوپے کو چوتڑ کے درمیان سے گذارتے ہوئے چوت کے لبوں پر رکھا ۔اورآگے کو لیٹتا چلا گیا ۔۔۔۔اس کےاوپر لیٹے ہوئے ہتھیار آدھے اندر جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔جیوتی نے سرا ٹھا دیا ۔۔۔گرم گرم سسکی چھوڑی تھی ۔۔۔۔میں نے لیٹے لیٹے گھٹنے دائیں بائیں رکھتے ہوئے کمر کو تھوڑا اوپر اٹھا لیا ۔۔۔۔اور پہلا دھکا مارا تھا ۔۔۔ہتھیار پھسلتا ہوا گہرائی میں اترتا گیا ۔۔۔۔۔جیوتی کی آہ نکلی ۔۔۔آہ ہ۔۔۔سس۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کے گرد اپنے گھٹنے سکیڑ کر اس کی ٹانگیں جوڑی ۔۔۔۔اور دوسرا دھکامارا۔۔۔۔یہ پہلےسے زیادہ گہرائی میں اترا تھا ۔۔۔۔جیوتی کی بے اختیار آ ہ نکلی تھی ۔۔۔اس نے سر اٹھا یا اور دوسری طرف رکھ دیا ۔۔۔اس کے بعد میں نے گہرے گہرے دھکے مارنے شروع کر دیے ۔۔۔۔۔۔جیوتی بھی کبھی سسکی بھرتی ۔۔۔کبھی آہ بھرتی ۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اس کے چوتڑ بھی لرزش کھاتے ۔۔۔۔۔باؤنس ہوتے ۔۔اتنے میں اگلا دھکا پڑتا ۔۔۔۔میں نے اگلے چار سے پانچ منٹ رک رک کر اور گہر ے دھکے مارے تھے ۔۔۔اور پھر اس کے اوپر سے کروٹ لے کر سائیڈ پر ہوا ۔۔۔۔جیوتی سیدھی ہو گئی تھی ۔۔جیسے اس کو پتا ہو کہ اگلا اسٹیپ کیا ہوگا۔۔۔بیڈ سے اس کے دودھ کے پیالے رگڑ کھا کر لال ہو گئے تھے ۔۔میں نے جیوتی کی ایک ٹانگ اٹھا کر اوپر کی طرف اٹھا دی ۔۔۔دوسر ی ٹانگ نیچے ہی تھی ۔۔۔۔اٹھی ہوئی ٹانگ جتنی اٹھ سکتی تھی ۔۔میں نے اٹھا کر رکھی ۔۔۔۔۔اور پھر چوت کے سامنے آ گیا۔۔۔ٹوپے کو رکھتے ہوئے دھکا دیا تھا ۔۔۔۔چوت کچھ تنگ سی لگی تھی ۔۔۔اور بغیر رکے اگلا دھکا ۔۔۔۔اس کا منہ کھل کر بند ہو ا۔۔۔۔اس کے بعد دھکے پر دھکا دیتا گیا ۔۔۔۔جیوتی منہ کھول کر آہیں بھرتی ۔۔۔۔۔ہر دھکے کے ساتھ اس کے دودھ کے پیالے بھی اچھلتے ۔۔۔۔۔۔آہ نکلتی ۔۔۔سسکیاں نکلتی ۔۔میں نے چار سے پانچ منٹ درمیانی دھکے مارے تھے ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اپنے پسندیدہ انداز میں آ گیا ۔۔۔۔یہ گھوڑی اسٹائل تھا ۔۔۔جیوتی آگے کو جھکی ہوئی ہاتھ جما کر گھوڑی بنی تھی ۔۔۔۔اور میں پیچھے سے گھوڑا سمبھالے آیا تھا ۔۔ہتھیار ابھی بھی پھنستا ہوا اندر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔بس اس کے بعد پہلا جھٹکا پڑا تھا ۔۔۔جیوتی بے اختیار آگے کو گری ۔۔۔سمبھل کر پھر واپس آئی تھی ۔۔۔دوسرا جھٹکا پہلے سے زیادہ زوردار تھا۔۔۔۔وہ آگے کو کھسکی تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد میں نے تیز جھٹکے مارنے شروع کر دئے ۔۔۔جیوتی کی برداشت نے جواب دے دیا تھا ۔۔۔اب وہ ہر جھٹکے کے ساتھ چلاتی ۔۔۔جہاں اسے تسکین ملتی وہیں مجھے اگلا جھٹکا اور تیز مارنے کے لئے ایڑ بھی لگتی ۔۔۔۔۔جیوتی کی آہوں نے کمرے کو گرما دیا ۔۔۔۔۔۔نیچے پجاری جی بھی شاید سن رہے تھے ۔۔۔۔۔ساتھ بیڈ کے ہلتے ہوئے اسپرنگ انہیں جھٹکوں کی شدت بھی بتا رہے تھے ۔۔۔۔۔میرے جھٹکے اب اور تیز ہوئے تھے ۔۔۔جیوتی کی آہیں بھی بلند ہونے لگیں۔۔۔آہ ہ۔۔۔سس۔۔۔۔آئی ۔۔۔۔وہ برے طریقے سے لرز رہی تھی ۔۔۔۔ممے اچھلے جا رہے تھے ۔۔۔میں نے بھی آگے کو جھکتے ہوئے انہیں تھام لیا ۔۔دھکے اور تیز ہو کر طوفانی ہوئے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔جیوتی آگے کو گرنے لگتی ۔۔مگرمیں نے ممے اچھے سے پکڑ رکھے تھے ۔۔۔۔جیوتی اور بلند آواز سے چلانے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔شاید وہ بھی چھوٹنے والی تھی ۔۔۔۔۔۔اورپھر میرے منہ سے بھی غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔جو راجہ کی پہچان تھی ۔۔۔۔جیوتی کی چیخ ایکدم سے رکی تھی ۔۔۔اس نے مڑ کی دیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔مگرطوفانی جھٹکے اسے سمبھلنے نہیں دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔انہیں جھٹکوں میں وہ آگے کو گری تھی ۔۔۔۔۔میں بھی پیچھے سے اس پر گرا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی ایک فوارہ سا چھوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔جس نے جیوتی کو ہلادیا تھا ۔۔۔۔اس کا بھی پانی چھوٹا ۔۔۔پہلے بیڈ پر وہ الٹی لیٹی تھی ۔۔اس کے اوپر میں تھا ۔۔۔۔۔پانی ابھی بھی چھوٹے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔سانسیں ابھی بھی برہم تھیں ۔۔۔۔۔۔۔جنوں سرد ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔اور پھر میں کروٹ بدل کر لیٹا ۔۔۔جیوتی کی ساڑھی اوڑھ کر ہم دونوں لپٹ چکے تھے ۔۔کھانا کب کا ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔چراغ جلتے جلتے بھڑکا تھا اور بجھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




Read my all running stories

(वापसी : गुलशन नंदा) ......(विधवा माँ के अनौखे लाल) ......(हसीनों का मेला वासना का रेला ) ......(ये प्यास है कि बुझती ही नही ) ...... (Thriller एक ही अंजाम ) ......(फरेब ) ......(लव स्टोरी / राजवंश running) ...... (दस जनवरी की रात ) ...... ( गदरायी लड़कियाँ Running)...... (ओह माय फ़किंग गॉड running) ...... (कुमकुम complete)......


साधू सा आलाप कर लेता हूँ ,
मंदिर जाकर जाप भी कर लेता हूँ ..
मानव से देव ना बन जाऊं कहीं,,,,
बस यही सोचकर थोडा सा पाप भी कर लेता हूँ
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- raj sharma
User avatar
rajsharma
Super member
Posts: 15829
Joined: 10 Oct 2014 07:07

Re: Sarfaroshi سرفروس کی تمنا

Post by rajsharma »


قسط نمبر 5 ۔۔۔۔


اگلی صبح بڑی دلکش تھی ۔۔۔میں بڑے اطمینا ن سے اٹھا ۔۔آنکھ کھلی تو کچھ عجیب سامنظر لگا۔۔۔۔پھر یاد آیا کہ میں مندر میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔جیوتی میرے برابر میں اب تک تھی ۔۔۔۔۔۔۔جسم پر سفید چادر پڑی تھی جس سے دلکش ابھار جھلک رہے تھے ۔۔۔میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی پجاری والی حالت میں واپس آگیا ۔۔۔۔آئی فون میں کیم سوفٹ وئیر کھولا ۔۔۔۔مندر کے معمولات ویسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔اتنے میں جیوتی کی آنکھ کھلی ۔۔مجھے قریب دیکھ آنکھوں میں نشہ سا آیا تھا۔۔۔۔خود کو چادر میں دیکھ کر کچھ سمٹی ، شرمائی اور اٹھ کر ساڑھی پہننے لگی ۔ساڑی پہن کر وہ بیڈ پر بیٹھی ۔۔اور کہنے لگی کہ مہاراج ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کی داسی بن کر یہیں رہ لوں ۔۔۔اب واپس جانے کا من نہیں ہوتا ۔۔۔آپ کا ہر کام اور سیوا کروں گی ۔۔۔بس اپنے چرنوں میں جگہ دے دیں ۔۔۔میں نے ایک نظر اس حسن کی دیوی کو دیکھا ۔۔۔اور کہا اچھا پہلے ناشتے کا بندوبست کریئے ۔۔۔رات کا بھوجن بھی نہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔جیوتی کو تیار ہونے کا کہہ کرمیں نے گھنٹی بجا ئی ۔۔ ۔۔۔چھوٹا پجاری انتظار میں تھا ۔دوسرے فلور کے کمرے سے نکل کر وہ اوپر آنے لگا۔۔۔اس کا بستر بھی خالی نہیں تھا ۔۔ایک نسوانی وجود وہاں بھی لیٹا ہوا تھا ۔۔پجاری جیوتی کو لے کر چلا گیا۔۔۔میں نے عاصم کوکال کی کہ ۔۔کہ حلیہ تبدیل کر کے رادھا کشن مند ر چلے آؤ ۔۔اور بڑے پجاری سے ملنے کا بولو۔۔وہ کچھ حیران تو ہو ا مگر سوال پوچھے بغیر بیس منٹ میں پہنچنے کا کہا ۔۔میں نے چھوٹے پجاری کو بتا دیا کہ آنے والے کو کمرہ میں پہنچا دیا جائے ۔۔۔۔

آدھے گھنٹے بعد عاصم میرے سامنے تھا ۔۔۔وہ مجھے پہلی نظر میں پہچان گیا تھا ۔۔۔۔لپٹ کر بولا سرکار بہت تیز جا رہے ہو۔۔۔کل تک ہمارا غریب خانہ ۔۔۔اور آج اس عالیشان کمرے میں ۔۔۔۔

میں نے اسے پوری صورتحال سمجھا دی ۔۔اور آگے کو پوچھا ۔۔وہ بھی سیریس ہو گیا ۔۔

راجہ صاحب ۔۔آپ نے آتے ہی اسپیڈ ماری ہے ۔۔اب تک پورا پلان میرے دماغ میں تھا ۔اس لئے کہیں نوٹ نہیں کیا تھا ۔۔اب ضرورت پڑی ہے تو بتاتا ہوں ۔۔۔۔

اس نے ایک کاغذ اٹھا اورمیرے سامنے بیٹھ گیا ۔۔اور پینسل سے ڈرائنگ بنانے لگا۔۔۔۔یہ راج گڑھ سے شملہ تک کا روڈ ہے ۔۔۔۔شملہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی دائیں طرف ایک روڈ نکل رہا ہے ۔۔جو کانگرا کی طرف نکل رہا ہے ۔۔۔اس روڈ پر ہی انڈر گراؤنڈ وہ ہیڈ کوارٹر بنا گیا ہے ۔۔۔۔جس کی میں نے رپورٹ دی تھی ۔۔یہ ہیڈ کوارٹر مکمل طور پر انڈرگراؤنڈ ہے ۔یہاں صرف کنٹرولنگ سسٹم ہے ۔۔۔۔باقی ڈرون طیارےشملہ کے ہی ایک آرمی بیس میں خفیہ طور پر رکھے ہیں ۔۔وہ وہیں سے ہی اڑتے ہیں ۔۔دوسرا اسٹاپ پٹھان کوٹ ائیر بیس میں ہے ۔۔ان دونوں جگہ پر ڈرون طیارے رکھے گئے ہیں ۔۔۔۔اب یہ شملہ والے ہیڈ کوارٹر میں۔سامنے مین انٹرنیس ہے ۔۔۔اسٹاف بھی اندر رہتا ہے ۔۔ایک مہینے بعد اسٹاف تبدیل ہوتا ہے ۔۔جب اسٹاف آتا ہے تو اندر بیٹھے ہوئے لوگ کیمرہ میں دیکھ کرانٹرنیس کھولتے ہیں ۔۔اور اب تک کی معلومات کے مطابق فیس ڈیٹکٹ کرنے کے علاوہ ریٹینا اسکینر بھی لگائے گئے ہیں ۔۔غلط بندہ اندر داخل کرنا مشکل ہے ۔اور پیچھے والی انٹرنس ایمر جنسی حالت میں کھولی جاتی ہے۔۔۔۔ہیڈ کوارٹر کے کئی کلو میٹر تک فضائی نگرانی اور زمینی نگرانی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔

عاصم نقشے کے ساتھ بتاتا بھی جار ہا تھا ۔۔۔۔۔آخر میں بات ختم کرکے وہ رکا۔۔۔۔اور سر اٹھایا ۔۔

ایک مہینے تک جو اسٹاف اندر رہتا ہے ۔۔اس کا کھانا پینا اور دوسری چیزیں کیسے پوری ہوتی ہیں ؟میں نے پوچھا ۔

عاصم مسکرایا ۔۔میں اسی سوال کی آپ سے توقع کر رہا تھا ۔۔یہاں راج گڑھ میں آرمی کا سپلائی سنٹر ہے ۔۔۔ہر دس دن بعد یہاں سے فروزن فوڈ ، اور دوسری چیزیں یہاں سے اسپیشل ٹرک سے بھیجے جاتے ہیں ۔ٹرک کا اپنا مخصوص روٹ ہے ۔۔۔۔اور اس ٹرک کی خاص بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ٹریک کیا جاتا ہے ۔۔۔راستے میں کہیں بھی رک جائے تو فورا ہی چیکنگ کرتے ہیں ۔۔کسی بھی مشکل میں یہ ٹرک پورا خودہی بلاسٹ ہو جاتا ہے ۔یہ ٹرک پچھلی انٹرنس سے ہر دس دن بعد اندر داخل ہوتا ہے ۔۔۔اور اندر کا کوڑا کچرا لئے باہر آتا ہے ۔۔۔۔۔اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گاکہ میں یہاں راج گڑھ میں کیا کر رہا ہوں ۔۔۔

اس ہیڈ کوارٹر کی سیکورٹی میجر راجیش کے ذمے ہے ۔۔یہ آرمی کی اسپیشل فورس سے انٹیلی جنس میں ٹرانسفر ہوا تھا ۔۔۔اور ٹرک لینے یہ خود آتا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ بلیک کیٹ کمانڈوز کا دس رکنی دستہ ہے جن کو ہر قسم کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔۔۔

میں یہ سب معلومات سن کر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔اب تک پلان بنانے کاکچھ خاص تجربہ نہیں تھا ۔۔بس فوری ایکشن میں ہی میرا دماغ تیز چلتا تھا۔۔۔۔مجھے سوچ میں دیکھ کر عاصم بولا ۔۔۔۔راجہ صاحب میں خوش قسمتی سے سپلائی سینٹر میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔آفیسر رینک کے کچھ لوگ ہیں ۔۔۔اب صرف اس ٹرک کے ڈرائیور کو ٹریس کرنے میں لگا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔اگلی سپلائی کل ہی جانے والی ہے ۔۔آج رات یہ میجر راجیش راج گڑھ آئے گا اور صبح چار بجے ٹرک لے کر شملہ پہنچے گا۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔۔

میں نے عاصم سے پوچھا ۔۔۔اگر ہیڈکوارٹر سے میجر راجیش نہ آئے تب ٹرک کی چیکنگ کی کیا صورتحال ہو گی ۔۔۔۔۔۔

پھر کافی آسانی ہے ہم ٹرک میں اپنے لئے جگہ بنا لیں گے ۔۔۔سپلائی آفیسر ہی اپنا بندہ ہے ۔۔۔انہیں بھی میجر راجیش کا ہی ڈر ہوتا ہے۔۔ورنہ یہ تو اس میں بھی اپنے کھانچے نکا ل لیں ۔۔عاصم نے پرجوش آواز میں کہا۔

تو پھر سمجھو کہ اس مرتبہ میجر سپلائی لینے نہیں آئے گا۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔

عاصم اچھل ہی پڑا تھا ۔۔۔۔کیا مطلب ۔۔الہ دین کا چراغ تو آپ کو نہیں مل گیا ۔۔۔

الہ دین کا چراغ تو نہیں ملا مگر میجر راجیش کی بیوی ضرور مل گئی ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ راجیش کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔۔۔میں نے پچھلی رات کی کہانی عاصم کو سنا دی ۔۔وہ بھی ہنسنے لگا۔

اور پھر کہا کہ راجہ صاحب پلان بالکل واضح ہے ۔۔آپ راجیش کو کسی طرح رکوا دیں ۔۔۔سپلائی سینٹر والا اپنا بندہ ہے ۔۔۔۔اس سے ملنے کے بہانے جائیں گے اورٹرک کے نیچے ہی جگہ بناتے ہیں ۔۔۔میں دو چار بیلٹ کا انتظام کر لیتا ہوں جس سے ہم ٹرک کے نیچے خود کو باندھ سکیں ۔۔۔ایک مرتبہ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو جائیں تو پھر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔میں نے بھی ہامی بھر لی ۔عاصم کو تجوری دکھائی کہ اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا آپ کی دولت ہے ۔۔آپ جانیں آپ کا کام ۔۔ہم تو پرندوں کی طرح ہیں ۔۔آج یہاں تو کل وہا ں ۔۔۔۔میں نے بیل بجا کرچھوٹے پجاری کو بلوا لیا۔۔وہ عاصم کو باہر چھوڑ کر آ گیا ۔


جیوتی بھی فریش ہو کر آ گئی تھی ۔۔۔اس کے گالوں کی سرخی پہلے سے بڑھی ہوئی تھی ۔۔۔۔وہ میرے لئے ناشتہ لے آئی تھی ۔۔۔ کل جب میں نےدیکھا تھا تو چہرے پر اداسی تھی ۔۔مگر آج وہ اداسی دور ہو چکی تھی ۔۔۔۔جیوتی کے انداز بھی تبدیل ہو چکےتھے ۔۔وہ راجیش کو چھوڑنے کو تیار تھی ۔۔۔اور ناشتہ کے دوران وہ کئی بار اس کا اظہار بھی کر گئی ۔۔۔۔۔۔میں خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔۔ناشتے کے بعد میں نے پوچھا کہ تمہارا گھر کہاں ہے ۔۔اس نے بتایا کہ راج گڑھ میں وہ ساس سسر کے ساتھ رہتی ہے ۔۔جبکہ شملہ میں اس کا اپنا بھی ایک گھر ہے ۔۔۔میں نے ایڈریس اور نمبر لے لیا ۔۔اور پھر تجوری کی طرف بڑھا ۔۔۔۔زیورات کا ایک خوبصورت سیٹ نکال کر جیوتی کو دیا ۔۔۔۔۔اس نے انکار کیا کہ مہاراج ان چیزوں کی مجھے ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔میں نے کہاکہ یہ میری نشانی سمجھ کر رکھو ۔۔۔وہ خوش ہو گئی ۔اور وہیں پہن کر دکھانے لگی ۔۔۔اتنے میں میں نے ایک چادر اٹھا کر بیڈ پر بچھا دی ۔۔۔اور تجوری نکال کر خالی کرنے لگا۔جیوتی اتنی دولت دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔۔میں نے ساری دولت اٹھا کر باندھ دی ۔۔اور جیوتی سے کہا کہ اب غور سے میری بات سنو ۔۔۔تم ابھی یہاں سے اپنے گھر جا رہی ہو ۔۔یہ دولت اپنے ساتھ لے جاکر چھپا کررکھنی ہے ۔۔۔میں تمہیں فون کروں گا ۔تو تم یہ لے کرآؤ گی ۔۔۔اس دولت سے تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ میں تم پر کتنا بھروسہ کرتا ہوں ۔یہاں مندر پر مجھے کسی پر بھروسہ نہیں ہے ۔۔یہ لوگ مجھے مار کر چھوٹے پجاری کو آگے لانا چاہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔سیاہ آنکھیں مجھ پر جمائے جیوتی غور سے پوری بات سن رہی تھی ۔۔۔۔اب کرنے والا کام سنو ۔۔۔۔۔آج رات کو تمہار ا پتی راج گڑھ آ رہا ہے ۔۔۔صبح وہ شملہ کے لئے نکلے گا۔۔تم کچھ بھی کرو ۔۔اسے کل ناشتے تک اپنے پاس روک لو ۔۔آنے والی رات اس کے لئے بہت اشبھ ہے ۔۔۔۔ اگر کل وہ جانا چاہے تو خیر ہے جانے دینا ۔۔۔جیوتی کا ذہن کچھ کنفیوژ ہوا تھا کہ مجھے کیسے پتا راجیش نے آج رات آنا ہے ۔۔مگر وہ اسے بھی میری کوئی کرامت سمجھی اور سر ہلاتے ہوئے راضی ہو گئی ۔۔۔۔جاتے ہوئے جیوتی پھر لپٹنے لگی ۔۔۔مہاراج میں آپ کے فون کا انتظار کروں گی ۔۔اس کے گارڈ مندر میں ہی تھے ۔۔اور مجھے یقین تھا کہ حفاظت سے یہ دولت لے جائےگی ۔۔۔۔۔۔جیوتی کو رخصت کرنے کے بعد میں نےپجاری کو کھینچ کر باہر نکالا۔وہ مجھے اپنی جگہ پر براجمان بیٹھا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اس کی حالت پتلی ہوئی وی تھی ۔۔۔ایک ہاتھ کھول کر دوسر اس کے پیروں سے باندھ دیا اور رات کا باسی کھانا کھانے کو دیا۔۔۔۔کھانا کھاتے ہوئے میں اسے دیکھ رہا تھا۔۔ایک رات کی قید نے اس کی اکڑ ختم کر دی تھی ۔۔۔۔سالہا سال کی ہڈ حرامی نے اسےکام چور اور نکھٹا بنا دیا تھا ۔۔۔اور بزدل تو یہ قوم ہمیشہ سے ہے ۔۔۔کھانا کے بعد میں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ میں تمہیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔۔۔۔میرے جانے کے بعد کوئی شورشرابہ نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔ورنہ دوبار آ کر جان سے ماروں گا ۔۔اسے اچھے سے سمجھا کر میں نے ا س کا آئی فون اٹھایا اور ساری ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں ۔۔۔پھر خیال آیا تو موبائل ہی نیچے مار کو توڑ دیا ۔۔۔میں نے اس کے منکے اور انگوٹھی اتار کے اس کے حوالے کی ۔۔۔اور اپنے پہلےوالے حلیئے میں آ گیا۔عاصم کو مندر کے پیچھے آنے کا کہ میں۔۔بیگ لے کر باہر آیا ۔۔۔۔موبائل ٹوٹنے کیوجہ سے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔میں نے اس کے کمرے کی چھت سے باہر نکلتی ہوئی ٹائل کو پکڑ کر جھولا اور اوپر چڑ ھ گیا ۔۔بیٹھے بیٹھے میں درخت تک پہنچا ۔۔۔اور درخت سے ہوتا ہو ا نیچے آ گیا ۔۔۔۔۔عاصم پہنچ چکا تھا ۔۔اس کے ساتھ بائک پر بیٹھا اور واپس گھر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ چائے کی شدت سے طلب تھی ۔۔اور ہم دونوں میں بھی یہ مشترک بات تھی ۔۔۔عاصم کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔اور کچھ دیر بعد چائے لے کر آیا ۔۔۔چائے کے بعد میں نے عاصم سے ایکسپلوزو کے بارے میں پوچھا کہ ریموٹ کنٹرول اور دوسرے طرح کے مل جائیں گے ۔۔۔اس نے کہا راجہ صاحب آپ بالکل فکر نہ کریں ۔۔جس سپلائی سنٹر سے کل مال جا رہا ہے ۔۔اسی میں اپنی سیٹنگ ہے ۔۔۔۔میں نے سامان کی لسٹ بنانی شروع کر دی ۔۔۔چائے پی کر آرام کرنے لیٹ گیا ۔۔پچھلی رات بھی سکون سے نہیں گذری اور اگلی رات کا کچھ پتا نہیں تھا ۔۔۔عاصم لسٹ لے کر فون کے ساتھ مصروف ہو گیا ۔۔۔شام کو میری آنکھ کھلی تھی ۔۔عاصم باہر گیا ہوا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر میں وہ آ گیا ۔۔ایک بیگ میں مطلوبہ سامان تھا۔۔۔۔۔عاصم بیگ میرے سامنے رکھتے ہوئے بولا ۔۔سرکار سامان حاضر ہے ۔۔۔میں بیگ کھولا اور دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔یہ سی فور چارجز تھے ۔۔۔جو ایک انچ کی مقدار میں ایک ہزار انچ کی تباہی مچاتے تھے ۔مختلف قسم کے ڈیٹو نیٹرز تھے ۔۔آٹو ٹائمر اور دوسرے ریموٹ کنٹرولڈ۔۔۔ساتھ ہی مشین پسٹل ، سائلنسر اور ایمونیشن وغیرہ تھے ۔۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہ ہیڈکوارٹر کی بارات کا مکمل انتظار کر کے لائے ہو ۔۔۔۔۔۔شام ہو چکی تھی ۔۔۔اور عاصم کی معلوما ت کے مطابق راجیش رات کو ہی راج گڑھ آتا ہے ۔۔اور صبح 3بجے فکس یہاں سے نکلتا ہے ۔۔۔۔اوراگرجیوتی راجیش کو اپنے پاس روکتی ہے ۔۔تب کیا سیٹنگ بنتی ہے اس کا کچھ نہیں پتا تھا ۔۔۔عاصم نے ایک بندہ اس کام پر لگا دیا تھا ۔۔۔رات کا کھانا ہم نے گھر میں ہی کھایا تھا ۔۔۔اس کے بعد چائے کا دور چلا ۔۔۔۔رات 1 بجے میں اور عاصم باہر نکلے تھے ۔۔۔۔ہم آرمی والوں کی سپلائی سینٹر پہنچے تھے ۔۔عاصم مین گیٹ سے اندر گیا ۔۔۔اور کچھ دیر بعد ایک پچھلا گیٹ کھلوا کر مجھے اندر لے گیا ۔۔یہ چور راستہ تھا ۔۔۔شراب و شباب کی انٹرنیس کے لئے یہاں سے راستہ نکالا تھا ۔۔۔۔ایک بڑے سے اسٹوریج ہال میں عاصم مجھے چھوڑ کر دوبارہ اندر گیا ۔۔۔۔۔۔یہ ایک گھنٹہ میں نے ایسے ہی گذارا تھا ۔۔۔۔۔اس وقت ٹرک شاید لوڈ ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔عاصم نے مجھے لے جا کر دور سے ٹرک دکھادیا۔۔۔کچھ بیلٹ لا کر دیں کہ آپ نیچے جا کر جگہ بنائیں ۔۔۔۔۔میں ان کے سامنے مین گیٹ سے جا کر پچھلے گیٹ سے واپس آؤں گا۔۔۔۔میں بیلٹ لئے ٹرک کے نیچے گھس گیا ۔۔۔۔ٹرک بڑا اور جدید تھا ۔۔۔میں نے آسانی سے بیلٹو ں کی مدد سے دو جھولے بنا لیے ۔۔۔اور بیگ کو رکھ کر ایک جھولے پر نیم دراز ہو گیا ۔۔۔کچھ دیر میں عاصم بھی چھپتا چھپاتا آ گیا ۔۔۔ایک جھولا اس نے سمبھال لیا۔۔۔تین بجنے میں دس منٹ ہی باقی تھے ۔۔۔۔کچھ دیر میں ہمیں قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔۔اور پھر ٹرک اسٹارٹ ہو گیا۔۔۔

سیدھے روڈ پر ٹرک کاسفر جاری تھا ۔۔عاصم کی معلومات کے مطابق ٹرک کے اندرونی اسکیننگ کا کوئی سسٹم نہیں تھا ۔۔مرسڈیز کمپنی کا یہ ٹرک پہلے ہی آرمرڈ تھا ۔۔۔اور سپلائی بھی آرمی ہاؤس سے ہوتی تھی ۔۔۔اور درمیان میں کہیں رکنے کی گنجائش بھی نہیں تھی ۔۔اس لئے ہم بے فکری سے ٹرک کے نیچے بیلٹ سے بندھے ہوئے سفر کر رہے تھے ۔۔۔۔عاصم نے بیگ بھی ایک بیلٹ سے اٹکا دیا تھا ۔۔۔اس کے چہرے پر جوش کے آثار تھے ۔۔جو یقینا بہادری کی علامت تھی ۔۔۔۔۔۔میری گھڑی میں ٹائم کے ساتھ اسپیڈو میٹر بھی تھا ۔۔۔اور ٹرک اس وقت سو کلو میٹر کی اسپیڈ سے بھاگ رہا تھا ۔صبح کے اجالے پھیل رہے تھے ۔۔۔۔۔بیس منٹ کا سفر رہ چکا تھا ۔۔۔عاصم نے لیٹے لیٹے ہی بیگ کی زپ کھولی اورایک سائیلنسر لگا پسٹل نکال کر مجھے پکڑا دیا ۔۔۔میں نے میگزین نکال کر چیک کیا ۔۔۔۔اور پھر سائیڈ ہولسٹر میں اٹکا دی ۔۔۔۔ٹرک کی اسپیڈ کچھ آہستہ ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے چاروں طرف باڑ لگے ہوئے ایریے کو دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور پھر ایک گیٹ سے اندر جا کرٹرک رک گیا تھا ۔۔۔۔ڈرائیور اتر کرباہر آیا ۔۔ ۔۔اور کچھ قدم آگے جا کر رک گیا ۔۔۔۔اور پھر واپس آ کر ٹرک میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔میں نے ہائیڈرولک سسٹم کی مخصوص آواز سنی ۔۔۔۔۔اور ٹرک کے سامنے سے ایک روڈ کا ایک ٹکڑا اندر کی طرف جھکتا چلا گیا۔۔۔۔۔اس پورے ایریئے کو زبردست طریقے سے کیمو فلاج کیا گیاتھا ۔۔۔۔ٹرک آگے بڑھا۔۔۔میں نے دماغ میں کیلکولیشن کر لی ۔ہم زمیں پر رگڑے بغیر اندر پہنچ سکتے تھے ۔۔۔۔۔اور پھر ٹرک اندر ایک بڑے سے گیراج میں جاکر رکا ۔۔۔اگلی سیٹ سے ڈرائیور اترا ۔۔اور پھر تیز قدموں سے ایک طرف بڑھتا چلا گیا ۔۔۔عاصم نے کہا کہ یہ حاضری اور سامان کی لسٹ دینے گیا ہو گا۔۔۔۔۔اترنے کی کریں ۔۔۔۔۔
میں نے بیلٹ میں پھنسے ہوئے پیر نکالے ۔۔۔اور ہاتھوں کے بل پر نیچے لیٹتا گیا ۔۔۔اور کروٹ لے کر سیدھ ہوا ۔۔۔چاروں طرف کا جائز ہ لیا ۔قریب ہی کچھ اور گاڑیاں کھڑی تھیں ۔۔۔۔میں ایک گاڑی کے پیچھے جا کراس کی اوٹ میں ہو گیا ۔آس پاس کیمرے نہیں لگے تھے۔پچھلی سائیڈ پر ایک گیٹ تھا۔۔۔۔۔۔عاصم بھی میرے پاس آ پہنچا ۔۔اس کے ہاتھ میں بھی پسٹل تھی۔۔۔۔جوگرجنے کے بجائے برسنے کے لئےتیار تھی ۔۔۔عاصم مجھے روک کر آگے بڑھا ۔۔جس طر ف ڈرائیور گیا تھا ۔۔۔اور میں گاڑیوں کا جائزہ لینےلگا ۔۔۔یہ مخصوص اندا ز کی آرمرڈ جیپ تھیں ۔۔۔اور شاید میجر راجیش کی ٹیم کی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے جیپ سے چھیڑ چھاڑ کا ارادہ موخر کر دیا ۔۔۔۔۔الارم سسٹم اور دوسری چیزیں کی موجودگی کا خطرہ تھا۔۔۔۔عاصم تھوڑی ہی دیر میں واپس آیا تھا ۔۔۔اور بات کرنے کے بجائے دبک کر وہیں بیٹھ گیا ۔۔۔۔میں بھی چپ رہا ۔۔۔اتنے میں قدموں کی چاپ ابھری ۔۔۔۔یہ ٹرک کا ڈرائیور تھا ۔۔۔کوئی فائل اندر ٹرک میں پھینک کر ہماری طرف آیا ۔۔۔ہم اور زیادہ دبک گئے ۔۔۔۔ڈرائیور ہمارے برابر سے ہوتا ہوا پچھلی طرف ایک گیٹ کی طرف گیا تھا ۔۔۔گیٹ پر اسکیننگ مشین تھی ۔۔وہاں اپنا کارڈ سوئیپ کرتا ہوا کھڑا ہی تھا کہ ہم اس کے سر پر پہنچے ۔۔۔ادھر اس نے کارڈ جیب میں ڈالا ادھر میں نے اس کی گردن ناپ لی تھی ۔۔۔مخصوص تکنیک تھی ۔۔۔اس کا آواز اور سانس بھی دب چکی تھی ۔۔۔۔عاصم نے گیٹ کھولااور اندر داخل ہوا۔۔۔اور پھر اوکے کا اشارہ کرتےہوئےہاتھ ہلایا۔۔۔میں نے ڈرائیور کی گردن کو دباتے ہوئے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ڈرائیور بھی شاید کمانڈو ۔ہی تھا ۔۔۔اس نے دروازے کے درمیاں پہنچتے ہی تیزی سے جھک کر مجھے اچھالنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔اگر وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اچھلتا ہوا سامنے جا گرتا تو یہ اس کی بھول تھی ۔۔۔۔میں اسی تیزی سے اپنے پاؤں اٹھا کر اس کی گردن سے جھول چکا تھا ۔جھولتے ہوئے میں نیچے بیٹھا تھے ۔اور اسے بھی اپنی گود میں گھسیٹ لیا تھا۔۔۔۔میرے وزن نے اس کے جھٹکے کو بھی برابر کرتے ہوئے اسے پیچھے کھینچا تھا ۔۔۔۔اس کی آنکھیں باہر آئیں تھیں ۔ہاتھ مارنے کی پوری کوشش کی تھی ۔۔مگر۔اگلے تیس سیکنڈ میں وہ بے ہوشی کی نیند سو چکا تھا ۔۔۔۔۔میں نے اٹھتے ہوئے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں ۔۔۔۔۔یہ ایک رہائشی حصہ تھا ۔۔یہاں ایک مہینے جو لوگ رہتے تھے ۔۔وہ یہاں پر آرام کرتے ہیں ۔۔۔۔اس کے بعدعاصم نے الماری اور دوسری چیزوں کی تلاشی لینی شروع کر دی ۔۔۔۔۔سیکورٹی کارڈ وہ اپنی جیب میں ڈال چکا تھا ۔۔۔اس کے بعد ہم اگلے کمرے میں پہنچے ۔۔یہ بھی فرنش کمرے کی طرح سجا ہوا تھا۔۔۔اسی طرح اگلے کمرے میں ۔۔۔یہ کل چھ کمرے تھے ۔۔۔عاصم تیزی سے تلاشی لیتا ہوا بڑھ رہا تھا ۔۔اور آخری کمرے کی الماری کی تلاشی لیتے ہوئے وہ ٹھٹکا تھا ۔۔راجہ صاحب یہ دیکھیں ۔۔۔میں اس کے قریب پہنچا یہ ایک اسرائیلی پاسپورٹ تھا ۔۔۔اور ایسے تین اور پاسپورٹ ملے ۔۔اس کا مطلب اس بلڈنگ میں ابھی بھی تین اسرائیلی موجود تھے ۔۔۔میرے خون نے جوش مارا تھا ۔۔انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا سنا تھا ۔۔آج پہلی بار دیکھ بھی لیا۔۔۔

یہ ٹوٹل چھ کمرے تھے ۔۔۔اور کمرے میں دو دو بیڈ تھے ۔۔صرف آخری کمرے میں تین بیڈ تھے ۔۔ اس کا مطلب 13 بندے اس وقت بندے موجود تھے ۔۔باقی رہی میجر راجیش کی ساتھ کی سیکورٹی کی وہ دس کے قریب اسپیشل کمانڈوز تھے ۔۔۔۔
Read my all running stories

(वापसी : गुलशन नंदा) ......(विधवा माँ के अनौखे लाल) ......(हसीनों का मेला वासना का रेला ) ......(ये प्यास है कि बुझती ही नही ) ...... (Thriller एक ही अंजाम ) ......(फरेब ) ......(लव स्टोरी / राजवंश running) ...... (दस जनवरी की रात ) ...... ( गदरायी लड़कियाँ Running)...... (ओह माय फ़किंग गॉड running) ...... (कुमकुम complete)......


साधू सा आलाप कर लेता हूँ ,
मंदिर जाकर जाप भी कर लेता हूँ ..
मानव से देव ना बन जाऊं कहीं,,,,
बस यही सोचकर थोडा सा पाप भी कर लेता हूँ
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- raj sharma
User avatar
rajsharma
Super member
Posts: 15829
Joined: 10 Oct 2014 07:07

Re: Sarfaroshi سرفروس کی تمنا

Post by rajsharma »


میں نے عاصم سے ڈرائیور کو ہوش میں لانے کا کہا اور پیچھے اس کی طرف چل پڑے ۔۔۔اس کو ہوش میں لانے کے بعد عاصم نے کچھ ڈوز دی اور وہ منہ کھولنے پر تیار ہو گیا ۔۔۔اور اس سے ہمارے اندازے کی تصدیق بھی ہو گئی تھی ۔۔۔یہاں13 کے قریب بندے تھے ۔۔جب کہ کمانڈوز پانچ تھے ۔۔باقی پانچ راجیش کے ساتھ تھے ۔۔جو کسی بھی وقت پہنچنے والے تھے ۔۔ڈرائیور نے آرام کر کے دوپہر تک واپس جانا تھا ۔۔۔۔۔۔اور بلڈنگ کا اس نے بتایا کہ جیسے چھ کمرے یہ ہیں ۔۔ویسے ہی آفس کے اس طرف ایک بڑا ہال اور دو چھوٹے کمرے ہیں ۔جبکہ باقی ہال اسٹوریج اور پاور سپلائی کے کام آتے تھے ۔۔۔۔۔میرے ذہن میں پلان بننے لگا تھا ۔۔۔۔میں نے پسٹل نکال لی۔۔ڈرائیور کی کنپٹی پر پڑنے والی ضربوں نے اسے پھر سے ہوش و حواس سے بیگانہ کر دیا ۔۔میں نے تیزی سے اس کے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ڈرائیور زمین پر ننگا پڑا تھا ۔۔میں کمرے کے شیشے کی طرف بڑھا اور اس کے کپڑے پہننے لگا۔۔اس کا لباس مجھے کچھ تنگ تھا۔۔۔ایک کمرے سے مجھےآرمی ٹوپی ملی ۔۔وہ پہن کر میں تیار تھا ۔۔۔عاصم کو میں نے کور دینے کا کہا اور آفس کی طرف جانے کے لئے تیار ہو گیا ۔۔۔۔ٹوپی قدرے جھکی ہوئی تھی ۔۔۔میں سر جھکا کر چلنے لگا۔۔۔گیراج کراس کر کے آگے آیا ۔۔سامنے ہی ایک کمرہ تھا ۔میں آہستہ قدموں سے سر جھکائے چلا جا رہا تھا۔۔۔کہ میری نظر بائیں طرف پڑی ۔۔۔ بائیں طرف سے ایک بڑے ہال کر دروازہ دکھ رہا تھا ۔۔۔اور کوئی بھی مجھے دیکھ سکتا تھا ۔۔اب واپس تو جا یا نہیں سکتا تھا ۔۔میں تیز قدموں سے آفس میں داخل ہو گیا ۔۔۔کمرے میں ایل سی ڈی کے سامنے بیٹھے شخص نے ایک نظر مجھے دیکھ کر کہا ۔۔کیا ہوا دوبارہ کیوں آ گئے ہو ۔۔اور پھر اسکرین دیکھنے لگا۔۔۔۔اسے کچھ تبدیلی کا احساس ہوا تھا ۔۔مگر دیر ہو چکی تھی ۔۔میں لپک کر اس کے پیچھے پہنچا تھا ۔۔۔۔گردن شکنجے میں آگئی۔۔۔اس نے ٹانگ مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔میں نے کرسی سمیت اسے پیچھے گھسیٹا تھا ۔۔مگروہ آتے آتے بھی ایل سی ڈی گرا چکا تھا۔۔ دھڑام کی آواز سے ایل سی ڈی پیچھے گری تھی ۔۔۔۔میں نے گردن پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اسے کرسی سے اٹھا یا اور نیچے پٹخ دیا ۔اس کی کمر پر سوار ہوتے ہوئے۔گردن کو مخصوص انداز میں مروڑا ۔۔کڑاک کی آواز کے ساتھ اس کی گردن مڑتی چلی گئی ۔۔۔میں اٹھ کر مڑا اور ساکت ہو گیا ۔۔سامنے ہی ایک کمانڈو میرے سامنے گن تانے کھڑا تھا ۔ہالٹ۔۔۔۔میں نے ہاتھ اٹھا دیئے ۔۔۔۔وہ ایک قدم آگے بڑھا تھا ۔۔تیز نظروں سے آفس کا جائز ہ لے رہاتھا ۔۔مگر موت اس کی پیچھے تھی ۔۔عاصم کا چہر ہ نمودار ہوا تھا ۔۔پسٹل اس کے سر کے پیچھے تھے ۔۔۔ہلکی سی چوں کی آواز آئی۔گولی اس کا ہیلمٹ توڑی ہوئی آگے نکلی تھی ۔۔۔۔میں تیزی سے آگے آیا ۔اور اسے پکڑ کر زمیں پر لٹا دیا ۔بلٹ پروف جیکٹ اورہیلمٹ پہنے یہ کمانڈو اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کے کان سے مائکرو فون نکالتا ہوا کان سے لگایا۔۔۔انگلش میں کوئی بولا تھا ۔۔ہیلو راکیش ۔۔ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔۔مجھے خطرے کی بو آئی۔۔۔وہ لوگ ہوشیار ہو گئے تھے۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی انساس اٹھا لی ۔ ۔۔جی تھری گن میں شمار یہ گن انڈیا کی اپنی میڈ تھی ۔۔۔میں نے رائفل اٹھا کر کاندھے سے لگائی ۔۔اور آفس کے دروازے سے ٹیک لگا لی ۔۔۔مائکرو فون ابھی بھی میرے کان میں تھا ۔۔۔جہاں ہیلو ہیلو کے بعد اب خاموشی تھی ۔۔۔۔عاصم میرے پیچھے تیار تھا ۔۔۔۔میں نے باہر بائیں طرف جھانکا ۔۔۔ہال کے دروازے کی دونوں سائیڈ پر کمانڈوز آچکے تھے ۔۔۔۔میں تیزی سے پیچھے ہوا۔اور۔گن باہر نکال کر میں نے برسٹ چلا یا تھا ۔۔۔۔گن کی گرج کے ساتھ بارود کی بو پھیلنے لگی ۔۔۔۔میں نے پھر جھانکا ۔۔۔۔کمانڈوز اوٹ لے چکے تھے ۔۔۔۔۔میں نے ایک چھوٹا برسٹ اور چلایا تھا ۔۔۔تبھی عاصم میرے برابر سے بھاگتا ہوانکلا ۔۔آفس سے نکل کر وہ گیراج کی سائیڈ پر گیا تھا ۔۔جہاں اسے اوٹ میسر تھی ۔۔اب ہم دو سائیڈ سے مقابلہ کر سکتے تھے ۔۔اتنے میں دو رائفل ایک ساتھ گرجیں تھی ۔۔۔دو لمبے برسٹ آئے تھے ۔۔۔آفس کی اس دیوار پر سےبہت سا پلستر اکھڑا ۔۔میں تیزی سے اندر اوٹ میں ہو گیا ۔۔۔تبھی ایک اسموک گرینیڈ میرے سامنے آ گر ا۔۔۔۔اور کثیف سا دھواں پھیلنے لگا۔۔۔میں نے گن نکال کر ایک برسٹ اور مار ا۔۔۔یہ دھواں تیزی سے پھیلا تھا ۔۔اور باہر راہداری اور آفس کے اندر بھرنے لگا۔۔۔مجھے کھانسی آئی تھی ۔۔۔۔میں منہ پر ہاتھ رکھے تیزی سے دروازے کی اوٹ میں ہو گیا ۔۔قدموں کی آہٹ آئی ۔۔۔۔تبھی میں نے مائکرو فون میں ون ٹو ۔۔کی آواز سنی ۔۔۔تھری کی آواز کے ساتھ ہی گیس ماسک پہنےایک کمانڈو دروازے سے اندر داخل ہوا ۔۔۔رائفل اس کی میرے برابر سے گزر رہی تھی۔۔ ۔۔میں نے اپنی رائفل رکھتے ہوئے پسٹل نکالی اور اس کی رائفل پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔رائفل کی نال میری ہاتھ کے زور سے اوپر اٹھی تھی ۔۔۔کمانڈو نے ٹانگ مارتے ہوئے مجھےا چھالنے کی کوشش کی مگر پسٹل کی گولی اس سے تیز تھی ۔۔پہلی گولی اس کے گھٹنے پر پڑی تھی ۔۔اور دوسر ی چہرے کو پھاڑتی ہوئی پیچھے نکلی ۔۔۔تبھی سامنے سے ایک برسٹ آیا ۔۔مگر ادھورا تھا۔۔۔عاصم نے بیک وقت فائر کرتے ہوئے پیچھے ون ٹو کہنے اور برسٹ مارنے والے کمانڈو کو خاموش کر وادایا تھا ۔۔۔تین کمانڈوز شکار ہو چکے تھے ۔۔میں نے باہر جھانکا میدان صاف تھا۔۔۔۔میگزین تبدیل کرتے ہوئے میں راہداری میں آیا اور آگے بڑھنے لگا ۔۔۔دوسرے شکار کے پاؤچ سے مجھے ہینڈ گرنیڈ مل چکا تھا ۔۔۔۔میں تیزی سے دیوار کی سائیڈ لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔۔۔۔۔قریب پہنچ کر میں نے پن کھینچی اور اندر پھینک دیا ۔۔فرش پر دھاتی گرنیڈ کے گرنے کی ٹن ٹن گونجی تھی ۔۔ساتھ ہی میں نےدوڑنے کی کچھ آواز سنی ۔۔۔۔میں دروازے کے اندر آچکا تھا ۔۔۔سائیڈ کونے پر ٹیبل کے ساتھ کور لئے کمانڈو نے گن سیدھی کرنے کی کوشش کی ۔۔۔برسٹ اس کے چہرے پر پڑا ۔۔۔وہ پیچھے کو گرا ۔۔۔۔میں تیزی سے دوسری طر ف مڑا ۔۔آخری کمانڈو اپنے ہی ایک بندے کی اوٹ میں لئے ہوئے فائر کرنے کو تیار تھا ۔۔میں نے تیزی سے لوٹ لگائی۔۔اور اوٹ میں گیا ۔۔عاصم پیچھے پہنچ گیا تھا۔۔۔اس نے پسٹل کا پورا میگزین اس طرف خالی کیا ۔۔۔۔وہ دونوں ریت کی بوری کی طرح گرے تھے ۔۔۔۔میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور جائز ہ لینے لگا۔۔۔کشادہ ہال میں مین فریم کمپیوٹر کے ساتھ دس کے قریب بڑی اسکرین لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔جن کے سامنے ہینڈل اور بٹن لگے ہوئے ایک بڑا سا کنٹرول پینل تھا ۔۔۔۔دوسری طرف ایکدوسرے کی اوٹ لیتے ہوئے لوگ تھے ۔۔۔یہ کسی رحم کے محتاج تو تھے نہیں ۔۔۔۔۔عاصم نے کمانڈو کی گن اٹھا ئے ہوئے سب صفایا کردیا ۔۔اسرائیلی ایجنٹ بھی انہی کے درمیان تھے ۔۔۔۔میں مین فریم کمپیوٹر کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں یہ ہال اجڑ چکا تھا۔فائرنگ اور بارود کی بو پھیل چکی تھی ۔۔۔۔۔ہم نے ہال کا ایک چکر اور لگایا ۔۔۔اور پھر نکلنے لگے ۔۔۔۔گیراج کی طرف آئے ۔عاصم نے ایکسپلوز نکال کر بلڈنگ میں فکس کرنے لگا ۔۔۔ٹائم بیس منٹ بعد کا رکھا
اس کے بعد میں آرمرڈ جیپ کی طرف بڑھا ۔۔۔اتنے میں عاصم اندر رہائشی علاقے کی طرف گیا ۔۔۔۔واپس آ کر بتا یا کہ ڈرائیور کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے ۔۔۔میں نے جیپ کھولی اندر چابیاں نہیں تھی ۔۔عاصم آگے آیا اوراسٹیرنگ کے نیچے ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا ۔۔۔اس کے ہاتھ تیزی سے تاروں کو ٹٹول رہے تھے ۔۔۔اور پھر دو تاروں کو توڑتے ہوئے اس نے آپس میں اسپارک کرنا شروع کیا ۔۔۔گاڑی کا انجن جاگ گیا ۔۔۔عاصم نے مجھے کارڈ دے کر گیراج کا گیٹ کھولنے کا کہا ۔۔۔میں سیکورٹی کارڈ لئے گیٹ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔سرر کی آواز کے ساتھ فرش نیچے بیٹھا تھا ۔۔۔۔عاصم جیپ آگے بڑھاتا گیا ۔۔۔میں بھی جیپ میں سوار ہو گیا۔۔ہمارا واپس کا سفر شروع ہو گیا ۔صبح اچھے سے پھیل چکی تھی ۔۔۔جیوتی نے اپنا کام کر دکھایا تھا ۔۔۔۔راجیش اب تک منظر سے غائب تھا ۔۔اور جب وہ ہیڈ کوارٹر پہنچتا ۔۔وہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہوتی ۔۔۔۔۔عاصم ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ہم دو کلو میٹر دور آ کر شملہ ہائی وے پر پہنچے ہی تھے کہ پیچھے سے بلندآوازدھماکے کی آواز آئی تھی ۔۔۔عاصم نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ اور گاڑی۔۔راج گڑھ کی طرف جانے کے بجائے لدھیانہ کی طرف گاڑی موڑ دی ۔شاید اس کی چھٹی حس نے بروقت اشارہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی وقت تھا کہ میں نے راج گڑھ والے روڈ سے ایک ایسی ہی آرمرڈ جیپ آندھی اور طوفان کی طرح آتے دیکھی ۔۔۔۔عاصم نے بھی دیکھ لیا تھا ۔۔ہوشیار کی آواز لگاتے ہوئے اس نے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔پچھلی جیپ ہمارے پیچھے ہی آئی تھی ۔۔۔۔اور پھر تعاقب شروع ہوگیا ۔۔۔عاصم نے بھی تیزرفتاری کے سارے ریکارڈ توڑے ۔۔۔مگر ایک تو سیدھا روڈ تھا ۔۔۔دوسر ا پچھلا ڈرائیور بھی مشاق تھا۔۔۔۔۔پچھلی گاڑی قریب آتی جارہی تھی ۔۔اور پھر فائرنگ کے برسٹ کی آواز گونجی ۔۔۔پچھلی گاڑی سے دو گنیں گنگنائیں تھیں ۔۔۔۔ٹائروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔عاصم نے اور اسپیڈ تیز کر دی ۔۔۔۔فائرنگ ابھی بھی جاری تھی ۔۔۔۔میں نے پسٹل نکالتے ہوئے پیچھے فائر کیے۔۔۔مگر اس کا کوئی فائد ہ نہیں تھا ۔۔آرمرڈ جیپ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔۔عاصم پوری اسپیڈ پر گاڑی کو بھگائے جار ہا تھا۔۔۔خالی روڈ پر عام گاڑی اس اسپیڈ پر نہیں جا سکتی تھی اور وہ ٹریفک میں اس اسپیڈ پر جا رہاتھا ۔۔۔۔میں نے میٹر دیکھا۔۔۔جیپ 160 کلومیٹر سے اوپر کی اسپیڈ پر تھی ۔۔۔۔۔۔تبھی عاصم نے مجھے کہا راجہ صاحب ہم لدھیانے کے قریب ہیں ۔۔۔۔میں تیزی سے کچھ موڑ کاٹتے ہوئے آپ کو اتاروں گا۔۔۔۔آپ اوٹ لے لیں ۔۔جب تک میں ان کو ٹھکانے لگاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔آپ لدھیانے پہنچ کر اس نمبر پر کال کیجئے گا۔۔۔عاصم تیز لہجے میں نمبر بتانے لگا۔۔۔میں اسے روکتا ہی رہا ۔۔مگر وہ اپنی بات پر بضد تھا ۔۔۔۔اور پھر اس نے تیزی سے گاڑی ایک کچے میں اتاری ۔۔اور اسپیڈ دیتا گیا۔۔۔۔ناہموار رستے پر بھی گاڑی کا سسپنش کمال کا تھا ۔۔۔۔ایک چھوٹے رہائشی علاقے کی طرف گاڑی مڑی ۔۔۔۔یہ ایک رہائش علاقہ تھا ۔۔۔۔عاصم نے تین چار روڈوں پر گاڑی تیزی سے گھمائی اور پھر ایک چوک پر گھماتے ہوئے مجھے اترنے کا کہا۔۔۔میں جیپ کے دروازے سے باہر کو نکلا تھا ۔۔۔اور پیر ٹکاتے ہوئے بھاگتے ہوئے اترا ۔۔یہ کوئی بازار ٹائپ کا علاقہ تھا ۔۔۔ایکطرف لوگوں کو رش تھا ۔۔میں بھاگتے ہوئے ان میں شامل ہونے لگا۔۔۔۔عاصم کی جیپ نے اسپیڈ ماری تھی ۔۔۔اور سیدھی اڑتی چلی تھی ۔۔۔پچھلی جیپ بھی اسی طرح چوک گھوم کر اسکے پیچھے چلی گئی ۔۔میں نے گہری سانس کھینچی اورروڈ کے کنارے چلنے لگا۔۔۔تبھی ایک شخص چلتا ہوا میرےپیچھے آیا ۔۔۔بھاری چادر اوڑھے ہوئے اس شخص کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار تھا جس کی نوک میری کمر سےلگی تھی ۔۔۔قریب آ کر وہ تیز لہجے میں بولا۔سیدھا چلتا رہ ۔۔۔ورنہ ادھر ہی سوراخ کر دوں گا۔۔۔۔میں قدم بڑھتا گیا ۔۔۔۔وہ مجھے لیتا ہو ا کچھ گلیوں میں گھسا اور ایک دروازے کے سامنے کھٹکھٹانے کو کہا ۔۔۔دروازہ کھلا اور ہم اندر پہنچ گئے ۔۔۔گھر کچا بنا ہوا تھا ۔۔سامنے مٹی کا فرش اور تین کمرے تھے ۔۔جبکہ باہرصحن تھا چھوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اندر 3 افراد مزید تھے ۔۔۔پگڑیاں پہنے ہوئے یہ نوجوان ہتھیار بند بیٹھے تھے۔۔۔۔اوئے بلبیرے اے کنوں چک لایاجے ۔۔۔۔۔۔آگے بیٹھے نوجوان نے آواز لگائی تھی ۔۔پیچھے والا بلبیرے نے مجھے آگے کو دھکا دیا تھا ۔۔۔۔یہ اس راجیش کی گاڑی سے اترا تھا ۔۔اسی کا بندہ ہے ۔۔۔۔۔میں سمجھ گیا کہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔مگر بندے ٹھیک ہیں ۔۔میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں مانے ۔۔۔ایک سکھ اندر سے رسی لے آیا اورمیرے ہاتھ پیچھے کر کے باندھ دیئے ۔۔۔
اوئے بلبیرے تو جس کام سے گیا تو وہ کیا کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔پیلی پگڑی والےنے پھر ہانک لگائی تھی ۔۔

ہاں شیر سنگھ کام ہو گیا ہے ۔۔۔گاڑی ا پنی کلدیپ لا رہی ہے ۔۔میں اسے دیکھ کر رستے میں اتر گیا تھا ۔۔۔۔بس آتی ہی ہو گی

میر ی سمجھ میں یہی آ رہا تھا کہ یہ سکھ خالصوں کا کوئی گروپ ہے ۔۔۔اور شاید راجیش سے ہی ان کا آنکڑہ چل رہا ہے ۔۔۔تبھی باہر گاڑی کے ہارن کی آواز گونجی تھی ۔۔۔اور میں نے ایک بجلی سی اندر آتے دیکھی ۔۔سرخ و سپید رنگت میں یہ پنجاب کی ووہٹی تھی ۔۔۔۔۔کلدیپ کور بڑی سے چادر کے اندر لپیٹے اندر آئی ۔اس کے چلنے میں بے حد پھرتی تھی ۔۔۔۔۔چادر اتار کر سائیڈ پررکھی تو نیچے گولیوں کے میگزیں کے ساتھ پسٹل بھی لگی ہوئی تھی ۔۔۔اس نے پھر مجھ سے معلوم کرنے کی کوشش کی تھی ۔کہ میرا ۔راجیش سے کیا تعلق ہے ۔۔۔۔۔مگر میرا تو اس کی بیوی سے تعلق تھا ۔۔راجیش کو تو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔تبھی اندر سے بلبیر چار رائفلیں لے کر آیا ۔۔ایک کلدیپ کو دیتے ہوئے باقی تینوں نے بانٹ لی ۔۔یہ شاید کہیں جانے کی تیار ی میں تھے ۔۔۔میں اطمینان سے بیٹھا انہیں دیکھنے لگا۔۔۔یہ چلےجاتے تو میں سکون سےنکل کر عاصم کے نمبر پر فون کر سکتا تھا ۔۔۔تبھی جاتے جاتے کلدیپ مڑی ۔۔۔اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔؟ ۔۔۔اور بلبیرے کے جواب نے مجھے اچھلنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔

اس نے بڑے سکون سے میرا سکون غارت کیا تھا ۔۔انوں وی اٌتھے لے چلدے نیں۔۔۔۔۔راجیش نال ہری سنگھ دا سودا کراں گے۔۔۔۔۔اور پھرمجھے بندوق کے زور پر اٹھاتے ہوئے باہر کھڑی جیپ میں بٹھا دیا ۔۔بلبیر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا ۔۔اور کلدیپ اس کے برابر میں ۔۔شیر سنگھ اور دو جوان پیچھےآ گئے ۔۔ ۔۔اور میں درمیان میں بندھے ہاتھوں کے ساتھ ۔۔۔

بلبیر فون پر کسی سے رابطہ کر رہا تھا ۔۔۔اور پھر فون بند کرتے ہوئے پرجوش آواز میں بولا ۔دس منٹ میں راجیش مین ہائی وے سے گذرے گا۔۔۔۔اس کی سیکورٹی ساتھ نہیں ہے ۔۔وہ راج گڑھ سے گھنٹا پہلے نکلا ہے ۔۔۔۔

پیچھے بیٹھے سکھ نے بھی راجیش کو گالی دیتے ہوئے کہا کہ اس سے آج نبٹ ہی لیتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد بلبیر نے جیپ اڑانی شروع کی ۔۔اور پھر جیپ لیتے ہوئے وہیں پہنچا جہاں سے کچھ دیر پہلے ہم گذر چکے تھے ۔۔۔میں ان لوگوں کی مخبری پر حیران تھا ۔ا ن کو صحیح اطلا ع دی گئی تھی ۔۔۔۔عاصم کے پیچھے جوگاڑی گئی تھی اس میں صرف کمانڈو زتھے ۔۔۔اور راجیش پیچھے آ رہا تھا ۔۔۔مین ہائی وے پر پہنچنے کے بعد جیپ ایک سائیڈ پر روکتے ہوئے بلبیر اتر گیا تھا ۔۔۔و ہ فون پر پھر کسی سے بات کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ کور بھی اپنی رائفل گود میں رکھے تیار بیٹھی تھی ۔۔۔اور پیچھے والے تینوں نوجوان مجھے گھورنے میں مصروف تھے ۔۔۔بڑی سے چادروں میں لپٹے یہ رائفل اندر چھپائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔بلبیر نے تیزی سے فون بند کیا اور پھرجیپ کی طرف لپکا ۔۔۔۔۔کالی گاڑی ہے ۔۔۔وہ پہنچنے والے ہیں ۔۔۔۔بلبیر کہتا ہواجیپ کا انجن اسٹار ٹ کرچکا تھا ۔جیپ ایک جھٹکے سے اٹھی اور مین روڈ پر آئی ۔۔ ۔۔۔میں نے بریک کے چیخنے کی اونچی آوا ز سنی ۔۔۔۔اور بے اختیار جیپ سے پیچھے دیکھا۔۔۔بلیک رنگ کی لینڈ کروزر جو شاید انتہائی تیز آ رہی تھی ۔۔۔۔جیپ کی وجہ سے ڈرائیور نے ایکدم بریک مارے تھے ۔۔اور اب یہ لینڈ کروزر گھسٹتی ہوئی ہماری طرف آرہی تھی ۔۔۔آہستہ ہوتی ہوئی ہمارے۔قریب آ کر اس کے ڈرائیور نے گاڑی لہرائی ۔۔اور سائیڈ سے نکالتا ہوا آگے جانے لگا۔۔۔اس کے خیال میں شاید غلطی سے کوئی اچانک آیا ہے ۔۔۔مگر یہ لہراتی ہوئی لینڈ کروزر جب بلبیرے کی جیپ کے سامنے آئی تھی تو اس نے تیزی سے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیا ۔۔۔جیپ کا انجن جاندار تھا ۔۔توپ کے نکلے ہوئے گولے کی طرف وہ لینڈ کروزر کے درمیانی حصے سے ٹکرائی اور گھسیٹتے ہوئے روڈ سے نیچے اتار دیا ۔۔۔۔ہماری جیپ کو بھی دھکالگا ۔۔میں آگے کو گیا تھا ۔۔تبھی بلبیر نے جیپ کو ریورس کیا ۔۔اور شاید دوبارہ ٹکر مارنے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔لینڈ کروزر کے گیٹ کھلے ۔۔۔۔سامنے والے گیٹ سے کمانڈو کود ا تھا ۔۔اس نے آتے ہی برسٹ مارا ۔۔۔۔گولی جیپ کی ونڈ اسکرین توڑتی ہوئی نکلیں ۔۔۔دو سے تین گولیوں نے بلبیر کی قمیض کو رنگیں کر دیا تھا ۔۔۔کلدیپ بھی نیچے جھکی تھی ۔۔۔اور میں بھی ۔۔۔۔پیچھے بیٹھے ہوئے تینوں جوان بھی اتر کر جیپ کے پیچھے پوزیشن سمبھالنے لگا۔۔۔دو طرفہ فائرنگ شروع ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تینوں رائفل ایک ساتھ گرجیں تو سامنے والے کمانڈو گولیاں کھا کر گرا تھا۔۔۔۔۔یہ تینوں تیزی سے آگے بڑھ کر لینڈ کروزر کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔۔میں نے سر اٹھایا ۔۔۔انہیں رکنے کی آواز دی مگر وہ کسی اور موج میں تھے۔۔۔ادھر کلدیپ جیپ سے اتر کر پیچھے کی طرف پوزیشن لے کر کور دینےلگی۔۔۔میں نے لینڈ کروزر کے نیچے حرکت کرتے ہوئے پاؤں دیکھ لیے تھے ۔۔۔وہ جو کوئی بھی تھا عقل مند تھا۔۔۔لینڈ کروزر کےنیچے سے اس نے تینوں کی ٹانگوں پر گولیاں چلائی تھی ۔۔۔اور گرنے کے بعد ایک لمبا برسٹ چلا یا۔۔۔۔۔کچھ دیر پہلے تک ہنستے کھیلنے والے اب اپنے ہی خون میں تھے ۔۔

کلدیپ غصے سے گالی دے کر چلائی ۔۔۔اور گن سیدھی کر کے برسٹ چلا دیا۔۔۔۔گن کچھ دیر تک گرجتی رہی اور پھر خاموش ہو گئی ۔۔کلدیپ پر ہیجان کی کیفیت طاری تھی ۔۔۔گن خالی ہونے پر پھینکی اور پسٹل نکال لی۔۔۔ادھر میں نے اس کمانڈو کو باہر آتے ہوئے دیکھا ۔۔۔اور ا س کے پیچھے میں نے راجیش کو اترتے ہوئے دیکھا ۔۔چھ فیٹ ہائیٹ کے ساتھ ہاف شرٹ پہنے وہ کسی ہیرو کی طرح اترا تھا ۔کمانڈو اس کے آگے چلتا ہوا آگے آرہا تھا۔۔۔۔ راجیش نے تیز نظروں سے چاروں طرف جائزہ لیا ۔اور پھر جیپ کے پچھلی سیٹ پر دبکے ہوئے مجھے دیکھا ۔۔۔۔۔ادھر کلدیپ میرے پیچھے آئی اور پسٹل میرے سر پر رکھ کر مجھے اتارنے لگی ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ پیچھے بندھے تھے ۔۔۔۔کالر کو پکڑے ہوئے میرے سر سے پسٹل لگائے وہ مجھے آگے لائی ۔۔۔۔۔کمانڈو نے گن سیدھی کی مگر راجیش نے اسے روکا۔۔۔۔۔۔ادھر کلدیپ مجھے دھکا دیتے ہوئے آگے لے جانےلگی ۔۔۔۔قریب جاتے ہوئے اس نے راجیش کو گالی دی ۔اور کہنے لگی ہری سنگھ کو چھوڑ دو ۔۔۔۔ورنہ اس کو مار دوں گی ۔۔۔۔۔راجیش حیرت سے مجھے دیکھ رہا۔۔۔۔اس پورے فریم میں کہیں بھی فٹ نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔یہ کون ہے ۔۔؟ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔یہ ہمار ا ساتھی نہیں ہے ۔۔تم اسے شوق سے گولی مار سکتی ہو۔۔۔۔۔

کلدیپ نے پسٹل میرے سر پرلگاتے ہوئے دھکا دیا ۔۔مار دوں گی اس کو ۔۔۔۔۔میرا بھائی چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ہری سنگھ تمہار ا بھائی تھا تو وہ مر چکا ہے ۔۔۔میں نےکل ہی اسے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا ۔۔۔اور رہی بات اس کی تو ۔۔تو اسے ہم جانتے نہیں ہیں۔۔۔تم ماردو یا ہم خود مار دیں گے ۔۔۔راجیش نے کمانڈو کو شاید اشارہ کیا تھا۔۔۔

کلدیپ کا دماغ شاید گھوم گیا تھا۔۔۔۔فضاء میں اچانک فائر کی آوا ز گونجی اور پھر متواتر فائر ہوئے ۔۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Read my all running stories

(वापसी : गुलशन नंदा) ......(विधवा माँ के अनौखे लाल) ......(हसीनों का मेला वासना का रेला ) ......(ये प्यास है कि बुझती ही नही ) ...... (Thriller एक ही अंजाम ) ......(फरेब ) ......(लव स्टोरी / राजवंश running) ...... (दस जनवरी की रात ) ...... ( गदरायी लड़कियाँ Running)...... (ओह माय फ़किंग गॉड running) ...... (कुमकुम complete)......


साधू सा आलाप कर लेता हूँ ,
मंदिर जाकर जाप भी कर लेता हूँ ..
मानव से देव ना बन जाऊं कहीं,,,,
बस यही सोचकर थोडा सा पाप भी कर लेता हूँ
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- raj sharma
User avatar
rajsharma
Super member
Posts: 15829
Joined: 10 Oct 2014 07:07

Re: Sarfaroshi سرفروس کی تمنا

Post by rajsharma »


کلدیپ نے کمانڈو کی طرف پسٹل کرتے ہوئے ٹریگر دبا یا۔۔اور پھر فائر کرتی چلی گئی ۔۔۔۔یہاں تک کہ پسٹل خالی ہونے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔کمانڈو کے گرتے ہی راجیش تیزی سے کلدیپ پر جھپٹا تھا۔۔۔۔۔اس کا اٹھا ہوا ہاتھ میرے پیچھے حیران و ششدر کھڑی کلدیپ پر پڑنے والا تھا ۔۔۔۔وہ لپکتا ہوا میرے سامنے آیا تھا ۔اور یہی وقت تھا جب میں نے حرکت میں آنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔میں نے بندھے ہاتھوں کے ساتھ خود کو اکڑایا ۔اورریلیکس کرتے ہوئے فرنٹ کک اچھالی تھی ۔۔۔اس کک کے ساتھ میرا وزن اور طاقت دونوں شامل تھے۔۔۔۔۔راجیش اچھلتا ہوا پیچھے گرا تھا۔۔جلدی سےاٹھتے ہوئے بیٹھا ۔۔۔۔۔سینے پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے وہ کینہ توز نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔میرے ہاتھ ابھی بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔۔۔۔اس کی سلگتی ہوئی آواز آئی تھی ۔۔۔۔۔کون ہو تم ۔۔۔۔میں نے جواب نہیں دیا ۔۔۔وہ دوبارہ آیا تھا ۔۔اس مرتبہ ہوشیار تھا ۔۔۔۔۔میری قریب آتے ہوئے وہ لہرایا تھا ۔میں ڈوج میں آ گیا ۔۔۔۔میری کک ہوا میں جھول کر رہ گئی ۔۔۔اس کا آہنی مکہ میرے جبڑ ے پر پڑا تھا ۔۔۔میں نیچے جھکا تھا۔۔۔خون کا ذائقہ میرے منہ میں محسوس ہوا ۔دوسرا مکہ میرے پیٹ میں پڑا میں مزید جھک گیا۔۔اس نے پیٹ پر کئی مکے مارے ۔۔۔ایک لات میرے کندھے پر پڑی اور میں پیچھے گرا ۔۔۔خون تھوکتا ہوا میں اٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔راجیش پھر میری طرف لپک رہا تھا ۔۔۔میں دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے پوری طاقت سے اچھلا تھا ۔۔اچھل کر راؤنڈ ہارس کک گھومی تھی ۔۔تیزی سے قریب آتے ہوئے راجیش کے چہر ے پر پڑی وہ تیورا کر گرا تھا۔۔۔۔۔وہ پھر اٹھا ۔۔اس کے چہرے پر خون کی بوندیں نمودار ہو گئیں تھیں۔۔۔میرے قریب آ کر اس نے میرا وار خالی کیا ۔۔اور اچھل کرکک مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔نشانہ میرا چہرہ تھا۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرح لہراتے ہوئے خود کو گھمایا تھا ۔۔۔۔راجیش کی کک ہوا میں اچھلی تھی ۔۔۔۔اس کے پیر کے زمیں پر رکھنے سے پہلے میں گھومتا ہوا اس کے عقب پر پہنچا تھا ۔۔راجیش نےمڑتے ہوئے دوبارہ سے مکہ گھمانے کی کوشش کی تھی ۔مگر۔۔۔میرے سر کی طوفانی ٹکر اس کی ناک پر پڑی ۔۔۔۔۔۔۔وہ ناک پر ہاتھ رکھے پیچھے کو گرا تھا ۔۔۔۔۔ناک سے خون بہنا شرو ع ہو گیا۔۔۔کلدیپ حیرانگی سے کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی
ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی ۔۔اب کی بار منزل کوئی اور تھی۔۔میں نے ٹائم دیکھا ۔ دوپہر ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔
راستے میں کلدیپ نے جیپ چھوڑ کر رکشہ لیا ۔۔۔۔اور دو تین گاڑیاں بدلنے کے بعد ہم ایک گھر کے سامنے تھی ۔۔ یہ بھی کچا مکان تھا ۔۔کلدیپ نے لکڑی کے دروازے کی درز میں پھنسی چابی نکالی اور اندر داخل ہو گئی ۔چھوٹا صحن تھا ۔۔اور دو کمرے ۔۔دیواریں مٹی کی بنی ہوئی ۔۔کمرے میں ایک تخت اور چارپائی بچھی ہوئی ۔۔۔۔۔مجھے چارپائی پر لیٹنے کا کہہ کر ۔۔۔۔۔کلدیپ کور پانی گرم کر کے لائی تھی۔۔۔۔۔۔اس کی چادر تو پہلے ہی کہیں گر پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔نسوانی خطوط واضح ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔کچے آموں جیسی مہک اس کے بدن سے نکل رہی تھی ۔۔۔۔میرے اوپر جھکی وہ میرا زخم صاف کرنے لگی ۔۔میری نظروں کی گرمی اسے محسوس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔وہ اگنور کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی ۔۔اس کے اندر کی نسوانیت بیدار ہو نے لگی تھی ۔۔۔۔سختی اور انتقام کے جذبات ختم ہوتے جار ہے تھے ۔۔اور اندر سے وہی ارمان انگڑائیاں لے رہےتھے ۔۔۔۔کلدیپ کور بالکل ویسے ہی تھی جیسے پنجاب کی ووہٹی ہوتی ہے ۔۔۔۔دودھ ملائی جیسے رنگت والی رنگت ۔۔۔۔بھرا ہوا جسم ۔۔۔کالی سیاہ آنکھیں ۔۔۔ٹھوڑی کے نیچے بنتا ہوا گڑھا۔۔۔ستواں پر غرور ناک ۔۔۔۔۔ جو ابھی لاج سے لال ہوئی جارہی تھی ۔۔۔۔اس کے اندر کی شوخی بھی باہر کو امڈنے لگی تھی ۔۔۔۔اور آنکھیں کسی پریشان غزال کی مانند چوکنی ہوئی وی تھی ۔۔۔۔میری ہلکی سی جنبش پر وہ چونکے جار ہی تھی ۔۔۔۔زخم صاف کر کے اس نے بتایا کہ وہ کھانے کا سامان لینے باہر جا رہی ہے ۔۔۔آدھے گھنٹے تک آئی گی ۔۔۔میں نے آنکھ سے اشارہ کر دیا اور آنکھیں بند کر دیں ۔۔۔۔۔۔میرے ذہن میں عاصم کا خیال آیا تھا۔۔۔۔وہ نہ جانے کہاں تھا ۔۔کلدیپ آ جائے تو فون کا پوچھوں اور کال کروں۔۔۔کلدیپ جلدی ہی واپس آگئی تھی ۔۔۔ایک ہاتھ میں کھانے کا سامان اور دوسرے میں فروٹ بھرے ہوئے تھے۔۔۔کھانا کھلا کر کلدیپ نے مجھے سونے پر مجبور کیا ۔۔۔۔پچھلی رات میری سپلائی سنٹر کے اسٹور میں گذری تھی ۔۔۔میں بھی سو گیا ۔۔۔۔رات شروع ہو چکی تھی جب ۔۔۔میرے منہ سے کراہ نکلی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر بیٹھنے لگا۔۔کلدیپ کور تیزی سے قریب آئی تھی ۔۔۔وہ ساتھ والے تخت پر لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔کھانے پینے کا پوچھنے لگی ۔۔میں نے منع کر دیا ۔فروٹ لے کر وہ قریب آئی ۔۔اچھا یہ لے لیں ۔۔۔۔۔۔وہ چارپائی پر میرے پاس آ بیٹھی تھی ۔۔اس کے چہرے پر بہت سے سوالات تھے ۔۔جو وہ مجھ سے پوچھنا چاہ رہی تھی میرے بارے میں۔۔میں نے اسے کہا کہ یہ تعارف وغیرہ کل پر رکھتے ہیں ۔بس نام ہی کافی ہے ۔۔۔راجہ نام ہے ۔۔۔۔۔وہ شکریہ ادا کرنے لگی کہ ہم نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا ۔۔پھر بھی میں نے اس کی جان بچائی تھی ۔۔۔۔میں کیا کہتا خاموش ہی رہا ۔۔۔مگر میری آنکھیں اسی پر جمی ہوئی تھی ۔۔جوچیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ اور بھی ہے ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی سمجھ لیا تھا ۔۔۔تبھی شوخی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔آپ آرام کریں کل بات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔وہ تخت کی طرف جانے لگی تھی ۔۔جب میں نے ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔۔نرم نرم ہاتھوں کا مقناطیسی لمس مجھ سے ٹکرایا تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ چھڑاوانے کی کوشش نہیں کی ۔۔۔ہلکے لہجے میں بس یہ کہا کہ ابھی آپ کی طبیعیت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔

طبیعیت بتانے کا ایکدوسرا طریقہ بھی تھا ۔۔۔اور میں نے وہی کیا تھا ۔اٹھتے ہوئے میں اس کے قریب پہنچا اور جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔۔۔۔۔کلدیپ نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ چھپایا تھا ۔۔۔۔میں اسے اٹھائے تخت پر آیا تھا ۔۔یہاں ایک گدا بچھا ہوا تھا ۔۔۔۔تخت پر اسے لٹانے کے بعد میں بھی ساتھ ہی لیٹا تھا ۔۔۔کلدیپ تخت پر نیچے کی طرف منہ کیے لیٹی ہوئی تھی ۔۔میں نےایک ہاتھ سے اس کے بالوں کو سہلایا تھا ۔۔۔۔سلجھے ہووؤں کو پھیلایا تھا ۔۔۔بال کھولتے ہوئے میں پھیلانے لگا۔۔۔یہ گھنے ہلکے سے براؤن بال تھے ۔۔۔۔۔پھیلنےکے بعد کمر تک آئے تھے ۔۔۔۔میں نے ٹھوڑی پکڑتے ہوئے اوپر اٹھائی ۔۔۔۔ناک میں سجی ہوئی لونگ چمکی تھی ۔۔۔میں بھی نیچے کو کھسکا تھا ۔۔۔۔اب جتنا اس کا چہرہ نیچےتھا ۔۔میرا چہرہ اس سے بھی نیچے تھے ۔۔۔اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولتے ہوئے مجھے دیکھا اور دوبارہ بند کردی ۔۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومتا ہوا ہونٹوں پر آیا ۔۔۔۔میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے چہر ہ اوپر کیا ۔۔۔اور ہونٹوں سے ہونٹ پیوست کردیئے ۔۔۔۔۔نرم نرم ہونٹوں کا ملاپ ہو ا تھا ۔۔۔کلدیپ کی آنکھیں بند تھی۔۔۔۔جھکی جھکی سے لرزتی پلکیں ۔۔۔۔۔میں ہاتھ بڑھاتا ہوا کمر پر لایا تھا ۔۔۔جسم قدرے بھرا ہوا اور نرم تھا ۔۔۔ہاتھ لگتے ہیں کلدیپ کے جسم میں حرکت ہوئی تھی ۔وہ تھوڑی اور نیچے کو جھکی ۔۔سمٹنے لگی ۔۔۔میں نے کلدیپ کی سانسوں کا اتار چڑھا ؤ دیکھ لیا تھا۔۔۔سانسیں تیزاور دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔مجھے اس پر بے پناہ پیار آ یا۔۔۔۔۔۔صبح والے روپ میں وہ کسی آتش فشاں کی طرح تھی ۔۔۔دھاڑرہی تھی ۔۔۔غصے کی حدت سے چہرہ بھی سرخ ۔۔مرنے اور مارنے کی بات کرنے والی ۔۔۔۔۔۔اور اب شرم سے سمٹنے والی کلدیپ کوئی اور تھی ۔۔۔میرے ہونٹ اب بھی اس کے ہونٹ پر تھے ۔۔ایک مرتبہ اس نےمیرے ہونٹ پکڑنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر پھر رک گئی ۔۔میں نے غور سے دیکھاتو وہ میرے زخم کی وجہ سے رکی تھی ۔۔میں نے اس کے کانوں میں سرگوشی کی ۔۔۔۔یہ ہونٹ میرے لئے مر ہم کا کام دے رہیں ہیں ۔۔۔۔اسے نہ روکو ۔۔۔۔کلدیپ پہلے تو جھجکی ۔۔۔۔مگر میں مستقل ہونٹ دباتے ہوئے رکتا اور اس کو جواب دینے کا کہتا ۔۔ دو تین بار ایسا کرنے کے بعد وہ بھی شروع ہو ئی ۔۔۔۔۔۔نرم پنکھڑی جیسے ہونٹ میرے ہونٹوں پر آئے تھے ۔۔۔دبایا تھا ۔۔۔۔کبھی اوپر ہونٹ ۔۔۔کبھی نچلے ہونٹ ۔۔۔۔۔۔ناک سے سانس نکالتے ہوئے کلدیپ میرے ہونٹو ں کو چومنے میں لگی تھی ۔۔۔۔میں نے اس کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس خود پر لانے لگا۔۔۔۔میرے سیدھے جسم پر وہ اپنے بے حد نرم وجود کیساتھ آئی تھی ۔۔اس کے جسم سے اٹھنے والی کچے آموں والی مہک نے مجھے خوشحال کر دیا تھا ۔۔۔۔۔سینے کے ابھار اپنے نرمی اور گولائیوں کے ساتھ میرے سینے پر دبے تھے ۔۔۔اور آنے کے بعد کلدیپ کچھ رکی تھی ۔۔مگر میں نے ہونٹ چومنے کی پہلی کی تو وہ بھی شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ اس کی کمر پر پہنچے ۔۔۔۔۔اور کمر پر گول دائرے بناتے ہوئے نیچے پہنچے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ پھر رک گئی تھی ۔۔۔شاید میرے انگلیوں کے لمس کو محسوس کر رہی تھی ۔۔جو بےحد نرم اور موٹے گول چوتڑ پر پہنچے ۔۔۔میں نے ہلکا سا دباؤ ڈالا ۔۔۔۔کلدیپ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے کہ رہی ہو کہ یہ کر نا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے دونوں سائیڈوں پر دباؤ دے کر جواب دیا کہ بہت ہی ضروری ہے ۔۔۔۔۔نیچے سے ہتھیارنے بھی جوش مارتے ہوئے اچھلنے کی کوشش کی ۔۔۔کلدیپ پھر رکی ۔۔اور شرارتی آنکھوں سے دیکھتی ہوئی پھر میرے لبوں پر مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوتڑوں پر دباؤ بڑھا یا اور نیچے جہاں تک ہاتھ جاتا وہاں تک اس کی سڈول اور صحت مند رانوں سے بھی فیض یاب ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ کے منہ سے گرم گرم سسکیاں نکلنے لگی ۔۔۔۔۔۔سانسیں اور بے ترتیب اور تیز ہوئیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے بیٹھنے کا کہا ۔۔۔۔۔وہ میرے اوپر بیٹھنے لگی ۔۔۔ٹانگیں لٹائے ہوئے پیچھے کی طرف تھیں ۔۔۔۔۔۔میرے سینے پر ہاتھ رکھتےہوئے ہی وہ بیٹھی تھی ۔۔۔۔میری نظر قمیض سے اندر کی طرف گئی تھیں ۔۔جہاں سفید گوری گوری دودھ ملائی جیسے ممے گہری لائنیں بنائے ہوئے تھے ۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے جھانکا تانی کرتے ہوئے دیکھا لیا۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھی تھی ۔۔۔جیسے اپنے جسم کی تعریف سننا چاہ رہی ہو ۔۔۔۔۔میرے ہاتھ بھی جان چکے تھے ۔۔۔اور بڑھ کر تھامنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔نرم نرم سے یہ ممے ہاتھ لگتے ہی سمٹنے لگے تھے ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی گہر ی سانس لی ۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھوں نے مموں کی پیمائش شروع کی ۔۔۔ایک ہاتھ سے پکڑنے کی کوشش کی تو ہتھیلی میں کچھ سمایا اور کچھ باہر کی طرف امڈ آیا ۔۔قمیض کچھ ٹائٹ تھی ۔۔۔جس کی وجہ سے ابھار بھی اوپر سے باہر کی طرف جھلکا تھا۔۔۔۔میں نے قمیض کے اندر سے دوسری مرتبہ ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔اور سیدھا اوپر لیتا گیا ۔۔۔برا کے اوپر سے دباؤ ڈالا تھا ۔۔۔۔مموں کا نرم نرم لمس مجھے چھوا تھا ۔۔۔۔کلدیپ نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دئے تھے ۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند سی ہوئیں۔۔۔۔۔۔اور ہونٹوں سے گرم گرم سی سسکی نکلی ۔۔۔۔۔میں ہلکا ہلکا سے دباتا ہوا نپلز ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔۔اور پھر تھوڑے نیچے کی طرف ہی نپلز تھے ۔۔۔میں نے نپلز پکڑ کر اوپر کی طرف کئے ۔۔اور انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے مساج کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ کا دباؤ میرے ہاتھ پر بڑھا تھا ۔۔۔سسکی سی نکلی تھی ۔۔۔۔میں نے مساج جاری رکھا۔۔برا درمیاں میں آنے لگی تو اسے کھینچ کر اوپر کر دیا ۔۔نیچےسے اب پورے ممے میرے ہاتھوں میں تھے ۔۔نرم نرم سے اون کے گولے تھے ۔۔۔میں بھی آم کی طرح دباتا گیا ۔۔۔رس جو پینا تھا ۔۔۔۔کلدیپ بھی سسکاریاں بھرنے میں لگی رہی ۔۔۔میرے ہاتھ کو جن ہاتھوں سے اس نے دبایا تھا ۔۔۔اب وہ اسی پر ہاتھ پھیرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔بازو پر ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ نیچے کو آئی اور میرے سینے پر ہاتھ رکھے کر تھوڑی جھک گئی ۔۔۔۔۔اس کے جسم سے گرمی کی لہریں نکل رہی تھی ۔۔۔میرے اوپر اس کے جسم کا جو حصہ تھا۔۔۔وہ بھی بے حد گرم تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے ہتھیار کو مسلسل سینک رہا تھا۔۔۔۔میں نے کلدیپ کے سینے سے ہاتھ اٹھائے اور باہر نکال دیا ۔۔۔۔کلدیپ نے مجھے دیکھا جیسے وجہ پوچھ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔میں قمیض کو اٹھانے لگا۔۔۔۔کلدیپ سمجھ گئی ۔۔۔اورمیری مدد کرنے لگی ۔۔۔۔۔قمیض اتر گئی ۔۔۔۔۔اسکن کلر کی برا میں قید ممے سامنے تھے ۔۔۔رنگ تو اوپر سے دکھ گئی تھی ۔۔۔۔مگر نپلز بھی کم خوبصور ت نہیں تھے ۔۔۔چھوٹے سے گلابی رنگت میں ۔۔۔۔۔۔میرے مساج سے ہوشیار ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں نے مموں کو دیکھا اورکلدیپ کی طرف دیکھا ۔۔وہ سمجھ گئی ۔۔۔اور پیچھے ہاتھ لے جا کر بر ا کھولنے لگی ۔۔۔۔اور پھر ممے اپنی پورے سائز اور گولائی کے ساتھ سامنے آئے ۔۔۔۔۔زیادہ اٹھے ہوئے نہیں تھے ۔تھوڑے سے نیچے کی طرف مگر موٹے موٹے سے ۔۔۔میں نے اس کے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے تھے ۔۔جیسے ناپ لے رہا ہوں ۔۔۔انگلیاں پھیلی ہوئی تھی ۔۔انگوٹھے ناف کے اوپر اور چھوٹی انگلی کمر کی طرف جاتی ہوئی ۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھوں کو اوپر لاتے ہوئے میں نے مموں کو پکڑا تھا ۔۔۔میراہاتھوں کے لمس سے وہ مچل اٹھے ۔۔۔۔اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔میں بھی تیزی سے ہاتھ اوپر لے گیا اوراوپری طرف سے بھی پکڑ لیا۔۔۔۔۔اب میری مٹھی میں سے صرف نوک نکلی تھی ۔۔جس میں گلابی نپلز جھانک رہے تھے ۔۔۔۔۔میں نے مٹھی کھول کر دونوں مموں کی سائیڈ پر رکھ کر انہیں آپس میں جوڑنے لگا۔۔اور مموں کو آپس میں ہلکا سا رگڑنے لگا۔۔۔کلدیپ حیرت میری حرکت دیکھ رہی تھی ۔۔رگڑتے ہوئے نپلز بھی آپس ملانے کی کوشش کرتا ۔۔مگر وہ پھر دور ہٹ جاتے ۔۔کچھ دیر ایسے ہی کرتا رہا۔۔۔کلدیپ کے جسم میں بھی بےچینی بڑھی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر اس سائیڈ پر لٹانے لگے ۔۔۔۔۔ممے بھی خوش ہو کر ہلنے لگے ۔۔۔دودھ پینے کا ٹائم آگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لٹا کر میں کلدیپ کے اوپر جھکا۔۔۔۔اور دودھ کے ان چشموں کی طرف چہرہ لے گیا ۔۔۔۔جو میرا ہی انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔دائیں ممے کو پکڑ کے منہ میں ڈالا اور بائیں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔پہلے ممے کو پورےہونٹ کھولتے ہوئے اندر بھرتا ۔۔اور پھر ہونٹ بند کرنے لگتا ۔۔۔آخر میں نپل ہی قابو میں آ پاتا۔۔۔جسے میں اچھے سے زبان کی نوک سے مسلتا ۔۔۔۔۔اور پھر دوبارہ سے پورے ممے کو ہونٹوں میں بھرتا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں دوسرے ممے کی طرف آیا ۔۔۔اور اس کے نپل کو ہونٹ میں پکڑ کے کھینچنے کی کوشش کر تا۔۔۔کلدیپ میرے سر پر ہاتھ رکھے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔اسی طرح دونوں مموں کا رس پینے لگا۔۔۔اس کے بعد سیدھا ہوا۔۔۔شرٹ کے بٹن کھولے ۔۔۔۔کلدیپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔کندھے پر ہلکا سا نیل کا نشان بھی پڑ گیا تھا۔۔۔۔شرٹ اتار کر میں کلدیپ کی طرف آیا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹا ۔۔۔اور آدھے جسم کو خود پر لٹا دیا ۔۔۔۔کلدیپ کا بھی اوپر جسم ننگا تھا ۔۔۔۔میرے اوپر جھکی وہ میرے چہرے کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔ہم دونوں کے سینے آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ادھر کلدیپ چہرے کو چومنے میں مصروف ہوئی ۔۔اور میں ہاتھ اس کی کمر پر پھیرتے ہوئے نیچے لے گیا ۔۔۔شلوار کے پاس رکا اور شلوار کو نیچے گھسیٹ دیا ۔۔۔چوتڑ سے نیچے جا کر شلوار رک گئی ۔۔۔آگے میرا ہاتھ نیچے نہیں جا رہ تھا ۔۔ پینٹی کو بھی یہیں تک پہنچا دیا ۔۔۔جس سے عجیب سے مہک اٹھ رہی تھی ۔۔۔کلدیپ میرے چہرے پر جھکی تھی ۔۔۔۔میں اپنے ہاتھوں سے اس کے چوتڑ کے درشن کر رہا تھا ۔۔۔۔۔مگر یہ نظارہ بھی کم خوبصورت نہیں تھا ۔۔ نرم نرم اور گول سے چوتڑ تھے ۔۔میں نےدونوں ہاتھ اوپر رکھتے ہوئے دبایا تھا ۔۔۔۔اور نیچے سے رانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اوپر چوتڑ وں تک آتا ۔۔۔۔ایک ہاتھ دونوں چوتڑ وں کے درمیان لے گیا ۔۔۔۔گرم گرم ٹانگوں کے درمیان سے انگلی نکل کراگلی طرف پہنچی ۔۔۔۔۔اور چوت کے نچلے حصے کو لگی تھی ۔۔۔کلدیپ کچھ اچھلی سی ۔۔۔۔۔۔اور پھرمیرے اوپر ہی لیٹ گئی ۔۔۔میں نے دونو ں ہاتھ اس کے چوتڑ رکھے ۔۔۔۔میری انگلیاں اس کے چوتڑوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی آگے تک آتی ۔۔۔جہاں چوت کے نچلے حصے پر لگتی ہوئی نیچے آتی ۔۔۔۔میں نے دباؤ بڑھا یا تھا ۔۔۔کلدیپ نے بھی گہر ی سسکی بھری تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے ایک ہاتھ روکتے ہوئے اوپر کمر پر پھیرنے لگا۔۔۔اور دوسرے ہاتھ انگلیوں کو چوتڑوں کے درمیان سے آگے پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔چوت کے لب کے نچلے حصےپر انگلی لگی تھی ۔۔۔جہاں سے گیلا گیلا پن محسوس ہو رہات تھا ۔۔۔میں نے ہاتھ اور آگے بڑھا نے کی کوشش کی ۔۔اب کی بار چوت کے لبوں کے درمیان تک پہنچا تھا۔۔۔میں ہاتھ کھینچ کر اوپر لے آیا۔۔۔۔اور کلدیپ کو سیدھا ہونے کا کہا ۔۔۔۔کلدیپ نے ہاتھ سائیڈ پر ہو کر سیدھی ہونے کی کوشش کی ۔۔میں نے بھی مدد کی ۔۔۔ساتھ ہی اسے خود پر تھوڑا اوپر کر لیا۔۔۔اب وہ میرے اوپر سیدھی لیٹی تھی ۔۔۔۔سینے سے اوپر سے وہ کچھ ترچھی تھی ۔۔۔۔جس سے ہمارے چہرے آپس میں ملنے لگے تھے۔۔اس نے پہلے کی طرح چومنا جاری رکھا۔۔۔۔اور میرے دونوں ہاتھ نیچے گئے ۔۔۔اس کی رانوں کو دباتے ہوئے اوپر سے نیچے آنے لگا۔۔۔۔کچھ دیر ایسا ہی کیا ۔۔پھر ایک ہاتھ اوپر لے آیا ۔۔۔اوردوسرا ہاتھ ویسے ہی چوت کے لبوں پر گھوم رہا تھا۔۔۔اوپر حصے پر چھوٹا سا دانہ تھا ۔۔جہاں میری انگلی لگی ۔۔۔۔۔۔کلدیپ کی جسم نے لرزش کھائی تھی ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر دانے کو رگڑتا ہوا ۔۔انگلی چوت کے اندر داخل کرنے لگا۔۔۔۔کلدیپ نے ٹانگیں بھینچنے کی کوشش کی ۔۔انگلی اس کے پانی میں بھیگتی ہوئی اندر گئی تھی ۔۔اوپر والا ہاتھ اس کے مموں کو باری باری ٹٹول رہا تھا۔۔۔۔میری طرف چہرہ کیے اس کی آنکھیں مجھ سے تین انچ کے فاصلے پر تھی ۔۔۔۔مجھے اس کی آنکھوں میں لذت اور شہوت کی چمک دکھ رہی تھی ۔۔۔میں نے اس کے چہرے پر بوسہ دیا تھا ۔۔۔نیچے انگلی کی گستاخیاں ایسے ہی جاری تھیں ۔۔۔۔۔انگوٹھا دانے کو مسل رہا تھا ۔۔اور انگلی اندر کی طرف ہلچل مچا رہی تھی ۔۔دونوں ممے بھی میرے ہاتھوں میں خوش تھے ۔۔۔کلدیپ کا چہرہ میرے پاس ہی تھا ۔۔جس سے سسکاریں باہر کو ابل رہی تھی ۔۔۔سس۔سس کی آوازیں مجھے بھی للچا رہی تھی ۔۔۔میں اگلے تین منٹ تک منٹ اپنی انگلی کو حرکت دیتا رہا ۔۔۔پہلی والی کے ساتھ دوسری انگلی بھی شامل ہو چکی تھی ۔۔۔۔کلدیپ بھی مچلنے لگی تھی ۔اس کا ہاتھ میرے ہاتھ پر آگیا۔۔۔۔شاید انگلی تیز کرنے کا اشارہ تھا ۔۔۔میں نے بھی دونوں انگلیا ں جوڑتے ہوئے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔کچھ ہی دیر میں چوت نے پانی چھوڑا تھا ۔۔۔۔جو میری انگلی کو گیلا کرتا ہوا باہر کو لپکا۔۔۔۔۔کلدیپ کا جسم جھٹکے کھاتے ہوئے رکا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر وہ سانس ٹھیک کرتی رہی ۔۔۔۔اور پھر میرے چہرے کو چومتی ہوئی سائیڈ پراتری ۔۔۔۔میں نے لیٹے لیٹے اپنی پینٹ سرکائی ۔۔۔۔۔کلدیپ نے بھی آدھی اتری ہوئی شلوار نیچے کر دی ۔۔۔۔اور ٹانگوں سے پھینک دی ۔۔۔میرا ہتھیار انڈروئیر میں ہی قید تھا ۔۔۔میں اٹھا ہوا کلدیپ کی ٹانگوں کے درمیان آیا ۔۔۔اور اس کے اوپر جھک گیا ۔۔۔اس کے چہر ے پر جاتے ہوئے میں نے انڈروئیر نیچے کر دیا ۔۔۔۔اسپرنگ سا کھلا ۔۔۔اور ہتھیار جان پکڑنے لگا۔۔۔۔چند ہی سیکنڈوں میں درمیانہ اور پھر فل تننے لگا۔۔۔۔۔میں دونوں ہاتھوں کوا وپر لے گیا ۔۔۔۔نیچے سے ٹوپے نے کلدیپ کی چوت پر دستک دی ۔۔۔گرم گرم ٹوپے نے کلدیپ کو چونکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔چوت پہلے ہی کافی گیلی تھی ۔۔۔۔ماحول سازگار تھا ۔۔میں نے ٹانگیں اٹھا کر اپنی رانوں پر رکھیں ۔۔پیر پیچھے کی طرف چلے گئے ۔۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو چوت کے لبوں پر رگڑے ہوئے کچھ گیلا کرنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ۔۔۔۔موٹے اور پھولے ہوئے ٹوپے کی صرف نوک پر ہی کچھ پانی لگ پایا ۔۔۔۔میں نے شافٹ کو پکڑا جو موٹائی میں میرے ہاتھوں میں بھی نہیں آ رہی تھی ۔۔اور ٹوپے کو اورچوت کے لبوں پر رگڑنے لگا۔۔۔۔کلدیپ سانسیں روکی مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو لبوں پر رکھتے ہوئے دبایا تھا ۔۔۔ساتھ ہی تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔چوت پر ٹوپا کچھ دیر رکا ۔۔۔پیچھے سے دباؤ اور آیا۔۔اوپر سے کراہ کی آواز میں نے سنی ۔۔۔کلدیپ کی درد والی صدا تھی ۔۔۔۔۔۔ٹوپے نے اور زیادہ زور لبوں پر ڈالا۔۔۔۔لب کھلے ۔۔۔۔اور کھلے ۔۔۔ٹوپا پھنستے ہوئے اندر پہنچا ۔۔۔کلدیپ کا منہ ایک دم سے کھلا تھا ۔۔۔۔۔سانس تیزی سے باہر نکلی تھی ۔۔۔۔ٹوپے کے پیچھے شافٹ اور زیادہ موٹی اور چوڑی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو ہلاتے ہوئے اور آگے دھکیلا ۔۔۔۔۔ایک انچ کے قریب ہتھیار اندر گیا تھا ۔۔۔چوت کے لب اور چیر چکے تھے ۔۔۔کلدیپ اب کی بار چلائی تھی ۔۔۔۔اس کی ٹانگوں نے بھی لرزش کی ۔۔۔کلدیپ کے ہاتھ نیچے کی طر ف آنے لگے ۔۔۔۔مگر میں نے راستے میں روکے اور واپس اوپر لے گیا ۔۔اس کے ہاتھوں کے اوپر ہاتھ رکھے ۔۔۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔کلدیپ کی اس مرتبہ چیخ نکلی تھی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔آہ۔۔۔منہ سے کھلا تھا۔۔۔۔ہتھیار کچھ اور اندر پہنچ چکا تھا ۔۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی رہا ۔۔۔۔اور پھر سے آگے کو جھکا۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔اوہ ہ ۔۔کی آواز کمرے میں گونج گئی ۔۔۔۔کلدیپ مجھے ٹھہرنے کا کہنے لگی ۔۔۔میں رک گیا تھا ۔۔اور واپس کھینچتا ہوا پھر آگے لایا ۔۔۔اور کچھ دیر مزید ہلاتا رہا ۔۔۔۔ہتھیار کی موٹی اور چوڑی شافٹ باہر آنے پر فل سائز پردکھتی ۔۔۔مگر اندر جاتے ہی ایسے غائب سی ہو جاتی ۔۔۔۔وہ توکلدیپ کی آہیں ہی بتاتی کہ اندر جا کر کیا درد دے رہا تھا ۔میں نے کلدیپ کے ہاتھ پکڑ رکھے ۔۔۔۔آگے کو ہوا اور اس کے سینے کے مموں پر منہ رکھنے لگا۔۔۔شاید کچھ آگے آیا تھا ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار اندر لپکا تھا ۔۔۔کلدیپ کی منہ سے اوئی ۔۔۔۔کی ایک تیز چیخ نکلی ۔۔۔تھی ۔۔۔۔وہ پیچھے کو کھسکنے لگی ۔۔۔میں نے مموں پر منہ رکھے انہیں چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نیچے ہتھیار ایسے ہی پھنسا ہوا ۔۔۔۔دونوں مموں کو باری باری چوستا رہا ۔۔اور پھر اٹھتے ہوئے پیچھے آیا ۔۔۔۔۔کلدیپ کی ٹانگیں اپنی رانوں سے اٹھا کر اوپر کر دی ۔۔اور پیروں کے بل پر ہو گیا ۔۔۔۔ٹوپے کو کھینچا اور دوبارہ سے اندر دھکیلا ۔۔ابھی تک آدھے سے کچھ کم ہی اندر تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ کی پھر سے آہ نکلی ۔۔۔۔۔وہ نیچے دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔مگر ٹانگیں اٹھی ہونے کی وجہ سے زیادہ نہیں دیکھ سکی ۔میں نے دوسرا دھکے کچھ اور تیزی سے دیا ۔۔۔۔۔۔اس کی پھر سے آہیں نکلی۔۔۔۔میں نے مموں پر دونوں ہاتھ رکھے اور ہلنے لگا ۔۔۔یہ ہلنا وائیبریشن کی طرح تھا ۔۔۔۔میں مستقل کچھ دیر ہلتا رہا ۔۔۔اور پھر دھکے دیتے ہوئے آدھے ہتھیار کو اندر کر دیا ۔۔۔۔کلدیپ پھر سے چلائی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔۔ہائے ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔میں کچھ دیر رک کر پھر ہلنا شرو ع ہو گیا ۔۔۔کلدیپ کی چوت کا پانی جھاگ کی صورت شافٹ پر اکھٹا ہو رہا تھا ۔۔۔ جو رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔میں پانچ سے چھ منٹ تک ایسے ہی ہلتا رہا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ایسے لگا کہ کلدیپ چھوٹنے والی ہے تو میں رک گیا ۔۔۔اور ہتھیار باہر نکال دیا ۔۔۔۔میں نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی چھوٹے ۔۔۔۔کچھ دیر رکنے کے بعدمیں نے اسے الٹا کر دیا ۔۔۔گھوڑی بنانے کے بجائے میں اس کے چوتڑوں کے اوپر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔اور ٹوپے کو نیچے کا راستہ دکھایا ۔۔۔۔ٹوپ سیدھا تباہی مچاتا ہوا اندر گھسا تھا ۔۔۔۔کلدیپ تڑپ اٹھی ۔۔۔۔میں نے گھٹنے دائیں بائیں رکھے ۔۔۔۔اور اس پر لیٹ گیا ۔۔۔اب میرا اوپر ی وزن بھی کلدیپ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ اس کے بال میں نے پھیلا کر دائیں بائیں کر دیا ۔۔۔گردن کا پچھلا حصہ میں چوم رہا تھا۔۔۔۔جب میری کمر اٹھی ۔۔اور دوبارہ سے ہتھیار اندر لپکا ۔۔۔کلدیپ کے جسم پھر سے لرزہ تھا ۔۔۔اس کے بعد میں کچھ دیر رکتے ہوئے گہرے گہرے جھٹکے مارنے لگا۔۔۔۔کلدیپ ہر جھٹکے پر بری طرح ہلتی ۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔سس کی سریلی آواز گونجتی ۔۔۔۔۔مستقل جھٹکے اس لئے نہیں مار رہا تھا کہ پھر سے اس کےپانی چھوڑنے کا خطرہ تھا ۔۔۔۔میں وقفے وقفے سے جھٹکے مارتا اور گہرائی میں مارتا۔۔۔۔۔کلدیپ بےحال ہو گئی تھی ۔۔۔دو تین بار ایسا ہوا کہ اس کاپانی نکلنے والا تھا اور میں رک جاتا ۔۔۔۔اس مرتبہ بھی وہ بے چین ہونے لگی ۔۔۔۔اور میں رک گیا ۔۔۔اب کی بار میں بھی قریب ہی لگ رہا تھا ۔۔۔میں نے کلدیپ کو سیدھا کیا ۔۔اور ٹانگیں اٹھا کر اوپر کی ۔۔۔جتنی اوپر ہو سکتی تھی ۔۔اوپر کی ۔۔۔ساتھ ہی نیچے سے اسے اٹھاتے ہوئے اور موڑا تھا ۔۔۔۔۔کلدیپ اب ٹانگیں اوپر کرنے کے ساتھ کمر کی طرف سے مڑی ہوئی تھی ۔۔۔میں اوپر آیا تھا ۔۔اور نیچے بیٹھتے ہوئے ہتھیار کو واپس پھنسایا تھا ۔۔۔چوت کے لب اب ٹوپے کے اچھے سے پہچان چکے تھے ۔۔۔مگر راستہ ویسے ہی پھنستے ہوئے ملا۔۔۔۔۔میں نے بیٹھتےہوئے ہتھیار کو اندر اتارا ۔۔۔کلدیپ بھی ہتھیار کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔جمبو سائز کا یہ ہتھیار اس کی چوت میں جا کیسے رہا تھا ۔۔۔۔آدھے ہتھیار اندر پہنچانے کے بعد میں نے واپس کھینچا اور دھکے دیتے ہوئے اندر پہنچا یا ۔۔۔۔کلدیپ ہونٹ بھینچتی ہوئی درد برداشت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے اب کی بار دھکے متوازی رکھے ۔۔۔۔اور رفتہ رفتہ تیز کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔کلدیپ پہلی مرتبہ لرزی ۔۔۔۔۔پھر کانپی ۔۔اور مستقل ہلنے لگی ۔۔۔ہتھیا ر میرے وزن کے ساتھ نیچے گھستا تھا ۔۔۔جس کا دباؤ کلدیپ کے جسم پر بھی زور ڈالتا ۔۔۔۔اس کا پورا جسم ہلنے لگا ۔۔تھا ۔۔۔وہ اپنی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اسپیڈ تیز ہوئی اور درد اس کی برداشت سے باہر ۔۔۔۔اس کی بےاختیار آہ نکلی ۔۔۔۔اور پھر سسکاری نکلی ۔۔۔پھر کراہ نکلی ۔۔۔۔مستقل دھکوں کے ساتھ کراہوں کا سلسلہ جاری ۔۔۔۔۔اس کے چہرے کے نقش و نگار بھی ایسے ہی تبدیل ہوتے ۔۔۔۔ٹوپا جب داخل ہوتا تو الگ تاثر ۔۔۔۔تھوڑا ااور اندر آتا تو الگ ۔۔۔اور جب آدھا ہتھیار گھس کر واپس ہوتا تو الگ تاثر ۔۔۔۔۔میں نے دھکوں کو جھٹکوں میں تبدیل کر دیا ۔۔اس کی آوازیں بھی اور اونچی ہوئیں ۔۔۔۔آہ۔۔۔کے ساتھ ۔۔اووئی ۔۔کا اضافہ ہو ا۔۔۔۔آہ۔۔اووئی ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔آآئی ئی۔۔۔۔۔ کی آواز اس وقت آئی جب اپنے وزن کے زور میں کچھ اور زیادہ ہی بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ٹوپے کی رگیں پھولنے لگی تھی ۔۔۔میرا وقت بھی قریب ہی تھا ۔۔۔جھٹکے درمیانے سے تیز ہونے لگے۔۔۔۔۔۔کلدیپ پہلی ہی کافی حد تک مڑی تھی ۔۔زیادہ اس کے لئے خطرناک بھی تھا۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں سیدھی کر دیں ۔۔۔اور سیدھی ٹانگوں کےاوپر بیٹھے گیا ۔۔۔۔اوپر بیٹھے بیٹھے ہی ٹوپے کو چوت پر رکھے ہوئے آگے کو دھکا دیا ۔۔۔۔اینگل نیا تھا ۔۔۔درد اور مزے بھی نیا ملا ۔۔۔۔میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے کمر ہلکی سی اٹھا دی ۔۔اور جھٹکوں سے اسے ہلانے لگا۔۔۔۔۔کلدیپ کی سسکاریاں ایسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔۔اس کا بدن ویسے ہی ہل رہا تھا ۔۔۔۔وہ بھی پانی چھوڑ نے والی تھی ۔۔۔۔میرے جھٹکے تیز ہوئے ۔۔۔۔۔ابھی طوفانی ہونا باقی تھے ۔۔۔مگر پھر سے کلدیپ کا خیال آیا ۔۔۔نیچے تخت تھا ۔۔۔اور گدا زیادہ موٹا بھی نہیں ۔۔۔۔۔اس رگڑ بھی پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسپیڈ اتنی ہی رکھی ۔۔۔۔کلدیپ کی آہیں جاری تھی ۔۔۔۔اووئی ۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔میں نے مموں پر رکھے ہاتھوں کو اس کے کندھے پر رکھ کر تھوڑا اور اٹھا ۔۔۔اور کچھ اور دھکے جمائے ۔۔۔۔کلدیپ کی چوت نے ہار مانی اور پانی چھوڑ دیا ۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کردی ۔۔اور اگلے تیس سیکنڈ کی طوفانی اسپیڈ نے فوارہ چھوڑدیا ۔۔۔۔۔۔۔کلدیپ کی چوت سے پانی باہر گرنے لگا۔۔۔۔میں نے ہتھیار نکالا اور ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔کلدیپ نے بھی کچھ دیر اپنی سانس بحال کی ۔۔۔مجھے چومنے لگی ۔۔۔میں نے ساتھ پڑی چادر اٹھائی اور خود پر ڈال دی ۔۔۔کچھ دیر باتیں کی اور پھر سو گئے ۔۔۔۔۔۔۔
Read my all running stories

(वापसी : गुलशन नंदा) ......(विधवा माँ के अनौखे लाल) ......(हसीनों का मेला वासना का रेला ) ......(ये प्यास है कि बुझती ही नही ) ...... (Thriller एक ही अंजाम ) ......(फरेब ) ......(लव स्टोरी / राजवंश running) ...... (दस जनवरी की रात ) ...... ( गदरायी लड़कियाँ Running)...... (ओह माय फ़किंग गॉड running) ...... (कुमकुम complete)......


साधू सा आलाप कर लेता हूँ ,
मंदिर जाकर जाप भी कर लेता हूँ ..
मानव से देव ना बन जाऊं कहीं,,,,
बस यही सोचकर थोडा सा पाप भी कर लेता हूँ
(¨`·.·´¨) Always
`·.¸(¨`·.·´¨) Keep Loving &
(¨`·.·´¨)¸.·´ Keep Smiling !
`·.¸.·´ -- raj sharma
Post Reply