1
ہائے دوستو میرا نام زبیر ہے اور میں اسلام آباد میں رہتا ہوں ۔ میں سیکسی کہانیوں کا بہت بند امداح ہوں ۔ خامی کرچی کیانیوں کا ۔ میں اپنی کہانی اردو | میں لکھ رہا ہوں۔ یہ نمبر 2004ء کی بات ہے۔ ہم لوگ اسلام آباد میں 10.F سیکٹر میں رہتے ہیں۔ پیر ہانی میری بہن کی ایکس دوست ماریہ کے بارے میں ہے۔ میری بہن انترنیشنل اسلامک یونیورٹی اسلام آباد سے ( BA
( Hons کررہی ہے۔ اس کی ایک دوست ہے مار ہے۔ وہ راولپنڈی کی ہے مگر ہاسٹل میں رہتی ہے۔ وہ اکثر study کر نے ہمارے گھر آتی تھی ۔ ویسے تو وہ نقاب کرتی تھی مگر گھر آنے کے بعد اپنا عبایا ا ا ر کرصرف چادر لے لیتی تھی۔ وہ کافی نہ ہی لڑکی تھی ۔ اور بعد میں مجھے میری بہن نے بتایا کہ وہ یو نیورٹی میں لڑکیوں کی کسی اسلامی تنظیم میں بھی تھی اور اس کے اب بھی ایک اسلامی تنظیم میں تھے اس وقت ان کے سمسٹر کے فائنل امتحان قریب تھے اور میری بہن اپنی دوست کے ساتھ کیان اشتری کیا کرتی تھی ۔ بار بی کی عمر اس وقت کوئی 20 سال ہوگی۔ وہ میک اپ بالکل نہیں کرتی تھی مگر اس کے با وجود وہ بہت ہی معصوم اور حسین نظر آتی تھی۔ سانولی رنگات، لمبے بال، نازک سے ہونٹ مسلم باڈی اور اس کی سیاسی قدر ایک قیامت تھی۔ مجھے تو اس کے ممے بہت ہی پسند تھے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ میر ی کو چودوں مگر مجھ نہیں آتا تھا کہ کس طرح ۔ کیونکہ اس نے بھی مجھ سے بات نہیں کی تھی۔ میں اسلام بھی کرتا تو بس ہلکا سا جواب دیتی اور ہیں ۔ اور ہمارے گھر آ کر بھی وہ ہیں وہ ان کے کمرے تک ای اند و در ہیں۔ میں تو بس اس کو سو کر بھی مار لیا کرتا تھا مگر ایک دن مجھے موقع مل ہی گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن میں ایک ولیمہ پارٹی میں جاتا تھا اور پارٹی تقریب دوپہر ڈیڑھ ہی تھی۔ اچا کہ میری بیان کیا گیا کہ ان کو اس نے 3 بجھے بار بی کے ساتھ پڑھنے کے لیے ہاسٹل أل کے روم میں جانا تھا ہے۔ ان دنوں ہمارے گھر کا فون خراب تھا تو میری ان نے کہا تم جاؤ اور پاکی اوسے ماریہ کے بالکل پرفون کر دی کہ میں
آنچ نہیں آ سکوں گی۔ ان کا نام لے کر میں نکلا ۔ کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک میر کے کان میں ایک آئیڈیا آیا اور میں نے میری کو فون کیا اور کہا کہ ان با بیان نہیں 2 کے گھر بلایا ہے اور میں گھر آ گیا۔ اور کو دبانا شروع کر دیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہو تو میں نے کہا کہ آج میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکوں گا میرے سر میں بہت درد ہے۔ بین کرزئی نے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے تم گھر پر ہو اور سو جانا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ماں۔ ایک ایک کے گھر والے
چلے گئے اور میں گھر میں اکیلا تھا۔ میں بد کی بنا لیا سے دو بچے کا انتظار کرنے لگا ۔ پتا نہیں کیوں آج میرا لنڈ بہت جوش میں تھا اور بہت گرم بھی ہو رہا تھا آخر وون کر پانچ منٹ پر ڈور بیل بجی۔ میں اور دروازے پر گیا اور دروازہ کھولاتو دوسری طرف ماری کھری تھی۔ ماریہ نے عد اون رنگ کا عبایا پہنا ہوا تھا اور نقاب کیا ہوا تھا ۔ اور مجھے تو اس وقت وہ کوئی حور لگ رہی تھی ۔ میں نے اس کو اندر آنے کو کہا اور وہ اندر آ گئی۔ اس نے اندرا کر نقاب اتار دیا۔ میں
نے دروازہ بند کر دیا اور اس کو لے کر بہن کے کمرے میں پہنچا اور آرام سے دروازہ بند کر دیا ۔ کھڑکیاں میں پہلے ہی بند کر چکا تھا۔ مار پیر سے آ گئی اور اس سے پہلے کہ دوڑ کر مجھ سے میری بہن کے بارے میں پستی میں اس کو پیچھے سے لپٹ گیا۔ وہ اس طرح میر نے اچانک لپٹ جانے سے غصے میں آ گئی اور کہنے کی کیا کر رہے ہو تھوڑو مجھے پیتم کیا کر رہے ہو میں تمہاری بہن کی طرح ہوں پھوڑ پھوڑو پیشرم کمینے انسان ۔ پر اس وقت میں اپنے ہوش و حواس میں کہاں تھا اس وقت تو مجھے ایک عجیب اتم کا نام تھا جو میں بیان نہیں کرسکتا۔ ماریہ نے بہت کوشش کی کہ وہ خود کو مجھ سے چھڑا لے لیکن وہ
کی تھی اور وہ خود کو بھی ہے پھر اگیا ۔ میں اس کو پاگلوں کی طرح اپنے بازوؤں میں بھر رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ اس کو کس کرنے کی کوشش بھی کرایا تھا لیکن وہ مسلسل خود کو چھڑانے کی کوشش کررہی تھی اور کم ریتی ز پی میں تمہاری بہن کی طرح ہوں مگر میں اس وقت پاگل ہو چکا تھا۔ پھر میں نے دیکا دیر سے بستر پر گرا دیا اور اس کے ہونٹوں اور گالوں پاس کرنا شروع کر دیا ۔ اور ساتھ سا تھا اس کے ماموں کو دونوں ہاتھوں سے دبانے لگا ۔ کچھ دیر بعد میں نے اس کی گردن پر کس کرنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ اس کے ممے تیز تیز دبانے لگا اب شاید اس کو بھی مزا آنے لگا تھا کیونکہ خود کو چھڑانے کی کوشش اب کافی کم ہوگئی تھیں۔ لیکن وہ اب بھی کہہ رہی تھی زبیر مجھے چھوڑ دو میں تمہاری کہانی بھی ہوں۔ پر اس وقت تو مجھے اس کے بانی جسم کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ پھر میں نے اس کے عبایا کے بان کھول کر ایا اتار دیا۔ اس نے سفید شلو ترمیض پہنی ہوئی تھی ۔ اور اس کی میں بالکل ننگ والی تھی۔ پھر میں نے اپنے ہاتھیوں کو اس کی رانوں اور پھر رانوں کے درمیان چوت کے منہ پھیرنا شروع کر دیا۔ جس سے اس کی ری کی چھڑوانے کا خواہش بھی ختم ہوگئی ۔ اور اب وہ ایک وہ بالکل خاموش بیٹی ہوئی میری شکل دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ تھوڑا چل بھی رہی تھی۔ میں تقر بناویں منٹ تک اس کو اسی حالت میں کہ کیا اور ہاتھوں سے اس کے پورے جسم کو سنا رہا۔ دس منٹ بعد میں اس کی میری کے ایک کو کلے گاتو اس نے دو بار مزاحمت شروع کردیں۔ میں نے کہا کہ مار کر آرام سے سے اتروا لیں ورنہ میں مہارت میں پچھاڑ دوں گا ور جا کر کیا ہے کہ جاؤ گی تم بیان کر اس نے مزاحمت ختم کردیا اور میں نے آہستہ آہستہ اس کی بینی کے بانی کھر نے شروع کئے اور پھر اس کی سیف جا رڈالا و أن جو منظر میں آپ کو تا نہیں سکتا۔ کالے رنگ کے نہ مزار کے اندر ماریہ کے مے جو کہ چاہتے تھے کہ انہیں فورا آزاد کر دیا جائے۔ اب ماریہ چھے منع نہیں کرائی تھی شاید وہ جان بولی
کہ میں اب رکنے والانہیں ہوں ۔ میں اس کے جسم کو پاگلوں کی طرح چاٹنے لگا۔ شاید میر کو بھی مزا آ رہا تھا وہ میری کسنگ اور مانگنے کے جواب میں چل رہی تھی اور اس کے منہ سے مجیب آوازیں نکل رہی تھیں ۔ کچھ دیر بعد میں نے ساتھ ساتھ اس کا ازار بند کھولنے کی کوشش کی تو وہ دوبارہا کرنے تھی اور ایک بار پھر میرے ہاتھوں کا روکنے کی کوشش کی۔ پاب میں کیا کہاں رکنے والا تھا میں نے جلدی سے آزار بند کھولا اور ایک ہی جھٹکے سے اس کی شلوارا جانے کی کوشش کی تو وہ کہے گی کہ شلوار پھٹ جائے گی۔ میں نے کہا تو پھر شرافت سے مارنے دو تو کسی نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیا اور میں نے بڑے پیار سے اس کی شلوار اتار کر کر کی پر پھینک دی۔ اب جو منتظر میرے سامنے تھاد کی کبھی پاگل کروانے کے لیے کافی تھا۔ وہ اب میرے سامنے صرف ایک کالے ر ین کے مد میز را در یک وامنی رنگ کے انڈرویر میں تھی۔ اب میں اس کے پیٹ پر سے ہوتا ہوا انسان کی خوبصورت رانوں پر تھا اور ان کو چاٹ رہا تھا تقریبا دس منٹ اسی طرح گزر گئے پھر اسکے اوپر سے اترا اور میں نے اپنی شرٹ اور پیٹ بھی ماردی ۔ ماریہ بستر پر خاموش بینی مجھے میری تھی۔ میں دوبارہ اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس سے کس کرنے لگا۔ ساتھ ہی میں نے پیچھے سے ایک کاندیز رکھو لنے کی کوشش کی اور کس کو کھول کر به میز رکو ڈھیلا گیا۔ یہ میز رکوڈ یل کر نے کے بعد میں نے آرام سے اسے اتار کر کرین پر پھینک دیا۔ ان فی فی اب تو میرا دمار بالکل ہی آگ بن گیا تھا۔ میں اکل پاگل ہو گیا تھا اور پاگلوں کی طرح اس نے لا مش مند اون موں کو بے دردی سے چوس رہا تھا اور اس کے نپلز کو کاٹ رہا تھا ماریہ کے کول هیپ صافی ازم اور پوری طرح ابھری ہوئے موں کو دیکھ کر میں اپنے ہوش گنوا بیٹھا تھا اب مار پر بھی پرہی تھی اور اوئی آد أن ۲۳
۲۲ سی کی کر کے آوازیں نکال رہی تھی ۔ میں نے آج تک بہت مهم انٹرنیٹ پر اور بلیوفلم میں دیکھے تھے پر آج پہلی بار میں ان کو آنکھوں سے لائیو دیکھ رہا تھا۔ کوئی پندرہ میں منٹ تک میں ممے چوستا اور جاتا رہا۔ پھر میں نے مار ی کا انٹرویز اتار دیا او را یک با ر پرسانی اور لائٹ براؤن چوت دیکھ کر میرے منہ میں
اپنی آنے لگا۔ اتنی چھوٹی اور معصوم کی چوتھی کہ کیا بتاوں۔ بالکل گندم کا دانا لگ رہی تھی اس کی چوت ۔ بس میں کیا پتا نہیں کب تک اس کو جانتا رہا اور ماریہ کے منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھیں ۔ آ آووووو وچانیں کیا کی یکی میں مرگیا کیا یاشاش مشکل کا سامان چھوڑ دپلیز زنرز زاب میں نے اپنے لنڈ کو آزاد کرنے کا سوچا اور جب میں نے انڈرویز اس رات وہ لوہے کی طرح سخت اور گرم ہورہا تھا میں نے اپنا لنڈ ماری کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی پر اس نے منع کیا میں نے اس کے منہ پر آہستہ آہستہ رگڑ نا شروع کردیا تو اس نے نا چا ہتے ہوئے میر این اپنے منہ میں لے لیا اور آہستہ آہستہ اس کو اندر باہر کرنے لگی میں نے اس سے پوچھا کریم کو کیسے پتا ہے کہ اس کو اندر باہر کرتے ہیں تو کہنے لگی کہ میں نے کبھی ایکس xxx فلم بھی تھی۔ اس میں ایسے ہی کر رہے تھے اور پھر اس نے اچانک میرا لن منہ سے باہر نکال دیا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے کی ہیں ۔ میں نے سوچا چلو کچھ اس کی بھی مان لیتے ہیں ۔ اب میں اس سے لپٹ گیا اور اب کی بار وہ بھی میرا ساتھ دینے کی ۔ کچھ دیر بعد میں اس کی رانوں کو مارتا ہوا اس کی چوت کی طرف آیا اور اس کے چھولے کو دانتوں میں لے کر ملک کا مسلنے لگا۔ وہ ٹانگیں ماررہی تھی اور سر کا لا لا کر اور کر اٹھا اٹھا کر مجھے رسپانس د ے رہی تھی۔ آخر کار میں نے ان کو اس کی چوت پر رکھا لیکن أن نے دوران اپنے ہاتھ اپنی چوت پر رکھ لیا اور مجھے کہنے کی کہ اگلے سال فروری کی 6 تاریخ کو میر کی شادی ہے زہیر ۔ اور پھر میرا شوہر مجھے کرے گا تو خون نہیں لگا اور وہ شک کرے گا ۔ اور ساتھ ہی میرا لنڈ پیچھے کرے گی ۔ میں نے اس کو میدا کنویس کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہ اپنی آخر کار میں نے اس سے کہا کہ مار دی دیکھو میں آن ضرورتمہاری چوت میں نہ ڈالوں گا اس کے لیے چلا ہے مجھے تمہارے ہاتھیان کیوں نہ باند سے پڑھیں اور یہ کہ کر میں نے اس کی شلوار میں اسے آزار مار ڈال کر اس کے ہاتھ باندھ دیئے۔ اس وقت میں پاگل ہو رہا تھا۔ اس کے ہاتھ باندھ کر میں نے اپنا لنڈ اس کی چوت پر رکھا تو اس نے کہا اچھا تھ کھول دو پلیز میں نہیں روکوں گی۔ میں نے اس کے موں پر کاٹتے ہوئے کہا کہ اب آئی ہونا لائن پر یہ کہ کر میں نے اس کے ہاتھ کھول دیئے ۔ میں نے اپنا لنڈ بار بی کی چوت پر رکھ کر کافی کوشش کی مگر بار بی کی پرت کافی سخت تھی میرا لنڈ اسکی چوت میں تھوڑا ہی آگے جا کا پھر میں نے اپناین بار بی کی چوت سے ہٹایا اور باجی کی ڈرینگ ٹیبل سے کولڈ کریم کی اور اپنے ان کو اس سے خوب چنا گیا اور پھر اسے مار بہ کے اوپر لیٹ گیا اورکسنگ شروع کردی اس با باربھی میرا ایر پور ساتھ دے رہی تھی۔ 5 منٹ بعد میرا ان بہت گرم ہو گیا اور مار بیٹی فل گرم ہو رہی تھی۔ میں نے اپناین بار بی کی چوت پر رکھا اور ایک دم زور سے جھاد با این تو پہلے ہی چلنا ہو چکا تھا کریم کی دیر سے تو پورا اس کی چوت میں چلا گیا اور ایک دم اس کی چیخ نکل گئی ۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے اس کے موں کو پوری طاقت سے پکڑ لیا اور ان کو کامنے گا اور آگے بڑھنے کے دینے لگا۔ ماریہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بری طرح تڑپ رہی تھی مگر میں اس کی پرواہ کیے بغیر اسے دھکے کھاتا رہا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں رکتا تو اسے کچھ سکون ہوتا اور میں ایرانی سپیڈ تیز کر دیتا یوں آہستہ آہستہ کچھ دیر بعد اس کا درد کم ہوگیا اور اب اسے بھی مزا آنے لگا تھا کیونکہ اس کے منہ سے اب درد کی ہیں بلکہ او و و. ۱۹۱۹، و او دوه، ف ف ن ، ای ی ی ی میں مری ی ی ی کی آوازیں نکل رہی تھیں ۔ بار یہ کہنے کی اب تم نے میری چوت پچھاڑ ہی دی ہے تو اب میری پیا کسی بھی بجھا دیا اور چودہ مجھے آج میری پیاس بجھا دو۔ اس کے بعد ہم نے خوب چودائی کی اور پیار
کچھ دیر بعد ہم لکھتے ہیں چھوٹ گئے ۔ اب میر ان تھک گیا تھا اور ماریہ کا جوش بھی اب دم توڑ چکا تھا اور میں نے اس کو اپنی گود میں بٹھا کر کسنگ شروع کر دی۔ تھوڑی دیر بعد میرا ان پر تیار ہوگیا ری بھی دوبارہ مست ہو نے لگی میں نے موقع اچھا جانا اور بستر سے اتر کر کر میم کو دوبارہ اپنے ان پر اچھی طرح سے لگایا اور مبارک کولٹا کر اس کی چوت میں ان دوبارہ ڈالے گا لن اب بھی اس کی چوت میں مشکل سے جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اس کی چوت کو مز یہ کھلا نہ کیا جائے اور مز یہ کھلا کرنے کے لیے اس کے ہونے والے شوہر کا آتا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے مجھے بتایا کہ اس کا ہونے والا شو پر بات نہیں ہے اور حافظ قرآن بھی ہے اگر اس سے ذرا بھی شک ہو گیا تو بہت عمدا ہو گا۔ میں نے پہن کر اپنے لن کومنز نے اس کی چوت کی سیر کروانا مناسب نہیں سمجھا لیکن اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بلی کی طرح آیا کہ کیوں نہ اس کی گانڈ ماری جائے ۔ یہ خیال آتے ہی میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے میں تمہاری چوت کو مہار سے مس نہیں شوہر کے لیے چھوڑتا ہوں لیکن اب تم الٹی ہو جا ئے لیکن وہ کچھ نہ بولی اور میں نے
سے بالوں سے پکڑا اور بستر سے اتار کر اس سے بات کی طرف جھکا دیا اور گھوڑی بنادیا اور اس کی گانڈ میں لن رکھ کر اس کے مجھے پکڑ لیے۔ وائو کیا مزا تھیار پتا نہیں سکتا۔ اور زور سے ایک ہیں جن کا مارا اور پورا کا پوران اس کی گان کی وادیوں میں تناسب ہوگیا اں یا تو اس نے حد کر دیا۔ وہ اتنی زور سے چین
کی آواز گیٹ تک ضروری ہوگی مگر میں سکون میں تھا کہ گھر تو کوئی ہے ہیں تو ٹینشن کسی بات کی۔ میں نے ماریہ کے مے پکڑے گ ئے تھے جو کہ ریشم سے بھی زیادہ نازک تھے اور میرا لن اس کی گانڈ کی سیر کر رہاتھا اور میں دھکے پرو دھکے دیئے جا رہا تھا۔ آخر کار 6, 5 منٹ میں فارغ ہو گیا اور اپنی ساری منی اس کی گانڈ میں ہی چھوڑ دی اور پھر ہم دونوں بستر پر لیٹ گئے ۔ اور پھر میں نے اسے کسنگ شروع کی اور اس نے کہا کہ خدا کے پیا تو بس کر دو تیم نے میر کی چوت بھی پھاڑ دی ہے اور گانڈ بھی ۔ میں نے اس سے کہا کہ چ بتا و مزامیاب نہیں تو کہے گی کہ مزالو بہت آیا لیکن میر سے ہونے والے شو ہرا مجاز کے لیتو تم نے کچھ بھی نہیں چھوڑا اور مین بیان کر نہیں دیا اور اٹھ کر اس کے کپڑے پڑے اور اس کی طرف اچھال دیئے۔
کیوں دوستو دیسی گھی میری کہانی؟ ویسے تو ماریہ کی اب شادی ہو چکی ہے اور کچھ دنوں بعد ہی اس کے ہاں بچے کی ڈیلیوری بھی متوقع